یہ کائنات نہ کوئی ڈیزائن ہے اور نہ اس کا کوئی ڈیزائنر۔ اور نہ یہ کائنات عدم ڈیزائن ہے جس کا ڈیزائنر معدوم ہے۔ یہ دونوں بیانات ناقص ہیں۔ ہم بحیثیت انسان بذریعہ حواس خارج میں جو کچھ دیکھتے ہیں وہ دراصل ہماری وجدان کی مشین اور ذہن ہی سے پروسیس ہو کر نکلتا ہے۔ اور وجدان کے اس جھروکے سے نظر آنے والی یہ کائنات ایک ایسی احدیّت کے طور پر ابھرتی ہے جس میں یہ ڈیزائن صرف ایک منظر ہے جس کی شناخت عدم ڈیزائن کے دوسرے منظر سے ہوتی ہے۔ اسی طرح اس کائنات میں منصوبہ بھی ایک منظر ہے جس کی شناخت عدمِ منصوبہ کے دوسرے منظر سے ہوتی ہے۔ کائنات میں چیزیں ایک دوسرے کے بالمقابل ہی شناخت ہوتی ہیں۔ اس لیے یہ کہنا کہ کائنات میں کوئی منصوبہ ہے اس لیے کوئی منصوبہ ساز ہونا چاہیے، یا کائنات بجائے خود کوئی ڈیزائن ہے اس لیے اس کا ڈیزائنر لازماً ہونا چاہیے ناقص خیال ہے۔ اسی طرح یہ کہنا کہ اس کائنات میں عدم ڈیزائن ہے اور اس لیے اس کا کوئی ڈیزائنر نہیں ہے یہ بھی ایک ناقص خیال ہی ہے۔ یہ دونوں بیانات آدھے ادھورے مناظر کی تعمیم کی بنا پر گمراہ کن قیاس کی مثالیں ہیں۔ یاد رہے کہ منصوبہ صرف ایک منظر ہے، یا یوں کہہ لیں کہ ڈیزائن...
بلی ، کتے ، گدھے ، بندر، سور
پیارے پیارے اور بھیانک ، گندے
یا نالی کے کیڑے بھِن بھِن
یا مکھی مچھر، تتلی بھونرے بھَن بھَن
سب جیتے ہیں اوپر اوپر
عام سطح پر باہر باہر
اِس مایا سے اُس مایا پر
جا پڑتے ہیں جبری جبری بے خبری میں
نہیں جانتے سب کایا ہے فانی
جو ظاہر ہے سب چھایا ہے جانی
ظاہر باہِر کوئی حقیقت
نہیں ہے ایسی تیسی اس دنیا کی
چل بھیتر جا
فلس فلس فس
ہاں بھیتر جا
رینگ رینگ کر
سرک سرک کر
اپنے اندر
ڈوب خودی میں
اُب ڈُب اُب ڈُب
پھر باہر آ
کھول کے آنکھیں
دیکھ یہ دنیا، سندر اور بھیاوہ
ہے قدموں میں آنکھ بچھائے
لوٹ رہے ہیں کس شردھا سے سب دوپائے
جیت لیا نا آخر تو نے
بھیتر جا کر اس دنیا کو مردِ قلندر
مرد ِسکندر اس مایا کو، اس مدیرا کو
چھان لیا ناآخر
جی لینا ہے ٹھان لیا نا آخر!
2009
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں
تبصرہ کریں