نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

سر سید اور علامہ شبلی نعمانی کا علمی رشتہ

اردوزبان وادب  کی ایک ناموراور شہیر ہستی اور صحیح العقیدہ عالم مولٰنا مولوی عبدالحلیم شرر نے معتزلہ  اوران کے عروج و زوال پر ابطالی نوعیت کا ایک  طویل لیکچرمسلم اکیڈیمی کے اجلاس مورخہ ۱۹ نومبر ۱۹۲۶ءکو دیاتھا جس میں  انہوں نے  سر سید کے تصورِ دین و شریعت پر ایک زبردست تنقید بھی کی ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ سر سید جدید اعتزال کے پیش رو ہیں۔ انہوں نے قرآنِ کریم اورسائنس میں تطبیق دینے کی سر سید کی تعبیراتی  کوششوں کو وہم و گمان سے بھی زیادہ بعید اوراور قابلِ مضحکہ قرار دینے کے ساتھ ہی مولانا شبلی نعمانی ایسے جلیل القدر عالم کے کارناموں کو بھی سر سید کی صحبت کا ثمرہ  بتایا ہے ۔ شرر کے مطابق سر سید کی صحبت میں آنے سے پہلے شبلی  ‘‘مشدد حنفی’’ ہوا کرتے تھے  اور امام ابوحنیفہ کے جوشِ محبت میں اپنے کو ‘‘نعمانی’’ کہلاتے تھے، تاکہ ‘‘حقیقت میں ان کا رتبہ  معمولی حنفیوں کے درجے سے بڑھا ہوا ہو’’ اور  وہابیوں کے مقابلے میں ‘‘بدعتیوں کے وکیل’’بن رہے تھے۔
سر سید کی صحبت نے شبلی کو  اس روایتی  بحث و مناظرہ کے میدان سے ہٹا کر تاریخی تصانیف میں لگایا اور بعدازاں رفتہ رفتہ اپنے ‘‘سیداحمد خانی دنگل’’ میں لاکھڑا کیا۔یعنی شرر کے بقول یہی وہ  دنگل تھا جس میں رہ کر شبلی نے مذہبی نوعیت کی عظیم تصانیف لکھیں  اور آخر میں سیرۃ النبی کی تصنیف میں مصروف ہوگئے۔ شررآگے فرماتے ہیں کہ شبلی کی ان کتابوں میں سے‘‘ اکثر میں محدثین کی طرف سے بدظنی، قیاسی اجتہاد کی جنبہ داری اور اکابر معتزلہ کی مدح سرائی ایسی باتیں ہیں جو صراحتاً اعتزال کی جھلک دکھا رہی ہیں۔’’ شبلی اس اعتزال کے اثر میں اس حد تک ڈوب گئے کہ شرر کے مطابق حنفیت سے ان کی محبت کے باوجود انہوں نے سرے سے  حنفیت کو ہی اعتزال یااعتزال کے قریب ثابت کرنے کی کوشش کر ڈالی۔ العیاذ باللہ!
غرض سرسید کی تجدد پسندی متعدی ہوکر شبلی تک پہنچی ۔ اور پھر شبلی سے اس کا دائرہ وسیع ہو کر آج کہاں تک پھیل گیا ہے، اس پر پھر کبھی۔ سردست جو کچھ میں نے کہا اس کے ثبوت کے طور پر مولوی عبدالحلیم شرر کا یہ اقتباس پڑھیں:
’’انگریز کہنے کو نصرانی ہیںِ مگر ان کی نصرانیت وہ پرانی نصرانیت نہیں جو قرونِ وسطی میں اسلام سے لڑ رہی تھی۔ اور جس نے مدتوں حروبِ صلیبیہ کا سلسلہ جاری رکھا تھا۔ یورپ کی موجودہ مسیحیت نے جدید سائنس سے متاثر ہو کر وہاں کی علمی دنیا میں ایک قسم کا الحاد اور بے دینی کی شان پیدا کر لی ہے۔ اس سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ انگریزوں کے جھنڈے کے نیچے نیچے مشنری بھی آئے۔ اور مذہب عیسوی کی تبلیغ کرنے لگے۔ مگر مسلمانوں کو ان سے لڑانا اور مناظرہ کرنا چنداں دشوار نہ تھا چنانچہ اکثر مناظروں میں وہ ان پر غالب آ جایا کرتے ہیں مگر ملحدانہ دہریت جو مسیحیت کے لباس میں چھپی ہوئی ہے اس کا مقابلہ کرنا جس طرح ہر مذہب کے لیے دشوار ہے مسلمانوں کے لیے بھی آسان نہیں۔ یورپ میں اس الحاد نے مسیحیت کو شکست دے کر اپنا مطیع و منقاد بنا لیا۔ اور اب دنیا کے تمام دیگر مذاہب کو مغلوب کرنا چاہتا ہے۔ اسلام جو اپنے گذشتہ علمی دور میں خود اپنے مذہبی دنگل کے اندر معتزلہ و اشاعرہ کی کشتیاں دیکھ کر ایک بااصول علمی و عقلی مذہب بن چکا تھا، اس مسیحیت نما دہریت سے بھی لڑنے کو تیار ہو گیا۔ مگر یہ نہایت دشوار کام تھا۔ اس لیے کہ فلسفہ یونان جس پر پرانے اعتزال کی عمارت قائم کی گئی تھی وہ خود ہی مسترد اور تقویم پارینہ ہو چکا تھا۔ اور موجودہ سائنس سے لڑنا ایک بالکل نئے اکھاڑے میں قدم رکھنا تھا۔ اس دشواری کوسر سید مرحوم نے محسوس کیا ۔ وہ علماً پرانے عربی اسکول کے تعلیم یافتہ، مذہباً اہل حدیث کے مسلک کے پیرو، حیثیتاًگورنمنٹ آف انڈیا کے اعلی عہدے دار اور معاشرتاً انگریزوں کے صحبت یافتہ تھے۔ اس کے ساتھ انگریزوں کی ترقیوں اور کامیابیوں سے مرعوب ہو چکے تھے۔ اصولِ اسلام اور سائنس کے موجودہ مسائل پر انہوں نے غور کرنا شروع کیا تو فقہ حدیث اور مروجہ علم کلام کو ان مباحث میں خاموش پایا۔ آخر انہوں نے معتزلہ کے قدیم اصول کا مطالعہ شروع کیا۔ بعدازاں امام ابوالحسن اشعری کے محدثانہ علم کلام کو بھی غور سے پڑھا ۔ اور اپنے خیال میں مذہب کا ایک نیا خاکہ قائم کیاجس میں نہ پورا اعتزال تھا نہ پوری محدثیت۔ اعتزال کا یہ اصول اختیار کر کے کہ ‘‘عقل شروع پر حاکم و قاضی ہے’’ آزادانہ بحث کی گنجائش نکالی۔ بعدازاں محدثین کے اس متفقہ اصول سے فائدہ اٹھانا چاہا کہ صحیح حدیثیں دو قسم کی ہوتی ہیں۔ متواتر اور خبرآحاد۔ متواتروہ ہیں جن میں ہر راوی کے طبقہ میں اس کے ساتھ اتنے راوی روایت کرتے ہوں کہ اتنوں کی غلط بیانی کو عقل محال جانے، متواتر حدیثوں کو محدثین یقینی الثبوت تسلیم کرتے اور ثبوتاً  قرآن کے درجے پر رکھتے ہیں مگر ایسی حدیثیں اگر دو ایک بعض کے نزدیک ہیں بھی تو دوسروں کے نزدیک متواتر نہیں ہیں۔ رہیں احادیث خبر آحاد ، انہیں پر فقہ اور شریعت کا دارومدار ہے۔ اور انہیں اہلحدیث ظنی الثبوت کہتے ہیں یعنی گمان غالب ہوتا ہے کہ رسول اللہ صلعم نے ایسا کہا یا کیا۔ صحاح ستہ اور تمام مسند (مجموعہ ہائے احادیث) اسی پچھلی قسم کی حدیثوں یعنی خبرآحاد سے بھرے ہوئے ہیں۔ انہیں سے مسائل شروع کا استخراج ہوتا ہے اور انہیں  پر فقہ و حدیث کی ساری عمارت قائم ۔ اسی اصول حدیث سے فائدہ اٹھا کر سر سید نے دعوی کیا کہ خبر آحاد جب ظنی الثبوت ہیں تو ان کی بنا پر کسی بات کا فرض یا واجب ہونا نہیں ثابت نہیں کیا جا سکتا۔ اس طریقےسے سر سید نے حدیث و فقہ میں بھی ردوقدح اور بہ آزادی بحث کرنے کا دائرہ وسیع کر لیا۔ غالباً ان کا خیال یہ بھی تھا کہ عقلی براہین و ادلہ کے مقابلے میں ظبی الثبوت احادیث پر عمل کرنا ضروری نہیں ہے۔ اور ان کے خیال میں عقلی براہین و ادلہ وہ تھے جو جدید علوم اور سائنس کی رو سے ثابت ہوں۔ نتیجہ یہ ہوا کہ جس طرح اِس زمانے کا الحاد اگلے زمانے کے الحاد سے بدتر تھاویسے ہی اِس زمانے ایجادشدہ اعتزال بھی اگلے اعتزال سے بدتر نظر آنے لگا۔ اگلے معتزلہ کو اگرچہ خوارق عادات معجزات و کرامات کے وجود سے انکار تھا مگر وہ ان آیات قرآنی کو جن میں اس قسم کی باتیں مذکور ہیں متشابہ کہتے یا ان میں تاویل کرتے۔ سر سید نے اپنے اس کلام میں دور از وہم و گمان باتیں بنائیں اور اُن آیات کو سائنس کے مطابق بنانے کی کوشش میں ایسے عجیب معنی بیان کیے جو قابلِ مضحکہ معلوم ہوتے ہیں۔ سر سید اسی کوش میں مصروف اور اپنے جدید علمِ کلام  کو مدوّن کر رہے تھے کہ انہیں مولانا شبلی کا ایسا قابل اور وسیع النظر عالم مل گیا۔ مولٰنا شبلی پرانے مدرستہ عربیت کے تعلیم یافتہ اور سر سید کے خلاف مشدّد حنفی تھے۔ حضرت امام ابوحنیفہ کے جوشِ محبت میں اپنے آپ کو ‘‘نعمانی’’ کہلاتے تاکہ حقیقت میں ان کا رتبہ معمولی حنفیوں کے درجے سے بڑھا ہوا ہو۔ اسی کوشش میں انہوں  نے مولٰنامحمد عبدالحی مرحوم کی بعض مختلف فیہ مسائل میں تردید کی ۔ اور وہابیوں کے مقابلے میں بدعتیوں کے وکیل بن رہے تھے کہ سر سید کی صحبت میں پہونچے۔ اس صحبت نے اُن کو اِس مناظرے کے میدان سے ہٹا کر پہلے تو تاریخی تصانیف کی طرف مصروف کیا۔ اور بعد ازاں رفتہ رفتہ اُسی سید احمد خانی کلام کے دنگل میں لا کھڑا کیا۔ چنانچہ انہوں نے علم کلام کی تاریخ لکھی۔ حضرت فاروقِ اعظم ، حضرت امام اعظم ، امام غزالی اور مولانائے روم کی سیرتیں تصنیف کیں اور آخرمیں سیرۃ النبی کی تصنیف میں مصروف ہو گئے۔ اِن کتابوں میں سے اکثر میں محدثین کیی طرف سے بدظنی قیاسی اجتہاد کی جنبہ داری اور اکابر معتزلہ کی مدح سرائی ایسی باتیں ہیں جو صراحتاً اعتزال کی جھلک دکھا رہی ہیں۔ اور ایسے ہی بعض اور تصانیف لکھے۔ اسی سلسلے میں ان کی حنفیت کی محبت اس جانب مائل ہوئی کہ خود اصول و عقائد حنفیہ کو اعتزال کے قریب یا اعتزال ثابت کر دیں۔
اس کو میں مانتا ہوں کہ حنفیہ ابوالحسن اشعری کے اصول و عقائدِ دین کو پورا پورا نہیں مانتے ۔ اور نہ اپنے آپ کو امام اشعری کا پیرو ظاہر کرتے ہیں۔ وہ بجائے اشعری کے اپنے تئیں اصولاً ماتریدی کہتے ہیں اور ماما ابولمنصور ماتریدی کا پیرو بتاتے ہیں۔ لیکن ماتریدیت کو اعتزال یا اعتزال کے قریب بتانا ایسی سخت غلطی ہے جس کو ابتدا سے انتہا تک کا کوئی حنفی عالم قبول نہ کرے گا۔ علامہ عبدالوہاب شعرانی نے امام ماتریدی اور امام اشعری کو بجز دس باتوں کے تمام مسئلوں میں متحد متفق بتایا ہے۔ اور ان اختلافی مسائل کی نسبت بھی کہا ہے کہ اصولی نہیں فروعی مسائل میں ماسوا ِاس کے خود حضرت امام ابوالمنصور ماتریدی اپنی شرح و فقہ میں اول سے آخر تک معتزلہ کی تردید کرتے۔ ان کو سخت و سست الفاظ میں یاد فرماتے۔ جابجا احمق بتاتے ہیں اور بجز دو ایک جگہ کے تمام اعتقادی مسائل میں امام اشعری کے ہم خیال و ہمزبان ہیں۔ مگر قیامت یہ ہے کہ آج کل کی انگریزی تعلیم اور سائنس کے اثر نے انگریزی داں طبقے کی عام حالت یہ کر دی ہے کہ وہ مقلد بن کے رہنا نہیں چاہتے۔بلکہ ہر امر میں چاہے علوم دینیہ سے واقف ہوں یا نہ ہوں، مجتہد بن جاتے ہیں۔ وہ اپنے اُس بے تکے جاہلانہ اجتہاد میں اکثر معتزلیت کے قریب پہونچ جاتے ہیں اور نہیں جانتے کہ ہم کیا کہہ رہے ہیں۔ چنانچہ انگریزی داں طلبہ کا طبقہ بغیر اس کے جانے کہ اعتزال کیا چیز ہے، اضطراراً معتزلی بنتا جا تا ہے۔
اسی قسم کے ایک بزرگ جنہوں نے انگریزی کے سوا عربی کا کوئی عقلی یا نقلی فن نہیں حاصل کیا۔ صرف گزشتہ لڑائی کی برکت سے چند روز عربوں میں رہ کر عربی بولی بولنے لگے ہیں، ارادہ فرمایا کہ سارے علم حدیث کو متھ کے ایک نیا مکھن نکال لیں۔ مشورے کے لیے میرے پاس آئے اور فرمایا کہ میں نے تمام صحاح  و مسانید میں س اُن حدیثوں کو الگ کرنا شروع کر دیا ہے جن کے راوی دو یا دو سے زیادہ صحابی نہ ہوں۔ اس لیے کہ میرے نزدیک جس حدیث کی روایت صرف ایک صحابی سے ہو حجت نہیں ہے۔ میں نے صحابہ کی جانب سے اِس بدگمانی کی وجہ پوچھی تو بعض صحابہ پر اعتراض کرنے لگے۔ آخر میں انہیں مشورہ دیا کہ اگر اس کام کو آپ کرنا چاہتے ہیں تو مہربانی کر کے اپنی زندگی کے کم از کم دس سال حدیث و فقہ کی تعلیم میں صرف کیجیے اور اس کے بعد اِس کارِ خیر کی طرف توجہ فرمائیے۔ جب تک آپ حدیث و فقہ کے اصول اور ان علوم کے اہم مباحث سے واقف نہ ہو جائیں ایسا کرنے میں آپ کو بڑی دشواریاں پیش آئیں گی۔ اور میں اُن کا شکر گزار ہوں کہ اس کام کے لیے تیارہونے کی دشواریوں کےخیال سے انہوں نے ۔۔۔اپنی اُس مجتہدانہ تصنیف سے قدم روک لیا جس کے جوش میں سنن اربعہ میں سے دو ایک  کی مرمت بھی کر چکے تھے۔
الغرض سب سے زیادہ خطرناک ہمارے یہاں کا یہ خودرَو اعتزال ہے۔ علمائے مِلتِ بیضا کا سب سے اہم اور ضروری کام یہ ہے کہ اس اعتزال کو روکیں۔ اور پتہ لگائیں کہ انگریزی کالجوں کے طلبہ کیا سے کیا ہوتے جائے ہیں، اور کہاں سے کہاں پہونچے جاتے ہیں۔ ‘‘
مولٰنامولوی  عبدالحلیم شرر، معتزلہ (اور ان کے عروج و زوال کے متعلق ایک بسیط لکچر ،منعقدہ مسلم اکیڈیمی اجلاس مورخہ ۱۹ نومبر ۱۹۲۶ء) ، پرنٹر پبلشر محمد سراج الحق، درمطبع دلگداز پریس، صفحہ ۸۷ تا ۹۲

