نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

اشاعتیں

مذہب و تصوف اور فلسفہ و سائنس کا منتہائے مقصود

یہ کائنات نہ کوئی ڈیزائن ہے اور نہ اس کا کوئی ڈیزائنر۔ اور نہ یہ کائنات عدم ڈیزائن ہے جس کا ڈیزائنر معدوم ہے۔ یہ دونوں بیانات ناقص ہیں۔ ہم بحیثیت انسان بذریعہ حواس خارج میں جو کچھ دیکھتے ہیں وہ دراصل ہماری وجدان کی مشین اور ذہن ہی سے پروسیس ہو کر نکلتا ہے۔ اور وجدان کے اس جھروکے سے نظر آنے والی یہ کائنات ایک ایسی احدیّت کے طور پر ابھرتی ہے جس میں یہ ڈیزائن صرف ایک منظر ہے جس کی شناخت عدم ڈیزائن کے دوسرے منظر سے ہوتی ہے۔ اسی طرح اس کائنات میں منصوبہ بھی ایک منظر ہے جس کی شناخت عدمِ منصوبہ کے دوسرے منظر سے ہوتی ہے۔ کائنات میں چیزیں ایک دوسرے کے بالمقابل ہی شناخت ہوتی ہیں۔ اس لیے یہ کہنا کہ کائنات میں کوئی منصوبہ ہے اس لیے کوئی منصوبہ ساز ہونا چاہیے، یا کائنات بجائے خود کوئی ڈیزائن ہے اس لیے اس کا ڈیزائنر لازماً ہونا چاہیے ناقص خیال ہے۔ اسی طرح یہ کہنا کہ اس کائنات میں عدم ڈیزائن ہے اور اس لیے اس کا کوئی ڈیزائنر نہیں ہے یہ بھی ایک ناقص خیال ہی ہے۔ یہ دونوں بیانات آدھے ادھورے مناظر کی تعمیم کی بنا پر گمراہ کن قیاس کی مثالیں ہیں۔ یاد رہے کہ منصوبہ صرف ایک منظر ہے، یا یوں کہہ لیں کہ ڈیزائن...
حالیہ پوسٹس

سوسیئر کا نظام تضادات

[زیر تصنیف کتاب سے ایک اقتباس] گوپی چند نارنگ نے ساختیات اور پس ساختیات کی جو ترجمانی کی ہے اس میں مطالعۂ زبان کے ضمن میں سوسیئر کے اہم ترین اور بنیادی نکتے کی حیثیت سے جس اصول کو متعارف کرایا ہے وہ ہر قسم کے تصورات یا ذہنی شبیہوں، خواہ وہ آوازیں ہوں یا دیگر تصورات، کے مابین تفریقی یا منفی رشتوں سے ہی متعلق ہے۔ ایک مقام پر فرماتے ہیں: \[سوسیئر کا سب سے بڑا کارنامہ یہ ہے کہ اس کی بصیرت نے صدیوں سے چلے آ رہے زبان کے اس تصور کو جڑ سے اکھاڑ دیا کہ زبان کوئی 'جوہری' یا 'قائم بالذات (SUBSTANTIVE) چیز ہے۔ اس کے بجائے سوسیئر نے زبان کے 'نسبتی' (RELATIONAL) تصور کو پیش کیا۔ جس نے آگے چل کر زبان کے بارے میں سوچنے کی نہج ہی بدل دی۔ سوسیئر کا سب سے انقلابی اقدام اس کا یہ موقف تھا کہ زبان NOMENCLATURE تسمیہ یعنی اشیا کو نام دینے والا نظام نہیں ہے، بلکہ زبان افتراقات کا نظام ہے جس میں کوئی مثبت عنصر نہیں ہے۔ منطقی طور پر زبان اشیاء سے پہلے ہے، اور اس کا کام اشیا کو نام دینے کے بجائے ان کے تصورات میں فرق کے رشتوں کے ذریعے شناخت قائم کرنا ہے۔ 1\] ایک اور مقام پر فرماتے ہیں: ...

