نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

اشاعتیں

مذہب و تصوف اور فلسفہ و سائنس کا منتہائے مقصود

یہ کائنات نہ کوئی ڈیزائن ہے اور نہ اس کا کوئی ڈیزائنر۔ اور نہ یہ کائنات عدم ڈیزائن ہے جس کا ڈیزائنر معدوم ہے۔ یہ دونوں بیانات ناقص ہیں۔ ہم بحیثیت انسان بذریعہ حواس خارج میں جو کچھ دیکھتے ہیں وہ دراصل ہماری وجدان کی مشین اور ذہن ہی سے پروسیس ہو کر نکلتا ہے۔ اور وجدان کے اس جھروکے سے نظر آنے والی یہ کائنات ایک ایسی احدیّت کے طور پر ابھرتی ہے جس میں یہ ڈیزائن صرف ایک منظر ہے جس کی شناخت عدم ڈیزائن کے دوسرے منظر سے ہوتی ہے۔ اسی طرح اس کائنات میں منصوبہ بھی ایک منظر ہے جس کی شناخت عدمِ منصوبہ کے دوسرے منظر سے ہوتی ہے۔ کائنات میں چیزیں ایک دوسرے کے بالمقابل ہی شناخت ہوتی ہیں۔ اس لیے یہ کہنا کہ کائنات میں کوئی منصوبہ ہے اس لیے کوئی منصوبہ ساز ہونا چاہیے، یا کائنات بجائے خود کوئی ڈیزائن ہے اس لیے اس کا ڈیزائنر لازماً ہونا چاہیے ناقص خیال ہے۔ اسی طرح یہ کہنا کہ اس کائنات میں عدم ڈیزائن ہے اور اس لیے اس کا کوئی ڈیزائنر نہیں ہے یہ بھی ایک ناقص خیال ہی ہے۔ یہ دونوں بیانات آدھے ادھورے مناظر کی تعمیم کی بنا پر گمراہ کن قیاس کی مثالیں ہیں۔ یاد رہے کہ منصوبہ صرف ایک منظر ہے، یا یوں کہہ لیں کہ ڈیزائن...

امام رازی کی ’’گمراہی‘‘ کا ایک ثبوت

مولانا شبیر احمد خاں غوری امام رازی کے متعلق لکھتے ہیں: امام رازی اپنی فلسفہ بیزاری کے باوجود شیخ بو علی سینا کی ”الاشارات و التنبیہات “ کے نمط تاسع سے جو علوم صوفیا کے باب میں ہے، حد درجہ متاثر تھے، چنانچہ انہوں نے اس ”نمط“ کی شرح شروع کرنے سے پہلے لکھا تھا: انہ ذا الباب اجل ما فیہ ذا الکتاب قانہ رتب فیہ علومالصوفیة ترتیبا ماسبقہ الیہ من قبلہ و لا لحقہ من بعدہ ترجمہ: یہ باب اس کتاب میں سب سے زیادہ جلیل القدر ہے، کیونکہ (اس کے اندر شیخ بو علی سینا نے) علوم صوفیہ کو ایک ایسے ا نداز سے مرتب کیا ہے جس کی نہ اس کے پیش روؤں کو ہوا لگی تھی اور نہ بعد میں آنے والے اس تک پہنچ سکے۔ لیکن یہ نام نہاد ”علوم ِ صوفیا کی تبیین و توضیح “ نبوت کی فلسفیانہ توجیہ ہےکیونکہ اس نے نبوت کے ”وہبی“ ہونے کے عقیدہ کے خلاف اس کے ”کسبی“ و اکتسابی ہونے کے شوشہ کو ہوا دی۔ امام رازی ابن سینا کی اس فلسفیانہ توجیہ کے اس قدر گرویدہ تھے کہ انہوں نے اس کے رسالہ ”معراج نامہ “ کو جس میں اس نے ”الاشارات“ سے کہیں زیادہ وضاحت کے ساتھ اس توجیہ کو قلمبند کیا ہے، اپنے ہاتھ سے نقل کیا۔ اس معراج نامہ نے بعد کے تفلس...