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

تحقیق کے مسائل

تحقیق ایک اہم علمی فریضہ ہے۔ تحقیق کے ذریعے ہم نامعلوم کا علم حاصل کرتے ہیں۔ غیر محسوس کو محسوس بناتے ہیں۔ جو باتیں پردہ ٔ غیب میں ہوتی ہیں، انہیں منصہ ٔ شہود پر لاتے ہیں تا کہ کسی امر میں یقینی علم ہم کو حاصل ہو، اور اس کی بنیاد پر مزید تحقیق جاری رکھی جا سکے۔تحقیق ایک مسلسل عمل ہے۔ موجودہ دور میں یہ ایک نتیجے تک پہنچنے سے زیادہ ایک طریقے ( تک پہنچنے) کا نام ہے۔نتیجہ خواہ کچھ ہو، موجودہ دور میں اس کے طریقہ ٔ کار یا منہاجیات کو صاف و شفاف بنانا فلسفیانہ طور پر زیادہ ضروری سمجھا جاتا ہے تاکہ زیادہ تر نتائج صحت کے ساتھ محسوسات کے دائرے میں حتی الامکان منتقل ہو سکیں۔ دائرہ تحقیق میں ایک مقدمہ کو نتیجہ میں بدلنے کے طریقے کی جس قدر اصلاح ہوتی جائے گی اسی قدر تحقیق معتبر مانی جائے گی۔ البتہ بعض اوقات یوں بھی ہوتا ہے کہ کسی تحقیق کا طریقہ صحیح نہیں ہو اور نتیجہ بالکل صحیح ہو۔ لیکن اس ناقابل حل مسئلے کے باوجود بہرحال طریقے میں حذف و اضافہ اور اصلاح و تصحیح کی ضرورت ہمیشہ باقی رہتی ہے۔ تحقیق کے عربی لفظ کا مفہوم حق کو ثابت کرنا یا حق کی طرف پھیرنا ہے۔ حق کے معنی سچ کے ہیں۔ مادہ حق سے...

قرآن اور بگ بینگ

ایک بہت طویل عرصے سے اہل اسلام کا مغرب زدہ طبقہ قرآن کی تصدیق جدید ترین سائنسی تحقیقات کی بنیاد پر کرنا چاہتا ہے. اس کی اصل دلیل یہ ہے کہ اگر قرآن خدا کی کتاب نہ ہوتی تو اس میں بیسویں صدی کے سائنسی انکشافات کا ذکر چودہ سو سال پہلے کیونکر ممکن تھا؟ اس سلسلے میں ایک بہت بڑی مثال بگ بینگ کی دی جاتی ہے اور قرآن کی اس آیت کو دلیل بنایا جاتا ہے: اَوَلَمْ يَرَ الَّذِيْنَ كَفَرُوْٓا اَنَّ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ كَانَتَا رَتْقًا فَفَتَقْنٰهُمَا ۭ وَجَعَلْنَا مِنَ الْمَاۗءِ كُلَّ شَيْءٍ حَيٍّ ۭ اَفَلَا يُؤْمِنُوْنَ کیا کافروں نے نہیں دیکھا کہ آسمان اور زمین دونوں ملے ہوئے تھے تو ہم نے جدا جدا کردیا۔ اور تمام جاندار چیزیں ہم نے پانی

مذہب و تصوف اور فلسفہ و سائنس کا منتہائے مقصود

     یہ کائنات نہ کوئی ڈیزائن ہے اور نہ اس کا کوئی ڈیزائنر۔ اور نہ یہ کائنات عدم ڈیزائن ہے جس کا ڈیزائنر معدوم ہے۔ یہ دونوں بیانات ناقص ہیں۔ ہم بحیثیت انسان بذریعہ حواس خارج میں جو کچھ دیکھتے ہیں وہ دراصل ہماری وجدان کی مشین اور ذہن ہی سے پروسیس ہو کر نکلتا ہے۔ اور وجدان کے اس جھروکے سے نظر آنے والی یہ کائنات ایک ایسی احدیّت کے طور پر ابھرتی ہے جس میں یہ ڈیزائن صرف ایک منظر ہے جس کی شناخت عدم ڈیزائن کے دوسرے منظر سے ہوتی ہے۔ اسی طرح اس کائنات میں منصوبہ بھی ایک منظر ہے جس کی شناخت عدمِ منصوبہ کے دوسرے منظر سے ہوتی ہے۔ کائنات میں چیزیں ایک دوسرے کے بالمقابل ہی شناخت ہوتی ہیں۔ اس لیے یہ کہنا کہ کائنات میں کوئی منصوبہ ہے اس لیے کوئی منصوبہ ساز ہونا چاہیے، یا کائنات بجائے خود کوئی ڈیزائن ہے اس لیے اس کا ڈیزائنر لازماً ہونا چاہیے ناقص خیال ہے۔ اسی طرح یہ کہنا کہ اس کائنات میں عدم ڈیزائن ہے اور اس لیے اس کا کوئی ڈیزائنر نہیں ہے یہ بھی ایک ناقص خیال ہی ہے۔ یہ دونوں بیانات آدھے ادھورے مناظر کی تعمیم کی بنا پر گمراہ کن قیاس کی مثالیں ہیں۔ یاد رہے کہ منصوبہ صرف ایک منظر ہے، یا یوں...