پیر، 5 جون، 2017

جوانی میں طفلی کے قصے

خلیفہ عبدالحکیم اپنی کتاب حکمتِ رومی میں لکھتے ہیں:
’’بعض حکمت کی کتابوں کلیلہ وہ دمنہ، انوار سہیلی، اور ایسپ کے قصوں میں انسانی اخلاق اور میلانات کو جانوروں کے قصے کے طور پر بیان کیا گیا ہے، خود مثنوی میں بھی مولانا نے جبرواختیار کے مسئلے کو شیر اور خرگوش کی بحث میں بڑی بلاغت سے بیان کیا ہے۔ بچے جب یہ حکایتیں پڑھتے ہیں تو اس یقین کے ساتھ پڑھتے ہیں کہ واقعی شیر نے آدمی کی طرح بات کی اور خرگوش یا لومڑی نے آدمی کی طرح جواب دیا۔ اکثر اہل ظاہر علما اس طفولیت کی سطح سے عمر بھر اوپر نہیں اٹھ سکتے:۔
چہل سال عمر عزیزت گزشت
مزاج تو از حال طفلی نہ گشت
انبیا کی تعلیم اور صحائف آسمانی کی تمثیلوں کو لفظاً اور جسماً حقیقی سمجھتے ہیں۔ جب خدا کہتا ہے کہ اس کے ہاں ایک میزان ہے جس پر اعمال تولے جائیں گے تو بڑے بڑے متکلمین بڑی سنجیدگی سے یہ بحث کرنے لگتے ہیں کہ ترازو ایک مادی قسم کی چیز ہے، اس کے پلڑے ہیں، خدا اعمال میں وزن پیدا کر دے گا تو ہر مثقال اور ذرہ اس میں اسی طرح تل جائے گا جس طرح مادی اشیا تلتی ہیں۔۔۔۔۔ عرش کرسی، میزان، صراط جنت کا انعام، اور دوزخ کا عذاب ان سب کی اہل ظاہر نے جسمانی تاویل ہی کی ہے، اور ایسی تاویل کو وہ دینِ راسخ سمجھتے ہیں۔ اور جو شخص ان چیزوں کی معنوی و روحانی تاویل کرے اس کو وہ ایمان سے خارج اور کفر میں داخل سمجھتے ہیں، جس کی نجات کی کوئی توقع نہیں۔’’
(حکمتِ رومی از خلیفہ عبد الحکیم)
اسلامی حکما اور صوفیا نے عالمِ اسلام کو مذہبی ادوار کے عہدِ طفولیت سے نجات دلانے کی بڑی کوششیں کی ہیں۔ یہ اقتباس اسی حقیقت کو ظاہر کرتا ہے۔ لیکن اب بات کو کچھ اور بڑھانے کی ضرورت ہے۔
ہم میں سے جن افراد نے طفلی کی سرحدوں سے گزر کر عہدِ شباب کی نیرنگیوں میں قدم رکھا ہو, انہیں اس بات سے اختلاف نہیں ہو سکتا کہ جوانی اور طفلی دو بہت مختلف چیزیں ہیں. جوانی کی کیفیت طفلی سے اتنی مختلف ہوتی ہے کہ ایک بچہ جوانی کے واقعات و حوادث کو ذرہ بھر بھی سمجھ لے تو بہت! بلکہ جوانی کو سمجھنا تو خود جوانوں کے لیے مشکل ہے.
