نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

مذہب اور سائنس کا اصولی فرق

ہمارے مذہبی دانشور سائنس اور تکنالوجی میں پیش قدمی کی بات اکثر کیا کرتے ہیں، لیکن ان میں سے کوئی اس بات کو سمجھنے پر آمادہ نہیں کہ سائنس میں پیش قدمی کن شرطوں پر ممکن ہے۔ وہ چونکہ مغرب کی مادی اور تکنیکی ترقیوں کو دیکھتے ہیں اس لیے متاثر ہو کر سائنس اور ٹکنالوجی میں آگے بڑھنے کی سطحی بات کرتے ہیں۔ اگر مغرب ٹکنالوجی کے معاملے میں اتنی ترقی نہ کرتا تو ہمارے یہ مذہبی دانشور سائنس میں ترقی کرنے کی بات بھی منہ سے نہ نکالنے۔ سائنس سے ان کی ساری دلچسپی محض مغرب کی ٹکنولوجیکل ترقی کے سبب ہے۔ لیکن ٹکنالوجی کو مقصود بنا کر سائنس میں ترقی کرنے کا خیال صحیح نہیں ہے۔

سائنس کی اصل غرض و غایت یہ پتا لگانا ہے کہ یہ کائنات کیوں ہے، اس میں زندگی کیوں ہے اور اس کا انجام کیا ہوگا۔ سائنس میں "کیسے" پر زور محض اس لیے دیا جاتا ہے کہ اس کے ذریعے "کیوں" کا حتمی علم حاصل ہو۔ یعنی سائنس کا "کیسے" کوئی مستقل بالذات قدر نہیں۔ اس "کیوں" کے بنیادی تجسس کے بغیر سائنسی غور و فکر ممکن نہیں ہے۔ مزید واضح لفظوں میں سائنسداں زندگی اور کائنات یعنی وجود کے متعلق وہ اصل بات جاننا چاہتا ہے جو وہ نہیں جانتا، اور جس کو جاننے کی زبردست خواہش اس کے اندر پیدا ہوتی ہے اور جس سے وہ پیچھا نہیں چھڑا سکتا۔
یہی وہ تجسس ہےجو سائنسی علوم کی سرشت میں کارفرما ہے اور تکنالوجی صرف اس بنیادی تجسس کے نتیجے میں معلوم ہونے والے اصول و قوانین سے عملاً فائدہ اٹھانا ہے۔ پس، تکنالوجی ایک طفیلی چیز ہے جو راہِ طلب میں حاصل ہوتی ہے۔ اس کا کام انسان کے علمی سفر کو آسان اور ممکن بنانا ہے، یہ ذریعہ اور وسیلہ کی حیثیت رکھتی ہے۔ اعلی درجے کی تکنیکی ترقی کی بھی وہ حیثیت نہیں کہ سائنسداں اس کو اپنا مقصود بنائے، جس کو پا لینے کے بعد اس کا کام ختم ہو جائے اور وہ تجسس کرنا چھوڑ دے۔
سائنسداں فطرت کے حقائق اور زندگی کے اصل راز کو فاش کرنا چاہتا ہے، اوراپنے اس عمل میں وہ اصل راز تو اب تک فاش نہ کر سکا لیکن بہت سے قوانین اس کو ایسے معلوم ہو گئے جن کا استعمال اس نے انسانی زندگی کو بہتر بنانے کے لیے کیا۔ گویا ایک سائنسداں فطرت کے متعلق جو اصل اور حقیقی علم حاصل کرنا چاہتا ہے وہ سراسر کسب و اکتساب سے متعلق ہے۔ سائنس میں مذہب کی طرح نہیں ہوتا کہ "آگ لینے گئے تھے اور پغمبری مل گئی" بلکہ یوں ہوتا ہے کہ " پیغمبری لینے گئے تھے اور آگ مل گئی!" مذہب بالخصوص سامی مذاہب میں حقیقی علم کی حیثیت کسبی نہیں وہبی ہوتی ہے۔ چنانچہ حضرتِ موسی علیہ السلام جب آگ لینے جا رہے تھے تو ان کے حاشیہ خیال میں بھی یہ بات نہ تھی کہ خدا تعالی ان سے ہمکلام ہوگا اور نبوت کے منصب پر ان کی تقرری فرمائے گا۔ اسی طرح اللہ کے رسول صلی اللہ و علیہ وسلم کے متعلق بھی قرآنِ کریم میں آیا ہے کہ وہ نہیں جانتے تھے کہ کتاب کیا ہوتی ہے اور ایمان کیا ہوتا ہے:
"اور اِسی طرح (اے محمدؐ) ہم نے اپنے حکم سے ایک روح تمہاری طرف وحی کی ہے تمہیں کچھ پتہ نہ تھا کہ کتاب کیا ہوتی ہے اور ایمان کیا ہوتا ہے، مگر اُس روح کو ہم نے ایک روشنی بنا دیا جس سے ہم راہ دکھاتے ہیں اپنے بندوں میں سے جسے چاہتے ہیں یقیناً تم سیدھے راستے کی طرف رہنمائی کر رہے ہو." (شوری).
پس، مذہبِ اسلام کی رو سے انبیا علیہ الصلوٰۃ والسلام اپنی طرف سے دین کا کوئی علم فراہم نہیں کرتے، اور نہ اپنی طرف سے وہ خدا، وحی  فرشتے، کتابیں، جنت اور دوزخ کا علم فراہم کرتے ہیں۔ جبکہ سائنسداں، ٹھیک ایک فلسفی کی طرح، جو کچھ کہتا ہے اپنے ہی وجدان، غور و فکر، استغراق و انہماک، مشاہدہ، اور تجربہ کی رو سے کہتا ہے اور ہرگز یہ دعوی نہیں کرتا کہ اس کا علم کسی بزرگ و برتر ہستی کے ذریعے براہِ راست عطا کردہ ہے۔ لیکن اس کے باوجود سائنسداں بھی فلسفی کی طرح زندگی اور کائنات کے اصل اسرار کو اپنے کسبی طریقے سے اپنے زور پر فاش کرنا چاہتا ہےاور محض اس لیے کہ اس کے اندر تجسس کا ایک سمندر ٹھاٹھیں مار رہا ہوتا ہے۔
یہ فرق ہے مذہب اور سائنس میں کہ دونوں ایک دوسرے کی ضد ہیں، اور یہ فرق ہے سائنس اور تکنالوجی کا کہ ان دونوں کے مقاصد جدا جدا ہیں۔ ایک کا مقصد "وجود" کے متعلق حتمی علم حاصل کرنا ہے اور دوسرا محض حصولِ علم کے سفر میں وسیلہ اور ذریعہ کی حیثیت رکھتا ہے، اور مقصود بالذات نہیں۔ اس نکتے کو ہمارے نیم عقلی دانشور ٹھیک سے نہیں سمجھ پاتے، اور اسی لیے وہ اکثر فرماتے ہیں کہ ہمیں سائنس اور تکنالوجی میں پیش قدمی کرنی چاہیے۔ یا حضرت، تکنالوجی میں پیش قدمی تو یقیناً کی جا سکتی ہے اور نیویارک جیسے بڑے شہر بھی بنائے جا سکتے ہیں، جیسا کہ خلیجی ممالک کے شہروں کی مثال سے واضح ہے، لیکن سائنس میں پیش قدمی کے معنے آپ کو معلوم بھی ہیں؟ اس کی بنیاد ہی زندگی اور کائنات کے اسرار کو جاننے کی خواہش پر ہے اور اگر ایک شخص پہلے ہی کسی مذہبی جملے پر ایمان لے آئے تو اس کا تجسس زندہ کیونکر رہ سکتا ہے؟ جاننے کی خواہش اسی وقت تک زندہ رہ سکتی ہے جب تک کہ انسان کسی امر میں "نہ جاننے" کی حالت سے شروع کرے اور جتنی باتیں اس امر سے متعلق اُس سے کہی جائیں، ان پر غور و فکر اور تجزیہ کرے،ان پر شبہ کرے، ان پر تنقید کرے اور اپنی جگہ ایک نظریہ قائم کرے جس کی رو سے سائنسی تحقیق میں آگے بڑھے، اور جب کبھی اس کو لگے کہ اس نے غلط نظریہ قائم کر لیا ہے تو وہ علی الاعلان اس کو بدل کر کوئی دوسرا نظریہ اختیار کرے۔ اس قدر نظریاتی و عقائدی پھیر بدل اور ترمیم و تنسیخ کی گنجائش مذہب میں کہاں ہے؟ وہاں تو یک سرِ مو انحراف کرنے پر کفر کا فتوی اور معاشرتی بائیکاٹ ہے، اور یہ سلوک مذہب اور مذہبی فرقوں میں اس لیے کیا جاتا ہے کیونکہ علما کی نظر میں صداقت ایک مخصوص عقیدے کے دائرے میں ہے اور اس سے باہر ضلالت و گمراہی کے سوا کچھ نہیں بچتا۔
