یہ کائنات نہ کوئی ڈیزائن ہے اور نہ اس کا کوئی ڈیزائنر۔ اور نہ یہ کائنات عدم ڈیزائن ہے جس کا ڈیزائنر معدوم ہے۔ یہ دونوں بیانات ناقص ہیں۔ ہم بحیثیت انسان بذریعہ حواس خارج میں جو کچھ دیکھتے ہیں وہ دراصل ہماری وجدان کی مشین اور ذہن ہی سے پروسیس ہو کر نکلتا ہے۔ اور وجدان کے اس جھروکے سے نظر آنے والی یہ کائنات ایک ایسی احدیّت کے طور پر ابھرتی ہے جس میں یہ ڈیزائن صرف ایک منظر ہے جس کی شناخت عدم ڈیزائن کے دوسرے منظر سے ہوتی ہے۔ اسی طرح اس کائنات میں منصوبہ بھی ایک منظر ہے جس کی شناخت عدمِ منصوبہ کے دوسرے منظر سے ہوتی ہے۔ کائنات میں چیزیں ایک دوسرے کے بالمقابل ہی شناخت ہوتی ہیں۔ اس لیے یہ کہنا کہ کائنات میں کوئی منصوبہ ہے اس لیے کوئی منصوبہ ساز ہونا چاہیے، یا کائنات بجائے خود کوئی ڈیزائن ہے اس لیے اس کا ڈیزائنر لازماً ہونا چاہیے ناقص خیال ہے۔ اسی طرح یہ کہنا کہ اس کائنات میں عدم ڈیزائن ہے اور اس لیے اس کا کوئی ڈیزائنر نہیں ہے یہ بھی ایک ناقص خیال ہی ہے۔ یہ دونوں بیانات آدھے ادھورے مناظر کی تعمیم کی بنا پر گمراہ کن قیاس کی مثالیں ہیں۔ یاد رہے کہ منصوبہ صرف ایک منظر ہے، یا یوں کہہ لیں کہ ڈیزائن...
علامہ جاوید احمد غامدی مقبولیت کے اعتبار سے سابقہ تمام منکرین حدیث سے بڑھے ہوئے ہیں. یہ اس وجہ سے کہ انہوں نے ایک نہایت آسان اسلام پیش کیا ہے اور سابقہ و ہمعصر منکرین حدیث کی طرح بہت سے احکام و قوانین کو دین سے خارج کر دیا ہے جن پر جدید ذہن اعتراض کرتا ہے. علامہ موصوف نے انکار حدیث کی انوکھی طرح ایجاد کی ہے. عام منکرین حدیث کی طرح وہ بھی خبر واحد پر مبنی احادیث کو دین میں حجت تسلیم نہیں کرتے لیکن وہ اسے بالکلیہ مسترد بھی نہیں کرتے اور کہتے ہیں کہ خبر واحد کی بنا پر اسوہ رسول معلوم کیا جا سکتا ہے. سنت کی ایک ایسی تعریف پیش کرتے ہیں جو روایتی علما نے کبھی بیان ہی نہیں کی:
"سنت سے ہماری مراد دینِ ابراہیمی کی وہ روایت ہے جسے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی تجدید واصلاح کے بعد، اور اس میں بعض اضافوں کے ساتھ، اپنے ماننے والوں میں ، دین کی حیثیت سے جاری فرمایا ہے" (میزان)
اگر بات صرف تعریف بیان کرنے تک رہتی تو غنیمت تھا لیکن انہوں نے سنت کو گھٹا کر صرف ستائس کے مجموعے تک محدود کر دیا جو درج ذیل ہے:
1. نماز
2. زکوٰة اور صدقہ فطر
3. روزہ و اعتکاف
4. حج و عمرہ
5. قربانی اور ایام تشریق کی تکبیریں
6. نکاح و طلاق اور ان کے متعلقات
7. حیض و نفاس میں زن وشو کے تعلق سے اجتناب
8. سؤ ر، خون، مردار اور خداکے سوا کسی اور کے نام پر ذبح کئے گئے جانور کی حرمت
9. اللہ کا نام لے کرجانوروں کاتذکیہ
10. اللہ کا نام لے کر اور دائیں ہاتھ سے کھانا پینا
11. ملاقات کے موقع پر 'السلام علیکم' اور اس کاجواب
12. چھینک آنے پر 'الحمدﷲ' اور اس کے جواب میں 'یرحمک اﷲ'
