یاد جانے کب چلی آئی
کب چلی آئی دبے پاوں
جیسے آتی ہے بہار معتدل
موسم سرما کے بعد
تنہائیوں میں جب تمہاری یاد آتی ہے
تو لگتا ہے کہ آیا ہے
کوئی جھونکا ہوا کا
مری بے چارگی
مری مصروفیت کے بند کمرے میں
جھروکے سے
سرک جاتی ہے گویا دل سے اک پتھر کی سل
اف نہ جانے کب چلی جائے
کب چلی جائے دبے پاوں
آکاش میں اڑتے
کسی اجلے کبوتر کے سمٹ جاتے ہیں پر جیسے
زمیں پر آٹھہرتاہے وہ جب دو چار دانوں کے لیے
کیوں نہیں رہتی
ہمیشہ کیوں نہیں رہتی
موجزن دل میں سمندر کی طرح
جب بھی آئی جاں بہ لب آئی
جیسے برساتی ندی
2006
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں
تبصرہ کریں