اب ذرا غور کیجیے، کہ جو لوگ اس درجہ تنگ نظر ہوں کہ ذرا ذرا سی بات پر کافر بنا دیتے ہوں، پیٹ پیٹ کر مار دیتے ہوں جیسے کہ مشعل خاں کو مار دیا گیا، کیا وہ اس دنیا کی زندگی میں کچھ بھی علمی ترقی کر سکتے ہیں الا یہ کہ وہ تکنالوجی کو درآمد کرتے رہیں اور اپنے زعم میں سمجھیں کہ ہم نے بہت بڑا تیرا مار لیا؟ حضرت ٹکنالوجیکل ترقی کو تو آپ ترقی یافتہ ممالک سے درآمد  کر سکتے ہیں، لیکن سائنسی تجسس (یعنی سنس آف انکوائری) کہاں سے لائیں گے؟
اس کے جواب میں ہمارے منقولاتی اور نیم عقلی دانشور سنہرے ماضی کا حوالہ دیں گے اور بتائیں گے کہ ماضی میں ابنِ سینا اور فارابی اور خیام و طوسی اور خدا معلوم کتنے بڑے بڑے اسلامی سائنسداں تھے، کیا وہ سنس آف انکوائری سے محروم تھے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ ذرا آپ قرونِ وسطی کے جید اور بااثر اسلامی سائنسدانوں کی ایک فہرست بنائیں اور ان کے عقائد پر ایک نظر ڈالیں کہ ان میں کس قدر تنوع اور بوقلمونی تھی۔ اور ان میں سے بہتیرے فلاسفہ صحیح العقیدگی سے تہی تھے، یہاں تک کہ انہیں مسلمان کے زمرے میں بھی نہیں رکھا جا سکتا۔ محمد لطفی جمعہ نے لکھا ہے کہ فارابی عقیدہ آخرت کو بڑھیوں کی خرافات کہتا تھا (خرافات العجائز). ابنِ سینا نبوت کو وہبی کے بجائے کسبی بتاتا تھا اور اس شوشے کو امام رازی نے بھی ہوا دی تھی۔ عمر خیام کے متعلق یہ بات مشہور ہے کہ وہ کپڑوں کی طرح اپنے خیالات بدلتا تھا۔ غرض، زندگی اور کائنات کے اصل حقائق کو فاش کرنے کے لیے ایک سائنسداں کو اپنے عقائد و افکار میں تغیر کرنا پڑتا ہے اور بیشمار جامد انسانی عقائد کی سائنس میں کوئی جگہ نہیں۔ یہی وہ بنیادی شرط ہے جس کو تسلیم کیے بغیر سائنس میں پیش قدمی کرنا ممکن نہیں ہے۔
تبصرے:
وردان خالد: محترم ایک پوسٹ پہ آپ سے مکالمہ ھوا تھا جس میں حضور نے تجسس بارے فرمایا تھا
آج اس کی تشنگی تھوڑی دور ھوئی ھے مگر سوال اٹھانے میں ناچیز کچھ بے ادب واقع ھوا ھے اس لئے ایک سوال ھے کہ
روایت پسندی اور تجسس دو انتہائیں ہیں یا نہیں؟  دونوں آپس میں بُعد نہیں رکھتیں؟
طارق صدیقی: روایت کا نظام کچھ اور ہے اور جدیدیت کا نظام کچھ اور ہے۔ روایت خدا مرکزی ہے اور جدیدیت انسان مرکزی۔ روایت میں آزادانہ سوال اٹھانا، تجسس کرنا اس لیے معیوب ہے کہ وہاں خدا تعالی کے کچھ فرمودات تسلیم شدہ ہیں اور آپ ان سے آزاد ہو کر نہیں سوچ سکتے۔ آپ کو لازماً انہیں کے دائرے میں رہ کر غور و فکر کرنا ہوتا ہے۔ کیونکہ جب فرمانے والا خدا ہی ہے تو اب اس کی بات سے کیا اختلاف ہو سکتا ہے؟
جدیدیت کے مرکز میں انسان ہے جو خطا و نسیان کا پتلا ہے۔ اس سے غلطیاں ہوتی ہی ہیں اس لیے جدیدیت میں انسان کو زندگی اور کائنات کے  مسائل پر سوالات اٹھانے اور تجسس کرنے کی پوری آزادی ہوتی ہے اور کسی کو ہمہ دانی کا دعوی نہیں ہوتا۔ ہر کوئی اس شک میں گرفتار رہتا ہے کہ آیا اس سے کہیں کوئی غلطی تو نہیں ہو رہی ہے؟
وردان خالد: کیا روایات کی وجوھات عقائد ھوتے ھیں مذھبی یا غیر مذھبی یا روایات ھی عقائد یا ایمانیات کی وجہ ھوتی ھیں...؟
طارق صدیقی: سامی مذاہب میں روایت کی ابتدا وحی خدواوندی سے تسلیم کی جاتی ہے۔ یہ وحی خدا کی چنی ہوئی شخصیات پر نازل ہوتی ہے۔ ایسا تسلیم شدہ بھی ہے اور منصوص بھی۔ قرآن میں یہ بات بالکل واضح طور پر آ چکی ہے:
‘‘"اور اِسی طرح (اے محمدؐ) ہم نے اپنے حکم سے ایک روح تمہاری طرف وحی کی ہے تمہیں کچھ پتہ نہ تھا کہ کتاب کیا ہوتی ہے اور ایمان کیا ہوتا ہے، مگر اُس روح کو ہم نے ایک روشنی بنا دیا جس سے ہم راہ دکھاتے ہیں اپنے بندوں میں سے جسے چاہتے ہیں یقیناً تم سیدھے راستے کی طرف رہنمائی کر رہے ہو." (شوری).’’
اوپر کی آیت میں اس نکتے پر غور کریں ‘‘خدا اپنے بندوں میں سے جس پر چاہتا ہے’’۔ اس سے صاف ظاہر ہے کہ بندہ اپنی جگہ حق و صداقت کا کتنا ہی متلاشی ہو اس کو وحٰی خداوندی پر مبنی یقینی علم اسی وقت حاصل ہو سکتا ہے جبکہ خدا تعالی، جو اس کے انسانی وجود سے ماورا ایک ہستی ہے، خود ایسا چاہے۔ یہاں کسی بندے کے چاہنے سے اس پر لازماً وحی نہیں آ سکتی جیسا کہ بعض فلسفیوں، مثلاً ابن سینا نے کوشش کی ہے اور وحی کے وہبی کے بجائے کسبی ہونے کا شوشہ چھوڑا ہے۔ روایت جیسا کہ تسلیم شدہ اور منصوص ہے، خدا کے مقرر کردہ پیغمبر سے شروع ہوتی ہے اور اسی کے نقشِ قدم پر چلتی ہے۔
اب رہ گیا یہ فلسفیانہ سوال کہ کوئی روایت اپنے جغرافیائی اور معاشی وغیرہ حالات سے متشکل ہوتی ہے اور روایت کے مادی حالات کے تحت چند عقائد کا ظہور بھی ہوتا ہے تو یہ کوئی منصوص بات نہیں ہے، یعنی یہ کتاب و سنت سے ثابت کوئی حقیقت نہیں ہے۔ روایت خود اس قسم کی باتوں کی نفی کرتی ہے کہ کوئی عقیدہ روایت کے اندر پائے جانے والے مادی حالات سے ظاہر ہوتا ہے اور جب مادی حالات بدل جاتے ہیں تو عقیدہ بھی بدل جاتا ہے۔ حالانکہ یہ نکتہ فلسفہ و سائنس میں قابلِ غور ہو سکتا ہے لیکن خود مذہبی روایت میں اس کی پرِ کاہ کے برابر بھی اہمیت نہیں ہے۔
اگر ایک شخص اس فلسفیانہ نکتہ کو مانتا ہے کہ روایت کے اندر مادی حالات کے اثر سے  عقیدہ متشکل ہوتا ہے تو اس کو پہلے منصوصات کا انکار کرنا ہوگا۔ اس لیے میں کہتا ہوں کہ فلسفہ و سائنس اور مذہب میں بہت بڑا، بنیادی اور اصولی فرق ہے۔ اور اس بات پر کوئی توجہ دیے بغیر ہمارے مذہبی دانشور فلسفہ و سائنس اور مذہب کا جوڑ پیوند لگانے میں مصروف ہیں۔
سید ظہیر عباس: جی یہی فرق ہے ایک فلسفی کا اور متکلم کا،  متکلم اپنے مسلمہ عقائید کی حقانیت کو ثابت کرنے کے لیے دلائل تلاش کرتا ہے جب کہ فلسفی آذاد فکر کے (بقول آپ کے سینس آف انکوائری) کے ساتھ کائنات کا مشاہدہ کرتا ہے.جہاں تک اسلامی فلاسفہ کا تعلق ہے تو آپ کی نظر سے حسین نصر کی کتابیں بھی گذری ہوں گی، مجھے نہیں لگتا کہ ان کی مذہبیت نے ان کے اندر کے سینس آف انکوائری کو مرنے دیا ہے. مگر اس طرزِ فکر کی بات آج کرنا واقعی بہت مشکل ہے.ہم فکری سطح پر غزالی رہنا چاہتے ہیں مگر چاہتے ہیں کے نتائج ابنِ سینا یا ابنِ رشد والے حاصل ہوں، جو کہ ممکن نہیں ہے.