دام خیال

پارہ 1 کوئی شے عدم کے نہ اندر موجود ہے اور نہ باہر۔ عدم خالص نیستی ہے اور ہمیشہ نیستی ہی رہتا ہے۔ اس کا کوئی وجود نہیں۔ یہ ایک خالی، بے معنی لسانی تشکیل ہے۔ وجود خالص ہستی ہے، اور تمام امکانات پہلے ہی سے تجریدی صورتوں میں کندہ ہیں۔ ہر شے ہمیشہ کے لیے موجود ہے۔ عدم میں کچھ بھی نہیں ہے۔ ہم صرف وہی دیکھ سکتے ہیں جو ہمارا شعوری ذہن ایک وقت میں ہمیں دیکھنے کی اجازت دیتا ہے۔ ہم، بطور شعور ، مختلف مظاہر سے گزر رہے ہیں۔ عدم میں کچھ نہیں، ہر چیز وجود میں ہے۔ جب ہم مظاہر سے گزرتے ہیں تو وہی دیکھتے ہیں جو ہمیں دکھائی دیتا ہے۔ جب ہم بلبلے کو بنتے ہوئے دیکھتے ہیں، تو ہم اسے بنتے ہوئے ہی دیکھتے ہیں۔ اور جب ہم بلبلے کو مٹتے یا فنا ہوتے دیکھتے ہیں، تو ہم اسے فنا شدہ ہی دیکھتے ہیں۔ تشکیل ایک مظہر ہے اور فنا دوسرا۔ دونوں پہلے ہی سے خالص وجود — یا فطرت — میں کندہ یا تحریر شدہ ہیں۔ ٹھوس یا مادی وجود کے لیے عدم کو کسی پیشگی شرط کے طور پر تسلیم کرنے کی کوئی ضرورت نہیں۔ یہاں کوئی امکانات نہیں ہیں۔ ہر چیز پہلے ہی سے موجود ہے، کم و بیش اسی طرح جیسے اعداد موجود ہیں۔ Deceptions Fragment...

علامہ غامدی کا تصورِ سنت

علامہ جاوید احمد غامدی مقبولیت کے اعتبار سے سابقہ تمام منکرین حدیث سے بڑھے ہوئے ہیں. یہ اس وجہ سے کہ انہوں نے ایک نہایت آسان اسلام پیش کیا ہے اور سابقہ و ہمعصر منکرین حدیث کی طرح بہت سے احکام و قوانین کو دین سے خارج کر دیا ہے جن پر جدید ذہن اعتراض کرتا ہے. علامہ موصوف نے انکار حدیث کی انوکھی طرح ایجاد کی ہے. عام منکرین حدیث کی طرح وہ بھی خبر واحد پر مبنی احادیث کو دین میں حجت تسلیم نہیں کرتے لیکن وہ اسے بالکلیہ مسترد بھی نہیں کرتے اور کہتے ہیں کہ خبر واحد کی بنا پر اسوہ رسول معلوم کیا جا سکتا ہے. سنت کی ایک ایسی تعریف پیش کرتے ہیں جو روایتی علما نے کبھی بیان ہی نہیں کی:   "سنت سے ہماری مراد دینِ ابراہیمی کی وہ روایت ہے جسے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی تجدید واصلاح کے بعد، اور اس میں بعض اضافوں کے ساتھ، اپنے ماننے والوں میں ، دین کی حیثیت سے جاری فرمایا ہے" (میزان)  اگر بات صرف تعریف بیان کرنے تک رہتی تو غنیمت تھا لیکن انہوں نے سنت کو گھٹا کر صرف ستائس کے مجموعے تک محدود کر دیا جو درج ذیل ہے:  1. نماز 2. زکوٰة اور صدقہ فطر 3. روزہ و اعتکاف 4. حج و عمرہ 5. قربانی او...

اقبال اور سرقہ

حسن الدین احمد نے اپنے سندی مقالے ’’انگریزی شاعری کے منظوم اردو ترجموں کا تحقیقی تنقیدی مطالعہ‘‘، اشاعت مئی 1984، میں اقبال کی 16 نظموں کی فہرست دی ہے اور بتایا ہے کہ ان نظموں کو تین حصوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔ حسن الدین احمد کے مطابق ان میں سے 5 نظموں کے متعلق اقبال نے اصل انگریزی شاعر کی نشاندہی کی لیکن انگریزی نظم کا عنوان ظاہر نہیں کیا۔ 4 نظموں کے متعلق اقبال نے صرف ماخوذ لکھنے پر اکتفا کیا اور 7 نظموں کے متعلق اقبال نے ماخوذ نہیں لکھا۔ حسن الدین احمد کہتے ہیں کہ اقبال نے ماخوذ اور ترجمہ کا فرق ملحوظ نہیں رکھا اور منظوم ترجموں کو بھی ماخوذ کہا ہے۔ حسن الدین احمد کے اس سندی مقالہ کی بنا پر (اور ممکن ہے کچھ دوسرے ماخذ بھی ہوں جن کا علم مجھے نہیں ہے) بعض لکھنے والے اقبال کو سارق قرار دیتے ہیں۔ اقبال کو سرقہ کا مرتکب کہنا کتنا درست ہے جبکہ خود حسن الدین احمد کے بقول اردو شاعروں میں اقبال غالبا وہ پہلے شخص ہیں ’’جنہوں نے ماخوذ کی اصطلاح استعمال کی اور اس اصطلاح کو ماخوذ نظموں کے لیے بھی استعمال کیا اور آزاد منظوم ترجموں کے لیے بھی۔‘‘ یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں ہے کہ اقبال نے مخزن کے...