نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

احقاق حق کا صراط مستقیم

دنیا میں مختلف عقائد اور نظریات کی بقا و ترقی کا دارومدار بہت سی باتوں پر ہے۔ ان میں سے ایک ہے " اپنے عقیدے یا نظریے سے متعلق ہر سوال کا جواب دینا اور اس کی خامیوں کی پردہ پوشی ہرگز نہ کرنا۔" لیکن یہ صرف ایک معقول طریقہ ہے اعلی درجے کی روش نہیں۔ اعلی درجے کی روش جس سے بڑھ کر کوئی اور راہ ہو ہی نہیں سکتی وہ کچھ یوں ہے۔ "اپنے عقیدے یا نظریے کے خلاف خود ہی غور و فکر کرتے رہنا اور جیسے ہی اس کی کوئی چھوٹی سے چھوٹی خرابی یا غلطی معلوم ہو، اس کو فوری مشتہر کر دینا۔ اس طریقے کے مقابلے میں جتنے طریقے ہیں وہ سب کے سب ادنی اور پست درجے کے ہیں۔ ایک عالی دماغ شخص کے عقائد و نظریات کا یہی حال ہوتا ہے کہ سب سے پہلے وہی انہیں سخت تنقید و تنقیص کا ہدف بناتا ہے اور اسے مسترد کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ اور اس میں اگر وہ کامیاب نہ ہو سکے تو اسے دنیا کے سامنے پیش کرتا ہے لیکن ہر لمحہ اس تاک میں لگا رہتا ہے کہ کب اس کو اپنے عقائد و نظریات کی کوئی کمی معلوم ہو اور کب وہ خود اسے سب سے پہلے سامنے لائے۔ اور اگر کوئی دوسرا اسے سامنے لائے تو وہ خود سب سے پہلے لپک کر اس کو قبول کرے۔
اگر ہم دنیا میں معروضی طور پر، سب کے لیے صداقت کے کسی اڈیشن یا حق کے کسی جز تک پہنچ سکتے ہیں یا صداقت کا کوئی جدید اڈیشن یا یا صداقت کا کوئی جز تخلیق کر سکتے ہیں تو اس کا طریق کار یہی ہے، یہی ہے، اور صرف یہی ہے۔ اس کے سوا جس قدر طریق ہائے کار ہیں وہ سراسر ضلالت و گمراہی کے گڑھے میں گرانے والے ہیں۔
فلسفہ یا سائنس جس چیز کا نام ہے وہ منجملہ دیگر بہت سے طریقہائے کار کے ناگزیر طور پر اسی طریقے سے وجود میں آتے ہیں۔ اور یہی وجہ ہے کہ ان کے تحت جس قدر معلومات اور نظریات دنیا کو فراہم کی جاتی ہیں، لوگ ان کو بالآخر تسلیم کرتے ہیں اور اس کے مطابق اپنی زندگی کو سنوارتے ہیں۔
ذرا غور تو کیجیے کہ اس علم، عقیدہ یا نظریہ کی شان کیسی اعلی و ارفع ہوگی جس کا پیش کرنے والا خود اٹھ کر یہ کہے کہ اس کی خوب جانچ پرکھ کر لو، خوب اعتراضات کر لو، یہاں تک کہ اگر تمہیں میرے عقائد و نظریات کا خاکہ اڑانا ہو تو یہ بھی کر کے دیکھ لو، لیکن اگر میرے عقائد و نظریات میں کسی بھی درجے میں صداقت ہے تو تم باوجود اس کی مضحک تردید کرنے کے اسے لوگوں کے ذہنوں سے محو نہ کر سکوگے۔ اور اگر میرے نظریات میں کسی درجے کی کوئی صداقت نہیں تو پھر میں خود ان سے سب سے پہلے بیزار ہونے والا ہوں۔ ایک اعلی درجے کا فلسفی اسی خلق عظیم پر پیدا ہوتا ہے اور یہی وہ پہلا اور آخری نمونہ ہے جس سے پہلے اور جس کے بعد کسی اور نمونے کا تصور تک نہیں کیا جا سکتا۔ بھلا اس شخص سے بہتر اور کس کا نقطہ نظر ہو سکتا ہے جو یہ کہے کہ آؤ میں اور تم دونوں مل کر اپنے اپنے عقائد و نظریات پر بھی اور ایک دوسرے کے عقائد و نظریات پر بھی خوب تنقیدیں کریں اور خود اپنی اور ایک دوسرے کی علمی و فکری غلطیوں کو کھولیں، ایک دوسرے کی کجی پر گرفت کریں اور تب کہیں جا کر جو کچھ قابل قبول معلوم ہوتا ہو اس کو جزم و یقین کے بجائے نہایت حزم و احتیاط کے ساتھ قبول کریں اور بعد میں جیسے ہی اپنی کسی اجتماعی یا انفرادی غلطی کا علم ہو، ہم اس کی پردہ پوشی کے بجائے اس کو افشا کر دیں۔ کیا اس سے بڑھ کر کسی اور سیدھی راہ کا تصور تم کر سکتے ہو؟ کیا اس سے بڑھ کر کسی اور اخلاقی رویے کو اپنا نمونہ بنا سکتے ہو اگر فلسفیانہ صداقت کا کوئی سوال درپیش ہو؟