طارق صدیقی: متکلم اپنے مسلمہ عقائد کا اثبات کرنے والے کو نہیں کہتے بلکہ متکلم سے مراد وہ شخص ہے جو "عقائد دینیہ کا عقلی اثبات کرے".
اپنے ذریعے تسلیم شدہ عقائد کا اثبات تو ہر کوئی کرتا ہے لیکن ایک فلسفی کی خاصیت یہ ہے کہ وہ اپنا نقطہ نظر کبھی بھی بدل سکتا ہے اور محض اس لیے کہ کل تک وہ خداپرست تھا اور آج فطرت پرست ہو گیا، اس کا معاشرتی بائیکاٹ نہیں کیا جاتا۔
متکلم کے معنی خاص ہیں جو دینی عقائد کے اثبات سے متعلق ہیں۔ سید حسین نصر بھی ایسے ہی ایک مذہبی مفکر ہیں جو معذرت خواہانہ تاویلیں پیش کرتا ہے۔ ان کی ایک کتاب میری نظر سے گزری ہے جس کا نام ہے "جدید دنیا میں روایتی اسلام". ان کی دیگر کتابیں انٹرنیٹ پر انگریزی میں دستیاب ہیں، اور ان کے ٹائیٹل سے ہی معلوم ہو جاتا ہے کہ ان کی معذرتخواہی کا کیا معیار ہے:
Islam in the Modern World: Challenged by the West, Threatened by Fundamentalism, Keeping Faith with Tradition
اس تصور میں خود کتنا ظرف ہے کہ "اسلام کو مغرب نے چیلنج کیا؟" اس قسم کا ٹائیٹل لگانا علمی اور تہذیبی اخلاق کا کیسا مظاہرہ ہے، اس کا اندازہ آپ خود کریں۔
احمد خلیل: " لیکن سائنس میں پیش قدمی کے معنی آپ کو معلوم ہیں"
مغرب میں ماضی اور حال کے بہت سے مشہور سائنسدان ہیں جو مذھبی اعتقاد رکھنے کے باوجود( اگرچہ ان کا اعتقاد اکثر روایتی نہیں ہوتا) سائنس میں پیش قدمی کرتے رہے اور اب بھی کر رہے ہیں۔ ہماری فیلڈ کے ایک مشہور سائنسدان فرانسس کولن جو " ہیومن جینوم پراجیکٹ " کے ھیڈ بھی رہے، وہ الحاد سے مذھب کی طرف آئے  ایک کتاب بھی لکھی"The Language of God: A Scientist present Evidence for Belief"۔
گزارش یہ ہے کہ اگر مذھب نے کائنات میں تجسس کرنے پر کوئی قدغن لگائی ہے یا کچھ کائناتی معلومات کو بھی عقیدے کا حصہ بنا لیا ہے تو یہ بات درست مانی جا سکتی ہے کہ ایک مذھبی عقائد والا شخص سائنس کی راہ میں پیش قدمی نہیں کر سکتا ، اور اگر کرے گا تو عقیدے سے ہاتھ دھو بیٹھے گا۔ باجود اس کے کے میں مذھبی آدمی نہیں ہوں قرآن کا مطالعہ مجھے یہ بتاتا ہے کہ قرآن نے ایسے کسی عقیدے پر ایمان لانے کو نہیں کہا جس کا تعلق کائناتی امور سے ہو۔ اس لئے ایک مذھبی شخص اگر سائنس کی راہ میں آگے بڑھنا چاہتا ہے تو مجھے اس میں کوئی خاص رکاوٹ نظر نہیں آتی۔
طارق صدیقی: احمد خلیل صاحب،
آپ نے ہیومین جینوم پروجیکٹ کے ہیڈ فرانسس کولن جو کا ذکر کیا ہے۔ لیکن اس سے میرے ہی قائم کردہ تصور کو تقویت ملتی ہے۔ وہ پہلے ملحد تھے، پھر مومن ہوئے، ظاہر ہے انہوں نے غور و فکر کیا اور اپنا نظریہ بدل لیا۔ اپنی سمت بدل لی۔ ان کے ہاں فکری تغیرات واقع ہوئے۔ اور یہی ثبوت ان کے فکر و تحقیق میں پختگی کا ہے، گو ان کے نتائج صحیح ہوں یا غلط۔
یہاں ایک اہم نکتہ کی طرف توجہ ضروری ہے، وہ یہ ہے کہ ایک سائنسداں جو اپنے کو مذہبی اور خدا پرست کہتا ہے کیا وہ ایسا اپنی روایت کے اصولوں سے بندھ کر کہتا ہے؟ یا اس کی مذہبی روایت میں جس کتاب کو مقدس مانا جاتا ہے، کیا اس کو وہ حرف آخر سمجھتا ہے اور جو تحقیق و رسرچ وہ پیش کرتا ہے وہ اس کے خدا کے فرمودات سے ہم آہنگ ہے؟ ان سوالوں کا مختصر جواب بھی آپ نے اپنے تبصرے میں دے دیا ہے کہ وہ اپنی روایت سے اکثر ہٹے ہوئے لوگ ہیں۔
میں اس نکتے کو شاید اب تک تفصیل سے کہیں نہیں لکھ سکا تھا کہ عقائد میں جتنے بھی انحرافات، یعنی عقائد کی جتنی بھی شکلیں ممکن ہیں، ان میں سے ہر ایک کا قائل یقیناً سائنسداں بن سکتا ہے بشرطیکہ وہ اپنے دعوے کو اپنی مذہبی کتاب سے نہ ثابت کرنے لگے کہ فلاں کتاب میں ایسا لکھا ہے اور یہی میرے سائنسی دعوے کا کافی ثبوت ہے۔
نظریہ قائم کرنا تو تحقیق کے لیے ناگزیر ہے۔ اس میں مذہبی یا غیرمذہبی عقیدہ کی تفریق نہیں ہے، مثلاً یہ کہنا درست نہیں کہ شیعہ/ سنی عقیدہ رکھنے والا سائنسداں نہیں بن سکتا۔  مسئلہ اس کا ہے ہی نہیں کہ آپ بیخدا/ باخدا/ مذہبی/ غیر مذہبی ہیں، مسئلہ یہ ہے کہ فلسفہ و سائنس اصلاً غور و فکر کا معاملہ ہے۔ یہاں اس کے بغیر چارہ نہیں۔ اور جب آپ کسی  مسئلے پر سوچیں گے تو آپ سے غلطیوں کا صدور ہو گا اس حال میں کہ آپ کو اپنی غلطیوں کی خبر نہ ہوگی، اور آپ اپنی غلطیوں کو صحیح ثابت کرتے رہیں گے۔ لیکن مذہبی کتب اس کی اجازت نہیں دیتی ہیں کہ آپ عقائد میں غلطیاں کریں۔ مثلاً قرآن آپ کو یہ اجازت نہیں دیتا کہ آپ خدا تعالی کے متعلق یہ فلسفیانہ عقیدہ رکھیں کہ اس کو جزئیات کا علم نہیں ہے۔ آپ ارسطو کا عقیدہ خدا کے متعلق پڑھیں اور پھر آیت الکرسی پڑھیں، دونوں کا بنیادی فرق آپ کو معلوم ہو جائے گا۔ ارسطو کے خدا کو جزئیات کا علم نہیں ہے کیونکہ ارسطو مانتا ہے کہ خدا میں تغیر ممکن نہیں، وہ ازلی و ابدی، لافانی اور غیرمتغیر ہے۔ اور اگر خدا جزئیات کا علم رکھنے لگے تو اس کے سبب وہ متغیر ہو جائے گا۔ یہ خدا کا ایک منطقی تصور ہے جس تک فلسفی خود اپنے غور و فکر سے پہنچا ہے اور سامی مذاہب کے خدا نے اس قسم کے عقیدے پر کوئی سند نازل نہیں فرمائی۔
میں اپنے اس مراسلے میں عالمِ اسلام کے حوالے سے کہہ چکا ہوں کہ یہاں بھی فلسفہ اور سائنس میں ترقی فکری و عقائدی انحرافات کے سبب ہی ممکن ہوئی، اس سلسلے میں بعض اسلامی فلسفیوں کا نام بھی میں نے لیا ہے اور ان کے منحرفانہ افکار کا ذکر بھی کیا ہے۔ یہ سب لوگ کسی نہ کسی درجے میں مذہبی تھے لیکن صحیح العقیدہ مذہبی نہیں تھے۔ آئن اسٹائن سے کسی نے پوچھا کہ آپ خدا کو مانتے ہیں؟ تو اس نے جواب دیا کہ ہاں، مانتا ہوں لیکن لائبنیز کے خدا کو۔ اور لائبنیز کے متعلق مشہور ہے کہ وہ ملحد تھا۔ تو کسی نہ کسی مذہبی یا فلسفیانہ عقیدے کے ساتھ ایک شخص سائنس میں پیش قدمی ضرور کر سکتا ہے لیکن یہ اصرار کرنا  کہ صرف اور محض اسی ایک عقیدے کو مان کر، یا کسی خاص مذہبی/ فلسفیانہ کتاب کی رو سے سائنس میں پیش قدمی کرو، دراصل پوری سائنسی روایت کے لیے تباہ کن ہے۔ نہ صرف سائنسی روایت بلکہ تمام تر علمی، تہذیبی اور مذہبی روایت کے لیے۔ عالمِ اسلام میں یہی اصرار کیا گیا اور نتیجہ سب کے سامنے ہے۔ جب تک اختلاف اور انحراف نہیں ہوگا، غور و فکر کا راستہ نہیں کھلے گا، اور عقیدہ کا جمود پوری قوم کو لے ڈوبے گا۔
