نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

زوال یافتہ قوموں کے چار مسائل

زوال یافتہ قوموں کا اولین مسئلہ یہ ہے کہ ان کے افراد کے اندر تجسس کا جذبہ مر جاتا ہے جس کے سبب علوم و فنون کے میدان میں ان کی عطا صفر ہو جاتی ہے اور زندگی کے ہر میدان میں ترقی یافتہ قوموں کی تقلید کرتے رہنا ان کی مجبوری بن جاتی ہے۔ ان کا دوسرا مسئلہ اپنی اسی مجبوری کے عالم میں انتہائی غیر عقلی رویہ اپنانا ہے جو یہ ہے کہ ایک طرف تو وہ بدستور ترقی یافتہ اقوام کے علوم و فنون اور طور طریقوں کی پابندی کرتی رہتی ہیں اور دوسری طرف وہ ان ترقی یافتہ اقوام کے لیے بغض و حسد کے جذبات کی پرورش بھی کرتی رہتی ہیں۔ چنانچہ ترقی یافتہ اقوام کو دن رات کوسنا اور ان کی برائیاں کرنا ان کا قومی شعار بن جاتا ہے۔
لیکن زوال یافتہ قوموں میں ایسے ذہین اور زیرک افراد بھی ہوتے ہیں جنہیں اپنے قومی تنزل کے اسباب کا واقعی ادراک ہو جاتا ہے اور وہ ترقی یافتہ قوموں کی برائی ترک کر کے زندگی اور کائنات کے نئے تصور کو پانے کے تجسس میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔ ظاہر ہے جب تجسس کی کارفرمائی ہوگی تو زندگی کے ہر شعبے میں نئے زاویوں اور نقطہ ہائے نظر سے انقلابی تبدیلیوں کی آہٹ بھی سنائی دے گی۔ بس اسی چیز سے زوال یافتہ قوموں کی اکثریت ڈرتی ہے اور ذہین افراد کو ٹھکانے لگانے کا "کارِ خیر" انجام دیتی ہے۔ پس، زوال یافتہ قوموں کا تیسرا مسئلہ اپنے اندر کے ایسے ذہین افراد کو تباہ و برباد کرنے کی تدبیریں کرنا ہے۔ اپنے اندر پیدا ہونے والی ذہانتوں کو یہ روایت اور مذہب کے ہتھیاروں سے ہلاک کرتے ہیں اور ہر طرح کے ظلم و ستم پر اتر آتے ہیں۔ جہاں یہ لوگ ذہین افراد کو سرعام کوڑے نہ لگا سکیں وہاں ان کی کوشش ہوتی ہے کہ خاموشی کی سیاست سے کام لے کر ان کے سوالات کو دفن کر دیں اور ان نیم عقلی، منقول معقولی دانشوروں کو اپنا ہیرو بنائیں جو ان کی جہالت و ناکامی کی پردہ پوشی کریں اور طرح طرح کی معذرتخواہانہ تاویلات کے ذریعے ان کے بدتوفیق اجتماعی نفس کو موٹا کرتے رہیں، انہیں لمبی امیدیں بندھاتے رہیں اور متعدد قسم کے توہمات اور غلط فہمیوں میں مبتلا رکھیں۔ چنانچہ زوال یافتہ قوموں کا چوتھا مسئلہ یہ ہے کہ انہیں زندگی کے کسی میدان میں صحیح قائد نہیں مل پاتا جو انہیں جہالت کی تاریکیوں سے نکال کر علم کی روشنی میں آگے کی طرف لے کر چلتا۔
ان چاروں بنیادی مسائل میں سب سے بڑا مسئلہ یہی ہے جس کو میں نے جذبہ تجسس کے مر جانے سے تعبیر کیا ہے۔
سوال یہ ہے کہ زوال یافتہ قوموں کے افراد کے ذہن میں زندگی اور کائنات سے متعلق کوئی تجسس کیوں نہیں ابھرتا؟ صرف اس لیے کہ ان کے ذہن میں ایسے عقائد جڑیں جمائے ہوتے ہیں جن کو آثارِ قدیمہ کے حوالے کر کے ترقی یافتہ اقوام آگے بڑھ چکی ہوتی ہیں۔
ہمیشہ یاد رکھنا چاہیے کہ ایک قوم اس وقت تک ترقی نہیں کر سکتی جب تک کہ وہ بھی اپنے ماضی کو بھول کر مستقبل کی طرف پیش قدمی نہ کرے۔ جو لوگ ماضی کی جاہلانہ یادوں کو پکڑے رہیں ان میں مستقبل کے عقائد کو وجود میں لانے کی سوجھ بوجھ پیدا نہیں ہو سکتی۔

