پیر، 5 جون، 2017

زوال یافتہ قوموں کے چار مسائل

زوال یافتہ قوموں کا اولین مسئلہ یہ ہے کہ ان کے افراد کے اندر تجسس کا جذبہ مر جاتا ہے جس کے سبب علوم و فنون کے میدان میں ان کی عطا صفر ہو جاتی ہے اور زندگی کے ہر میدان میں ترقی یافتہ قوموں کی تقلید کرتے رہنا ان کی مجبوری بن جاتی ہے۔ ان کا دوسرا مسئلہ اپنی اسی مجبوری کے عالم میں انتہائی غیر عقلی رویہ اپنانا ہے جو یہ ہے کہ ایک طرف تو وہ بدستور ترقی یافتہ اقوام کے علوم و فنون اور طور طریقوں کی پابندی کرتی رہتی ہیں اور دوسری طرف وہ ان ترقی یافتہ اقوام کے لیے بغض و حسد کے جذبات کی پرورش بھی کرتی رہتی ہیں۔ چنانچہ ترقی یافتہ اقوام کو دن رات کوسنا اور ان کی برائیاں کرنا ان کا قومی شعار بن جاتا ہے۔
لیکن زوال یافتہ قوموں میں ایسے ذہین اور زیرک افراد بھی ہوتے ہیں جنہیں اپنے قومی تنزل کے اسباب کا واقعی ادراک ہو جاتا ہے اور وہ ترقی یافتہ قوموں کی برائی ترک کر کے زندگی اور کائنات کے نئے تصور کو پانے کے تجسس میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔ ظاہر ہے جب تجسس کی کارفرمائی ہوگی تو زندگی کے ہر شعبے میں نئے زاویوں اور نقطہ ہائے نظر سے انقلابی تبدیلیوں کی آہٹ بھی سنائی دے گی۔ بس اسی چیز سے زوال یافتہ قوموں کی اکثریت ڈرتی ہے اور ذہین افراد کو ٹھکانے لگانے کا "کارِ خیر" انجام دیتی ہے۔ پس، زوال یافتہ قوموں کا تیسرا مسئلہ اپنے اندر کے ایسے ذہین افراد کو تباہ و برباد کرنے کی تدبیریں کرنا ہے۔ اپنے اندر پیدا ہونے والی ذہانتوں کو یہ روایت اور مذہب کے ہتھیاروں سے ہلاک کرتے ہیں اور ہر طرح کے ظلم و ستم پر اتر آتے ہیں۔ جہاں یہ لوگ ذہین افراد کو سرعام کوڑے نہ لگا سکیں وہاں ان کی کوشش ہوتی ہے کہ خاموشی کی سیاست سے کام لے کر ان کے سوالات کو دفن کر دیں اور ان نیم عقلی، منقول معقولی دانشوروں کو اپنا ہیرو بنائیں جو ان کی جہالت و ناکامی کی پردہ پوشی کریں اور طرح طرح کی معذرتخواہانہ تاویلات کے ذریعے ان کے بدتوفیق اجتماعی نفس کو موٹا کرتے رہیں، انہیں لمبی امیدیں بندھاتے رہیں اور متعدد قسم کے توہمات اور غلط فہمیوں میں مبتلا رکھیں۔ چنانچہ زوال یافتہ قوموں کا چوتھا مسئلہ یہ ہے کہ انہیں زندگی کے کسی میدان میں صحیح قائد نہیں مل پاتا جو انہیں جہالت کی تاریکیوں سے نکال کر علم کی روشنی میں آگے کی طرف لے کر چلتا۔
ان چاروں بنیادی مسائل میں سب سے بڑا مسئلہ یہی ہے جس کو میں نے جذبہ تجسس کے مر جانے سے تعبیر کیا ہے۔
سوال یہ ہے کہ زوال یافتہ قوموں کے افراد کے ذہن میں زندگی اور کائنات سے متعلق کوئی تجسس کیوں نہیں ابھرتا؟ صرف اس لیے کہ ان کے ذہن میں ایسے عقائد جڑیں جمائے ہوتے ہیں جن کو آثارِ قدیمہ کے حوالے کر کے ترقی یافتہ اقوام آگے بڑھ چکی ہوتی ہیں۔
ہمیشہ یاد رکھنا چاہیے کہ ایک قوم اس وقت تک ترقی نہیں کر سکتی جب تک کہ وہ بھی اپنے ماضی کو بھول کر مستقبل کی طرف پیش قدمی نہ کرے۔ جو لوگ ماضی کی جاہلانہ یادوں کو پکڑے رہیں ان میں مستقبل کے عقائد کو وجود میں لانے کی سوجھ بوجھ پیدا نہیں ہو سکتی۔