ایک بچے پر رفتہ رفتہ ہی شباب کے اسرار و رموز کھلتے ہیں, جب وہ شیر خواری کے آخری مراحل میں ہوتا ہے اس وقت اس کو ان کی بھنک بھی نہیں لگتی. یہاں تک کہ وہ انسانی رشتوں کی حقیقت کو بھی نہیں سمجھ پاتا اور نہ وہ یہ جانتا ہے کہ وہ تناسلی عمل کے ذریعے وجودمیں آیا ہے. جب بھی وہ یہ دریافت کرتا ہے کہ اس سے چھوٹے بہن بھائی کہاں سے آئے تو اس کو بتایا جاتا ہے کہ وہ اللہ تعال کے ہاں سے یا جنت سے آئے ہیں. لیکن جوں جوں وہ بڑا ہوتا جاتا ہے اس کو کچھ کچھ خبر ملنے لگتی ہے کہ بچے جنت سے نہیں آتے بلکہ اسی زمین پر مرد و زن کے جسمانی ملاپ سے پیدا ہوتے ہیں. وہ چونکہ اس حقیقت کو بہ چشم سر نہیں دیکھتا کیونکہ بڑی عمر کے لوگ کپڑے پہنے ہوئے ہوتے ہیں, اور وہ خود بھی اب ستر ڈھانکنا سیکھ چکا ہوتا ہے اور اسے کسی دوسرے پر اپنے ستر کوظاہر کرنے کی ممانعت ہوتی ہے,  اس لیے اس منظر کا تصور کرنا اس کے لیے ایک مکروہ بات ہوتی ہے۔ جب کبھی وہ اپنے اندام نہانی سے کھیلنا چاہتا ہے, اس کو ماں باپ گندا کام کہہ کر اس سے روکتے ہیں. اور اِس کی بڑی حکمت ہے. اگر اس کو گندا, برا یا خراب کام نہ کہا جائے تو بچپن سے جوانی کی طرف بڑھتے ہوئے بچے تجسس میں مبتلا ہو کر اپنے اور دوسروں کے تناسلی اعضا سے کھیلنے لگ جائیں یہاں تک کہ ان کی صحت بالکل خراب ہو کر رہ جائے. اس لیے ایک صالح معاشرہ میں بچوں اور بڑوں سب پر اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کرنا لازم ہے. بچے چونکہ ناسمجھ ہوتے ہیں, اس لیے ان سے عقلی طریقے سے خطاب کرنے کے بجائے ایسی حرکتوں کو خراب یا گندا کام کہہ کر انہیں سختی سے روک دیا جاتا ہے. عام لوگ اپنے بچپن کی یہ تعلیم زندگی بھر نہیں بھولتے اور جوان ہونے کے بعد بھی جنسی عمل کو ایک برا کام سمجھتے رہتے ہیں حالانکہ وہ جانتے ہیں کہ اسی عمل سے انسان جنم لیتے ہیں. بعض لوگ سرعام بوس و کنار کو بھی برا سمجھتے ہیں حالانکہ وہ میاں بیوی ہوتے ہیں. اس سب کی وجہہ یہی ہے کہ ہم نہیں چاہتے کہ ہمارے نو عمر بچے اور بچیاں ہماری دیکھا دیکھی ایک دوسرے کے ساتھ بوس و کنار کرنے لگیں. بچپن میں ہم ان کی صحت بالخصوص جنسی صحت کے پیش نظر انہیں ایسی کہانیاں سناتے اور پڑھاتے ہیں جن کی زبان بہت سہل ہو, اور وہ جذبہ شہوت سے پاک و صاف ہوں. مثلاً ایک پری تھی, وہ بہت خوبصورت تھی,  وہ دور گگن سے دھرتی پر سیر کرنے آتی تھی, زمین پر ایک راجکمار رہتا تھا, وہ دونوں ایک ساتھ مل کر سیر کرتے تھے, ایک دن پری زمین پر آئی تو اس نے شہزادے کو نہ پایا, وی اِدھر اُدھر اسے تلاش ہی کر رہی تھی کہ اچانک کسی طرف سے ایک دیو برامد ہوا اور پری کو پکڑ کر بہت دور لے گیا, کچھ دیر بعد جب شہزادہ وہاں پہنچا تو اپنی دوست کو نہ پا کر سخت پریشان ہوا. تبھی وہاں اڑتا ہوا ایک طوطا آیا اور اس نے شہزادے کو بتایا کہ فلاں دیو نے پری کا اغوا کر لیا ہے اور اسے ایک ایسے مقام پر لے گیا ہے جہاں پرندہ بھی پر نہیں مار سکتا۔ شہزادہ طوطے سے اس مقام کی نشانیاں لیتا ہے اور وہ پری کو واپس پانے کی مہم میں نکل کھڑا ہوتا ہے. ظاہر ہے یہ کہانی بہت آسان ہوتی ہے اور اس میں شہزادے اور پری کے درمیان کسی معاشقے کی منظر کشی نہیں کی جاتی, ایسی کسی داستان میں جب شہزادہ اور پری آپس میں باتیں کریں گے تو وہ بڑی معصوم قسم کی ہوں گی.  اس کے برعکس نوجوانوں کے لیے جو کہانیاں لکھی جاتی ہیں ان کی زبان پیچیدہ, اور مشکل ہوتی ہے, اور اس میں حسب ضرورت جذبہ محبت و شہوت کو بھی بیدار کیا جاتا ہے, بچوں کو ان کہانیوں میں دل نہیں لگتا اور اگر وہ پڑھتے بھی ہیں تو ان کی سمجھ میں کچھ خاص نہیں آ سکتا. آٹھ دس سال کے بچے پر جوانی جیسے شدید شہوانی کیفیات طاری نہیں ہوتیں اس لیے وہ انہیں سمجھ بھی نہیں پاتا.
