نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

اشاعتیں

مذہب و تصوف اور فلسفہ و سائنس کا منتہائے مقصود

یہ کائنات نہ کوئی ڈیزائن ہے اور نہ اس کا کوئی ڈیزائنر۔ اور نہ یہ کائنات عدم ڈیزائن ہے جس کا ڈیزائنر معدوم ہے۔ یہ دونوں بیانات ناقص ہیں۔ ہم بحیثیت انسان بذریعہ حواس خارج میں جو کچھ دیکھتے ہیں وہ دراصل ہماری وجدان کی مشین اور ذہن ہی سے پروسیس ہو کر نکلتا ہے۔ اور وجدان کے اس جھروکے سے نظر آنے والی یہ کائنات ایک ایسی احدیّت کے طور پر ابھرتی ہے جس میں یہ ڈیزائن صرف ایک منظر ہے جس کی شناخت عدم ڈیزائن کے دوسرے منظر سے ہوتی ہے۔ اسی طرح اس کائنات میں منصوبہ بھی ایک منظر ہے جس کی شناخت عدمِ منصوبہ کے دوسرے منظر سے ہوتی ہے۔ کائنات میں چیزیں ایک دوسرے کے بالمقابل ہی شناخت ہوتی ہیں۔ اس لیے یہ کہنا کہ کائنات میں کوئی منصوبہ ہے اس لیے کوئی منصوبہ ساز ہونا چاہیے، یا کائنات بجائے خود کوئی ڈیزائن ہے اس لیے اس کا ڈیزائنر لازماً ہونا چاہیے ناقص خیال ہے۔ اسی طرح یہ کہنا کہ اس کائنات میں عدم ڈیزائن ہے اور اس لیے اس کا کوئی ڈیزائنر نہیں ہے یہ بھی ایک ناقص خیال ہی ہے۔ یہ دونوں بیانات آدھے ادھورے مناظر کی تعمیم کی بنا پر گمراہ کن قیاس کی مثالیں ہیں۔ یاد رہے کہ منصوبہ صرف ایک منظر ہے، یا یوں کہہ لیں کہ ڈیزائن...
حالیہ پوسٹس

تفریقی رشتہ اور موجودات کا نظام

یہ نکتہ مرزا سلطان احمد کے ہاں بار بار پیدا ہوتا ہے کہ اگر دنیا میں فرق ، تضاد اور تبائن کا یہ سلسلہ نہ ہوتا تونہ چیزوں کی باہمی شناخت ممکن ہوتی اور نہ کاروبار ہستی ایک نظام کی صورت میں چل سکتا: فرض کرو کہ دنیا میں اس وقت سب افراد ایک ہی شکل ، ایک ہی قوت اور ارادہ کے ہیں ، ان کے اغراض اجتہادیہ بھی ایک ہی قسم سے ہیں، وہ سب کے سب ایک ہی منزل کے سالک ہیں، کیا ان حالات میں دنیا ترقی کر سکے گی اور کام چل جائے گا اور لوگ آرام و آسائش سے رہ سکیں گے؟ اگر صحیح نتیجہ پر پہونچ کر جواب اس کا دیا جاوے تویہی کہنا پڑے گا کہ موجودہ نظم و نسق باقی نہیں رہ سکتا اور ایک ہی دم میں طلسم انسانی تمدن اور آئینہ معلومات صدمہ دل شکن سے چکناچور ہو جائے گا۔ مدارج اور مراتب کے اختلاف سے ہی دنیا کا کام چل رہا ہے۔ اگر ایک حکومت میں سب بادشاہ ہی ہوں یا سب رعایا تو کس طرح سیاسی ضابطہ چلے گا۔ اگر ایک گھر میں سب لوگ فرض کریں کہ ایک ہی شکل اور شباہت کے ہیں تو کون شخص ان میں تمیز کر سکتا ہے اور کس طرح اس گھر کا انتظام چلنے کی امید کی جا سکتی ہے۔ 1 یہی بات ان کے مضمون بعنوان "احساس " مطبوعہ شمس بنگالہ مارچ 190...

