اتوار، 8 مئی، 2011

یاد

یاد جانے کب چلی آئی
کب چلی آئی دبے پاوں
جیسے آتی ہے بہار معتدل
موسم سرما کے بعد



تنہائیوں میں جب تمہاری یاد آتی ہے
تو لگتا ہے کہ آیا ہے
کوئی جھونکا ہوا کا
مری بے چارگی
مری مصروفیت کے بند کمرے میں
جھروکے سے
سرک جاتی ہے گویا دل سے اک پتھر کی سل

اف نہ جانے کب چلی جائے
کب چلی جائے دبے پاوں
آکاش میں اڑتے
کسی اجلے کبوتر کے سمٹ جاتے ہیں پر جیسے
زمیں پر آٹھہرتاہے وہ جب دو چار دانوں کے لیے

کیوں نہیں رہتی
ہمیشہ کیوں نہیں رہتی
موجزن دل میں سمندر کی طرح
جب بھی آئی جاں بہ لب آئی
جیسے برساتی ندی
2006

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

تبصرہ کریں