جوانی میں کچھ بالکل نئی چیزیں انسان پر منکشف ہوتی ہیں، مثلاً جنسی و تناسلی لذت، اور ان نئی چیزوں کو عالمِ طفلی کے تصورات و استعارات کی نئی تاویل کرنے کے ذریعے بیان نہیں کیا جا سکتا۔طفلی کے قصے زمانہ طفلی کے لیے ہی موزوں ہو سکتے ہیں، وہ عہدِ جوانی کے لیے موزوں نہیں ہیں، الا یہ کہ وہ عالمِ ضعیفی تک ہماری یادوں کا اثاثہ بن کر ذہنوں میں محفوظ رہیں اور ہماری زندگی پر بہتر طور پر اثرانداز بھی ہوں.
2
زمانہ طفلی سے عہدِ جوانی میں قدم رکھتے ہی خاص طفلانہ تصورات و تمثیلات پس منظر میں چلے جاتے ہیں اور ان کی جگہ نئے تصورات و تمثیلات قائم ہوتے ہیں۔ اگر کسی بچے کے اندر یہ عمل نہ دیکھا جائے اور وہ بڑا ہو کر بھی کھلونوں سے کھیلتا رہے, کبھی ٹھیک بچوں کی طرح ٹھنکتے ہوئے معصومانہ باتیں کرتا رہے, نوجوانی کی زندگی کے تلخ و شیریں حقائق کی اسے مطلق خبر نہ ہو, عہدِ شباب کی نیرنگیوں کا اثر اس کے چہرے پر ظاہر نہ ہو, اور وہ ہر وقت طوطا مینا کا قصہ لیے بیٹھا رہے, ہر جگہ وہی سب کچھ سنانے لگ جائے جو اس نے اپنی نانی دادی یا والدین سے سنا ہو تو کیا وہ بالغوں کی مجلس کا حصہ بن سکتا ہے؟ اس قابلِ رحم حالت میں مبتلا نوجوان جب نارمل اور بالغ نوجوانوں کی زندگی پر نظر ڈالے جو عہدِ شباب کی نیرنگیوں سے محظوظ ہو رہے ہوں, ایک دوسرے کے ساتھ یکسر نئی کہانیوں سے لطف اندوز ہو رہے ہوں, تو اس کی کوشش ہوگی کہ وہ اپنے ذہن میں جڑیں جمائے بچکانہ تمثیلات کی مدد سے نوجوانی کے مظاہر کو سمجھنے کی کوشش کرے، مثلاً وہ نوجوان جوڑوں کو شہزادوں اور پریوں سے تشبیہ دے،  لیکن بوس و کنار اور جنسی عمل سے متعلق دیگر مظاہر کو خراب اور بری بات کہنے لگے کیونکہ وہ جوانی کی حالت اور اس کے تقاضے کو سمجھ ہی نہیں پا رہا ہے، جب اس کو سمجھانے کی کوشش کی جائے تو وہ ضد کرنے لگے کہ نہیں, مجھے تو وہی پریوں, دیووں, جنوں اور بھوتوں والی کہانی سمجھ میں آتی ہے، بقیہ چیزیں تو نانی دادی یا امی جان کی نصیحت کے مطابق خراب اور بری باتیں ہیں,ان سے بچنا چاہیے.
