نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

قصہ آدم اور نظریہ ارتقا: تطبیق کے امکانات

علم اللہ صاحب کے ایک فیس بک اسٹیٹس پر ابوفہد صاحب نے قصہ آدم اور نظریہ ارتقا میں تطبیق دینے کے امکانات پر ایک تبصرہ لکھا تھا اور میں نے اس کا جواب لکھا ہے۔ یہاں میں ابوفہد صاحب کا مذکورہ تبصرہ اور اپنا جواب نقل کر رہا ہوں:
ابوفہد: ویسے آدم وحوا کی کہانی اور نظریۂ ارتقاء کی تطبیق کے امکانات بھی پیداہوسکتے ہیں۔ اقبال نے تو یہ کہہ کر دامن چھڑا لیا تھا۔خردمندوں سے کیا پوچھوں کہ میری ابتدا کیا ہے۔ میں اس فکر میں رہتا ہوں کہ میری انتہا کیا ہے۔۔۔ تطبیق کی صورت فی الحال تو یہی ہوگی کہ جہاں جہاں سائنس اور قرآن میں تضاد نظرآتا ہے وہاں قرآن کو مقدم رکھا جائے گا۔ یا پھر  یہ سمجھا جائے گا کہ قرآن سے ہم نے جوسمجھا ہے وہ کوئی ضروری نہیں ہے کہ درست ہی ہو۔ اور یہ کہ قرآن میں آدم وحوا کی تخلیق کا جو بیان ہے ہوسکتا ہے کہ وہ تمٰثیلی انداز کا بیان ہو۔ قرآن سے یہ تو معلوم ہوا کہ آدم کو مٹی سے پیدا کیا البتہ اس کی عملی صورت کیا ہوئی اس کا کچھ پتہ نہیں، اب ایسا تو نہیں ہے کہ اللہ نے بھی آدم کو اسی طرح پیدا فرمایا ہو جس طرح کمھارچاک پر مٹی کے برتن بناتا ہے۔ کہ مٹھی بھر مٹی لی اور اسے چاک پر چڑھا کر گھمادیا۔ کیا پتہ صدیوں پر محیط انسانی تخلیق کے عمل کو لفظ ’کن ‘ کے ذریعہ واضح کیا گیا ہو۔ کیونکہ وقت کی نسبت ہمارے اور اللہ کے درمیان مختلف ہے۔ ہمارے حساب سے جو صدیاں ہیں اللہ کے حساب سے وہ ایک  لمحہ بھی ہے۔ میرے خیال میں اس نہج پر فکر کو آگے بڑھایا جاسکتاہے۔

طارق صدیقی: ابوفہد صاحب نے قرآن کے قصہ آدم و حوا اور نظریہ ارتقا کے مابین  تطبیق کی بات کی ہے۔ اس میں کئی دقتیں ہیں۔ پہلی دقت یہ کہ قرآن مطلق صداقت کا دعویٰ کرتا ہے، اس کے فرمودات عین حق اور سچ ہیں۔ جبکہ نظریہ ارتقا ابھی نظریہ ہی ہے اور خود ارتقائیوں کے مطابق یہ کوئی مطلق صداقت نہیں ہے۔ کوئی بھی نظریہ مطلق صداقت ہونے کا دعویٰ نہیں کرتا۔ اسی لیے سائنس میں نظریہ کو امر واقعی یعنی فیکٹ یا قانون (لاء) نہیں سمجھا جاتا ہے۔ سائنسی نظریہ کے یکسر غلط یا صحیح ہونے یا جزوی صحیح ہونے کا امکان ہمیشہ رہتا ہے۔
پس، صاف ظاہر ہے کہ انسان کی کہانی کے متعلق قرآن اور سائنسدانوں کے بیانات میں بنیادی اختلاف ہے۔ ایک یعنی قرآن کا بیان یہ ہے کہ وہ مطلق صداقت ہے جبکہ دوسرا یعنی ارتقائی سائنسدانوں کا بیان ہے کہ وہ جو کچھ کہہ رہے ہیں وہ مطلق صداقت نہیں بلکہ ابھی صرف نظریہ کے درجے میں ہے۔ یہ بھی واضح ہے کہ قرآن میں نظریات بیان نہیں ہوئے۔ نظریہ انسان قائم کرتا ہے تاکہ وہ حق/ صداقت تک پہنچ سکے۔ خدا کو حق و صداقت تک پہنچنے کے لیے کوئی نظریہ قائم کرنے کی ضرورت نہیں۔ وہ براہ راست حق بیان کرتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ جب قرآن اور سائنسداں اپنے اپنے بیانات میں دو مختلف درجے پر ہوں، ایک مطلق حق و صداقت کا بیان کر رہا ہو اور دوسرا محض نظریہ کے درجے میں ہو تو ایک کی تطبیق دوسرے سے کیسے کی جا سکتی ہے؟ سچائی اور سچائی کو پانے کے لیے کیا جانے والا قیاس دو چیزیں ہیں۔ سچائی نہیں بدلے گی جبکہ سچائی کو پانے کے لیے کیا گیا قیاس ایک ہزار بار بدل سکتا ہے۔ پس، مطلق صداقت اور متغیر قیاس آرائیوں میں تطبیق وہی دے سکتا ہے جو قرآنی اور سائنسی بیانات کو یکساں درجے میں رکھتا ہو۔ قرآن اور حدیث کے بیانات میں تطبیق دی ج سکتی ہے، لیکن قرآن اور سائنسی نظریے میں تطبیق کیونکر دی جائے کہ ایک علیم و خبیر کا بیان ہے اور دوسرا محض قیاس آرائی جو مسلسل متغیر ہوتی رہتی ہے۔ فرض کیجیے آج آپ نے قرآن اور سائنسی نظریے میں تطبیق دے دی اور کل کو سائنسی نظریہ ہی بدل گیا تو کل ایک بار پھر اس بدلے ہوئے سائنسی نظریہ کے مطابق تطبیق دینی پڑے گی۔ اور اسی طرح جب جب کسی نظریے میں پھیر بدل کیا جائے گا، تب تب آپ کو قرآن کی تطبیق شدہ تفسیر بدلنی پڑے گی۔ پھر صورتحال یہ ہوگی کہ سائنسداں ایک قیاسی نوعیت کی تحقیق کرے گا اور مفسرین قرآن اس کے مطابق قرآن کی نئی تفسیر لکھنے بیٹھ جائیں گے۔ یہ اتنی مکروہ صورتحال ہوگی کہ خدا کی پناہ۔ بھلا یہ بھی کوئی بات ہوئی کہ سائنس کی قیاسی تحقیقات کی روشنی میں قرآن کی آیات بینات کی تفسیر کی جائے!
پس، یہ پہلی دقت ہوئی جو نظری ہے۔ دوسری دقتوں کا بیان بھی میں کروں گا، پہلے ابوفہد صاحب یہ بتائیں کہ اس دقت کو وہ کیسے دور کریں گے؟
ابوفہد: طارق بھائی بات یہ ہے کہ یہ کوئی دقت ہی نہیں۔ آپ نے خلط مبحث سے کام لیا ہے۔ میں اس پر کسی وقت لکھوں گا۔ سردست یہ بتاتاچلوں کہ میں نے یہ نہیں کہا کہ قرآن کلی صداقت نہیں ہے اور نہ ہی یہ کہا کہ سائنس کلی صداقت ہے۔ میرے
۔ کمینٹ میں بہت ساری گنجائیشیں ہیں۔ قرآن نے کہا ہے:  میں ایک مثال دیتا ہوں۔ مثلا قرآن نے کہا کہ ہم آدم وحوا کو زمین پر اتارا۔۔ اب یہ تو سمجھ میں آتا ہے کہ آدم وحوا زمین پر آگئے مگر اس کی کیفیت نہیں معلوم۔ کیا ضروری ہے کہ ہم یہ تسلیم کریں کہ اللہ نے اسی طرح انہیں زمین پر اتارا ہوگا جس طرح پیراشوٹ کے ذریعہ لوگ بلندیوں سے اتر آتے ہیں، یاں انہیں ایک ڈھیلے کی طرح زمین پر پھینک دیا گیا ہوگا یا پھر رسی سے باندھ کر لٹکا دیا ہوگا۔۔۔ کیا یہ ممکن نہیں کہ اتارنے سے مراد زمین پر تخلیق ثانی کرنا ہو۔۔۔۔۔۔۔۔ اور آپ کی یہ پوسٹ ماقبل کی پوسٹ سے مختلف بھی ہوگئی ، پہلے آپ کا لہجہ الگ تھا اورا ب الگ ہے۔ پہلے کمینٹ میں آپ نے یہ تو کہہ دیا کہ تطبیق دیجئے مگر یہ نہیں بتایا کہ اگر سائنس اور قرآن میں تطبیق نہیں ہوگی تو اسے آپ کیسے ہنیڈل کریں گے۔