یہاں بطور آگاہی کے ایک بات عرض کر دوں کے اختلاف میں ہر قسم کے اصولی اختلاف کی آزادی شامل یے، میں محض سطحی اور فروعی اختلاف کی بات نہیں کہہ رہا ہوں جس کو برداشت کرنے کا ہمارے ہاں غلغلہ مچا ہوا ہے۔ اصولی اور بنیادی اختلاف ہی سے علم کی ترقی ممکن ہے۔
(اگلا تبصرہ)
ایک شخص کسی مذہبی کلمہ پر جب ایمان لاتا ہے تو اب اس کلمہ کا دائرہ اثر جہاں تک ہوگا، وہاں تک اس کا تجسس مر جائے گا۔ فرض کیجیے آپ اس مذہبی جملے پر ایمان لے آئے کہ "خدا موجود ہے اور اسی نے یہ سب کچھ لفظِ کن کہہ کر پیدا کیا ہے" تو اب اس معاملے میں آپ کا تجسس مر جائے گا کہ کائنات کو کس نے اور کیسے پیدا کیا؟ یہ گویا خدا نہ ہوا کلپ ورکش ہو گیا کہ اس کے نیچے جو چاہو تصور کرو، وہ چیز آپ کو مل جائے گی۔ پلک جھپکتے میں تصور کیا نہیں کہ چیز بن کر تیار ہو گئی۔ پھر ایسی کسی بزرگ و برتر ہستی کے لیے اعلی اور ادنی مظاہر کو پیدا فرمانا بائیں ہاتھ کا کھیل ہوگا۔ اس نے جیسا چاہا ویسا تصور کیا، اور ایک چیز بنا دی۔ اعلی کہا تو اعلی بن گئی اور ادنی کہا تو ادنی۔ ایسا مذہبی شخص جب تحقیق کی دنیا میں قدم رکھے گا تو وہ جانتا ہوگا کہ اس کی تحقیقی کاوش کا جو نتیجہ نکلے گا، وہ خدا کو پہلے ہی معلوم ہے۔ پس اس کو فرسٹ ہینڈ تحقیق کی لذت تو نہیں مل سکتی کیونکہ وہ جانتا ہے کہ اس کے سوا ایک اور ہستی کو اس سے زیادہ علم ہے۔
پھر یہ کہ  سائنسداں کی تحقیق ناکام بھی ہوتی ہے، اور کامیاب بھی۔ کامیابی کی صورت میں وہ سمجھے گا کہ خدا نے اس کو صحیح راہ پر لگایا اور ناکامی کی صورت میں وہ اس کے برعکس سوچے گا یا اپنی کمی پر توجہ دے گا۔ یہ ایسی ہی بات ہے کہ ہم ٹافی کو چھپا دیں اور بچے سے کہیں کہ ٹافی کھوجو۔ اور ہم بچے کو کچھ کچھ نشانیاں بتاتے رہیں اور بچہ اگر ٹافی نہ کھوج پائے تو اس کو ناکام قرار دے دیں۔ یہ امتحان لینے جیسا ہے۔ پاس فیل کرنے والا معاملہ ہے۔ امتحان اور آزمائش کا یہ پورا چکر سائنسی تحقیق کو دوسرے درجے کی چیز بنا دیتا ہے۔ 
فرض کیجیے بچہ اگر ٹافی نہ کھوج پائے، پریشان اور ہلکان ہوتا رہے، اور تب بھی ہم اس کو ٹافی نہ دیں کیونکہ اس نے صحیح سمت میں تحقیق نہ کی تو یہ انسانی اخلاق سے فروتر بات ہے۔ سائنسداں کا یہی معاملہ ہے کہ وہ ہستی کے اسرار کو جاننا چاہتا ہے لیکن پے در پے شکست کھاتا چلا جاتا ہے اور خدا اس کو کبھی یہ نہیں بتاتا کہ آخر اس نے دنیا کو کیوں پیدا کیا ہے؟
دیکھا جائے تو اسلام میں خدا کا جو تصور ہے اس کے اندر ہی تجسس کرنے کی بیپناہ گنجائش ہے۔ بھئی جب آپ کو نہ نیند آتی ہے نہ اونگھ لگتی ہے، نہ ہماری عبادتوں کی کوئی واقعی ضرورت ہے تو آپ نے یہ سارا کھیل رچا ہی کیوں؟ بس ہم کو آزمانے کے لیے؟ یہ آزمائش آپ اپنے ہی پاس سے کر لیتے۔ ہم کو پیدا کر کے مارنے اور مار کر پھر جلانے اور جنت و جہنم کی تقسیم فرمانے پر مبنی مسرت و اذیت کا یہ پورا سلسلہ قائم کرنے کی کیا حکمت تھی؟ تو ایسے سوچنے پر فوراً ہی تنبیہ آ جاتی ہے کہ سر کے بل گھسیٹتے ہوئے جہنم میں ڈال دیا جائے گا۔ مذہب میں انسان کو ڈر ہے۔ اور یہ ڈر شاہراہِ مستقیم پر سوچتے وقت بھٹک کر راستے سے نیچے گر کر تباہ و برباد ہونے کے خطرے کا ڈر ہے۔ شاہراہِ مستقیم پر چوکے نہیں کہ گڈھے میں گرے۔ اس ڈر کے ساتھ غور و فکر کا عمل دور اور دیر تک ممکن نہیں۔ اور یہ ڈر زندگی کے ہر شعبے میں ہے۔ ابن الہیثم نے پہلے پہلے کیمرہ بنایا لیکن اسے ترقی دے کر جدید کیمرہ نہ بنایا جا سکا، وجہہ کیا رہی ہوگی؟ کہ ذی روح کی مصوری حرام ہے اور کیمرہ بن جانے پر لوگ اس کا ارتکاب نہ کر لیں۔ پچھلے ایک تبصرے میں سید حسین نصر کا ذکر آیا ہے، ان کو صاف اقرار ہے کہ عالمِ اسلام میں ذی روح کی مصوری کیوں ممنوع ہوئی:
It might at first appear as paradoxical that despite this “realism,” Islamic art has always avoided naturalism, that is, simply copying the external forms of nature, as we find in seventeenth- and eighteenth-century European art. Traditional Muslims have always considered creating an animal or human form in painting or sculpture tantamount to attempting to copy the Divine creative act without, however, being able to breathe life into it, which is a sacrilegious act, based on a prophetic hadith that confirms the validity of this attitude. Islamic art is in fact close to nature and her rhythms without being naturalistic. It is concerned with the modes of operation of nature in both her outward and inward aspects rather than simple emulation of its external forms. The fact that Islamic civilization, in contrast to the two great civilizations situated east and west of it, that is, Hindu and Buddhist India in the east and the Christian West, did not develop the art of sculpture to any appreciable extent has everything to do with the spiritual and intellectual principles of its worldview.