آج ہماری حالت بعینہ اس ناقص العقل نوجوان کی سی ہے کیونکہ ہم صوفیا کے زیرِ اثر مذہبی قصص و تمثیلات کی نت نئی تعبیرات کے ذریعے زندگی اور کائنات کی حقیقت کو سمجھنے کی ناکام کوشش کرتے نظر آ ریے ہیں۔ ان صوفیا نے اپنے دور میں مذہبی اصطلاحات کی معنوی تاویل غالباً اس لیے شروع کی ہوگی کہ بات ہماری سمجھ میں آ جائے, ایسا لگتا ہے کہ انہوں نے خدا, رسول, فرشتے کتابیں, معجزے, حشر و نشر, عذاب و ثواب, تقریباً ہر بات کی معنوی تاویل و تعبیر کے ذریعے ہم میں بالغ نظری پیدا کرنے کی کوشش کی, لیکن اس طریقے سے کام لینے کا نتیجہ یہ بھی ہوا کہ  بچوں نے بڑے ہو کر بھی اپنا بچپن نہیں کھویا اور وہ لفظیات و اصطلاحات مع اپنے تصورات کے ہمارے ذہنوں میں قائم رہے اور ان کی معنوی تاویل کا مقصد فوت ہو گیا (جو یہ رہا ہو گا کہ کسی طرح زندگی کے کاروبار کو آگے بڑھایا جائے اور امت کو ان اشکالات کی گرفت سے بتدریج نکالا جائے). لیکن ہم اب تک انہیں معصوم تصورات میں کھوئے ہوئے ہیں جن کی اپنے دور میں واقعی ضرورت تھی مگر آج وہ ہماری راہ میں رکاوٹ بن کر کھڑے ہیں،  انہیں کے سبب ہمارا جذبہ تجسس مر چکا ہے اور ہم زبردست فکری، علمی اور تکنیکی پسماندگی سے دو چار ہیں۔
3
ہم یوں سمجھیں کہ بچپن ایک قصہ ہے، اور جوانی دوسری کہانی۔ گو دلچسپی اور انسانی جذبات کو اپیل کرنے کا عنصر دونوں میں ہوتا ہے لیکن دلچسپی کا مرکز بدل جاتا ہے، مشتملات اور کردار بدل جاتے ہیں، لطف و لذت کی کیفیت بدل جاتی ہے، بلکہ جوانی کی کہانی میں انسان یکسر ایک نئی لذت حاصل کرتا ہے۔کہنے کو ہیروئن کو پری تو کہہ سکتے ہیں اور کہتے بھی ہیں لیکن ہم جانتے ہیں کہ وہ پری نہیں عورت ہے۔ ولین کو دیو کہہ سکتے ہیں لیکن ہم جانتے ہیں کہ وہ ایک رقیب ہے یا کھل نایک۔اگر آپ آج ایک فلم دیکھ کر کہیں کہ اس میں پری کا کردار مثلاً ایشوریا رائے نے ادا کیا ہے، اور شہزادے کا کردار مثلاً عرفان خاں نے ، اور دیو کا کردار امریش پوری نے تو بھلا یہ کیسی بات ہوگی؟ ہمارے ہاں عرصہ دراز سے یہی کوشش ہو رہی ہے کہ کسی طرح جدید سائنسی افکار و نظریات کی اپنی سی مذہبی تعبیر کر لی جائے اور اسی مقدس جذبے میں ڈوب جایا جائے کہ ہماری کتابِ مقدس میں اس کا سائنسی اشارہ پہلے ہی موجود تھا۔