طارق صدیقی:ابوفہد صاحب، آپ میرا پہلا کمنٹ ایک بار پھر پڑھیں۔ میں نے اپنے پہلے کمنٹ میں "تطبیق دیجیے" نہیں کہا بلکہ یہ کہا تھا کہ دینی اور عصری تعلیم و تربیت کے دونوں نظامات اتنے مختلف بلکہ متصادم ہیں کہ ان کے جوڑ پیوند پر مبنی کوئی ایک نظام تعلیم نہیں بنایا جا سکتا۔ میں نے مدارس کے نظام تعلیم کی جدید کاری کی غرض سے  سائنس اور سوشل سائنسز کے سبجیکٹس کی شمولیت کو ایک مسئلہ بتاتے ہوئے کہا تھا کہ پہلے اس کو حل کیا جائے۔ مسئلے کے حل کی بات کرنے کا مدعا لازماً "تطبیق دینے" کی منشا ظاہر کرنا نہیں ہے۔
پہلے کمنٹ میں، میں نے یہ توجہ دلائی ہے کہ دینی اور عصری تعلیمی اداروں کے نصاب تعلیم میں اساسی فرق ہے۔ یہ دو مختلف الاصل نظامات ہیں جو زندہ اور غیر زندہ چیزوں کو مختلف طرح پر بیان کرتے ہیں اور ان کی تفصیلات میں بھی اختلاف ہے۔ چنانچہ اہم عصری سبجیکٹس مثلاً سائنس اور سوشل سائنس کو دینی اداروں میں پڑھانے کی کچھ نظری دقتیں ہیں جن میں سے ایک نظری دقت میں اپنے پہلے تبصرے میں سامنے رکھ چکا ہوں۔ لیکن آپ نے اس کے حل کے متعلق یہ فرمایا کہ "کسی وقت اس پر لکھوں گا۔" اب میں مزید وضاحت کے ساتھ عرض کرتا ہوں کہ حیاتیات کے میدان میں قرآن اور سائنس کے مابین  تطبیق دینے کے دیگر نظری مسائل کیا ہیں۔
دوسری نظری دقت: زندہ چیزوں میں "جن" کی شمولیت:
سائنس کے نزدیک زندہ اور غیر زندہ کی ایک تعریف ہے جو انسانی محسوسات کی بنا پر تشکیل پاتی ہے جبکہ مذہب محسوسات سے ماورا زندہ چیزوں کے متعلق بھی معلومات فراہم کرتا ہے۔ مثلاً، سائنس میں جنوں کے وجود پر کوئی بات ہی نہیں ملتی جبکہ قرآن کی رو سے جن انسان سے پہلے خلق ہوئے اور یہ بھی ایک زندہ مخلوق ہے جس کے اندر انسان جیسی ارادہ اور اختیار کی قوت پائی جاتی ہے اور انہیں بھی انسانوں کی طرح اولاد ہوتی ہے حالانکہ وہ نار سموم سے پیدا ہوئے۔ قرآن میں حیوانات کا بھی ذکر ہے اور یہ جنوں اور انسانوں کے علاؤہ زندہ مخلوقات کی ایک اور قسم ہے۔ پھر قرآن میں ایک اور مخلوق فرشتہ کا ذکر ملتا ہے جو جنوں سے مختلف ہے لیکن ان کے اندر اپنے کسی ارادہ و اختیار کو رو بہ عمل لانے کی قوت نہیں پائی جا سکتی الا یہ کہ ان میں سے بعض خدا تعالیٰ سے بقدر ضرورت کوئی بات کہہ سکیں مثلاً، "آپ انسان کو خلیفہ بنا رہے ہیں تو یہ زمین میں فساد برپا کرے گا!" غرض، قرآن میں زندگی کی کئی قسموں کا ذکر ملتا ہے جن میں فرشتے، جن، انسان، حیوان اور پیڑ پودے ہیں۔ ممکن ہے تحقیق کرنے پر مزید قسمیں مل جائیں لیکن مجھے اتنا ہی علم ہے۔ ہو سکتا ہے بعض لوگ فرشتوں کو زندہ مخلوقات کی فہرست  میں شامل نہ کرنا چاہیں تو بھی کچھ حرج نہیں لیکن جنوں کو تو ہر کوئی قرآن میں درج زندگی کی ایک قسم تسلیم کرے گا کیونکہ وہ صاحب ارادہ ہیں اور انہیں اولاد بھی ہوتی ہے۔ اور اس لحاظ سے قرآن کی رو سے زندگی کی چار قسمیں ثابت ہوتی ہیں یعنی جن، انسان، حیوان اور نبات۔ لیکن سائنس میں جنوں کا کوئی ذکر نہیں۔ اب اگر آپ مدرسوں کے نظام تعلیم کی جدید کاری کریں گے تو اپنے ہاں سائنس کی نصابی کتب میں جنوں کو بھی زندگی کی ایک قسم بتائیں گے کیونکہ یہ قرآن میں درج ہے۔ اگر آپ جنوں کو سائنس کی کتب میں شامل نہیں  کریں گے تو آخر کس بنیاد پر؟ قرآن سے زندگی کی جتنی قسمیں  ثابت ہوتی ہیں آخر ان میں سے کسی ایک کو سائنس سے کس دلیل سے خارج کیا جا سکتا ہے؟ کیا دلیل یہ ہو گی کہ چونکہ ہم جنوں کو اپنے محسوسات کے دائرے میں نہیں لا سکتے اس لیے سائنس میں ان کا ذکر نہیں کر سکتے اور کیونکہ سائنس محسوسات کے دائرے میں آنے والی چیزوں کا قیاسی نوعیت کا علم ہے جس کا ماخذ انسانی ذہن ہے۔ لیکن یہ دلیل بڑی احمقانہ ہے کیونکہ اس دلیل کے بعد آپ محسوسات کے دائرے کو اساس کا درجہ دے دیتے ہیں، پھر تخلیق آدم کا قرآنی علم کون سا محسوسات کے دائرے میں آتا ہے اور یہ خدا کے بغیر بتائے کیونکر انسانی ذہن میں آ سکتا ہے؟ واضح رہے کہ سائنس کا حتمی ماخذ انسانی ذہن ہی ہے اور اس میں وحی خداوندی کو علم کا ذریعہ تسلیم نہیں کیا جاتا۔ ڈارون کا پورا نظریہ اور حیات کی درجہ بندی کا مروجہ طریقہ انسان نے اپنے ذہن سے نکالا ہے اور وحی خداوندی کا اس میں کوئی دخل نہیں۔ چنانچہ سائنسدانوں کو  واقعات کی دنیا میں جن نظر نہیں آتے اس لیے انہوں نے جنوں کو سائنس کے سلسلہ حیات میں جگہ نہ دی۔ اب چونکہ مومن قرآن سے ثابت شدہ آدم علیہ السلام کی کہانی کو سائنس میں  داخل کرنا چاہتے ہیں تو اس کے صاف معنی ہیں کہ وہ قرآنی بیانات کو امر واقعی تسلیم کرتے ہیں تو اسی بنا پر انہیں جنوں کے وجود کا ذکر بھی سائنس کی نصابی کتب میں کرنا چاہیے۔ یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ قرآن سے ثابت شدہ ایک بات کو تو آپ سائنس میں درج کریں اور اسی سے متعلق دوسری چیز کو درکنار کر دیں۔
تیسری نظری دقت:
قرآن سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے فرشتوں اور ابلیس (جو جن تھا) کو آدم کے آگے جھکنے کے لیے کہا لیکن ابلیس نہ جھکا تو خدا نے اس کو راندہ درگاہ کر دیا، پھر اسی ابلیس کے فریب میں آنے کی خطا آدم و حوا سے ہوئی جس کی پاداش میں خدا تعالیٰ نے آدم و حوا کو جنت سے زمین پر بھیج دیا، اور زمین پر جن کو بھی اتارا گیا٬ اور زمین پر جانوروں کی اقسام بھی تھیں لیکن قرآن میں کہیں کوئی اشارہ نہیں ہے کہ اللہ تعالیٰ نے  جانوروں کی کسی نسل سے انسان کو نکالا، اس کے برعکس قرآن میں انسان کو جانور سے علیحدہ پیدا کرنے کی بات ثابت ہوتی ہے حالانکہ آدم کی تخلیق زمین کی مٹی سے ہوئی۔
