یہ کائنات نہ کوئی ڈیزائن ہے اور نہ اس کا کوئی ڈیزائنر۔ اور نہ یہ کائنات عدم ڈیزائن ہے جس کا ڈیزائنر معدوم ہے۔ یہ دونوں بیانات ناقص ہیں۔ ہم بحیثیت انسان بذریعہ حواس خارج میں جو کچھ دیکھتے ہیں وہ دراصل ہماری وجدان کی مشین اور ذہن ہی سے پروسیس ہو کر نکلتا ہے۔ اور وجدان کے اس جھروکے سے نظر آنے والی یہ کائنات ایک ایسی احدیّت کے طور پر ابھرتی ہے جس میں یہ ڈیزائن صرف ایک منظر ہے جس کی شناخت عدم ڈیزائن کے دوسرے منظر سے ہوتی ہے۔ اسی طرح اس کائنات میں منصوبہ بھی ایک منظر ہے جس کی شناخت عدمِ منصوبہ کے دوسرے منظر سے ہوتی ہے۔ کائنات میں چیزیں ایک دوسرے کے بالمقابل ہی شناخت ہوتی ہیں۔ اس لیے یہ کہنا کہ کائنات میں کوئی منصوبہ ہے اس لیے کوئی منصوبہ ساز ہونا چاہیے، یا کائنات بجائے خود کوئی ڈیزائن ہے اس لیے اس کا ڈیزائنر لازماً ہونا چاہیے ناقص خیال ہے۔ اسی طرح یہ کہنا کہ اس کائنات میں عدم ڈیزائن ہے اور اس لیے اس کا کوئی ڈیزائنر نہیں ہے یہ بھی ایک ناقص خیال ہی ہے۔ یہ دونوں بیانات آدھے ادھورے مناظر کی تعمیم کی بنا پر گمراہ کن قیاس کی مثالیں ہیں۔ یاد رہے کہ منصوبہ صرف ایک منظر ہے، یا یوں کہہ لیں کہ ڈیزائن...
ہم تم
ترجمے ہیں دوست
ایک دوجے کے لیے
آج تک
جو بھی کہا میں نے تمہیں
جو بھی کہا تم نے مجھے
سب ترجمہ پن سے
کون سمجھا ہے کسی کو تہہ تلک
خوامخواہ جذبات کی رو میں
سنو
اوریجنل کچھ بھی نہیں ہمدم
تم وہی ہو ایو
میں وہی آدم
اسی ڈسکورس میں جینا
اسی ڈسکورس میں مرنا
کبھی اقرار کا چکر
کبھی انکار کا دھرنا
یہی اپنا مقدر ہے
یہی ہے زندگی کرنا
متن سے کھینچ لوں گا ایک دن بالجبر
نفس معنی کی طرح تم کو
توڑ ڈالوں گا کسی دن فن کی زنجیریں تمام
(2006)
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں
تبصرہ کریں