نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

مذہب و تصوف اور فلسفہ و سائنس کا منتہائے مقصود

یہ کائنات نہ کوئی ڈیزائن ہے اور نہ اس کا کوئی ڈیزائنر۔ اور نہ یہ کائنات عدم ڈیزائن ہے جس کا ڈیزائنر معدوم ہے۔ یہ دونوں بیانات ناقص ہیں۔ ہم بحیثیت انسان بذریعہ حواس خارج میں جو کچھ دیکھتے ہیں وہ دراصل ہماری وجدان کی مشین اور ذہن ہی سے پروسیس ہو کر نکلتا ہے۔ اور وجدان کے اس جھروکے سے نظر آنے والی یہ کائنات ایک ایسی احدیّت کے طور پر ابھرتی ہے جس میں یہ ڈیزائن صرف ایک منظر ہے جس کی شناخت عدم ڈیزائن کے دوسرے منظر سے ہوتی ہے۔ اسی طرح اس کائنات میں منصوبہ بھی ایک منظر ہے جس کی شناخت عدمِ منصوبہ کے دوسرے منظر سے ہوتی ہے۔ کائنات میں چیزیں ایک دوسرے کے بالمقابل ہی شناخت ہوتی ہیں۔ اس لیے یہ کہنا کہ کائنات میں کوئی منصوبہ ہے اس لیے کوئی منصوبہ ساز ہونا چاہیے، یا کائنات بجائے خود کوئی ڈیزائن ہے اس لیے اس کا ڈیزائنر لازماً ہونا چاہیے ناقص خیال ہے۔ اسی طرح یہ کہنا کہ اس کائنات میں عدم ڈیزائن ہے اور اس لیے اس کا کوئی ڈیزائنر نہیں ہے یہ بھی ایک ناقص خیال ہی ہے۔ یہ دونوں بیانات آدھے ادھورے مناظر کی تعمیم کی بنا پر گمراہ کن قیاس کی مثالیں ہیں۔ یاد رہے کہ منصوبہ صرف ایک منظر ہے، یا یوں کہہ لیں کہ ڈیزائن...