سائنس انسان کی ابتدا کی جو کہانی بیان کرتا ہے وہ بھی مذہب سے اصلا مختلف ہے۔ ہم جانتے ہیں کہ سائنس میں تمام جانداروں کو ایک ہی سلسلہ حیات میں رکھا گیا ہے کیونکہ سب جاندار ایک ہی تخم حیات سے نکلے ہیں۔ پھر ان کی قسمیں بیان کی گئیں ہیں مثلاً نباتیات یعنی بوٹانی اور حیوانیات یعنی زولاجی۔ نباتیات میں پیڑ پودوں کو اور حیوانیات میں جانوروں اور انسانوں کو رکھا گیا ہے۔ پس، سائنس میں زندگی کی جو درجہ بندی کی گئی ہے اس کے پیچھے کی تعبیر یہی ہے کہ سب جاندار ایک ہی خلیہ یا تخم حیات سے نکلے ہیں۔ جہاں تک میں سمجھتا ہوں اس تعبیر کو تسلیم کرنے کے بعد ہی جانداروں کی سائنسی درجہ بندی کو تسلیم کیا جا سکتا ہے جس کے مطابق انسانی زندگی ایک انسان نما بندر یعنی ایک جانور کی نسل کا تسلسل ہے اور ایسا ماننا سب مستند روایتی مفسرین قرآن کے مطابق غلط ہے، مولانا مودودی تو دور، تجدد پسندوں کے باوا آدم سر سید احمد خاں صاحب بہادر بھی اس کو تسلیم نہیں کرتے۔ ڈارون کی خطا کو اجاگر کرتے ہوئے انہوں فرمایا ہے: "اس تناسب پیدایش نے بڑے بڑے لائق حکیموں کو دھوکے میں ڈال دیا ہے اور وہ سمجھتے ہیں کہ انقلاب ایک ہی چیز کو دوسری مشابہ چیز میں بدلتا جاتا ہے۔ مثلاً وہ حیوان جو بندر کہلاتا ہے اور جس کی مختلف قسمیں ہیں اور ایک دوسری سے ترقی یافتہ ہے، رفتہ رفتہ ترقی پاتے پاتےاس صورت میں آ گیا ہے جس کو اب ہم انسان کہتے ہیں اور یہی تھیئری حکیم ڈارون کی ہے جو ایک بیمثل حکیم اپنے زمانے میں گزرا ہے۔" اس کے بعد سر سید صاف فرماتے ہیں: "غرضکہ یہ بات صحیح نہیں ہے کہ وہ حیوان جس کو بندر کہتے ہیں مرور دہور میں ترقی کرتے کرتے اس صورت میں آ گیا ہے جس کو انسان کہتے ہیں بلکہ قانون قدرت کا سلسلہ انتظام ایسی مناسبت سے واقع ہوا ہے کہ اس نے ابتدا ہی سے مخلوق کو ایسی مناسبت سے پیدا کیا ہےکہ اعلی ادنی سے موتیوں کی لڑی کے مثل مناسبت و مشابہت رکھتی ہے۔" (خلق الانسان علی ما فی القرآن، صفحہ 3 سے 4 تک)
جب انسان کی پیدائش حیوان سے علیحدہ ہوئی اور یہ بات قرآن سے ثابت ہے تو پھر انسان کو حیوان کے درجے میں رکھنا اور حیوانیات یعنی زولاجی میں انسان کا مطالعہ کرنا کیسی بات ہوگی؟
ان دنوں اسلامی فیزکس، اسلامی کیمسٹری، اسلامی بایولوجی کا ایک ٹرینڈ چل رہا ہے۔ اس اعتبار سے اسلامی بوٹانی اور اسلامی زولاجی یعنی اسلامی حیوانیات بھی کوئی چیز ہوگی۔ پھر بتایا جائے کہ اسلامی حیوانیات میں انسان کا مطالعہ کیونکر کیا جائے گا؟ حیوانیات میں تو حیوانوں کا مطالعہ ہی ہو سکتا ہے، اس میں انسان کا مطالعہ کرنے کا مفہوم ہی یہ نکلتا ہے آپ انسان کو حیوانوں کے ذیل میں رکھتے ہیں جو تخلیق آدم سے متعلق قرآنی بیانات کے خلاف ہے۔
