نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

ادب، احتجاج اور دم ہلانا

احتجاجی ادب بھی پسند و ناپسند کا معاملہ ہے اور یہ بھی آئیڈیالوجی سے متاثر ہوتا ہے۔ معاملہ احتجاج کے ادب کا ہو یا ادب کے احتجاج کا، اگر ایک شخص ہماری آئیڈیالوجی کے دائرے میں لکھتا ہے یعنی کہیں نہ کہیں ہمارے حق میں اس کی دم ہلتی رہتی، وہی بڑا ادیب اور ایکٹیوسٹ۔ جیسے ہی دم کا ہلنا بند ہوا، کہ وہ برادری سے ہی نہیں بلکہ انسانیت کے دائرے سے بھی خارج ہو جاتا ہے۔ دراصل یہ جو دم ہے وہ مالک کے اقتدار کی علامت ہے۔
ہم دیکھتے ہیں کہ کچھ لوگ ادیب پہلے بنے، دم بعد میں ہلایا اور کچھ نے ابتدا ہی سے دم ہلایا، اور ادیب قرار پا گئے۔ اس میں شک نہیں کہ پہلی قسم کا ادیب زیادہ باصلاحیت ہوتا ہے لیکن جوں ہی کہ اس نے دم ہلانا شروع کیا، اس کی صلاحیتوں میں زنگ لگنا شروع ہو جاتا ہے۔ مگر وہ اپنی زندگی کے آخر تک یہ محسوس نہیں کر پاتا کہ اس نے جس آئیڈیالوجی کے حق میں دم ہلانا شروع کیا ہے، اس کی صلاحیتوں کو پیدا کرنے میں اس آئیڈیالوجی کا کوئی خاص ہاتھ نہیں ہے۔ یہ روزِ روشن کی طرح عیاں ہے کہ اپنی ادبی زندگی کی ابتدا میں وہ آئیڈیالوجیکل نہیں تھا، لیکن جوں ہی کہ اس کو شہرت ملی، اور وہ مقبولِ خاص و عام ہوا، اس کو خود بخود دم ہلانے کی ضرورت محسوس ہونے لگی اور وہ اس نے اسے عین انسانی فطرت کا تقاضا خیال کیا۔
مقبولِ خاص و عام بن جانے کے بعد ادیب ایک پورا دارالافتا بن جاتا ہے۔ لوگ اس سے پوچھنے لگتے ہیں کہ آپ فلاں معاملے میں کیا رائے رکھتے ہیں؟ اور یہی وہ وقت ہوتا ہے جس میں اگر وہ دم ہلانے سے چوکا تو قبولِ عام و شرفِ دوام کی نعمتِ عظمی سے محروم ہوا۔ کیا پوچھنے والا نہیں جانتا کہ ایک حساس مسئلے میں صحیح رائے کیا ہو سکتی ہے؟ شہرۂ آفاق ادیب سے رائے پوچھنے کا مطلب یہ نہیں کہ لوگ اس کو پیغمبر سمجھتے اور اس سے رہنمائی کے طالب ہیں بلکہ اس کا ایک ہی مفہوم ہے کہ تم کس طرف ہو؟ حق کی طرف یا باطل کی طرف؟ حق و باطل کی پرسش کا جواب شاعر اپنی تخلیقات میں بھی فراہم کرتا ہے اور انٹرویو کی شکل میں بھی۔
جون ایلیا سے جب پوچھا جاتا ہے تو ایک مقام پر یہ جواب ملتا ہے:
میں تو خدا کے ساتھ ہوں، تم کس کے ساتھ ہو؟
ہر لمحہ ‘لا’ کے ساتھ ہوں، تم کس کے ساتھ ہو؟
لیکن میر ایسی پرسش کا یہ جواب دیتا ہے
میر کے دین و مذہب کو اب پوچھتے کیا ہو ان نے تو
قشقہ کھینچا، دیر میں بیٹھا، کب کا ترک اسلام کیا
کہنے کی ضرورت نہیں کہ دم یہاں مذکورہ بالا دونوں میں سے کسی شعر میں نہیں ہل رہی، لیکن ایک میں تصوفانہ حکمت کا پیچ ہے اور دوسرے میں لہجہ نرم تو ہے لیکن احتجاج کی تکمیل ہو گئی ہے۔ ادبیت کس شعر میں زیادہ ہے، یہاں مجھے اس سے غرض نہیں ہے اور نہ اس سے غرض ہے کہ کسی خاص معاملے میں میر یا ایلیا کا فکری موقف کیا ہے، البتہ میر کے اس شعر کو اس کے درجِ ذیل شعر کے ساتھ ملا کر پڑھنا چاہیے، تب جا کر بات واضح ہو گی۔
کس کا کعبہ کیسا قبلہ کون حرم ہے کیا احرام
کوچے کے اُس کے باشندوں نے سب کو یہیں سے سلام کیا