(Islam in the Modern World)
ظاہر ہے اسلامی تہذیب میں کیمرہ کو ترقی نہیں دی جا سکتی تھی اور اس کو مغرب میں ہی ترقی پانا تھا۔ اسی ایک مثال سے معلوم ہو جاتا ہے کہ مذہبی عقیدہ اور اس سے متعلق احکام کا دائرہ اثر جہاں تک ہوگا، تجسس کی موت بھی وہاں تک واقع ہوگی، اور وہاں تک ٹکنالوجی بھی اس کا شکار بنے گی۔ اب جتنا کچھ تجسس بچ گیا، اس کے ساتھ سائنسداں بننا ناممکن تو نہیں ہے، لیکن اس صحیح العقیدگی کے ساتھ کوئی سائنسی اور تکنیکی کلچر پیدا ہو جائے، خود عالمِ اسلام میں اس کی مثال نہیں ملتی۔ وہاں ہر بڑا فلسفی کچھ نہ کچھ عقائدی انحرافات پر مجبور ہوا ہے۔ سوچنے سمجھنے والے ذہن سے یہ توقع کرنا فضول ہے کہ وہ صحیح العقیدہ رہے گا۔
احمد خلیل: آپ کی اکثر باتوں سے متفق ہوں۔ میرے لئے زیادہ دلچسپی کا سامان اس چیزمیں ہے کہ بہت سے سائنسدان ایسے بھی رہے ہیں جن کی تعلیم چرچ کی تھی لیکن پھر بھی وہ سائنس میں کئی کارہائے نمایاں سر انجام دے گئے۔ مینڈل ، ڈارون جیسے لوگ چرچ سے ہی آئے۔ ڈارون کے متعلق ہمیں معلوم ہے کہ سائنس کے رستے پر جا کر اس کے عقائد بھی کافی حد تک بدل گئے۔ اسی طرح ہم اگر بیکن جیسے لوگوں کو دیکھیں تو معلوم ہوتا ہے کہ وہ آخری وقت تک کسی نا کسی طرح اپنے مذھب سے وابستہ رہے۔ دیکھنے کی چیز یہ ہے کہ مغرب میں مذھبی ماحول سے آنے والے بہت سے سائنسدان گزرے ہیں ، جبکہ ہمارے ہاں چاہیں مذھبی ہوں یا غیر مذھبی ، کوئی بھی بڑے نام سامنے نا آ سکے۔ اس کی وجوہات آپ کے نزدیک کیا ہیں؟
طارق صدیقی:  احمد خلیل صاحب،
میں ایک اور مثال سے تجسس کی موت کا سبب واضح کرتا ہوں۔ ہم جانتے ہیں کہ سامی مذاہب (یہودیت، عیسائیت اور اسلام) میں نسلِ انسانی کی ابتدا حضرتِ آدم و حوا علیہ السلام سے ہوئی۔ اب اگر چارلس ڈارون کا اس روایت پر بختہ ایمان ہوتا تو کیا وہ انسان نما بندر سے انسانی نسل کی ابتدا کا نظریہ قائم کر سکتا؟ ظاہر بات ہے کہ جب تک آپ کسی بات پر پختہ یقین رکھیں گے، تب تک اس کے برعکس باتوں کی کھوج میں نہیں پڑ سکتے۔ یہ ایسی صریحی اور ظاہر و باہر حقیقت ہے کہ ایک سلیم العقل شخص اس کا انکار نہیں کر سکتا۔ مسئلہ اس کا نہیں ہے کہ قصہ آدم و حوا یا نظریہ ارتقا بجائے خود صحیح ہے یا نہیں، بلکہ دقت یہ ہے کہ کسی نظریے کے برعکس نظریہ اگر علی الاعلان قائم نہ کرنے دیا جائے تو سائنس اور ٹکنالوجی ترقی نہیں کر سکتی۔ اس سے کون انکار کر سکتا ہے کہ جدید حیاتیات کے ارتقا میں چارلس ڈارون کا اہم کردار رہا ہے اور انسانی علوم کی تقریباً تمام شاخیں اس سے متاثر ہوئی ہیں۔ اس کو ترقی کہیں گے یا تنزل؟
ہم آج بھی دیکھ لیں کہ ہمارے ہاں کے مذہبی لوگ نظریہ ارتقا  کے نام پر کس قدر ناک بھوں سکوڑتے ہیں، یہ صرف اس لیے کہ ان کی مذہبی کتب میں اس کے برعکس کہانی درج ہے۔ کیا ایسے مذہبی لوگ نظریہ ارتقا کی سمت میں کچھ سوچ سکتے ہیں؟
پس، مذہب پر سائنسی جہت میں ایمان لانے کا مفہوم ہی یہ ہے کہ اب آپ نے سائنسی طرزِ فکر کو مذہب کے تابع کر دیا، اور اب اس سمت میں غور و فکر کا باب بند ہو گیا جس سمت میں سوچنے سے مذہب نے منع کیا۔ اب اگر دنیا میں ہر شخص ایسا ہی کرنے لگے تب تو سائنس اور سائنسی طرزِ فکر کا خدا ہی حافظ ہے  لیکن دنیا ایسی نہیں ہے۔ دنیا میں افکار و تصورات کی بوقلمونی ہے، اس میں رنگارنگی ہے، اس میں ہر قسم کے لوگ پائے جاتے ہیں، مذہبی بھی اور غیرمذہبی بھی۔ بیخدا بھی باخدا بھی، اور لاادریت پسند بھی۔ ان سب کی مشترکہ کوششوں سے سائنس کی تشکیل ہوتی ہے لیکن اس کے معنی یہ نہیں کہ سائنس کسی ایک نظریے یا مذہب کے تابع ہو کر رہے گی۔ اس کے اصول ایسے ہوں گے جس کو سب تسلیم کر سکتے ہوں۔ اس لیے سائنس معروضی ہے۔ اس لیے اس میں عقل اور حواس کی کارفرمائی ہے، اور اسی لیے اس میں اتنی آفاقیت پائی جاتی ہے۔ جو اس آفاقیت سے جدا ہوگا وہ خود اپنا ہی نقصان کرے گا۔
آپ کے پچھلے تبصرے کے جواب میں:
ہمارے ہاں لامذہبیت یا بیخدائیت کی لہر اتنی شدید نہیں ہوئی۔ بہ مشکل ہی ہم کسی بڑے لامذہبی مفکر کا نام لے سکتے ہیں جو سر سید، شبلی، فراہی، مودودی اور غامدی کی ٹکر کا ہو۔ ہمارے ہاں جتنے لامذہب اور دہریے پیدا ہوئے، انہوں نے اپنے مذہب گزیدہ معاشرے میں کوئی بہت صحیح حکمتِ عملی اختیار نہیں کی۔ بیشتر تو اول فول بکتے رہے، مذہب کو برا بھلا کہتے رہے، اور ادھر اردو ملاحدہ نے تو حد ہی کر دی، وہ سیدھے مغلظات بکتے ہیں۔ تو اب یوں سمجھیے کہ اردو میں بالکل غلیظ قسم کے الحاد کی گرم بازاری جو ہے اس کا خاتمہ یقینی ہے۔ ایک دفعہ مجھے ان جہلا نے کسی گروپ میں ایڈ کر دیا، اور میں نے کسی پوسٹ پر ایک لنک پیسٹ کر دیا کہ دیکھو اردو ملحدو، تم کہاں کہاں سے میٹر چرا کر لاتے ہو اور اپنے بدنام زمانہ گروپ کا کاروبار چلاتے ہو۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ انہوں نے مجھے گروپ سے اسی طرح خارج کر دیا جس طرح تکفیر کی جاتی ہے۔ اس درجہ گستاخانہ الحاد سے میں خدا کی پناہ مانگتا ہوں۔ ان کے ہاں کوئی تعمیری طرزِ فکر نہیں پایا جاتا۔
الحاد کا ایک طریقہ، سلیقہ اور سنجیدگی ہے جو معاصر اردو ملاحدہ میں شاذ و نادر ہی پیدا ہوئی ہے۔ ایک نام مجھے اس سلسلے میں حضرت حسن عسکری مجازی کا یاد آتا ہے لیکن وہ بھی اس پائے کے ملحد نہیں ہیں۔
مجھے اس میں بھی شک نہیں کہ گستاخانہ الحاد نتیجہ ہے مذہبی دہشت گردی کا۔
لیکن جس چیز کو غور و فکر کہتے ہیں اس کا تعلق محض حالاتِ حاضرہ کے مفسدات سے نہیں ہے۔ غور و فکر کا عمل پوری زندگی کے ہر ایک مظہر کے مشاہدے اور فلسفہ، سائنس، مذہب، تصوف، ادب، شاعری اور تاریخ کے مطالعےسے عبارت ہے۔ ان بیچارے اردو ملاحدہ کے ہاں ان سب چیزوں کا فقدان تھا۔ چنانچہ ان کی تحریک لایعنیت کی نذر ہو کر رہ گئی۔