یہ دو مزید نظری دقتیں میں نے پیش کیں تا کہ آپ بقول خود قرآنی بیانات اور سائنس میں تطبیق دے سکیں۔ ایک بار پھر عرض کر دوں کہ اپنے دوسرے کمنٹ میں پہلی نظری دقت آپ کے سامنے رکھ چکا ہوں لیکن  آپ نے فرمایا کہ "یہ کوئی دقت ہی نہیں۔" اس کے علاؤہ آپ نے اپنے تازہ کمنٹ میں  یہ فرمایا ہے:
"میرے کمینٹ میں بہت ساری گنجائیشیں ہیں۔ قرآن نے کہا ہے:  میں ایک مثال دیتا ہوں۔ مثلا قرآن نے کہا کہ ہم آدم وحوا کو زمین پر اتارا۔۔ اب یہ تو سمجھ میں آتا ہے کہ آدم وحوا زمین پر آگئے مگر اس کی کیفیت نہیں معلوم۔ کیا ضروری ہے کہ ہم یہ تسلیم کریں کہ اللہ نے اسی طرح انہیں زمین پر اتارا ہوگا جس طرح پیراشوٹ کے ذریعہ لوگ بلندیوں سے اتر آتے ہیں، یاں انہیں ایک ڈھیلے کی طرح زمین پر پھینک دیا گیا ہوگا یا پھر رسی سے باندھ کر لٹکا دیا ہوگا۔۔۔ کیا یہ ممکن نہیں کہ اتارنے سے مراد زمین پر تخلیق ثانی کرنا ہو۔"
آپ کے کمنٹ میں اگر بہت سی گنجائشیں ہیں تو ان گنجائشوں کو بتائیں۔ لیکن یہ جو قیاس آرائی آپ نے فرمائی کہ ممکن ہے زمین پر اتارنے سے مراد آدم کی تخلیق ثانی کرنا ہو تو قرآن یا حدیث سے اس پر کوئی سند بھی آپ لا سکتے ہیں؟ یا یہ محض تخیل کی ایک اڑان ہے؟ کیا آپ یہ کہنا چاہتے ہیں کہ حضرت آدم کو زمین پر اتارنے کا طریقہ وہی ہے جو ڈارون اور/ یا دوسرے ارتقائی بتاتے ہیں؟ (نعوذ باللہ). (جاری)

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

تحقیق کے مسائل

تحقیق ایک اہم علمی فریضہ ہے۔ تحقیق کے ذریعے ہم نامعلوم کا علم حاصل کرتے ہیں۔ غیر محسوس کو محسوس بناتے ہیں۔ جو باتیں پردہ ٔ غیب میں ہوتی ہیں، انہیں منصہ ٔ شہود پر لاتے ہیں تا کہ کسی امر میں یقینی علم ہم کو حاصل ہو، اور اس کی بنیاد پر مزید تحقیق جاری رکھی جا سکے۔تحقیق ایک مسلسل عمل ہے۔ موجودہ دور میں یہ ایک نتیجے تک پہنچنے سے زیادہ ایک طریقے ( تک پہنچنے) کا نام ہے۔نتیجہ خواہ کچھ ہو، موجودہ دور میں اس کے طریقہ ٔ کار یا منہاجیات کو صاف و شفاف بنانا فلسفیانہ طور پر زیادہ ضروری سمجھا جاتا ہے تاکہ زیادہ تر نتائج صحت کے ساتھ محسوسات کے دائرے میں حتی الامکان منتقل ہو سکیں۔ دائرہ تحقیق میں ایک مقدمہ کو نتیجہ میں بدلنے کے طریقے کی جس قدر اصلاح ہوتی جائے گی اسی قدر تحقیق معتبر مانی جائے گی۔ البتہ بعض اوقات یوں بھی ہوتا ہے کہ کسی تحقیق کا طریقہ صحیح نہیں ہو اور نتیجہ بالکل صحیح ہو۔ لیکن اس ناقابل حل مسئلے کے باوجود بہرحال طریقے میں حذف و اضافہ اور اصلاح و تصحیح کی ضرورت ہمیشہ باقی رہتی ہے۔ تحقیق کے عربی لفظ کا مفہوم حق کو ثابت کرنا یا حق کی طرف پھیرنا ہے۔ حق کے معنی سچ کے ہیں۔ مادہ حق سے...