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

تحقیق کے مسائل

تحقیق ایک اہم علمی فریضہ ہے۔ تحقیق کے ذریعے ہم نامعلوم کا علم حاصل کرتے ہیں۔ غیر محسوس کو محسوس بناتے ہیں۔ جو باتیں پردہ ٔ غیب میں ہوتی ہیں، انہیں منصہ ٔ شہود پر لاتے ہیں تا کہ کسی امر میں یقینی علم ہم کو حاصل ہو، اور اس کی بنیاد پر مزید تحقیق جاری رکھی جا سکے۔تحقیق ایک مسلسل عمل ہے۔ موجودہ دور میں یہ ایک نتیجے تک پہنچنے سے زیادہ ایک طریقے ( تک پہنچنے) کا نام ہے۔نتیجہ خواہ کچھ ہو، موجودہ دور میں اس کے طریقہ ٔ کار یا منہاجیات کو صاف و شفاف بنانا فلسفیانہ طور پر زیادہ ضروری سمجھا جاتا ہے تاکہ زیادہ تر نتائج صحت کے ساتھ محسوسات کے دائرے میں حتی الامکان منتقل ہو سکیں۔ دائرہ تحقیق میں ایک مقدمہ کو نتیجہ میں بدلنے کے طریقے کی جس قدر اصلاح ہوتی جائے گی اسی قدر تحقیق معتبر مانی جائے گی۔ البتہ بعض اوقات یوں بھی ہوتا ہے کہ کسی تحقیق کا طریقہ صحیح نہیں ہو اور نتیجہ بالکل صحیح ہو۔ لیکن اس ناقابل حل مسئلے کے باوجود بہرحال طریقے میں حذف و اضافہ اور اصلاح و تصحیح کی ضرورت ہمیشہ باقی رہتی ہے۔ تحقیق کے عربی لفظ کا مفہوم حق کو ثابت کرنا یا حق کی طرف پھیرنا ہے۔ حق کے معنی سچ کے ہیں۔ مادہ حق سے...

قرآن اور بگ بینگ

ایک بہت طویل عرصے سے اہل اسلام کا مغرب زدہ طبقہ قرآن کی تصدیق جدید ترین سائنسی تحقیقات کی بنیاد پر کرنا چاہتا ہے. اس کی اصل دلیل یہ ہے کہ اگر قرآن خدا کی کتاب نہ ہوتی تو اس میں بیسویں صدی کے سائنسی انکشافات کا ذکر چودہ سو سال پہلے کیونکر ممکن تھا؟ اس سلسلے میں ایک بہت بڑی مثال بگ بینگ کی دی جاتی ہے اور قرآن کی اس آیت کو دلیل بنایا جاتا ہے: اَوَلَمْ يَرَ الَّذِيْنَ كَفَرُوْٓا اَنَّ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ كَانَتَا رَتْقًا فَفَتَقْنٰهُمَا ۭ وَجَعَلْنَا مِنَ الْمَاۗءِ كُلَّ شَيْءٍ حَيٍّ ۭ اَفَلَا يُؤْمِنُوْنَ کیا کافروں نے نہیں دیکھا کہ آسمان اور زمین دونوں ملے ہوئے تھے تو ہم نے جدا جدا کردیا۔ اور تمام جاندار چیزیں ہم نے پانی

مذہب و تصوف اور فلسفہ و سائنس کا منتہائے مقصود

     یہ کائنات نہ کوئی ڈیزائن ہے اور نہ اس کا کوئی ڈیزائنر۔ اور نہ یہ کائنات عدم ڈیزائن ہے جس کا ڈیزائنر معدوم ہے۔ یہ دونوں بیانات ناقص ہیں۔ ہم بحیثیت انسان بذریعہ حواس خارج میں جو کچھ دیکھتے ہیں وہ دراصل ہماری وجدان کی مشین اور ذہن ہی سے پروسیس ہو کر نکلتا ہے۔ اور وجدان کے اس جھروکے سے نظر آنے والی یہ کائنات ایک ایسی احدیّت کے طور پر ابھرتی ہے جس میں یہ ڈیزائن صرف ایک منظر ہے جس کی شناخت عدم ڈیزائن کے دوسرے منظر سے ہوتی ہے۔ اسی طرح اس کائنات میں منصوبہ بھی ایک منظر ہے جس کی شناخت عدمِ منصوبہ کے دوسرے منظر سے ہوتی ہے۔ کائنات میں چیزیں ایک دوسرے کے بالمقابل ہی شناخت ہوتی ہیں۔ اس لیے یہ کہنا کہ کائنات میں کوئی منصوبہ ہے اس لیے کوئی منصوبہ ساز ہونا چاہیے، یا کائنات بجائے خود کوئی ڈیزائن ہے اس لیے اس کا ڈیزائنر لازماً ہونا چاہیے ناقص خیال ہے۔ اسی طرح یہ کہنا کہ اس کائنات میں عدم ڈیزائن ہے اور اس لیے اس کا کوئی ڈیزائنر نہیں ہے یہ بھی ایک ناقص خیال ہی ہے۔ یہ دونوں بیانات آدھے ادھورے مناظر کی تعمیم کی بنا پر گمراہ کن قیاس کی مثالیں ہیں۔ یاد رہے کہ منصوبہ صرف ایک منظر ہے، یا یوں...