یہ تو ہوا اس بات کا جواب کہ لامذہبی مفکروں میں کوئی بڑا نام کیوں نہ آ سکا۔
اب اس سوال کا جواب کہ مذہبی مفکروں میں کوئی بڑا نام کیوں نہ آ سکا؟ تو میں سمجھتا ہوں کہ مذہبی مفکروں میں سر سید، شبلی اور فراہی اور مودودی جیسے رجل عظیم تو ہیں ہی۔ ان کے علمی کارناموں کو دیکھیں۔ لیکن ان کے اثرات انسانی و سائنسی علوم کے مرکزی دھارے پر نہ پڑ سکے۔ اور مغرب و مشرق کے سائنسی و سماجی علوم کے اداروں میں ان کے تصورات نہ چل سکے۔ وجہہ ظاہر ہے کہ ان کے افکار ایسے تھے ہی نہیں کہ دنیائے علم و فکر ان سے کسبِ فیض کر سکتی، جس طرح ڈیسکارٹس، ہیگل، کانٹ، ڈارون، مارکس، فرائیڈ، ہوسرل، ہائیڈیگر، لاکاں، فوکو اور دریدا ایسے عباقرہ روزگار شخصیات سے دنیا کے مرکزی علمی دھارے نے کسبِ فیض کیا اور ان کی تقلید کی۔ حالانکہ ہمارے ان مذہبی مفکروں کی صلاحیت میں کوئی کمی نہ تھی لیکن وہ جو باتیں کہتے تھے وہ مذہب کے حوالے سے کہتے تھے۔ اور ان کا خطاب مسلمان قوم سے تھا۔ اور جو باتیں وہ کہتے تھے، اس میں ایک عیسائی، ایک ہندو، ایک بودھ، اور ایک سکھ کے لیے کیا پیغام اور کیا درس ہو سکتا تھا سوائے اس کے کہ آو اور اسلام قبول کر لو؟ اور اسلام بھی کون سا؟ سنی والا اسلام! تو ظاہر ہے ان کی بات کس کو پسند آ سکتی تھی؟ اقبال بہت بڑے مفکر تھے لیکن ان کا خطاب مسلمانوں سے تھا:
سبق پھر پڑھ صداقت کا شجاعت کا عدالت کا
لیا جائے گا تجھ سے کام دنیا کی امامت کا
اور دیگر قوموں کو اقبال کھلے عام برا کہتے تھے:
وضع میں تم ہو نصاری تو تمدن میں ہنود!
تو اقبال کا روئے سخن جن کی طرف تھا وہی ان سے متاثر ہوئے، اور دوسری قوموں نے ان کو بجا طور پر مسلمانوں کے مفکر کے طور پر تسلیم کیا۔ کوئی مغربی مفکر اپنی چیزوں کو اپنے مذہب کے حوالے سے نہیں پیش کرتا۔ اس لیے لوگ ان کی بات سنجیدگی سے سنتے ہیں اور اگر اچھی، معقول اور کارآمد نظر آتی ہیں تو قبول بھی کرتے ہیں۔ اور یہ نہیں دیکھتے کہ ژاک دریدا کس مذہب سے تعلق رکھتا ہے۔ اور دریدا نے بھی اپنی باتوں کو خالص عقل و خرد پر مبنی دلائل کے ساتھ رکھا۔
تو ہمارے بڑوں کا روئے سخن ایک بڑی رکاوٹ رہا ہے۔
ان کا روئے سخن صرف مسلمانوں کی طرف کیوں تھا؟ اس لیے کہ ان کا موضوعِ سخن وہی تھا جس سے صرف مسلمانوں کو ہی دلچسپی ہو سکتی تھی۔
اور ان کا موضوعِ سخن کیا تھا؟ قرآن کی جدید ترین عصری تفسیر کرنا اور "اسلام ایک مکمل نظامِ حیات" کے نعرے کو پورے زور کے ساتھ پیش کرناتو ۔ غرض جب موضوعِ سخن ہی ایک قوم سے متعلق ہو تو اس کا روئے سخن بھی اسی قوم کی طرف ہوگا۔
تیسری بات یہ کہ ان کے سخن کا مقصد کیا تھا؟ صرف یہ کس طرح سوئی ہوئی قوم کو جگایا جائے اور اس کے تنِ مردہ میں نئی روح پھونکی جائے۔
تو جب آپ کے خطاب کا رخ، اس کا موضوع اور مضمون، اس کے مشتملات، اور اس کے مقاصد صرف ایک ہی قوم کے ساتھ مخصوص ہوں اور پھر آپ یہ توقع کریں کہ دنیا کی دوسری قومیں اس کی پیروی کریں گی یہ ایسی ہی بات ہے جیسے آپ امرود لگائیں اور آم کی توقع کریں!. تو جنابِ من، آم کے لیے آم لگانا پڑتا ہے۔
(جاری)
یہ سوال کہ عالمِ اسلام میں کوئی بڑا نام کیوں پیدا نہیں ہوا، بہت اہم ہے اور ایک دو نشتوں میں اس گہرے سوال کو نہ سمجھا جا سکتا ہے اور نہ اس کا جواب دیا جا سکتا ہے۔
مختصراً، اوپر میں جتنا کہہ چکا ہوں اس کے ساتھ کچھ نکات اور جوڑنے کی کوشش کروں گا۔
1.اس سلسلے میں یہ دیکھنا ضروری ہے کہ عالمِ اسلام کے دانشور، مذہبی ہوں یا غیر مذہبی، کن سرگرمیوں میں لگے رہے ہیں؟ تو اس کا جواب ہے کہ ان میں سے بعض مذہب کی جدید تعبیرات میں لگے رہے، بعض مذہب کے روایتی ڈھانچے کو برقرار رکھنے میں لگے رہے۔ موٹا موٹی یہی دو دانشورانہ سرگرمیاں رہیں۔ اس کے علاوہ جو گنتی کے کچھ لامذہب/ ملحد مفکرین برصغیر میں پیدا ہوئے انہوں نے مغربی حکما و فلاسفہ سے زیادہ بڑا کارنامہ انجام نہیں دیا تاکہ مغرب و مشرق میں ان کی پیروی اسی طرح کی جاتی جس طرح خود مغربی فلسفیوں اور سائنسدانوں کی ہوتی ہے۔
2. ہماری ساری دانشوری مذہب کے ارد گرد گھومتی رہی ہے، یا اس سے پیچھا چھڑانے کی غرض سے کی گئی تنقید و تحلیل پر مبنی رہی ہے۔ اور اسی سبب سے زندگی اور کائنات سے متعلق کوئی بڑی، تاریخ ساز اوریجنل فکر کی پیدائش نہ ہو سکی۔ آپ کا حریف جتنا طاقتور ہوگا ہوگا، اسی کی مناسبت سے آپ کے اندر قوتِ مدافعت بھی پیدا ہوگی۔ روایتی مذہب فکری اعتبار سے اتنا بڑا اور گہرا حریف نہیں تھا، چنانچہ اس کے خلاف کھڑے ہونے والے الحادی نظریات بھی اتنے طاقتور نہ ہو سکے کہ وہ عالمِ اسلام کی سرحدوں سے باہر نفوذ کر سکتے اور مغرب کو چمتکرت کر دیتے۔
3. غرض ہمارے ہاں ایک نئے زاویے سے مسائلِ زندگی اور مسائلِ وجود کو نہیں دیکھا جا سکا۔ اس کا کوئی بہت بیچین کر دینے والا شوق ہی ہمارے ہاں پیدا نہ ہو سکا۔ اور اس کا سبب یہ تھا کہ ہم عرصہ تک دنیا میں ہر لحظہ جاری علمی و فکری انقلابات سے کٹے ہوئے رہے۔ فکری و علمی انقلابات کا سلسلہ کبھی رکتا نہیں ہے اور نہ کوئی ڈارک ایج آتا ہے، بس انقلابات کے مسکن بدل جاتے ہیں اور ایک تہذیب سے علمی امامت دوسری تہذیب کو منتقل ہو جاتی ہے۔ اب آپ لاکھ کہتے رہیں کہ بھائی پہلے ہم امام تھے، دستار ہمارے سر پر رکھو، تو یہ قرولی والے میاں خوجی کا سا رویہ ہوگا۔
4. پھر یہ کہ جن لوگوں میں نئے نقطہ نظر سے آزادانہ سوچنے سمجھنے کی صلاحیت تھی، انہیں ہم نے قابلِ توجہ نہ سمجھا، ان کی توقیر نہ کی، یا خاموشی کی سیاست سے کام لے کر انہیں دفنا دیا۔
5. پھر یہ کہ ہمارے اوپر نئی چیزوں اور نئی قدروں کا ایک خوف بھی مسلط رہا جس کے متعلق اقبال کہہ گزرے ہیں:
آئینِ نو سے ڈرنا، طرزِ کہن پہ اڑنا