مرزا سلطان احمد کا علمِ انساب اور سوسیئر کی سیمیالوجی

[کتاب "مرزا سلطان احمد اور ساخت" سے ایک اقتباس] مثبت اور منفی یا اتحادی و تفریقی نسبتوں کا ذکر پہلے کیا جا چکا ہے۔ مرزا صاحب کے نزدیک ان نسبتوں پر مبنی علم کو علم انساب کہتے ہیں جس پر انسان کی علمی ترقی موقوف ہے۔یہ انسانی افراد کے حسب و نسب یا ان کی شجرہ سازی پر مبنی علم الانساب نہیں ہے جو عربوں کے ساتھ مخصوص ہے یا یہ وہ علم الانساب بھی نہیں ہے جسے جینیالوجی کے ترجمے کے طور پر قبول کیا گیا ہے۔ مرزا سلطان احمد کے نزدیک علمِ انساب وہ خاص علم ہے جو تمام چیزوں میں مخفی اور مستتر نسبتوں سے بحث کرتا ہے۔ مرزا صاحب کے علم انساب کی اہمیت کو سوسیئر کے سیمیالوجی کے تناظر میں بھی سمجھا جا سکتا ہےکیونکہ دونوں تصورات میں بعض مشابہتیں پائی جا سکتی ہیں لیکن اس موضوع پر مکمل بحث اس مقالے کی دوسری جلد میں آئے گی۔ سردست، اس علم کے تصور کوبڑی حد تک انہیں کے الفاظ میں تلخیص و اختصار کے ساتھ پیش کرنے کی کوشش کرتا ہوں: "ہر ایک ہستی اور اس کی ذات ایک دوسرے سے نسبت مثبت اور نسبتِ منفی کی وجہ سے ترکیب پاتی ہے۔ ایک ذات یا وجود دوسرے ذات یا وجود سے کوئی نہ کوئی نسبت رکھتا ہے۔یعنی دونوں میں کوئی رش...

سوسیئر کا نظام تضادات

[زیر تصنیف کتاب سے ایک اقتباس] گوپی چند نارنگ نے ساختیات اور پس ساختیات کی جو ترجمانی کی ہے اس میں مطالعۂ زبان کے ضمن میں سوسیئر کے اہم ترین اور بنیادی نکتے کی حیثیت سے جس اصول کو متعارف کرایا ہے وہ ہر قسم کے تصورات یا ذہنی شبیہوں، خواہ وہ آوازیں ہوں یا دیگر تصورات، کے مابین تفریقی یا منفی رشتوں سے ہی متعلق ہے۔ ایک مقام پر فرماتے ہیں: \[سوسیئر کا سب سے بڑا کارنامہ یہ ہے کہ اس کی بصیرت نے صدیوں سے چلے آ رہے زبان کے اس تصور کو جڑ سے اکھاڑ دیا کہ زبان کوئی 'جوہری' یا 'قائم بالذات (SUBSTANTIVE) چیز ہے۔ اس کے بجائے سوسیئر نے زبان کے 'نسبتی' (RELATIONAL) تصور کو پیش کیا۔ جس نے آگے چل کر زبان کے بارے میں سوچنے کی نہج ہی بدل دی۔ سوسیئر کا سب سے انقلابی اقدام اس کا یہ موقف تھا کہ زبان NOMENCLATURE تسمیہ یعنی اشیا کو نام دینے والا نظام نہیں ہے، بلکہ زبان افتراقات کا نظام ہے جس میں کوئی مثبت عنصر نہیں ہے۔ منطقی طور پر زبان اشیاء سے پہلے ہے، اور اس کا کام اشیا کو نام دینے کے بجائے ان کے تصورات میں فرق کے رشتوں کے ذریعے شناخت قائم کرنا ہے۔ 1\] ایک اور مقام پر فرماتے ہیں: ...