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

تحقیق کے مسائل

تحقیق ایک اہم علمی فریضہ ہے۔ تحقیق کے ذریعے ہم نامعلوم کا علم حاصل کرتے ہیں۔ غیر محسوس کو محسوس بناتے ہیں۔ جو باتیں پردہ ٔ غیب میں ہوتی ہیں، انہیں منصہ ٔ شہود پر لاتے ہیں تا کہ کسی امر میں یقینی علم ہم کو حاصل ہو، اور اس کی بنیاد پر مزید تحقیق جاری رکھی جا سکے۔تحقیق ایک مسلسل عمل ہے۔ موجودہ دور میں یہ ایک نتیجے تک پہنچنے سے زیادہ ایک طریقے ( تک پہنچنے) کا نام ہے۔نتیجہ خواہ کچھ ہو، موجودہ دور میں اس کے طریقہ ٔ کار یا منہاجیات کو صاف و شفاف بنانا فلسفیانہ طور پر زیادہ ضروری سمجھا جاتا ہے تاکہ زیادہ تر نتائج صحت کے ساتھ محسوسات کے دائرے میں حتی الامکان منتقل ہو سکیں۔ دائرہ تحقیق میں ایک مقدمہ کو نتیجہ میں بدلنے کے طریقے کی جس قدر اصلاح ہوتی جائے گی اسی قدر تحقیق معتبر مانی جائے گی۔ البتہ بعض اوقات یوں بھی ہوتا ہے کہ کسی تحقیق کا طریقہ صحیح نہیں ہو اور نتیجہ بالکل صحیح ہو۔ لیکن اس ناقابل حل مسئلے کے باوجود بہرحال طریقے میں حذف و اضافہ اور اصلاح و تصحیح کی ضرورت ہمیشہ باقی رہتی ہے۔ تحقیق کے عربی لفظ کا مفہوم حق کو ثابت کرنا یا حق کی طرف پھیرنا ہے۔ حق کے معنی سچ کے ہیں۔ مادہ حق سے...

قرآن اور بگ بینگ

ایک بہت طویل عرصے سے اہل اسلام کا مغرب زدہ طبقہ قرآن کی تصدیق جدید ترین سائنسی تحقیقات کی بنیاد پر کرنا چاہتا ہے. اس کی اصل دلیل یہ ہے کہ اگر قرآن خدا کی کتاب نہ ہوتی تو اس میں بیسویں صدی کے سائنسی انکشافات کا ذکر چودہ سو سال پہلے کیونکر ممکن تھا؟ اس سلسلے میں ایک بہت بڑی مثال بگ بینگ کی دی جاتی ہے اور قرآن کی اس آیت کو دلیل بنایا جاتا ہے: اَوَلَمْ يَرَ الَّذِيْنَ كَفَرُوْٓا اَنَّ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ كَانَتَا رَتْقًا فَفَتَقْنٰهُمَا ۭ وَجَعَلْنَا مِنَ الْمَاۗءِ كُلَّ شَيْءٍ حَيٍّ ۭ اَفَلَا يُؤْمِنُوْنَ کیا کافروں نے نہیں دیکھا کہ آسمان اور زمین دونوں ملے ہوئے تھے تو ہم نے جدا جدا کردیا۔ اور تمام جاندار چیزیں ہم نے پانی

مذہب و تصوف اور فلسفہ و سائنس کا منتہائے مقصود

     یہ کائنات نہ کوئی ڈیزائن ہے اور نہ اس کا کوئی ڈیزائنر۔ اور نہ یہ کائنات عدم ڈیزائن ہے جس کا ڈیزائنر معدوم ہے۔ یہ دونوں بیانات ناقص ہیں۔ ہم بحیثیت انسان بذریعہ حواس خارج میں جو کچھ دیکھتے ہیں وہ دراصل ہماری وجدان کی مشین اور ذہن ہی سے پروسیس ہو کر نکلتا ہے۔ اور وجدان کے اس جھروکے سے نظر آنے والی یہ کائنات ایک ایسی احدیّت کے طور پر ابھرتی ہے جس میں یہ ڈیزائن صرف ایک منظر ہے جس کی شناخت عدم ڈیزائن کے دوسرے منظر سے ہوتی ہے۔ اسی طرح اس کائنات میں منصوبہ بھی ایک منظر ہے جس کی شناخت عدمِ منصوبہ کے دوسرے منظر سے ہوتی ہے۔ کائنات میں چیزیں ایک دوسرے کے بالمقابل ہی شناخت ہوتی ہیں۔ اس لیے یہ کہنا کہ کائنات میں کوئی منصوبہ ہے اس لیے کوئی منصوبہ ساز ہونا چاہیے، یا کائنات بجائے خود کوئی ڈیزائن ہے اس لیے اس کا ڈیزائنر لازماً ہونا چاہیے ناقص خیال ہے۔ اسی طرح یہ کہنا کہ اس کائنات میں عدم ڈیزائن ہے اور اس لیے اس کا کوئی ڈیزائنر نہیں ہے یہ بھی ایک ناقص خیال ہی ہے۔ یہ دونوں بیانات آدھے ادھورے مناظر کی تعمیم کی بنا پر گمراہ کن قیاس کی مثالیں ہیں۔ یاد رہے کہ منصوبہ صرف ایک منظر ہے، یا یوں...