اقبال اور سرقہ

حسن الدین احمد نے اپنے سندی مقالے ’’انگریزی شاعری کے منظوم اردو ترجموں کا تحقیقی تنقیدی مطالعہ‘‘، اشاعت مئی 1984، میں اقبال کی 16 نظموں کی فہرست دی ہے اور بتایا ہے کہ ان نظموں کو تین حصوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔ حسن الدین احمد کے مطابق ان میں سے 5 نظموں کے متعلق اقبال نے اصل انگریزی شاعر کی نشاندہی کی لیکن انگریزی نظم کا عنوان ظاہر نہیں کیا۔ 4 نظموں کے متعلق اقبال نے صرف ماخوذ لکھنے پر اکتفا کیا اور 7 نظموں کے متعلق اقبال نے ماخوذ نہیں لکھا۔ حسن الدین احمد کہتے ہیں کہ اقبال نے ماخوذ اور ترجمہ کا فرق ملحوظ نہیں رکھا اور منظوم ترجموں کو بھی ماخوذ کہا ہے۔
حسن الدین احمد کے اس سندی مقالہ کی بنا پر (اور ممکن ہے کچھ دوسرے ماخذ بھی ہوں جن کا علم مجھے نہیں ہے) بعض لکھنے والے اقبال کو سارق قرار دیتے ہیں۔
اقبال کو سرقہ کا مرتکب کہنا کتنا درست ہے جبکہ خود حسن الدین احمد کے بقول اردو شاعروں میں اقبال غالبا وہ پہلے شخص ہیں ’’جنہوں نے ماخوذ کی اصطلاح استعمال کی اور اس اصطلاح کو ماخوذ نظموں کے لیے بھی استعمال کیا اور آزاد منظوم ترجموں کے لیے بھی۔‘‘ یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں ہے کہ اقبال نے مخزن کے اڈیٹر شیخ عبدالقادر کی تحریک پر انگریزی نظموں کے منظوم ترجمے کیے اور اس کے نتیجے میں جو منظوم فن پارے وجود میں آئے مخزن میں ان کی اشاعت کے ساتھ ہی اس کی تصریح کر دی گئی کہ یہ ‘ماخوذ‘ ہیں۔
حسن الدین احمد کے مطابق علامہ اقبال کی وہ سات نظمیں جن کے متعلق یہ صراحت نہیں کہ وہ ماخوذ ہیں ان میں سے ایک ہے ’’والدہ مرحومہ کی یاد میں‘‘ جس کے متعلق حسن الدین احمد نے لکھا ہے کہ اس میں ولیم کوپر کی ایک نظم کا تاثر صاف ظاہر ہوتا ہے اور دونوں نظموں میں اشعار اور بندوں کی ترتیب مختلف ہونے کے باوجود ان میں مماثلت پائی ہے۔ ایسی ہی ایک دوسری نظم جو داغ کے انتقال پر لکھا گیا مرثیہ ہے اس کے متعلق حسن الدین احمد کا کہنا ہے کہ اس میں ورڈزورتھ کی وفات پر آرنلڈ کے مرثیے کا نہ صرف تاثر ہے بلکہ فنی ترتیب و تشکیل میں خاصی مشابہت پائی جاتی ہے۔ حسن الدین احمد ان دونوں نظموں کے متعلق کہتے ہیں کہ ’اقبال نے یہ صراحت نہیں کی کہ یہ نظمیں ماخوذ ہیں اور نہ ہی مرثیوں پر ماخوذ کی مہر ثبت کرنی درست ہوتی لیکن ان پر بہرحال ماخوذ کا اطلاق ہوتا ہے۔‘ (حسن الدین احمد، 46)
جب حسن الدین احمد اس بات کو تسلیم کرتے ہیں کہ مرثیوں پر ماخوذ کی مہر ثبت کرنا درست نہیں تو ان دونوں نظموں کے متعلق سرقہ کا حکم لگانا درست نہیں ہو سکتا اور نہ حسن الدین احمد نے اس معاملے میں اقبال کو سارق بتایا ہے (بلکہ مجھے شک ہے کہ انہوں نے اپنی کسی بھی تحریر میں اقبال کو سرقہ کا مرتکب قرار دیا ہو)۔
اب باقی رہیں سات میں سے پانچ نظمیں جن کے متعلق اقبال نے بالفرض جان بوجھ کر صراحت نہیں کی تو اس میں سے بھی ایک نظم ’’ایک پرندہ اور جگنو‘‘ کو منہا کر سکتے ہیں کیونکہ مولوی عبدالرزاق کی مرتب کردہ کلیات اقبال میں اس کے ماخذ کی نشاندہی پائی جاتی ہے کہ یہ ’’نظم انگلستان کے ایک نازک خیال شاعر ولیم کوپر کی ایک مشہور و مقبول نظم ’’اے نائیٹنگیل اینڈ گلوورم‘‘ سے ماخوذ ہے۔ (حوالہ سابق، 162)
اس طرح حسن الدین احمد کے مطابق زیادہ سے زیادہ 6 نظمیں ایسی ہیں جن کے متعلق اقبال نے اعتراف نہیں کیا کہ وہ ماخوذ، منظوم یا آزاد ترجمے ہیں۔ ان چھ نظموں میں وہ مرثیے بھی شامل ہیں جن میں ماخوذ لکھنا اخلاقاً مناسب نہ ہوتا۔ کیونکہ کسی شخص کے مرثیے میں بیان کیے گئے خیالات کسی اور شخص کے مرثیے سے مستعار ہوں تو عجیب غیرمناسب کیفیت پیدا ہو جاتی ہے۔ اس سلسلے میں اصولی بات یہ ہے کہ اگر آپ کسی شخص کا مرثیہ کہیں تو اس میں مرنے والے کے متعلق اپنے طبع زاد خیالات بیان کریں نہ کہ کسی دوسرے شخص کے مرثیے سے خیالات نقل کریں۔ لیکن ایسا ہونا ایک فطری بات بھی ہے جبکہ دونوں متوفی یکساں خصوصیات کے حامل ہوں اور کسی شخص کا مرثیہ کہنے والے کی زبان پر بے اختیار وہی خیالات الفاظ کی طبع زاد ترتیب کے ساتھ جاری ہو جائیں جو کسی اور شخص کا مرثیہ پڑھتے ہوئے اس کے ذہن میں محفوظ رہ گئے تھے۔
حسن الدین احمد نے اس کتاب میں صفحہ 150 سے 157 تک اقبال کے 19 اشعار (بشمول بند) کو مغربی شعرا کی لائینوں کے پہلو بہ پہلو رکھ کر ان کے انگریزی شاعری کے ’’عکس‘‘ ہونے کی نشاندہی کی ہے، اور کہا ہے کہ ’’ان کے علاوہ بھی اقبال کے خیال اور انداز بیان میں مغربی افکار کی جھنکار سنائی دیتی ہے۔ان کا حوالہ اقبال نے اشارۃً دیا ہے نہ صراحتاً۔‘‘ (حوالہ سابق: صفحہ 157) اس سے معلوم ہوتا ہے اقبال نے آنگریزی شعرا کے کلام سے شعری خیال کو بلاحوالہ اخذ کیا.
یہاں مذکورہ کتاب میں درج 19 مثالوں میں سے ایک پیش کرنا دلچسپی سے خالی نہیں۔ حسن الدین احمد کے بقول اقبال نے George Crabbe (1754-1832) کی درجِ ذیل لائن:
Life is not measured by the time we live
کا ’’عکس‘‘ کچھ اس طرح پیش کیا:
تو اسے پیمانہ امروز و فردا سے نہ ناپ
جاوداں پیہم دواں ہردم رواں ہے زندگی
کیا یہ واقعی جارج کریبے کی لائن کا ’’عکس‘‘ ہے؟ یا اس کی بازگشت اور جھنکار ہے؟ اس سے صرف اتنا معلوم ہوتا ہے کہ اقبال کے اس شعر میں اس سے پہلے کے شاعر کریبے کا صرف ایک خیال استعمال ہوا ہے۔ اس سلسلے میں دیکھنے کی بات یہ ہے کہ ’’زندگی کو وقت کے پیمانے سے نہ ماپنے‘‘ کا خیال دنیا میں سب سے پہلے کس نے ظاہر کیا کیونکہ دوسرے شاعروں نے بھی اس خیال کو مختلف سیاقوں میں استعمال کیا ہے۔ مثلاً Philip James Bailey (1816-1902)
نے کہا ہے:
We live in deeds, not years; in thoughts, not breaths;
In feelings, not in figures on a dial.
We should count time by heart-throbs. He most lives
Who thinks most—feels the noblest—acts the best.