امت کی بازیافت کی دنیاوی بنیاد

علامہ غزالی جن کو بصد احترام امام لکھا جاتا ہے، اور ہمارے بہت سے احباب انہیں بہت بڑا اسلامی متکلم مانتے ہیں، اور ان کی تعریف میں زمین و آسمان کے قلابے ملاتے ہیں، ان کے متعلق جاننا چاہیے کہ وہ اسلامی فلسفیوں کے سخت دشمن تھے اور ان کی تکفیر فرماتے رہتے تھے۔آج میں اپنے اسی دعوے کا ایک ناقابلِ انکار ثبوت پیش کروں گا کہ انہوں نے کم از کم دو جید، عباقرہ روزگار اسلامی فلسفیوں کو کافر قرار دیا ۔ ان میں سے ایک کو ہم معلم ثانی امام ابو نصر فارابی اور دوسرے کو شیخ الرئیس بو علی ابن سینا کے نام سے جانتے ہیں، اور ان کے متعلق ہم آج فخر سے بتاتے ہیں کہ‘‘ یہ ہیں وہ لوگ جنہوں نےمغربی تہذیب کو علم سکھایا اور اسے ترقی کی نئی منزلوں تک پہنچایا۔’’ اس میں شک نہیں کہ آج مغربی تہذیب کی مادی ترقی کو دیکھ کر ہمارا کلیجہ پھٹا جا رہا ہے، یہاں تک کہ اقبال ایسے مفکرِ اسلام کا دل بھی ٹکڑے ٹکرے ہو گیا : مگر وہ علم کے موتی ، کتابیں اپنے آبا کی جو دیکھیں ان کو یورپ میں تو دل ہوتا ہے سی پارا یہ کتنی بڑی بات ہے میرے بزرگو اور دوستو کہ تاریخ انسانی کے اتنے عظیم فلسفیوں پر پر کفر کا فتوی اُن حضر...

مولوی ذکاءاللہ اور معنی کی تکثیریت

(ایک فیس بک اسٹیٹس پر میرا تبصرہ) ساختیات و پس ساختیات کا ایک سیاق بلاشبہ مقامی (یعنی مغربی ) ہے لیکن دوسرا آفاقی نوعیت بھی رکھتا ہے۔ قاری اساس تنقید کے سلسلے میں بھی یہی نقطہ نظر اختیار کرنا چاہیے۔ بجائے اس کے کہ ہم ہر مغربی نظریے کو بے دردری سے مسترد کر تے چلے جائیں، جیسا کہ محمد حسن عسکری اور محمد علی صدیقی نے کیا، یہ ضروری معلوم ہوتا ہے کہ ہم یہ معلوم کرنے کی کوشش کریں خود ہمارے بزرگوں نے اس سلسلے میں کس رائے کو پسند فرمایا ہے ، اور اس کے بعد خود اپنی فکر و تحقیق سے ایک نتیجے تک پہنچنے کی کوشش کریں ۔اردو میں ساختیات و پس ساختیات کو متعارف کرانے اور اس کو ادبی نظریہ کے طور پر رائج کرنے والے اردو میں فلسفہ لسان کی روایت سے باخبر نہیں تھے۔ وہ نہیں جانتے تھے کہ مولوی ذکاءاللہ کے ہاں لسانیاتی نشان کی تشکیل فرڈیننڈ ڈی سوسیئر سے پہلے ہو گئی تھی حالانکہ مولوی ذکاءاللہ کے فلسفہ زبان (خواہ وہ مغربی حکمائے زبان سے ماخوذ ہی کیوں نہ ہو) میں وہ خامیاں نہیں پائی جاتیں جن کے سبب سوسیئر کی تنقید ہوئی ۔ قاری اساس تنقید معنی کی تکثیریت کا فلسفہ ہے اور اسے بھی مولوی ذکاءاللہ نے رسالہ تقویم اللسان ...

