یہ کائنات نہ کوئی ڈیزائن ہے اور نہ اس کا کوئی ڈیزائنر۔ اور نہ یہ کائنات عدم ڈیزائن ہے جس کا ڈیزائنر معدوم ہے۔ یہ دونوں بیانات ناقص ہیں۔ ہم بحیثیت انسان بذریعہ حواس خارج میں جو کچھ دیکھتے ہیں وہ دراصل ہماری وجدان کی مشین اور ذہن ہی سے پروسیس ہو کر نکلتا ہے۔ اور وجدان کے اس جھروکے سے نظر آنے والی یہ کائنات ایک ایسی احدیّت کے طور پر ابھرتی ہے جس میں یہ ڈیزائن صرف ایک منظر ہے جس کی شناخت عدم ڈیزائن کے دوسرے منظر سے ہوتی ہے۔ اسی طرح اس کائنات میں منصوبہ بھی ایک منظر ہے جس کی شناخت عدمِ منصوبہ کے دوسرے منظر سے ہوتی ہے۔ کائنات میں چیزیں ایک دوسرے کے بالمقابل ہی شناخت ہوتی ہیں۔ اس لیے یہ کہنا کہ کائنات میں کوئی منصوبہ ہے اس لیے کوئی منصوبہ ساز ہونا چاہیے، یا کائنات بجائے خود کوئی ڈیزائن ہے اس لیے اس کا ڈیزائنر لازماً ہونا چاہیے ناقص خیال ہے۔ اسی طرح یہ کہنا کہ اس کائنات میں عدم ڈیزائن ہے اور اس لیے اس کا کوئی ڈیزائنر نہیں ہے یہ بھی ایک ناقص خیال ہی ہے۔ یہ دونوں بیانات آدھے ادھورے مناظر کی تعمیم کی بنا پر گمراہ کن قیاس کی مثالیں ہیں۔ یاد رہے کہ منصوبہ صرف ایک منظر ہے، یا یوں کہہ لیں کہ ڈیزائن...
یاد جانے کب چلی آئی
کب چلی آئی دبے پاوں
جیسے آتی ہے بہار معتدل
موسم سرما کے بعد
تنہائیوں میں جب تمہاری یاد آتی ہے
تو لگتا ہے کہ آیا ہے
کوئی جھونکا ہوا کا
مری بے چارگی
مری مصروفیت کے بند کمرے میں
جھروکے سے
سرک جاتی ہے گویا دل سے اک پتھر کی سل
اف نہ جانے کب چلی جائے
کب چلی جائے دبے پاوں
آکاش میں اڑتے
کسی اجلے کبوتر کے سمٹ جاتے ہیں پر جیسے
زمیں پر آٹھہرتاہے وہ جب دو چار دانوں کے لیے
کیوں نہیں رہتی
ہمیشہ کیوں نہیں رہتی
موجزن دل میں سمندر کی طرح
جب بھی آئی جاں بہ لب آئی
جیسے برساتی ندی
2006
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں
تبصرہ کریں