منزل یہی کٹھن ہیں قوموں کی زندگی میں
لیکن جب خود اقبال طرزِ کہن کے اسیر بنے ریے تو اس کو کیا کہیے۔ آئینِ نو اور طرزِ کہن کو نہ خود اقبال سمجھے اور نہ ان کے ماننے والے۔
سید ظہیر عباس:"گستاخانہ الحاد مذہبی دہشت گردی کا سبب ہے"کیا درست تجزیہ ہے. آج کے نام نہاد ملحدین سے مجھے بھی یہی شکوہ ہے. حسن عسکری مجازی پر کچھ روشنی ڈالیں،
طارق صدیقی: یہ معاملہ یوں پیش آیا کہ پہلے مذہبی فکر سے انحراف واقع ہوتا تھا، اس کے سبب مذہبی علما کی طرف سے منحرفین کی تکفیر کی جاتی تھی۔ لیکن انحراف تو ہمہ گیر تھا۔ یہ شاعری میں بھی تھا۔ میر، غالب، اقبال سب کے ہاں مذہبی ذہنیت پر طنز موجود یے۔ پورا مسلم معاشرہ بہت سی جدید اقدار کو اپنا چکا تھا۔ لیکن جب اسلام کو تحریک کی شکل میں سامنے لایا گیا اور ملحدوں کے خلاف باقاعدہ ایک فکری مہم چلائی گئی، ان کا جینا مشکل کر دیا گیا، یہاں تک کہ ان کا مقاطعہ ہوا تو اس کے خلاف گستاخانہ تحریریں لکھی گئیں۔ پھر آگے چل کر رفتہ رفتہ اس کے جواب میں مذہبی دہشت گردانہ کارروائیاں شروع ہو گئیں۔ پھر آیا انٹرنیٹ اور فیس بک کا دور تو اردو ملحدوں کی ایک گستاخ نسل اسی مذہبی دہشت گردی کے ردعمل میں سامنے آئی۔
جس چیز کو الحاد کہتے ہیں، سیدھے راستے کو چھوڑ کر ٹیڑھا راستہ اختیار کرنا، وہ تو سر سید کے ہاں بھی ہے۔ خود اقبال کے افکار میں بھی خاصا الحاد موجود ہے، اور مذہبی طبقے نے ان کی مخالفت بھی کی تھی۔
غرض میں کہنا یہ چاہتا تھا کہ گستاخ فیس بکی ملاحدہ مذہبی تکفیر و اخراج اور مذہبی دہشت گردی پر مبنی حالات کے سبب ظہور میں آئے۔ ورنہ پہلے کے ملاحدہ تو بڑے سنجیدہ اور متین لوگ تھے اور بڑے عمدہ طریقے سے اپنے قابلِ قدر خیالات کو بیان فرماتے تھے۔ اس کی ایک مثال حضرت مرزا عسکری علی خاں مجازی ہیں۔ حضرت مجازی نوابانِ اودھ کے خاندان سے تھے، 1906 میں لکھنئو میں پیدا ہوئے۔ میری نظر سے ان کی ایک کتاب "تجدیدِ عمل: مذہب کا ایک جدید آئیڈیل" گزری ہے جسے عالمگیر الیکٹرک پریس، لاہور نے 1933 میں شائع کیا ہے۔ کتاب بڑی عمدہ ہے اور اس میں انتہائی اعلی و ارفع خیالات پیش کیے گئے ہیں۔
یہ اسٹیٹس پوسٹ 11 جون 2017 کو فیس بک پر لکھا گیا۔

تبصرے

ابوہاشم نے کہا…
اس ساری بحث میں مذہب ، سائنس اور تجسس کے حوالے سے ایک بات نظر انداز کی جارہی ہے معلوم نہیں جان بوجھ کر ہے یا آپ لوگوں کی اس طرف نگاہ ہی نہیں گئی وہ ہے کیپٹل ازم ۔جدید سائنسی ایجادات کے پیجھے انسانی تجسس سے ذیادہ سرمایہ دارانہ حرص اور لالچ کارفرما ہے۔ سائنسی علم کا تو پورا فریم ورک ہی ”خرید و فروخت” (Buying and selling) کی ذہنیت کا اظہار ھے، یہاں وہی علم تخلیق کیا جاتا ھے جسے نفع پر بیچنا ممکن ھو اور یہاں وہ علم خریدا جاتا ھے جسے حصول لذت کیلئے استعمال کرنا ممکن ھو۔
چنانچہ میڈیکل سائنس کی فیلڈ میں فارماسوٹیکل انڈسٹریز، ھسپتال، ڈاکٹرز، دوائیاں پیچنے والی کمپنیاں کس کس طرح اپنے اپنے ذاتی مفادات کیلئے کروڑوں انسانوں کی صحت سے کھیلتی ہیں وہ کسی سے مخفی نہیں، انجینیرنگ کے مختلف شعبوں میں کس کس طرح کرپشن کی جاتی ھے، جنگی ہتھیار بنانے والی کمپنیاں اپنے نفع کیلئے کس طرح حکومتی اداروں میں اثرو رسوخ استعمال کرکے انسانیت کش ہتھیار بیچتی ہیں، کس طرح سوشل سائنٹسٹ و این جی اوز اپنے مخصوص نظریاتی یا مادی مفادات کیلئے ”تحقیقاتی رپورٹوں” سے من مانے ”سائنسی نتائج” اخذ کرکے پالیسی ساز اداروں اور عالمی ڈونرز کو بیوقوف بناتی ہیں یہ سب باتیں کسی ایسے شخص سے مخفی نہیں جو سائنسی علوم اور جدید ادارتی صف بندیوں کی نوعیت سے آشنا ھے۔
رہی بات اسلام تجسس و تحقیق کی، سائنس کی تاریخ سے واقفیت رکھنے والے جانتے ہیں یہ اسلام ہی ہے جس نے آزادانہ تحقیق کو رواج دیا، پہلے سقراط و ارشمیدس کیساتھ کیا کیا ہوا۔ ان جیسے اور کئی کیسی کیسی پابندیوں میں رہے وہ سب کے سامنے ہے۔ اسلام نے توحید کے عقیدے کے ذریعے تقدیس کائنات اور اسکی چیزوں میں سے نکال کے ایک ذات تک محدود کردی اور انسانوں کو کھلی اجازت دے دی وہ جس میں چاہے تحقیق کریں ۔ بارہ سوسالہ اسلامی سائنس اسی کے تحت پھلی پھولی،یہاں کے سیاسی زوال کے بعد یہ شعور جب یورپ منتقل ہوا تو انہوں نے یہ چیز مذہب کی قربانی دے کے حاصل کی ۔۔ یہ ایک مفروضہ اور سطحی بات ہے کہ اسلامی دور میں سائنس معتزلہ اور ملحدین تک ہی محدود رہی ہے۔ معتزلہ اور جدت پسندوں نے ایجادات کم انتشار ذیادہ پیدا کیا ۔ اسلام کا سائنسی ورثہ ابن سینا ، ابوبکر رازی، فارابی اور ان جیسے چند لوگوں کا ہی دیا ہوا نہیں بلکہ اس میں جابر بن حیان ، ابن الہیثم ، البیرونی، الخوارزمی جیسے سینکڑوں سائنسدان ہیں جو دین پر رہتے ہوئے سائنس کی بنیادیں رکھ گئے ، اول ذکر کان نام تو اس لیے ذیادہ لیا گیا کہ یہ یونانی فلسفے سے مرعوبیت میں اپنے دور کے ایک بڑے انتشار کی وجہ بنے ۔ انہوں نے سائنس کیساتھ اسلامی مابعد الطبیعیات میں بھی یونانی فلسفے کو گھسانے کی کوشش کی ۔
کیا یہ فیس بک اور گوگل جس پر ہم آپ آئے دن مراسلات لکھتے ہیں سرمایہ داریت پر مبنی نہیں؟ کیا سوشل نیٹ ورکنگ ویب سائٹس بھی صارفیت پر مبنی کلچر کا حصہ نہیں؟
خریدنے اور بیچنے میں کیا برائی ہے؟ یہ تو بہت اچھی بات ہے. البتہ غلط طریقے سے خرید و فروخت نہین ہونی چاہیے. آپ کا یہ کہنا کہ ساری دنیا میں سائنسی و تکنیکی تحقیق کی بنیاد حرص و ہوس ہے, صورت واقعہ کی صحیح ترجمانی نہیں ہے. دنیا میں بیماریاں ہیں تو ان کا علاج بھی ڈھونڈا جائے گا اور ادویہ ساز کمپنیاں ان کی دوائیں بھی بنائیں گی. اور ان کی خرید و فروخت منافع کی بنیاد پر ہی ممکن ہوگی. اندھادھند منافع خوری ایک برائی ہے, اس کی اصلاح کی جائے.