آبِ حیات اور منرل واٹر

اگر ایک شئے کے متعلق تمہیں یہ یقین ہو کہ یہ آسمان سے نازل شدہ مقدس آبِ حیات ہے لیکن دنیا اس شئے کو یہ حیثیت دینے پر تیار نہ ہو، پھر تمہارے لیے کیا یہ جائز ہو سکتا ہے کہ اس پر منرل واٹر کا لیبل لگا کر اسے مقبولِ خاص و عام بنانے کی کوشش کرو؟ کیا تمہیں علم نہیں کہ منرل واٹر دنیا کے گڈھے سے نکالا جانے والا پانی ہے، اور لوگ دورانِ سفر منرل واٹر کے بہت سے استعمال کر سکتے اور کرتے ہیں، مثلاً وہ اس کو پی سکتے ہیں، اس سے اپنا منہ دھو سکتے ہیں، کلی کر کے پھینک سکتے ہیں. منرل واٹر کے بہت سے استعمالات ہو سکتے ہیں کیونکہ ایک بوتل منرل واٹر صرف بیس روپے میں آتا ہے اور ہر کس و ناکس کے لیے دستیاب ہے۔ لیکن جس شئے کے متعلق تمہیں یقین کامل ہے کہ وہ آب حیات ایسی بیش قیمتی شئے ہے، کیا اسے منرل واٹر کے نام سے بیچا جانا, پھر اس کا یوں صرف اور ضائع کر دیا جانا تم پسند کروگے؟ آب حیات تو اکثیرِ بینظیر اور شفائے کاملہ کی حیثیت رکھتا ہے، اور اس کا استعمال ہرگز وہ نہیں ہو سکتا جو منرل واٹر کا ہے، یعنی جب جی چاہا بیس روپوں کے عوض خرید لائے، پھر جیسے جی چاہا صرف کر دیا, اور خالی بوتل پلیٹ فارم پر لڑھکا دی. آب...

الحاد اور مذہب دشمنی

الحاد ایک شئے ہے اور مذہب دشمنی دوسری. ایک گہرے فکر و تحقیق کا نتیجہ ہے اور دوسرا سطحیت کے مارے لوگوں کا طریقہ. الحاد یہ ہے کہ زندگی پر پیغمبرانہ بلندی سے نظر ڈالی جائے اور صراط مستقیم کو چھوڑ کر وہ راستہ اختیار کیا جائے جس پر چلنے والوں کو ضال و مضل کہا جاتا ہے. جبکہ مذہب دشمنی یہ ہے کہ مذہبی لوگوں یا خود مذہبی روایت کی ہر چھوٹی بڑی بات میں کیڑے نکالیں جائیں اور یہ ہرگز نہ دیکھا جائے کہ جس بات پر ہم آج تنقید کر رہے ہیں وہ مذہب کی تشکیل کے زمانے میں کیا حیثیت رکھتی تھی اور کیوں اس زمانے کے لوگ اس کو روا یا قابل برداشت سمجھتے تھے. ملحد اپنی زندگی میں تنہائی کا شکار ہوتا ہے. اس کی فکر ابنائے زماں سے مختلف ہوتی ہے, وہ اپنی جگہ ایک تسلسل کے ساتھ سوچتا رہتا ہے کہ معاصر زندگی کے مسائل کیا ہیں اور چونکہ مذہب کے صراطِ مستقیم پر چل کر ان مسائل کو حل نہیں کیا جا سکتا, اس لیے دوسرے راستے کون سے ہیں جنہیں اختیار کیا جا سکتا ہے. لیکن ایک مذہب دشمن مذہب کو نیچا دکھانا اور تباہ و برباد کر دینا چاہتا ہے کیونکہ اس کی نظر میں مذہب دنیا کی تمام تر برائیوں کی جڑ ہے. اس لیے, ایک مذہب دشمن کا رویہ ایک غ...

