ابھی نہیں مالک
ابھی نہیں مولا
ضعیفی میں
میں آسانی سے مرنا چاہتا ہوں
اپنی طبعی موت
اپنے بستر پر
رات کو سونے کے بعد
گہری نیند میں
مجھ سے پہلے
مر چکی ہو ماں
مجھ سے پہلے
مر چکا ہوباپ
جو سمجھتا ہے مجھے لاٹھی بڑھاپے کی
اور صفیہ
مجھ سے پہلے مر چکی ہو
اور نافرمان اولادیں مری زندہ رہیں
بدن پر کوڑھ کی مانند
اور انور بھی
مجھ سے پہلے مر چکا ہو
کٹ چکے ہوں دوستی کے سلسلے سارے
پرانے اور نئے
تاکہ تنہائی مقدر ہو مرا یہاں تک کہ
زندگی بوجھ بن جائے
اور پھر تیری ضرورت ہو
تب اٹھا لینا مجھے مشکل کشا
ابھی نہیں مالک
ابھی نہیں مولا
(2006)
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں
تبصرہ کریں