اسلامی صوفیا اس بات کو نہ سمجھ سکے کہ بچپن کے قصوں کی لفظیات کو جوانی کی کہانی پر مسلط کرنے کی تاویلاتی کوشش کرنے سے بات نہیں بنے گی۔ پچپن کا قصہ اپنی جگہ، جوانی کی کہانی اپنی جگہ۔
اگر بچپن کا پرانا قصہ جوانی کی نئی کہانی کے آغاز میں حارج ہونے لگے، یعنی انسان اپنی جوانی کی کہانی کو بچپن کاقصہ قرار دینے لگے ،تو سمجھنا چاہیے کہ وہ صرف جسمانی طور پر بالغ ہوا ہے اور ذہنی و فکری بلوغت سے ابھی دور ہے۔بچپن سے جوانی میں بدلنے کا عمل پیچیدہ تو ہوتا ہی ہے، اس میں بہت سے خطرے بھی ہوتے ہیں، لیکن صرف اس ڈر سے جوانوں کو بچہ بنائے رکھنا، اور بچپن کی کہانیوں کی نئی تعبیر کر کے جوانی کی کہانیوں کے بدل کے طور پر سنانا یا
جوانی کی کہانیوں کو بذریعہ تعبیر بچپن کا قصہ بنا کر سنانا، یہ دونوں باتیں حکمت و دانشمندی کے صریح خلاف ہیں۔ یوں بھی طفلی کے قصوں سے نوجوانی کی سرحد میں داخل ہونے والے بچوں کو نہیں بہلایا جا سکتا، وہ دیر سویر حقیقت تک پہنچ ہی جائیں گے اور اس سے پہلے کہ وہ اپنی جوانی کو اللے تللے خرچ کرنا شروع کر دیں انہیں شباب کو بہتر طور پر انگیز کرنے کی تربیت دی جانی چاہیے۔
4
جس طرح طفلانہ تمثیلات اپنی معنوی تاویلات کے ساتھ عہدِ شباب میں کام نہیں آتیں، اسی طرح بہت سی مذہبی تمثیلات و اصطلاحات کی روحانی و معنوی تعبیرات جدید و معاصر انسان کے کام نہیں آ سکتی جس نے اپنی کوششوں سے بہت سے نئے حقائق کا انکشاف کیا ہے۔ البتہ جس طرح طفلی کے قصے انسان کے ذہن میں عالم شباب میں بھی موجود رہتے ہیں اور اس پر اثرانداز ہوتے ہیں اسی طرح مذہبی قصص و تمثیلات و اساطیر بھی انسان کی جدید ومعاصر تہذیب میں موجود رہتے اوراپنا اثر ڈالتے ہیں۔ لیکن یہ اثر عقلی یا فلسفیانہ اور سائنسی  جہت میں نہ ہو کر خالص تہذیبی و ثقافتی جہت میں ہوتا ہے، مثلاً فنونِ لطیفہ  کی مختلف قسموں ، مثلاً شعر و ادب میں  مذہبی قصوں، اشاروں کنایوں اور تلمیحات وغیرہ کا درآنا۔ لیکن جب ایک ناقص العقل ان ہی مذہبی قصوں کو عقلی و فلسفیانہ پیراڈائم میں لاکر ان کی واقعیت کا اثبات کرنا چاہتا ہے، مثلاعصائے موسوی کا ازدہا بن جانا، آگ کا ابراہیمؑ کے لیے گلزار بن جانا، یا اللہ تبارک تعالی کا حضرتِ آدم و حوا کو مٹی سے بنانا اور فرشتوں سے سجدہ کرنے کے لیے کہنا وغیرہ، تو یہاں سے دقت شروع ہو جاتی ہے۔ قصہ آدم و حوا کو ہی لیجیے، اگر ایک شخص اس کی تاریخی واقعیت کو عقلاً ثابت کرنے کی کوشش کرے، تو پھر اس سے کیا کیا دقتیں پیش آئیں گی۔ پہلے تو وہ ڈارون کے نظریہ ارتقا کا ابطال کرے گا، پھر بتائے گا کہ انسان دراصل جنت کی مخلوق ہے اور اللہ تعالی نے انہیں نافرمانی کے سبب دنیا میں اتار دیا تھا، پھر اس عقیدہ کے  بعد وہ بتائے گا کہ انسان اور جانوروں کی نسلیں تاریخ کے کسی مقام پر جسماً متصل نہیں ہیں، بلکہ   انسان اور بقیہ جانداروں کا خمیر ہی جدا جدا طریقوں سے اٹھا ہے۔ ایک جنت کےباغات میں پھرنے والی مخلوق تھی  جو اپنی محض ایک غلطی کے سبب یہاں زمین پر پائی جاتی ہے، اوربقیہ جاندار سب کے سب اسی زمین پر پیدا ہوئے۔ اس صورت میں قصہ آدم و حوا پر عقلی پیراڈائم میں یقین رکھنے والا شخص  حیاتیاتی درجہ بندی میں انسان کو جانداروں کے  کسی بھی سلسلے میں نہیں رکھ سکتا۔ کیونکہ جب ان کے باہمی تناسلی رشتے کو ایک بار عقلاً منطقع سمجھ لیا گیا تو پھر انہیں واحد حیاتیاتی زمرے میں کیونکر رکھا جا سکتا ہے؟ پس، مذہبی سائنس  میں اگر حیاتیات نام کی کوئی چیز ہوگی تو اس کی دو بڑی اقسام ہوں گی، جنت والی واحد مخلوق یعنی انسان کی نسل والی حیاتیات، اور زمین والی تمام مخلوقات یعنی نباتات و حیوانات کی حیاتیات۔ پھر اس کے سامنے یہ سوال ہوگا کہ نباتات و حیوانات کی ابتدا کیسے ہوئی ہوگی؟ تو وہ مغربی حیاتیات سے تحقیقات و نظریات  مستعار لے کر وہی کچھ بتائے گا جو حیاتیات کی سائنس میں بتایا جاتا ہے، لیکن انسان کے جسمانی نظام کا مطالعہ دنیاوی حیاتیات میں نہ کر سکے گا۔ کیا دنیا کا کوئی بھی شخص جس کو سائنس کا ذرہ برابر شعور ہو، اس بات کو تسلیم کر سکتا ہے کہ انسانوں اور جانوروں کی حیاتیات ایک دوسرے سے کٹی ہوئی ہوں؟
اور اتنا ہی نہیں، بات جب حیاتیاتی سائنسوں کے علمی و سائنسی ڈسکورس میں مذہبی قصص و تمثیلات کو تسلیم کرنے کی ہو تو سوال یہ بھی ہے کہ کیوں نہ ہم زندگی کی ان قسموں کو بھی حیاتیات میں شامل کریں جن کا ذکر صحف مقدسہ میں آیا ہے یعنی انسان،  حیوان اور نبات کے علاوہ جنوں اور فرشتوں کو بھی اس میں جگہ دیں، اور موخرالذکر دونوں کے باب میں اپنی حیاتیاتی سائنس میں لکھ دیں کہ تا حال ان کے متعلق سوائے منقولات کے اور کوئی شواہد نہیں مل سکے ہیں اور ان کے متعلق ہماری سائنسی تحقیقات تاحال جاری ہیں؟ یہ سننے میں تو کچھ عجیب معلوم ہوتا ہے لیکن ہے بالکلیہ منصوص و مستحکم!
