یہ کائنات نہ کوئی ڈیزائن ہے اور نہ اس کا کوئی ڈیزائنر۔ اور نہ یہ کائنات عدم ڈیزائن ہے جس کا ڈیزائنر معدوم ہے۔ یہ دونوں بیانات ناقص ہیں۔ ہم بحیثیت انسان بذریعہ حواس خارج میں جو کچھ دیکھتے ہیں وہ دراصل ہماری وجدان کی مشین اور ذہن ہی سے پروسیس ہو کر نکلتا ہے۔ اور وجدان کے اس جھروکے سے نظر آنے والی یہ کائنات ایک ایسی احدیّت کے طور پر ابھرتی ہے جس میں یہ ڈیزائن صرف ایک منظر ہے جس کی شناخت عدم ڈیزائن کے دوسرے منظر سے ہوتی ہے۔ اسی طرح اس کائنات میں منصوبہ بھی ایک منظر ہے جس کی شناخت عدمِ منصوبہ کے دوسرے منظر سے ہوتی ہے۔ کائنات میں چیزیں ایک دوسرے کے بالمقابل ہی شناخت ہوتی ہیں۔ اس لیے یہ کہنا کہ کائنات میں کوئی منصوبہ ہے اس لیے کوئی منصوبہ ساز ہونا چاہیے، یا کائنات بجائے خود کوئی ڈیزائن ہے اس لیے اس کا ڈیزائنر لازماً ہونا چاہیے ناقص خیال ہے۔ اسی طرح یہ کہنا کہ اس کائنات میں عدم ڈیزائن ہے اور اس لیے اس کا کوئی ڈیزائنر نہیں ہے یہ بھی ایک ناقص خیال ہی ہے۔ یہ دونوں بیانات آدھے ادھورے مناظر کی تعمیم کی بنا پر گمراہ کن قیاس کی مثالیں ہیں۔ یاد رہے کہ منصوبہ صرف ایک منظر ہے، یا یوں کہہ لیں کہ ڈیزائن...
ناری تم لوک کتھا کی وہی پری ہو
دور گگن سے اس دھرتی پر
کریڑا کرنے جو آتی تھی
یہیں بس گئی
یہیں بس گئی ؟
نہیں نہیں
اک دانو نے پکڑ لیا تھا
جس کے جھلمل نبھ پنکھوں کو
دھر پوَرُش سے کتر دیا تھا
جس کے تن کو
تن کے من کو
اس دانو نے
بس اک چھن میں
رشتوں ناتوں سمبندھوں کے
کرُور جال میں جکڑ لیا تھا
پھر ُیگ جانے کتنے بیتے
پنکھ رَہِت اُن بیاکل ڈَینوں کی تڑپھن میں
سونا چاندی ، ہیرے موتی
لعل ، جواہر ، نیلم روبی
مٰخمل ،ریشم، خوشبو
سب نیوچھاور
سب نیوچھاور اس کے تن پر
پھر بھی من تھا چھٹ پٹ چھٹ پٹ
جیسے جل بن مچھلی
سورج، چندا اور ستارے
گنگا ،جمنا اور ہمالَے
آتی جاتی ساری رِتوئیں
کلی، پھول اور تتلی، بھونرے
سب روتے تھے
اس کے دکھ پر
یہ کہتے تھے
اڑ جا وپھرمُکت گگن میں
پنکھ لگا کر نقلی
او ری پگلی
2005
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں
تبصرہ کریں