مولوی ذکاءاللہ کا تصورِلفظ و معنی

1 لفظ و معنی میں تعلق کی بحث بہت پرانی ہے اور اس کی جڑیں قدیم یونانی و ہندوستانی اورعربی فلسفہ کی لسانی بحثوں میں پیوست ہیں۔ ساختیاتی و پس ساختیاتی فلسفہ لسان میں اس مسئلے پر اب تک کی تمام بحثوں کے نتیجے میں جو اہم ترین نکتہ ابھر کر سامنے آیا ہے وہ کسی نہ کسی طور یہ ہے کہ لفظ، یعنی سگنی فائر اور اس سے مراد شئے کے ذہنی تصور یعنی سگنی فائیڈ میں ’’فطری رشتہ ‘‘ نہیں بلکہ یہ دونوں ’’آربٹریری ‘‘ یعنی ’’من مانے‘‘ طور پر ایک دوسرے سے متعلق ہیں۔ بیسویں صدی کے اواخر میں جب یہ نکتہ اپنے متعلقات کے ساتھ ساختیاتی و پس ساختیاتی نظریات کے ساتھ متعلق ہو کر اردو میں زیربحث آیا تو ابتداءً لوگوں نے سمجھا کہ یہ دور جدید میں ساختیات کے بنیاد گزار فرڈی ننڈ ڈی سوسیئر کی فکری کاوش کا نتیجہ ہے ۔ سگنی فائر اور سگنی فائیڈ میں کسی فطری رشتے کے نہ ہونے کے مضمرات اتنے پریشان کن تھے کہ سوسیئر نے ان دونوں میں ’’وحدت کا ٹانکا ‘‘لگانے کی کوشش یہ کہہ کر کی تھی کہ یہ دونوں کاغذ کی دو طرفوں کے مماثل ہیں۔[1] لیکن اگر ان میں کوئی فطری رشتہ پایا ہی نہیں جاتا تو سوسیئر کی اس مثال کی حیثیت سخن سازی کے سوا کچھ نہیں رہ ...

ادب، احتجاج اور دم ہلانا

احتجاجی ادب بھی پسند و ناپسند کا معاملہ ہے اور یہ بھی آئیڈیالوجی سے متاثر ہوتا ہے۔ معاملہ احتجاج کے ادب کا ہو یا ادب کے احتجاج کا، اگر ایک شخص ہماری آئیڈیالوجی کے دائرے میں لکھتا ہے یعنی کہیں نہ کہیں ہمارے حق میں اس کی دم ہلتی رہتی، وہی بڑا ادیب اور ایکٹیوسٹ۔ جیسے ہی دم کا ہلنا بند ہوا، کہ وہ برادری سے ہی نہیں بلکہ انسانیت کے دائرے سے بھی خارج ہو جاتا ہے۔ دراصل یہ جو دم ہے وہ مالک کے اقتدار کی علامت ہے۔ ہم دیکھتے ہیں کہ کچھ لوگ ادیب پہلے بنے، دم بعد میں ہلایا اور کچھ نے ابتدا ہی سے دم ہلایا، اور ادیب قرار پا گئے۔ اس میں شک نہیں کہ پہلی قسم کا ادیب زیادہ باصلاحیت ہوتا ہے لیکن جوں ہی کہ اس نے دم ہلانا شروع کیا، اس کی صلاحیتوں میں زنگ لگنا شروع ہو جاتا ہے۔ مگر وہ اپنی زندگی کے آخر تک یہ محسوس نہیں کر پاتا کہ اس نے جس آئیڈیالوجی کے حق میں دم ہلانا شروع کیا ہے، اس کی صلاحیتوں کو پیدا کرنے میں اس آئیڈیالوجی کا کوئی خاص ہاتھ نہیں ہے۔ یہ روزِ روشن کی طرح عیاں ہے کہ اپنی ادبی زندگی کی ابتدا میں وہ آئیڈیالوجیکل نہیں تھا، لیکن جوں ہی کہ اس کو شہرت ملی، اور وہ مقبولِ خاص و...