آپ لکھتے ہیں:
"اسلام کا سائنسی ورثہ ابن سینا ، ابوبکر رازی، فارابی اور ان جیسے چند لوگوں کا ہی دیا ہوا نہیں بلکہ اس میں جابر بن حیان ، ابن الہیثم ، البیرونی، الخوارزمی جیسے سینکڑوں سائنسدان ہیں جو دین پر رہتے ہوئے سائنس کی بنیادیں رکھ گئے."
کیا آپ یہ کہنا چاہتے ہیں کہ جابر بن حیان ، ابن الہیثم ، البیرونی، الخوارزمی اور سیکڑوں مسلمان سائنسداں بڑے سچے اور پکے مسلمان تھے اور ان کے اسلامی عقائد میں کوئی انحراف واقع نہیں ہوا؟اور صحیح العقیدہ مذہبی طبقہ نے ان کے خلاف کوئی قدم نہیں اٹھایا؟

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

تحقیق کے مسائل

تحقیق ایک اہم علمی فریضہ ہے۔ تحقیق کے ذریعے ہم نامعلوم کا علم حاصل کرتے ہیں۔ غیر محسوس کو محسوس بناتے ہیں۔ جو باتیں پردہ ٔ غیب میں ہوتی ہیں، انہیں منصہ ٔ شہود پر لاتے ہیں تا کہ کسی امر میں یقینی علم ہم کو حاصل ہو، اور اس کی بنیاد پر مزید تحقیق جاری رکھی جا سکے۔تحقیق ایک مسلسل عمل ہے۔ موجودہ دور میں یہ ایک نتیجے تک پہنچنے سے زیادہ ایک طریقے ( تک پہنچنے) کا نام ہے۔نتیجہ خواہ کچھ ہو، موجودہ دور میں اس کے طریقہ ٔ کار یا منہاجیات کو صاف و شفاف بنانا فلسفیانہ طور پر زیادہ ضروری سمجھا جاتا ہے تاکہ زیادہ تر نتائج صحت کے ساتھ محسوسات کے دائرے میں حتی الامکان منتقل ہو سکیں۔ دائرہ تحقیق میں ایک مقدمہ کو نتیجہ میں بدلنے کے طریقے کی جس قدر اصلاح ہوتی جائے گی اسی قدر تحقیق معتبر مانی جائے گی۔ البتہ بعض اوقات یوں بھی ہوتا ہے کہ کسی تحقیق کا طریقہ صحیح نہیں ہو اور نتیجہ بالکل صحیح ہو۔ لیکن اس ناقابل حل مسئلے کے باوجود بہرحال طریقے میں حذف و اضافہ اور اصلاح و تصحیح کی ضرورت ہمیشہ باقی رہتی ہے۔ تحقیق کے عربی لفظ کا مفہوم حق کو ثابت کرنا یا حق کی طرف پھیرنا ہے۔ حق کے معنی سچ کے ہیں۔ مادہ حق سے...

قرآن اور بگ بینگ

ایک بہت طویل عرصے سے اہل اسلام کا مغرب زدہ طبقہ قرآن کی تصدیق جدید ترین سائنسی تحقیقات کی بنیاد پر کرنا چاہتا ہے. اس کی اصل دلیل یہ ہے کہ اگر قرآن خدا کی کتاب نہ ہوتی تو اس میں بیسویں صدی کے سائنسی انکشافات کا ذکر چودہ سو سال پہلے کیونکر ممکن تھا؟ اس سلسلے میں ایک بہت بڑی مثال بگ بینگ کی دی جاتی ہے اور قرآن کی اس آیت کو دلیل بنایا جاتا ہے: اَوَلَمْ يَرَ الَّذِيْنَ كَفَرُوْٓا اَنَّ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ كَانَتَا رَتْقًا فَفَتَقْنٰهُمَا ۭ وَجَعَلْنَا مِنَ الْمَاۗءِ كُلَّ شَيْءٍ حَيٍّ ۭ اَفَلَا يُؤْمِنُوْنَ کیا کافروں نے نہیں دیکھا کہ آسمان اور زمین دونوں ملے ہوئے تھے تو ہم نے جدا جدا کردیا۔ اور تمام جاندار چیزیں ہم نے پانی

مذہب و تصوف اور فلسفہ و سائنس کا منتہائے مقصود

     یہ کائنات نہ کوئی ڈیزائن ہے اور نہ اس کا کوئی ڈیزائنر۔ اور نہ یہ کائنات عدم ڈیزائن ہے جس کا ڈیزائنر معدوم ہے۔ یہ دونوں بیانات ناقص ہیں۔ ہم بحیثیت انسان بذریعہ حواس خارج میں جو کچھ دیکھتے ہیں وہ دراصل ہماری وجدان کی مشین اور ذہن ہی سے پروسیس ہو کر نکلتا ہے۔ اور وجدان کے اس جھروکے سے نظر آنے والی یہ کائنات ایک ایسی احدیّت کے طور پر ابھرتی ہے جس میں یہ ڈیزائن صرف ایک منظر ہے جس کی شناخت عدم ڈیزائن کے دوسرے منظر سے ہوتی ہے۔ اسی طرح اس کائنات میں منصوبہ بھی ایک منظر ہے جس کی شناخت عدمِ منصوبہ کے دوسرے منظر سے ہوتی ہے۔ کائنات میں چیزیں ایک دوسرے کے بالمقابل ہی شناخت ہوتی ہیں۔ اس لیے یہ کہنا کہ کائنات میں کوئی منصوبہ ہے اس لیے کوئی منصوبہ ساز ہونا چاہیے، یا کائنات بجائے خود کوئی ڈیزائن ہے اس لیے اس کا ڈیزائنر لازماً ہونا چاہیے ناقص خیال ہے۔ اسی طرح یہ کہنا کہ اس کائنات میں عدم ڈیزائن ہے اور اس لیے اس کا کوئی ڈیزائنر نہیں ہے یہ بھی ایک ناقص خیال ہی ہے۔ یہ دونوں بیانات آدھے ادھورے مناظر کی تعمیم کی بنا پر گمراہ کن قیاس کی مثالیں ہیں۔ یاد رہے کہ منصوبہ صرف ایک منظر ہے، یا یوں...