ایک اور انگریزی شاعر

Nathaniel Cotton (1707 – 1788)
کی لائنیں ہیں:
Who measures life by rolling years?
fools measure by revolving spheres
ممکن ہے تلاش کرنے سے اور انگریزی شعرا نکلیں جن کے ہاں زندگی کو "وقت کے پیمانے سے نہ ماپنے" کا خیال پایا جاتا ہو. سوال یہ ہے کہ کس بنیاد پر حسن الدین احمد نے یہ تحقیق پیش کی کہ اقبال نے پیمانہ امروز و فردا والے اس شعر میں لازما جارج کریبے George Crabbe کی لائینوں کا ہی عکس پیش کیا؟ اور بالفرض ان کا یہ کہنا درست بھی ہو تو کیا اس مثال کو یا ایسی مثالوں کو خود حسن الدین احمد نے سرقہ قرار دیا ہے؟ (میں سر دست حسن الدین احمد کی یہ پوری کتاب پڑھنے سے قاصر ہوں، جو لوگ پوری کتاب پڑھیں وہ اس کا جواب دیں)۔
ہمارے ہاں سرقہ پر باریک بیں تحقیقی اور اصولی گفتگو کی ضرورت ہے. اقبال کے اشعار کی جو مثالیں حسن الدین احمد نے یہ کہہ کر پیش کی ہیں کہ وہ انگریزی شعرا کے اشعار کے عکس ہیں، ان پر مزید تحقیق ہونی چاہیے. 