ڈارون کے نظریہ ارتقا  پر ایک انشائیہ نما مضمون لکھنے والے مولانا مودودی فرماتے تھے کہ مغربی سائنس کو پڑھو اور اس کو اسلامی نقطہ نظر سے کارآمد بناو۔ لیکن افسوس کہ مودودی اسکول کے تربیت یافتہ نقاد اس پر عمل نہ کر سکے  کیونکہ  خالص  روایتی اسلامی  نقطہ نظر سے مغربی حیاتیات کی ازسرنو تشکیل کا یہ پروجیکٹ  قطعی  ناممکن تھا۔ علمی دنیا انسانوں اور دیگر جانداروں کی سائنسوں  کو الگ الگ کیسے مان سکتی تھی؟ اور کیسے قصہ آدم و حوا کی بنا پر کائنات اور زمین کی طبعی و فطری اور انسانی تاریخیں  لکھ سکتی تھیں؟ چنانچہ اب  تجدد پسند تاویلیوں کی بن آئی جو  پہلے سے  یہ کہتے آ رہے تھے کہ قصہ آدم و حوا تو محض ایک تمثیل ہے اور قرآن میں نظریہ ارتقا کی بڑی گنجائش ہے، اس سلسلے میں ماضی کے ملحد فلاسفہ و صوفیا کے افکار سے بھی استشہاد کیا گیا۔ یہ گویا بلوغت کی طرف ایک اور قدم تھا جس نے مسلمانوں کو  تخلیقی ارتقا اور / یا نظریہ تخلیق (کری ایشن تھیوری) پر ایمان لانے کی طرف رغبت دلائی ۔عالم اسلام  میں  بہت سے سطحی قسم کے مفکرین پیدا ہوئے جنہوں نے ڈارون کے نظریہ ارتقا کو اسلامی بنا کر پیش کرنے کا کام شروع کر دیا۔ عام مسلمانوں نے سمجھا کہ واقعی قرآن میں نظریہ ارتقا پایا جاتا ہے اور جدید مغرب سے بہت سے پہلے قرآن نے ارتقا کی بات فرما دی تھی۔ اس طرح نیم تعلیم یافتہ افراد کے ذہن پر ایک گرہ اور لگ گئی۔
جس قسم کے تخلیقی ارتقا پر یہ تجدد پسند ایمان رکھتے ہیں اس کا لب لباب یہی ہے کہ  پیدا تو سب کچھ اللہ تعالی نے ہی کیا لیکن طریقہ وہ اپنایا جو حضرت ڈارون اور دیگر ارتقائی سائنسداں فرماتے رہے ہیں۔ یعنی بالآخر  انہوں نے یہ تسلیم کر لیا کہ انسان فی الاصل بندر جیسی کسی مخلوق سے نکلا ہے۔ حالانکہ شروع میں اس خیال کی بڑی مذمت کی گئی تھی۔ اکبر الہ آبادی نے فرمایا:
کہا منصور نے خدا ہوں میں
ڈارون بولے بوزنا ہوں میں
جیسا کہ اس شعر سے معلوم ہوتا ہے،  بزعم خود اکبر یہ سمجھتے رہے ہوں گے کہ ڈارون ایک گمراہ شخص تھا۔ لیکن بعد کو ہمارے مذہبی دانشوروں کی آنکھ کھلی اور انہوں نے حقائق پر غور کیا تو ڈارون کا نظریہ بہت ہی مدلل اور مستحکم ثابت ہو اور اس کے بغیر کسی حیاتیاتی سائنس کی گنجائش ہی نہ نکل سکتی تھی۔ چنانچہ انہوں نے نظریہ ارتقا کو کلمہ پڑھوا کر ہی دم لیا۔
ایک نظریہ ارتقا کی اس مثال سے ہی یہ معلوم ہو سکتا ہے کہ ہمارے ہاں جس نوعیت کے علمی و فکری کارنامے انجام دیے جا رہے ہیں ان کا مقصد مغربی علوم و فنون کو اسلامائز کرنا یعنی انہیں مسلمان بنا کر اپنی محرومی و پسماندگی کا کسی طرح مداوا کر لینا ہے۔ میں نے سائنس کے بہت سے طلبا کو دیکھا ہے جو اپنی مذہبی روایت سے ہٹ کر دنیوی سائنسوں کے مشتملات بالخصوص نظریہ ارتقا پر ایمان نہیں لا سکتے کیونکہ پھر ان کو سائنسی پیراڈائم میں اپنے تصورِ دین سے دست بردار ہونا پڑے گا۔ صداقت کو صرف مذہب کے ساتھ مخصوص اور محفوظ سمجھتے رہنے کی یہی روش ہے جس نے تجسس کے جذبے کا انسداد کر دیا ہے۔ اگر واقعی یہ تمام کائنات کسی قادرِ مطلق کے لفظِ کن کا نتیجہ ہے تو اب تجسس کا کیا کام؟