13. نومولود کے دائیں کان میں اذان اور بائیں میں اقامت
14. مونچھیں پست رکھنا
15. زیرناف کے بال کاٹنا
16. بغل کے بال صاف کرنا
17. بڑھے ہوئے ناخن کاٹنا
18. لڑکوں کاختنہ کرنا
19. ناک، منہ اور دانتوں کی صفائی
20. استنجا
21. حیض و نفاس کے بعد غسل
22. غسل جنابت
23. میت کاغسل
24. تجہیز و تکفین
25. تدفین
26. عیدالفطر
27. عیدالاضحی
سنت کی یہ مختصر فہرست پیش کرنے کے بعد فرماتے ہیں:
"سنت یہی ہے اور اس کے بارے میں یہ بالکل قطعی ہے کہ ثبوت کے اعتبار سے اس میں اور قرآن مجید میں کوئی فرق نہیں ہے۔''
علامہ غامدی اپنی دانست میں اسلام کو آسان اور قرآن کی طرح قطعی اور یقینی بنانا چاہتے ہیں. لیکن ستم یہ کہ وہ وقفے وقفے سے اپنی اس قطعی اور یقینی فہرست پر نظرثانی بھی فرماتے جاتے ہیں. پروفیسر مولانا محمد رفیق نے حوالوں کے ساتھ بتایا ہے کہ جون 1991 تک وہ اس فہرست میں داڑھی کو شامل کرتے تھے. مئی 1998 میں انہوں نے داڑھی کو خارج کر دیا, اس وقت یہ فہرست چالیس سنتوں پر مشتمل تھی. اپریل 2002ء میں چالیس سنتوں کو صرف ستائیس سنتوں میں تبدیل کر دیا. اور فروری2005ء میں "سؤر، خون، مردار اور خداکے سوا کسی اور کے نام پر ذبح کئے گئے جانور کی حرمت" کی سنت کا اضافہ کیا گیا لیکن تعداد کسی طور ستائیس ہی رہنے دی گئی, میں نے اسی فہرست کو اوپر نقل کیا ہے. لیکن یہ ان کی آخری فہرست نہیں ہے. خالد جامعی نے حوالوں کے ساتھ لکھا ہے کہ انہوں نے "نومولود کے کان میں اذان دینے" کی سنت کو میزان 2009 کی اشاعت سے خارج کر دیا ہے. یعنی مختلف اسباب سے علامہ موصوف نے اس خودساختہ فہرست میں ترمیم و تنسیخ کا جو عمل فرمایا ہے وہ 1991 سے 2009 تک کے طویل عرصے پر محیط ہے اور خدا معلوم کب تک وہ اس میں الٹ پھیر کرتے رہیں گے اور ان کی تازہ ترین فہرست کتنی سنتوں پر مشتمل ہے.
جن سنتوں کو غامدی نے اپنی فہرست میں شامل کیا, جن کو خارج کیا اور جن کو باہر رکھا, اس میں عملی تواتر اور امت کے اجماع کے ساتھ ساتھ اخبار آحاد کے انکار کے اصول بنیادی طور پر کارفرما ہیں. لیکن اس چکر میں فہرست نامکمل اور غیرعقلی ہو گئی ہے. اس کی کئی مثالیں ہیں. مثلا جب ہم یہ سوال کرتے ہیں کہ انہوں نے داڑھی کو خارج کیا تو مونچھ پست رکھنے کو کیوں شامل کیا؟ تو غامدی صاحب طہارت کا اصول لے آتے ہیں کہ مونچھیں پست رکھنا طہارت سے متعلق ہے۔ لیکن انسان کے ناخن, سر, چہرے, بغل اور زیرناف کے بال ہمیشہ بڑھتے رہتے ہیں. اور ایک پیغمبر ان اضافات کو بالکلیہ فطرت کے رخ پر نہیں چھوڑ سکتا کہ وہ بڑھیں تو بڑھتے ہی چلے جائیں. پس وہ اس کی ترتیب و تہذیب کرتا ہے کیونکہ یہ حفظان صحت اور ذوق جمال سے متعلق ہے. کیا یہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات والا صفات سے ممکن ہے کہ انہوں نے مونچھ کے متعلق تو ایک حکم دے رکھا ہو کہ اس کو پست کرو اور داڑھی کے متعلق کچھ بھی نہ فرمایا ہو, اور اگر فرمایا ہو تو وہ خبر واحد کی نذر ہو گیا ہو! فرض کیجیے ایک شخص اتنی لمبی داڑھی رکھ لے جو ناف بلکہ کمر سے بھی نیچے جاتی ہو یہاں تک کہ بیت الخلا میں بیٹھتے وقت زمین سے رگڑ کھانے لگتی ہو تو ایسے شخص کی اصلاح میں غامدی کی فہرست کیا مدد کر سکتی ہے؟ کیونکہ سنتیں بس اتنی ہی ہیں۔ اسی طرح لمبے بالوں کا معاملہ ہے کہ ایک شخص اگر عورتوں کی طرح لمبے بال رکھنے لگے تو اس کو کیا کہا جائے گا؟ داڑھی ہو، یا مونچھ یا سر کے بال اور ناخن ان میں سے کسی بھی چیز کو بے لگام نہیں چھوڑا جا سکتا، ورنہ اس سے ذوقِ جمال اور/ یا حفظانِ صحت متاثر ہوگا۔ مونچھ کو پست کرنے کی سنت اگر مجرد حفظان صحت سے متعلق ہو تو ایک شخص کتنے سینٹی میٹر پست کرے؟ آیا وہ سرے سے منڈا لے یا ایک سینٹی میٹر لمبی رکھے یا اس سے کچھ کم, اس کی کوئی قید علامہ نے نہیں بتائی. اور نہ اس سلسلے میں کوئی اشارہ کیا ہے کہ مونچھ کا طول و عرض کتنا ہو, مثلا داڑھی منڈا کر ہٹلر جیسی لیکن پست مونچھیں رکھنا یا منڈے ہوئے چہرے پر ایسی پست مونچھیں رکھنا جو نصف گال یا کان تک جائیں یا پھر دونوں ہونٹوں کو گھیرتی ہوئی عمودی طور پر ایک دوسرے کے متوازی نیچے گردن تک چلی جائیں؟ چونکہ مونچھوں کے طول و عرض کی کوئی قید نہیں اور نہ ان کی پستی کی کوئی خاص قید ہے اس لیے اگر ایک شخص کی مونچھیں سوائے پستی کی صفت کے اپنی دیگر خصوصیات میں مجوسیوں یا دیگر کثیرالاصنام اقوام جیسی ہوں تو کیا اس سے سنت کا منشا پورا ہو جائے گا؟ مونچھ کو پست کرنے کے معنی ان کو غائب کر دینا نہیں ہے ورنہ پھر کوئی لوشن لگا کر ان کا مکمل صفایا کیا جا سکتا ہے. مجرد طہارت کے نقطہ نظر سے بھی دیکھا جائے تو مونچھ خواہ کتنی ہی بلند ہو یا اس کے بال مڑ کر دہانہ میں ہی کیوں نہ گھس جائیں, ایک مسلمان چونکہ چار پانچ وقت وضو کرتا ہے اس لیے گرد و غبار دھلتا رہے گا اور جراثیم کا اثر زائل ہوتا رہے گا. اس لیے اگر مونچھ پست کرنے کے بجائے کڑک مونچھیں رکھی جائیں تو اس سے طہارت پر کوئی فرق نہیں پڑتا.
مونچھ پست کرنے کی سنت پر عمل کرنا تو مردوں کے لیے ممکن ہے. خواتین جو لمبے بال رکھتی ہیں، کیا وہ سنتِ ابراہیمی میں شامل ہے یا یہ عورتوں کی اپنی خواہش پر منحصر ہے کہ وہ جیسے چاہیں بال رکھیں؟ ہمارے زمانے میں بہت سی عورتیں ہیں جو مردوں کی مشابہت میں بال کٹوا لیتی ہیں، تو اگر قرآن میں اس مسئلے پر کوئی رہنمائی نہیں پائی جاتی اور غامدی کی مرتبہ سنت میں بھی اس معاملے پر کوئی رہنمائی نہیں پائی جاتی تو پھر اس مسئلے میں اسلام کن بنیادوں پر رہنمائی کرے گا؟ فرض کیجیے ایک خاتون کسی سبب سے اپنے بال منڈا لے یا بھوں چھلوا لے اور اس کی دیکھا دیکھی دوسری بہت سی عورتیں بھی ایسا ہی کرنے لگیں تو کن دینی بنیادوں پر اس ’’فتنے‘‘ کا سدباب کریں گے کیونکہ سنت کی فہرست تو غامدی صاحب نے تیار کر دی اور یہ مسائل اس فہرست سے باہر ہیں جو میں نے پیش کیے.