بعض لوگ اقبال کی قومی و ملی شاعری سے متنفر ہیں. اور اسی سبب سے وہ اقبال کے پیچھے ہاتھ دھو کر پڑے ہوئے ہیں, اور اسی لیے وہ ان کو سارق ثابت کرنا چاہتے ہیں. مجھے بھی اب اقبال کی شاعری میں فکری اعتبار سے کوئی خاص بات نظر نہیں آتی. حالانکہ میں اقبال کو بچپن سے پڑھتا آ رہا ہوں. ان کا زور بیان, خطابت, دردمندی, جوش و خروش, قلب کو گرمانا یہ سب قابل تحسین باتیں ہیں لیکن باایں ہمہ ان کی شاعری جیسا کہ کلیم الدین احمد نے ٹھیک ہی کہا ہے کہ "قومی اور ملی شاعری" ہے اور میری نظر میں ان کی ایسی شاعری سے انسان دوستی اور انسان نوازی کے کاز کو نقصان پہنچا. اور ایسا میں ہی نہیں بہت سے لوگ سمجھتے ہیں لیکن یہ رویہ درست نہیں کہ صرف اس لیے اقبال کو درجن بھر مثالوں کے ذریعے سارق ثابت کیا جائے اس حال میں کہ خود اقبال نے اپنی شاعری پر مغربی اثرات کو کھل کر تسلیم کیا ہو. حسن الدین احمد نے اپنی اسی کتاب میں اقبال کا یہ اعتراف نقل کیا ہے:
’’میں اعتراف کرتا ہوں کہ میں نے ہیگل، گوئٹے، غالب، بیدل اور ورڈسورتھ سے بہت استفادہ کیا ہے۔ ہیگل اور گوئٹے نے اشیا کی باطنی حقیقت تک پہنچنے میں میری رہنمائی کی۔ غالب اور بیدل نے مجھے یہ سکھایا ہے کہ مغربی شاعری کے اقدار کو سمو لینے کے باوجود اپنے جذبہ اور اظہار میں مشرقیت کی روح کو کیسے زندہ رکھوں اور ورڈسورتھ نے طالب علمی کے زمانہ میں مجھے دہریت سے بچا لیا۔‘‘ صفحہ 149
حسن الدین احمد نے یہ بھی لکھا ہے کہ ‘‘اقبال نے انگریزی ادب کا غائر مطالعہ کیا تھا اور اس پر ان کی گہری نظر تھی۔ یورپ اور انگلستان کے قیام کے دوران انگریزی ادب سے ان کی دلچسپی میں اضافہ ہوا۔ اپنے ہمعصر ادیبوں کی طرح ان کی بھی خواہش تھی کہ مغربی ادب کے فن پاروں سے اردو ادب کو مالامال کریں۔ جب اقبال یورپ سے واپس ہوئے تو مخزن کے اڈیٹر شیخ عبدالقادر نے ان سے فرمائش کی کہ وہ انگریزی نظموں کے منظوم ترجموں کی طرف توجہ کریں۔‘‘ غرض یہ اقبال کے دور کی ایک روش تھی کہ لوگ انگریزی شاعری سے اخذ و استفادہ کرتے تھے کیونکہ اس کے بغیر کوئی چارہ نہیں تھا۔ اور اگر ایسے میں بلاحوالہ کچھ چیزیں آ گئیں تو اس کو اُس دور میں سرقہ سے تعبیر کرنا موزوں نہیں ہو سکتا (اگر اقبال کے ہمعصروں نے ان پر سرقہ کا الزام لگایا ہو تو بتایا جائے) اور نہ آج اس پر اتنی چیخ و پکار کی ضرورت ہے۔ اور اگر سختی اور غلو کے ساتھ احتساب کیا جائے تو اقبال کیا، پوری اردو زبان ہی ترجمہ قرار پائے گی۔ اسی بات کو ہندی کے ادیب اور ناقد راجندر یادو نے کہیں پر شاید ہندی کا نام لیتے ہوئے کہا ہے کہ ہم ہر کہیں مغرب کے ترجمے ہیں۔
میں سمجھتا ہوں کہ ایک شاعر کے لیے کسی مضمون نگار کی طرح اپنے ہر مصرعے اور شعر کے نیچے اس کے (مرکزی خیال کے) ماخذ کا حوالہ دینا ممکن نہیں ہوتا۔ یہ محققوں اور تنقید نگاروں کا کام ہے کہ وہ اس پر تحقیق کریں کہ کون سا خیال پہلے کس شاعر نے کب اور کیسے پیش کیا اور کب کس دوسرے شاعر نے اس کو اپنی زبان میں یا لفظ بہ لفظ استعمال کیا۔ اصل بات یہ دیکھنا ہے کہ ایک شخص نے جو کچھ پیش کیا وہ بجائے خود کتنا کامیاب اور اثرانگیز ہے۔ مثال کے طور پر اقبال نے بچے کی دعا میٹلڈا بینتھم ایڈورڈس سے ترجمہ کیا جو مکمل نہیں ہے لیکن دیکھنے کی بات یہ ہے کہ کسی دوسرے نے اسی نظم کا اقبال سے بہتر ترجمہ پیش کیا؟ اور کیا اس سے بہتر ترجمہ پیش کرنا اب بھی کسی کے لیے ممکن ہے؟ اس سلسلے میں کئی اہم سوالات پیدا ہوتے ہیں۔ ایک تو یہ کہ آخر اقبال نے مثلاً بچے کی دعا یا دیگر کئی نظموں کی اشاعت کے ساتھ صرف ماخوذ لکھنے پر اکتفا کیوں کیا؟ اگر نیت سرقہ کی تھی تو ماخوذ کیوں لکھا؟ اور ماخوذ لکھا تو اصل شاعر کا نام لکھ دینے میں کیا حرج تھا؟ اور اگر کبھی اصل شاعر کا نام ظاہر کیا تو اصل نظم کا نام کیوں چھپایا؟ اور کبھی سرے سے کچھ لکھا ہی نہیں، ماخوذ ہونے کی بھاپ تک نہ نکالی؟ اقبال کی ایسی نظموں کو کسی نہ کسی درجے میں سرقہ کہنے والوں نے کبھی غور کیا کہ اس سب میں کیا کیا مصلحتیں رہی ہوں گی؟ پھر یہ سوال بھی بیحد اہم ہے کہ اگر یہ واقعی سرقے تھے تو کیا اس میں صرف اقبال کا قصور تھا؟ یا اس میں اس اڈیٹر کا بھی کردار تھا جس نے ان ’’سرقوں‘‘ کو اپنے رسالے میں جگہ دی؟ ظاہر ہے اس کی ذمہ داری صرف اقبال پر عائد نہیں ہوگی۔ اس میں مخزن کے اڈیٹر شیخ عبدالقادر بھی شریک سمجھے جائیں گے کیونکہ اقبال کو اتنے عظیم ادبی ’’سرقوں‘‘ کی تحریک انہوں نے ہی دلائی اور کبھی ماخوذ تو کبھی بلاحوالہ انہیں اپنے رسالے میں شائع کرتے رہے۔
پس، مذکورہ بالا سوالوں پر اور اقبال کے ہم عصر ادبی و ثقافتی حالات اور روایات پر سنجیدگی سے غور کرنے کے بعد ہی ’’اقبال کا سرقہ‘‘ جیسی بات کہنے میں ایک شخص حق بجانب ہو سکتا ہے۔ لیکن میرا خیال ہے کہ اتنی ماتھا پچی کی ضرورت لوگ نہیں سمجھتے۔ 