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

تحقیق کے مسائل

تحقیق ایک اہم علمی فریضہ ہے۔ تحقیق کے ذریعے ہم نامعلوم کا علم حاصل کرتے ہیں۔ غیر محسوس کو محسوس بناتے ہیں۔ جو باتیں پردہ ٔ غیب میں ہوتی ہیں، انہیں منصہ ٔ شہود پر لاتے ہیں تا کہ کسی امر میں یقینی علم ہم کو حاصل ہو، اور اس کی بنیاد پر مزید تحقیق جاری رکھی جا سکے۔تحقیق ایک مسلسل عمل ہے۔ موجودہ دور میں یہ ایک نتیجے تک پہنچنے سے زیادہ ایک طریقے ( تک پہنچنے) کا نام ہے۔نتیجہ خواہ کچھ ہو، موجودہ دور میں اس کے طریقہ ٔ کار یا منہاجیات کو صاف و شفاف بنانا فلسفیانہ طور پر زیادہ ضروری سمجھا جاتا ہے تاکہ زیادہ تر نتائج صحت کے ساتھ محسوسات کے دائرے میں حتی الامکان منتقل ہو سکیں۔ دائرہ تحقیق میں ایک مقدمہ کو نتیجہ میں بدلنے کے طریقے کی جس قدر اصلاح ہوتی جائے گی اسی قدر تحقیق معتبر مانی جائے گی۔ البتہ بعض اوقات یوں بھی ہوتا ہے کہ کسی تحقیق کا طریقہ صحیح نہیں ہو اور نتیجہ بالکل صحیح ہو۔ لیکن اس ناقابل حل مسئلے کے باوجود بہرحال طریقے میں حذف و اضافہ اور اصلاح و تصحیح کی ضرورت ہمیشہ باقی رہتی ہے۔ تحقیق کے عربی لفظ کا مفہوم حق کو ثابت کرنا یا حق کی طرف پھیرنا ہے۔ حق کے معنی سچ کے ہیں۔ مادہ حق سے...

قرآن اور بگ بینگ

ایک بہت طویل عرصے سے اہل اسلام کا مغرب زدہ طبقہ قرآن کی تصدیق جدید ترین سائنسی تحقیقات کی بنیاد پر کرنا چاہتا ہے. اس کی اصل دلیل یہ ہے کہ اگر قرآن خدا کی کتاب نہ ہوتی تو اس میں بیسویں صدی کے سائنسی انکشافات کا ذکر چودہ سو سال پہلے کیونکر ممکن تھا؟ اس سلسلے میں ایک بہت بڑی مثال بگ بینگ کی دی جاتی ہے اور قرآن کی اس آیت کو دلیل بنایا جاتا ہے: اَوَلَمْ يَرَ الَّذِيْنَ كَفَرُوْٓا اَنَّ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ كَانَتَا رَتْقًا فَفَتَقْنٰهُمَا ۭ وَجَعَلْنَا مِنَ الْمَاۗءِ كُلَّ شَيْءٍ حَيٍّ ۭ اَفَلَا يُؤْمِنُوْنَ کیا کافروں نے نہیں دیکھا کہ آسمان اور زمین دونوں ملے ہوئے تھے تو ہم نے جدا جدا کردیا۔ اور تمام جاندار چیزیں ہم نے پانی

مذہب و تصوف اور فلسفہ و سائنس کا منتہائے مقصود

     یہ کائنات نہ کوئی ڈیزائن ہے اور نہ اس کا کوئی ڈیزائنر۔ اور نہ یہ کائنات عدم ڈیزائن ہے جس کا ڈیزائنر معدوم ہے۔ یہ دونوں بیانات ناقص ہیں۔ ہم بحیثیت انسان بذریعہ حواس خارج میں جو کچھ دیکھتے ہیں وہ دراصل ہماری وجدان کی مشین اور ذہن ہی سے پروسیس ہو کر نکلتا ہے۔ اور وجدان کے اس جھروکے سے نظر آنے والی یہ کائنات ایک ایسی احدیّت کے طور پر ابھرتی ہے جس میں یہ ڈیزائن صرف ایک منظر ہے جس کی شناخت عدم ڈیزائن کے دوسرے منظر سے ہوتی ہے۔ اسی طرح اس کائنات میں منصوبہ بھی ایک منظر ہے جس کی شناخت عدمِ منصوبہ کے دوسرے منظر سے ہوتی ہے۔ کائنات میں چیزیں ایک دوسرے کے بالمقابل ہی شناخت ہوتی ہیں۔ اس لیے یہ کہنا کہ کائنات میں کوئی منصوبہ ہے اس لیے کوئی منصوبہ ساز ہونا چاہیے، یا کائنات بجائے خود کوئی ڈیزائن ہے اس لیے اس کا ڈیزائنر لازماً ہونا چاہیے ناقص خیال ہے۔ اسی طرح یہ کہنا کہ اس کائنات میں عدم ڈیزائن ہے اور اس لیے اس کا کوئی ڈیزائنر نہیں ہے یہ بھی ایک ناقص خیال ہی ہے۔ یہ دونوں بیانات آدھے ادھورے مناظر کی تعمیم کی بنا پر گمراہ کن قیاس کی مثالیں ہیں۔ یاد رہے کہ منصوبہ صرف ایک منظر ہے، یا یوں...