مذہب اور صلح جوئی

مذہب جس قدر انسانوں کو ایک دوسرے سے جوڑتا ہے، اسی قدر وہ انہیں توڑتا بھی ہے۔ یہ نوعِ انسانی کا اجتماعِ باہمی ہی نہیں بلکہ ان کے مابین افتراقِ دائمی بھی ہے۔ مذہب اگر انسان میں بھائی چارہ پیدا کرتا اور انہیں امن و آشتی کے ساتھ رہنے کی تلقین کرتا ہے تو اقوام و ملل کو اپنے عقائد کے تحفظ، مدافعت اور تبلیغ و اشاعت کی خاطر باہم لڑاتا بھی ہے۔ مذہب یہی چاہتا ہے کہ انسان اپنی انفرادی و اجتماعی زندگی میں صرف اسی کی خاطر جیے اور مرے۔ اسی کے حسبِ منشا دوسرے انسانوں سے تعلق بنائے اور منقطع بھی کرے۔ چنانچہ مذہب نکاح ہی نہیں کراتا، جبری طلاق بھی دلواتا ہے۔ اور مذہب عبارت ہے انسانوں کو جماعتوں اور گروہوں میں منقسم کرنے اور ہھر انہیں باہم لڑا بھڑا کر ان کی دنیاوی زندگی کو برباد کر دینے سے۔ دنیا میں کسی اور چیز کی بنیاد پر تمام انسانوں کے درمیان اتفاق ہو سکتا ہے، لیکن مذہب کی بنیاد پر صلح نا ممکن ہے۔ خود ایک مذہب کے مختلف فرقوں کے درمیان طویل المیعاد طور پر اتحاد ممکن نہیں کجا کہ دو مذاہب والوں میں اتحاد ہو جائے۔ انسان جب گروہ در گروہ منقسم ہو جائیں تو ان کے درمیان مذہباً کیا مشترک ہے، ا...

خود بدلتے نہیں قرآں کو بدل دیتے ہیں

جوں جوں عامۃ الناس بالخصوص عامۃ المسلمین اور اس کے تعلیم یافتہ خواص کے درمیان یہ نقطہ نظر مضبوط ہوگا کہ بیوی کو کتنی ہی ہلکی مار مارنا بہرحال اخلاقاً اور قانوناً ہر لحاظ سے ایک قبیح فعل ہے, ویسے ویسے تجدد پسند اسلامسٹ طبقہ کی کوشش ہوگی کہ قرآن کریم کی "وضربوھنَّ" والی آیت کی کوئی دوسری تاویل کر دی جائے اور دنیا سے یہ بتایا جائے کہ "یہ صرف لوگوں کی ایک غلط فہمی ہے کہ قرآن کریم میں بیوی کو سرکشی پر مارنے کی اجازت دی گئی ہے". تجدد پسندوں کے نزدیک اسلام کے متعلق پھیلی ہوئی "غلط فہمیوں" کی فہرست بہت طویل ہے. ان میں کچھ کو ہم ذیل میں درج کرتے ہیں: 1. شادی شدہ زانی کے لیے رجم کا قانون 2. مرتد کے لیے قتل کا قانون 3. چوری پر ہاتھ کاٹنے کا قانون 4. قومِ لوط کا عمل (بشمول ایل جی بی ٹی حقوق) کرنے پر سزائے موت 5. محاربین کو غلام اور باندی بنانے کی شرعی رخصت 6. باندی سے بلانکاح تمتع کر سکنے کی ابدی شرعی رخصت (جس میں تعداد کی کوئی قید نہیں) 7. مردوں اور عورتوں کے لیے کام کی جگہوں, تعلیم گاہوں اور دیگر معاشرتی امور میں ایک ساتھ مل کر کام کرنے کی ممان...