قرآن اور بگ بینگ

ایک بہت طویل عرصے سے اہل اسلام کا مغرب زدہ طبقہ قرآن کی تصدیق جدید ترین سائنسی تحقیقات کی بنیاد پر کرنا چاہتا ہے. اس کی اصل دلیل یہ ہے کہ اگر قرآن خدا کی کتاب نہ ہوتی تو اس میں بیسویں صدی کے سائنسی انکشافات کا ذکر چودہ سو سال پہلے کیونکر ممکن تھا؟ اس سلسلے میں ایک بہت بڑی مثال بگ بینگ کی دی جاتی ہے اور قرآن کی اس آیت کو دلیل بنایا جاتا ہے: اَوَلَمْ يَرَ الَّذِيْنَ كَفَرُوْٓا اَنَّ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ كَانَتَا رَتْقًا فَفَتَقْنٰهُمَا ۭ وَجَعَلْنَا مِنَ الْمَاۗءِ كُلَّ شَيْءٍ حَيٍّ ۭ اَفَلَا يُؤْمِنُوْنَ کیا کافروں نے نہیں دیکھا کہ آسمان اور زمین دونوں ملے ہوئے تھے تو ہم نے جدا جدا کردیا۔ اور تمام جاندار چیزیں ہم نے پانی

مذہب و تصوف اور فلسفہ و سائنس کا منتہائے مقصود

     یہ کائنات نہ کوئی ڈیزائن ہے اور نہ اس کا کوئی ڈیزائنر۔ اور نہ یہ کائنات عدم ڈیزائن ہے جس کا ڈیزائنر معدوم ہے۔ یہ دونوں بیانات ناقص ہیں۔ ہم بحیثیت انسان بذریعہ حواس خارج میں جو کچھ دیکھتے ہیں وہ دراصل ہماری وجدان کی مشین اور ذہن ہی سے پروسیس ہو کر نکلتا ہے۔ اور وجدان کے اس جھروکے سے نظر آنے والی یہ کائنات ایک ایسی احدیّت کے طور پر ابھرتی ہے جس میں یہ ڈیزائن صرف ایک منظر ہے جس کی شناخت عدم ڈیزائن کے دوسرے منظر سے ہوتی ہے۔ اسی طرح اس کائنات میں منصوبہ بھی ایک منظر ہے جس کی شناخت عدمِ منصوبہ کے دوسرے منظر سے ہوتی ہے۔ کائنات میں چیزیں ایک دوسرے کے بالمقابل ہی شناخت ہوتی ہیں۔ اس لیے یہ کہنا کہ کائنات میں کوئی منصوبہ ہے اس لیے کوئی منصوبہ ساز ہونا چاہیے، یا کائنات بجائے خود کوئی ڈیزائن ہے اس لیے اس کا ڈیزائنر لازماً ہونا چاہیے ناقص خیال ہے۔ اسی طرح یہ کہنا کہ اس کائنات میں عدم ڈیزائن ہے اور اس لیے اس کا کوئی ڈیزائنر نہیں ہے یہ بھی ایک ناقص خیال ہی ہے۔ یہ دونوں بیانات آدھے ادھورے مناظر کی تعمیم کی بنا پر گمراہ کن قیاس کی مثالیں ہیں۔ یاد رہے کہ منصوبہ صرف ایک منظر ہے، یا یوں...