آخر میں, جو لوگ اقبال کے ’’ترجموں‘‘ سے اس قدر نالاں ہیں اور دن رات یہ رٹ لگائے ہوئے ہیں کہ یہ تو اقبال کے ترجمے ہیں، تخلیقات نہیں، انہیں حسن الدین احمد محض ’’ترجمے‘‘ نہیں سمجھتے بلکہ ان کے متعلق یہ کہتے ہیں:
اقبال کے تمام منظوم ترجمے نہ صرف اردو شاعری کا جزو بن گئے ہیں بلکہ یہ مختصر ذخیرہ اتنا قیمتی ہے کہ اردو شاعری اس پر ناز کر سکتی ہے۔ یہ منظوم ترجمے زبان و بیان کی لطافت و شیرینی، مضامین کی ندرت اور خیالات کی نزاکت کے اعتبار سے قاری کو اس طرح متاثر کرتے ہیں کہ وہ ترجمہ نہیں بلکہ اصل تخلیق معلوم ہوتے ہیں۔ اگر اقبال اشارۃً یا صراحتہً حوالہ نہ دیتے تو یہ پہچاننا مشکل تھا کہ یہ تخلیقات اقبال اور انگریزی شاعروں کی مشترکہ ملکیت ہیں۔ صفحہ 159 
(کتاب کے سرورق کی تصویر ریختہ ویب سائٹ سے لی گئی ہے اور یہ پوری کتاب ریختہ پر پڑھی جا سکتی ہے۔)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