ایک اہم فیس بک اسٹیٹس

 میں نے ۲۷ مئی کو فیس بک پر درجِ ذیل تحریر لکھی: یہ مابعد مودودی اور غامدی و رمضانی اسلامسٹوں کی ایک بڑی غلط فہمی ہے کہ اسلام وہ نہیں ہے جو روایتی علما فرماتے ہیں.حقیقت یہ ہے کہ اسلام وہی کچھ ہے جو روایتی علما کتاب و سنت اور فقہ کی روشنی میں چودہ سو سالوں سے فرماتے آ رہے ہیں. مابعد مودودیوں اور غامدیوں اور رمضانیوں کی اسلام کی متعلق اس عظیم الشان غلط فہمی کا سبب ان کی مغرب زدگی ہے جس کے زیرِ اثر وہ اسلام کو جدید مغربی تہذیب کے پیدا کردہ عصری تقاضوں کے مطابق ڈھالنا اور اسلام کو ایک قابلِ عمل سیاسی آئیڈیالوجی بنا دینا چاہتے ہ یں. اسلامی شریعت کے روایتی احکام میں تحریف, ڈیڑھ ہزار سالوں سے چلی آتی حرمتوں کو حلتوں سے بدل دینا, اسلام میں جنڈر ایکویٹی کے مغربی تصور کو متعارف کرانا نیز جدید اصطلاحات و لفظیات کو دین میں داخل کرنے کے ذریعے اسلام کے سرچشمہ صافی کو آلودہ کرنا دراصل مابعد مودودی اور دیگر تجدد پسند اسلامسٹوں کی نازیبا حرکتیں ہیں جنہیں قبول نہیں کیا جا سکتا. اسلام ایک مقدس روایتی مذہب ہے اور اس کی ہر نئی تعبیر قابلِ تردید اور قابلِ ملامت ہے, اس کو تسلیم کرنے کے...

مولوی ذکاءاللہ پر میری ایک تحقیق

اردو میں ساختیات و پس ساختیات کا تفصیلی تعارف و تجزیہ  پیش کرنے والوں میں نمایاں ترین نام گوپی چند نارنگ کا ہے اور اس موضوع پر ان کی انعام یافتہ کتاب "ساختیات، پس ساختیات اور مشرقی شعریات"  میں مغربی حکمائے لسانیات اور مصنفوں کی عمدہ ترجمانی ملتی ہے۔ ساختیاتی فلسفہ لسان کے بنیاد گزار فرڈی ننڈ ڈی سوسیئر کے ہاں  ایک بنیادی  بحث لفظ یعنی "سگنی فائر"   اور اس سے مراد ذہنی تصور   یعنی "سگنی فائیڈ" میں" فطری رشتہ "نہ ہونے کی ہے. واضح رہے کہ زبان کے سوسیئری ماڈل میں شے کے لیے کوئی جگہ نہیں۔ سوسیئر ی فلسفہ لسان کے اس ایک بنیادی نکتے سے بعینہ نہیں تو حیرت انگیز حد تک مماثلت رکھنے والی ایک بحث برصغیر کے ایک  اردو دانشور  مولوی محمد ذکاءاللہ دہلوی کے  رسالہ تقویم اللسان میں  پائی جاتی ہے۔  موصوف کا یہ رسالہ 1893 میں مطبع شمس المطابع دہلی میں طبع ہو کر شائع ہوا تھا. سوسیئر نے  جنیوا یونیورسٹی میں  جنرل لنگوئسٹکس پر اپنے تاریخی خطبات 1906سے 1911 تک  تک دیے تھے جو آگے چل کر ساختیاتی فلسفہ لسان کی بنیاد بنے.  اس ...