یہ کائنات نہ کوئی ڈیزائن ہے اور نہ اس کا کوئی ڈیزائنر۔ اور نہ یہ کائنات عدم ڈیزائن ہے جس کا ڈیزائنر معدوم ہے۔ یہ دونوں بیانات ناقص ہیں۔ ہم بحیثیت انسان بذریعہ حواس خارج میں جو کچھ دیکھتے ہیں وہ دراصل ہماری وجدان کی مشین اور ذہن ہی سے پروسیس ہو کر نکلتا ہے۔ اور وجدان کے اس جھروکے سے نظر آنے والی یہ کائنات ایک ایسی احدیّت کے طور پر ابھرتی ہے جس میں یہ ڈیزائن صرف ایک منظر ہے جس کی شناخت عدم ڈیزائن کے دوسرے منظر سے ہوتی ہے۔ اسی طرح اس کائنات میں منصوبہ بھی ایک منظر ہے جس کی شناخت عدمِ منصوبہ کے دوسرے منظر سے ہوتی ہے۔ کائنات میں چیزیں ایک دوسرے کے بالمقابل ہی شناخت ہوتی ہیں۔ اس لیے یہ کہنا کہ کائنات میں کوئی منصوبہ ہے اس لیے کوئی منصوبہ ساز ہونا چاہیے، یا کائنات بجائے خود کوئی ڈیزائن ہے اس لیے اس کا ڈیزائنر لازماً ہونا چاہیے ناقص خیال ہے۔ اسی طرح یہ کہنا کہ اس کائنات میں عدم ڈیزائن ہے اور اس لیے اس کا کوئی ڈیزائنر نہیں ہے یہ بھی ایک ناقص خیال ہی ہے۔ یہ دونوں بیانات آدھے ادھورے مناظر کی تعمیم کی بنا پر گمراہ کن قیاس کی مثالیں ہیں۔ یاد رہے کہ منصوبہ صرف ایک منظر ہے، یا یوں کہہ لیں کہ ڈیزائن...
یہ نکتہ مرزا سلطان احمد کے ہاں بار بار پیدا ہوتا ہے کہ اگر دنیا میں فرق ، تضاد اور تبائن کا یہ سلسلہ نہ ہوتا تونہ چیزوں کی باہمی شناخت ممکن ہوتی اور نہ کاروبار ہستی ایک نظام کی صورت میں چل سکتا: فرض کرو کہ دنیا میں اس وقت سب افراد ایک ہی شکل ، ایک ہی قوت اور ارادہ کے ہیں ، ان کے اغراض اجتہادیہ بھی ایک ہی قسم سے ہیں، وہ سب کے سب ایک ہی منزل کے سالک ہیں، کیا ان حالات میں دنیا ترقی کر سکے گی اور کام چل جائے گا اور لوگ آرام و آسائش سے رہ سکیں گے؟ اگر صحیح نتیجہ پر پہونچ کر جواب اس کا دیا جاوے تویہی کہنا پڑے گا کہ موجودہ نظم و نسق باقی نہیں رہ سکتا اور ایک ہی دم میں طلسم انسانی تمدن اور آئینہ معلومات صدمہ دل شکن سے چکناچور ہو جائے گا۔ مدارج اور مراتب کے اختلاف سے ہی دنیا کا کام چل رہا ہے۔ اگر ایک حکومت میں سب بادشاہ ہی ہوں یا سب رعایا تو کس طرح سیاسی ضابطہ چلے گا۔ اگر ایک گھر میں سب لوگ فرض کریں کہ ایک ہی شکل اور شباہت کے ہیں تو کون شخص ان میں تمیز کر سکتا ہے اور کس طرح اس گھر کا انتظام چلنے کی امید کی جا سکتی ہے۔ 1 یہی بات ان کے مضمون بعنوان "احساس " مطبوعہ شمس بنگالہ مارچ 190...