تحقیق کے مسائل

تحقیق ایک اہم علمی فریضہ ہے۔ تحقیق کے ذریعے ہم نامعلوم کا علم حاصل کرتے ہیں۔ غیر محسوس کو محسوس بناتے ہیں۔ جو باتیں پردہ ٔ غیب میں ہوتی ہیں، انہیں منصہ ٔ شہود پر لاتے ہیں تا کہ کسی امر میں یقینی علم ہم کو حاصل ہو، اور اس کی بنیاد پر مزید تحقیق جاری رکھی جا سکے۔تحقیق ایک مسلسل عمل ہے۔ موجودہ دور میں یہ ایک نتیجے تک پہنچنے سے زیادہ ایک طریقے ( تک پہنچنے) کا نام ہے۔نتیجہ خواہ کچھ ہو، موجودہ دور میں اس کے طریقہ ٔ کار یا منہاجیات کو صاف و شفاف بنانا فلسفیانہ طور پر زیادہ ضروری سمجھا جاتا ہے تاکہ زیادہ تر نتائج صحت کے ساتھ محسوسات کے دائرے میں حتی الامکان منتقل ہو سکیں۔ دائرہ تحقیق میں ایک مقدمہ کو نتیجہ میں بدلنے کے طریقے کی جس قدر اصلاح ہوتی جائے گی اسی قدر تحقیق معتبر مانی جائے گی۔ البتہ بعض اوقات یوں بھی ہوتا ہے کہ کسی تحقیق کا طریقہ صحیح نہیں ہو اور نتیجہ بالکل صحیح ہو۔ لیکن اس ناقابل حل مسئلے کے باوجود بہرحال طریقے میں حذف و اضافہ اور اصلاح و تصحیح کی ضرورت ہمیشہ باقی رہتی ہے۔ تحقیق کے عربی لفظ کا مفہوم حق کو ثابت کرنا یا حق کی طرف پھیرنا ہے۔ حق کے معنی سچ کے ہیں۔ مادہ حق سے...

قرآن اور بگ بینگ

ایک بہت طویل عرصے سے اہل اسلام کا مغرب زدہ طبقہ قرآن کی تصدیق جدید ترین سائنسی تحقیقات کی بنیاد پر کرنا چاہتا ہے. اس کی اصل دلیل یہ ہے کہ اگر قرآن خدا کی کتاب نہ ہوتی تو اس میں بیسویں صدی کے سائنسی انکشافات کا ذکر چودہ سو سال پہلے کیونکر ممکن تھا؟ اس سلسلے میں ایک بہت بڑی مثال بگ بینگ کی دی جاتی ہے اور قرآن کی اس آیت کو دلیل بنایا جاتا ہے: اَوَلَمْ يَرَ الَّذِيْنَ كَفَرُوْٓا اَنَّ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ كَانَتَا رَتْقًا فَفَتَقْنٰهُمَا ۭ وَجَعَلْنَا مِنَ الْمَاۗءِ كُلَّ شَيْءٍ حَيٍّ ۭ اَفَلَا يُؤْمِنُوْنَ کیا کافروں نے نہیں دیکھا کہ آسمان اور زمین دونوں ملے ہوئے تھے تو ہم نے جدا جدا کردیا۔ اور تمام جاندار چیزیں ہم نے پانی

مذہب و تصوف اور فلسفہ و سائنس کا منتہائے مقصود

یہ کائنات نہ کوئی ڈیزائن ہے اور نہ اس کا کوئی ڈیزائنر۔ اور نہ یہ کائنات عدم ڈیزائن ہے جس کا ڈیزائنر معدوم ہے۔ یہ دونوں بیانات ناقص ہیں۔ ہم بحیثیت انسان بذریعہ حواس خارج میں جو کچھ دیکھتے ہیں وہ دراصل ہماری وجدان کی مشین اور ذہن ہی سے پروسیس ہو کر نکلتا ہے۔ اور وجدان کے اس جھروکے سے نظر آنے والی یہ کائنات ایک ایسی احدیّت کے طور پر ابھرتی ہے جس میں یہ ڈیزائن صرف ایک منظر ہے جس کی شناخت عدم ڈیزائن کے دوسرے منظر سے ہوتی ہے۔ اسی طرح اس کائنات میں منصوبہ بھی ایک منظر ہے جس کی شناخت عدمِ منصوبہ کے دوسرے منظر سے ہوتی ہے۔ کائنات میں چیزیں ایک دوسرے کے بالمقابل ہی شناخت ہوتی ہیں۔ اس لیے یہ کہنا کہ کائنات میں کوئی منصوبہ ہے اس لیے کوئی منصوبہ ساز ہونا چاہیے، یا کائنات بجائے خود کوئی ڈیزائن ہے اس لیے اس کا ڈیزائنر لازماً ہونا چاہیے ناقص خیال ہے۔ اسی طرح یہ کہنا کہ اس کائنات میں عدم ڈیزائن ہے اور اس لیے اس کا کوئی ڈیزائنر نہیں ہے یہ بھی ایک ناقص خیال ہی ہے۔ یہ دونوں بیانات آدھے ادھورے مناظر کی تعمیم کی بنا پر گمراہ کن قیاس کی مثالیں ہیں۔ یاد رہے کہ منصوبہ صرف ایک منظر ہے، یا یوں کہہ لیں کہ ڈیزائن...