اتوار، 8 مئی، 2011

ابھی نہیں

ابھی نہیں مالک
ابھی نہیں مولا
ضعیفی میں
میں آسانی سے مرنا چاہتا ہوں
اپنی طبعی موت
اپنے بستر پر
رات کو سونے کے بعد
گہری نیند میں

مجھ سے پہلے
مر چکی ہو ماں
مجھ سے پہلے
مر چکا ہوباپ
جو سمجھتا ہے مجھے لاٹھی بڑھاپے کی
اور صفیہ
مجھ سے پہلے مر چکی ہو
اور نافرمان اولادیں مری زندہ رہیں
بدن پر کوڑھ کی مانند
اور انور بھی
مجھ سے پہلے مر چکا ہو
کٹ چکے ہوں دوستی کے سلسلے سارے
پرانے اور نئے
تاکہ تنہائی مقدر ہو مرا یہاں تک کہ
زندگی بوجھ بن جائے
اور پھر تیری ضرورت ہو
تب اٹھا لینا مجھے مشکل کشا
ابھی نہیں مالک
ابھی نہیں مولا
(2006)

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

تبصرہ کریں