دام خیال

پارہ 1 کوئی شے عدم کے نہ اندر موجود ہے اور نہ باہر۔ عدم خالص نیستی ہے اور ہمیشہ نیستی ہی رہتا ہے۔ اس کا کوئی وجود نہیں۔ یہ ایک خالی، بے معنی لسانی تشکیل ہے۔ وجود خالص ہستی ہے، اور تمام امکانات پہلے ہی سے تجریدی صورتوں میں کندہ ہیں۔ ہر شے ہمیشہ کے لیے موجود ہے۔ عدم میں کچھ بھی نہیں ہے۔ ہم صرف وہی دیکھ سکتے ہیں جو ہمارا شعوری ذہن ایک وقت میں ہمیں دیکھنے کی اجازت دیتا ہے۔ ہم، بطور شعور ، مختلف مظاہر سے گزر رہے ہیں۔ عدم میں کچھ نہیں، ہر چیز وجود میں ہے۔ جب ہم مظاہر سے گزرتے ہیں تو وہی دیکھتے ہیں جو ہمیں دکھائی دیتا ہے۔ جب ہم بلبلے کو بنتے ہوئے دیکھتے ہیں، تو ہم اسے بنتے ہوئے ہی دیکھتے ہیں۔ اور جب ہم بلبلے کو مٹتے یا فنا ہوتے دیکھتے ہیں، تو ہم اسے فنا شدہ ہی دیکھتے ہیں۔ تشکیل ایک مظہر ہے اور فنا دوسرا۔ دونوں پہلے ہی سے خالص وجود — یا فطرت — میں کندہ یا تحریر شدہ ہیں۔ ٹھوس یا مادی وجود کے لیے عدم کو کسی پیشگی شرط کے طور پر تسلیم کرنے کی کوئی ضرورت نہیں۔ یہاں کوئی امکانات نہیں ہیں۔ ہر چیز پہلے ہی سے موجود ہے، کم و بیش اسی طرح جیسے اعداد موجود ہیں۔ Deceptions Fragment...

علامہ غامدی کا تصورِ سنت

علامہ جاوید احمد غامدی مقبولیت کے اعتبار سے سابقہ تمام منکرین حدیث سے بڑھے ہوئے ہیں. یہ اس وجہ سے کہ انہوں نے ایک نہایت آسان اسلام پیش کیا ہے اور سابقہ و ہمعصر منکرین حدیث کی طرح بہت سے احکام و قوانین کو دین سے خارج کر دیا ہے جن پر جدید ذہن اعتراض کرتا ہے. علامہ موصوف نے انکار حدیث کی انوکھی طرح ایجاد کی ہے. عام منکرین حدیث کی طرح وہ بھی خبر واحد پر مبنی احادیث کو دین میں حجت تسلیم نہیں کرتے لیکن وہ اسے بالکلیہ مسترد بھی نہیں کرتے اور کہتے ہیں کہ خبر واحد کی بنا پر اسوہ رسول معلوم کیا جا سکتا ہے. سنت کی ایک ایسی تعریف پیش کرتے ہیں جو روایتی علما نے کبھی بیان ہی نہیں کی:   "سنت سے ہماری مراد دینِ ابراہیمی کی وہ روایت ہے جسے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی تجدید واصلاح کے بعد، اور اس میں بعض اضافوں کے ساتھ، اپنے ماننے والوں میں ، دین کی حیثیت سے جاری فرمایا ہے" (میزان)  اگر بات صرف تعریف بیان کرنے تک رہتی تو غنیمت تھا لیکن انہوں نے سنت کو گھٹا کر صرف ستائس کے مجموعے تک محدود کر دیا جو درج ذیل ہے:  1. نماز 2. زکوٰة اور صدقہ فطر 3. روزہ و اعتکاف 4. حج و عمرہ 5. قربانی او...