ایک اور سنت جو انہوں نے درج فہرست کی ہےوہ اللہ کا نام لے کر اور دائیں ہاتھ سے کھانا کھانا ہے. یہ سنت ان لوگوں کے لیے نہیں ہے جو یمنی کے بجائے یساری ہیں یعنی ہر کام بائیں سے کرتے ہیں. ایسے لوگوں کو مجبور کرنا کہ لازما دائیں ہاتھ سے کھائیں, عقلی اور نقلی کسی اعتبار سے درست نہیں ہو سکتا. اب سوال یہ ہے کہ کیا ایسا شخص اس سنت سے محروم رہے گا؟
پھر کھانا کھانے کی تو سنت انہوں نے بتائی, اس کے مقابلے میں بیت الخلا جانے کے آداب بھی بتانے چاہئیں تھے۔ یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ کھانے پینے کے آداب تو بیان ہوں لیکن فضلہ کے اخراج سے متعلق مسائل بیان ہی نہ ہوں۔ غامدی صاحب نے فہرست میں استنجا کو شامل کیا ہے لیکن یہ بیت الخلا کے اندر کا صرف ایک عمل ہے یعنی پانی کے ذریعے طہارت۔ پاخانہ میں داخل ہونے کے لیے پہلے بایاں پیر اندر رکھنا ہے، اس سے پہلے ایک دعا پڑھنی ہے, پھر نکلتے وقت پہلے دایاں پیر باہر رکھنا ہے. ان سب سنتوں کو علامہ غامدی درج فہرست ہی نہیں کرتے.
غامدی صاحب کی ایک اور غلطی کی ہے وہ یہ کہ انہوں نے اس بات کا لحاظ کیے بغیر کہ ایک چیز فرض, واجب, سنت یا نفل کس درجے میں ہے, سنتوں کی من مانی فہرست مرتب فرما دی ہے اور ہر ایک سنت کے فرق مراتب کو ملحوظ رکھے بغیر فرائض اور نفلوں کو ایک ہی ساتھ سنت بتا دیا ہے. مثلا روزہ اور اعتکاف دونوں کو سنت لکھا ہے. اگر ایک شخص روزہ نہ رکھے تو گنہگار ہوگا اور اعتکاف نہ کرے تو گنہگار نہ ہوگا.
اوپر جس قدر اعتراضات میں نے کیے اگر آپ روایتی علما سے ان مسائل کے متعلق پوچھیں تو وہ قرآن اور سنت (بشمول احادیث خواہ متواتر ہوں یا اخبار آحاد) کی مدد سے وہ بالکل صاف کر دیں گے کہ فلاں مسئلے میں سنت کیا ہے اور کیا نہیں ہے. مسائل اور مشکلات کی کوئی محدود تعداد نہیں اور نہ ہی سنتوں کی کوئی مجموعی تعداد مقرر ہے. بلکہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے پیغمبرانہ قول, فعل اور تقریر (سکوت) کے ذریعے جو کام جس طریقے سے کرنے کی رہنمائی ہوتی ہے وہ سنت ہے. سنت چند ظاہری اعمال کے ساتھ پورا ایک طرز عمل ہے جو مسلمان اپناتا ہے. چنانچہ کسی کے بیمار پڑنے پر عیادت, خوشی کے موقعوں پر مسرت کا اظہار, راستے پر پڑا ہوا کانٹا ہٹا دینا, دعوت حق کی راہ میں تکلیفیں برداشت کرنا جیسے بہت سے کام سنت میں داخل ہیں اور ان سب کی اصل تعداد خدا ہی بہتر جانتا ہے. مختصر یہ کہ سیاسی, معاشی, معاشرتی اور زندگی سے متعلق تمام مسائل میں وہ طرزعمل اختیار کرنا سنت ہے جس کی رہنمائی اللہ کے رسول کی سچی احادیث میں ہوتی ہے چاہے وہ خبر واحد ہوں یا متواتر.
چونکہ علامہ غامدی سر سید کی طرح خبرواحد کو حجت نہیں مانتے, اور ان کے نزدیک اصل چیز عملی تواتر ہے جس کی بنا پر سنتوں کی یہ مختصر تعداد وجود میں آئی ہے تاکہ دین ظنون و قیاسات کے بجائے یقینیات کا مجموعہ ثابت ہو. لیکن یہ سخت غلطی کھانا ہے کیونکہ سنت کے اس تصور سے ایک تو بہت سے مسلمان محروم رہ جاتے ہیں اور دوسرے سنت چند ظاہری اعمال تک محدود ہو جاتی ہے۔
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں
تبصرہ کریں