یہ کائنات نہ کوئی ڈیزائن ہے اور نہ اس کا کوئی ڈیزائنر۔ اور نہ یہ کائنات عدم ڈیزائن ہے جس کا ڈیزائنر معدوم ہے۔ یہ دونوں بیانات ناقص ہیں۔ ہم بحیثیت انسان بذریعہ حواس خارج میں جو کچھ دیکھتے ہیں وہ دراصل ہماری وجدان کی مشین اور ذہن ہی سے پروسیس ہو کر نکلتا ہے۔ اور وجدان کے اس جھروکے سے نظر آنے والی یہ کائنات ایک ایسی احدیّت کے طور پر ابھرتی ہے جس میں یہ ڈیزائن صرف ایک منظر ہے جس کی شناخت عدم ڈیزائن کے دوسرے منظر سے ہوتی ہے۔ اسی طرح اس کائنات میں منصوبہ بھی ایک منظر ہے جس کی شناخت عدمِ منصوبہ کے دوسرے منظر سے ہوتی ہے۔ کائنات میں چیزیں ایک دوسرے کے بالمقابل ہی شناخت ہوتی ہیں۔ اس لیے یہ کہنا کہ کائنات میں کوئی منصوبہ ہے اس لیے کوئی منصوبہ ساز ہونا چاہیے، یا کائنات بجائے خود کوئی ڈیزائن ہے اس لیے اس کا ڈیزائنر لازماً ہونا چاہیے ناقص خیال ہے۔ اسی طرح یہ کہنا کہ اس کائنات میں عدم ڈیزائن ہے اور اس لیے اس کا کوئی ڈیزائنر نہیں ہے یہ بھی ایک ناقص خیال ہی ہے۔ یہ دونوں بیانات آدھے ادھورے مناظر کی تعمیم کی بنا پر گمراہ کن قیاس کی مثالیں ہیں۔ یاد رہے کہ منصوبہ صرف ایک منظر ہے، یا یوں کہہ لیں کہ ڈیزائن...
[زیر تصنیف کتاب سے ایک اقتباس] گوپی چند نارنگ نے ساختیات اور پس ساختیات کی جو ترجمانی کی ہے اس میں مطالعۂ زبان کے ضمن میں سوسیئر کے اہم ترین اور بنیادی نکتے کی حیثیت سے جس اصول کو متعارف کرایا ہے وہ ہر قسم کے تصورات یا ذہنی شبیہوں، خواہ وہ آوازیں ہوں یا دیگر تصورات، کے مابین تفریقی یا منفی رشتوں سے ہی متعلق ہے۔ ایک مقام پر فرماتے ہیں: \[سوسیئر کا سب سے بڑا کارنامہ یہ ہے کہ اس کی بصیرت نے صدیوں سے چلے آ رہے زبان کے اس تصور کو جڑ سے اکھاڑ دیا کہ زبان کوئی 'جوہری' یا 'قائم بالذات (SUBSTANTIVE) چیز ہے۔ اس کے بجائے سوسیئر نے زبان کے 'نسبتی' (RELATIONAL) تصور کو پیش کیا۔ جس نے آگے چل کر زبان کے بارے میں سوچنے کی نہج ہی بدل دی۔ سوسیئر کا سب سے انقلابی اقدام اس کا یہ موقف تھا کہ زبان NOMENCLATURE تسمیہ یعنی اشیا کو نام دینے والا نظام نہیں ہے، بلکہ زبان افتراقات کا نظام ہے جس میں کوئی مثبت عنصر نہیں ہے۔ منطقی طور پر زبان اشیاء سے پہلے ہے، اور اس کا کام اشیا کو نام دینے کے بجائے ان کے تصورات میں فرق کے رشتوں کے ذریعے شناخت قائم کرنا ہے۔ 1\] ایک اور مقام پر فرماتے ہیں: ...