نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

مذہب اور صلح جوئی

مذہب جس قدر انسانوں کو ایک دوسرے سے جوڑتا ہے، اسی قدر وہ انہیں توڑتا بھی ہے۔ یہ نوعِ انسانی کا اجتماعِ باہمی ہی نہیں بلکہ ان کے مابین افتراقِ دائمی بھی ہے۔ مذہب اگر انسان میں بھائی چارہ پیدا کرتا اور انہیں امن و آشتی کے ساتھ رہنے کی تلقین کرتا ہے تو اقوام و ملل کو اپنے عقائد کے تحفظ، مدافعت اور تبلیغ و اشاعت کی خاطر باہم لڑاتا بھی ہے۔ مذہب یہی چاہتا ہے کہ انسان اپنی انفرادی و اجتماعی زندگی میں صرف اسی کی خاطر جیے اور مرے۔ اسی کے حسبِ منشا دوسرے انسانوں سے تعلق بنائے اور منقطع بھی کرے۔ چنانچہ مذہب نکاح ہی نہیں کراتا، جبری طلاق بھی دلواتا ہے۔ اور مذہب عبارت ہے انسانوں کو جماعتوں اور گروہوں میں منقسم کرنے اور ہھر انہیں باہم لڑا بھڑا کر ان کی دنیاوی زندگی کو برباد کر دینے سے۔ دنیا میں کسی اور چیز کی بنیاد پر تمام انسانوں کے درمیان اتفاق ہو سکتا ہے، لیکن مذہب کی بنیاد پر صلح نا ممکن ہے۔ خود ایک مذہب کے مختلف فرقوں کے درمیان طویل المیعاد طور پر اتحاد ممکن نہیں کجا کہ دو مذاہب والوں میں اتحاد ہو جائے۔ انسان جب گروہ در گروہ منقسم ہو جائیں تو ان کے درمیان مذہباً کیا مشترک ہے، اس کی اہمیت صفر ہو جاتی ہے، اور دفعتاً وہ شئے اہمیت اختیار کر لیتی ہے جو ان کے درمیان مختلف فیہ ہے۔ یعنی انسانی گروہوں کے درمیان مشترکہ مذہبی خصائص کی کوئی فیصلہ کن اہمیت نہیں ہو سکتی بلکہ اصل اہمیت اس اختلاف کی ہے جس کی بدولت وہ گروہ کی شکل میں منظم ہوئے ہیں اور اسی کی بنیاد پر وہ اپنوں اور غیروں کی تفریق کرتے ہیں۔
جیسے ہی کسی مذہبی اختلاف، امتیاز یا وصف کی بنا پر ایک جماعت یا گروہ کی تشکیل ہوتی ہے، ویسے ہی انسانیت کی زمین میں تنگ نظری کے شجرِ خبیث کا بیج پڑ جاتا ہے۔ اگر مذہبی اختلاف کی نوعیت انفرادی ہو تو کچھ مضائقہ نہیں، لیکن جیسے ہی یہ اجتماعی شکل اختیار کرتا ہے، ویسے ہی انسان کا مستقبل تاریک ہو جاتا ہے۔ یکساں مذہبی خصائص، اوصاف یا اختلافات یا جداگانہ مقاصد کی بنا پر جماعت سازی اور اِس کو اخروی فلاح کی بنیاد بنانا ہی وہ لعنت ہے جس سے کام لے کر شیطان انسانوں سے انتہائی طویل مدتی خون خرابہ کا ناپاک عمل سرزد کراتا ہے۔ مذہب کا یہی اجتماعی تصور ہے جو انسانی قلوب کو جذبۂ قتال سے آلودہ کرتا ہے جس کے نتیجے میں حیاتِ دنیوی فتنہ و فساد سے بھر اٹھتی ہے۔
اگر مذہب کا یہ اجتماعی تصور ختم ہو جائے، پھر کوئی ایسی ط۔ویل المعیاد شئے باقی نہیں رہتی جو سیکڑوں ہزاروں سالوں تک حق و باطل کی لایعنی کشمکش کو برقرار رکھ سکے۔ نسل، رنگ، زبان، ذات پات، یہ سب چیزیں انسانوں کے اختلاطِ باہمی سے بدل جاتی ہیں لیکن اہلِ مذہب اپنے عقائد کو ان کی اولین خالص شکل میں باقی رکھنا چاہتے ہیں. چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ ان کے اندر ‘‘اصل’’ مذہب سے رجوع کرنے کی بے پناہ تڑپ ہوتی ہے۔ اور چونکہ ہر اجتماعی مذہب اور ہر مذہبی فرقہ کا ماننے والا اپنے مذہبی اور فرقہ وارانہ عقائد کے اصلی اور خالص ہونے کا دعویٰ کرتا ہے اور دوسروں کے عقائد کو بے اصل اور غلط بتاتاہے اس لیے اہلِ مذاہب کے اندر نہ بین مذہبی اتحاد ممکن ہے اور نہ دروں مذہبی۔  
یہ کتنی عجیب بات ہے کہ ہر ایک مذہب یا فرقہ میں شامل شخص اپنے عقائد  کو خالص اور دوسروں کے عقائد کو غیرخالص قرار دیتا رہے. یہ گویا مذہب نہ ہوا دودھ گھی، شہد اور سونے چاندی کا کاروبار ہو گیا۔ اب اسی کی دوکان زیادہ چلے گی جو اپنے آپ کو واقعات کی دنیا میں خالص ثابت کردے۔ اور یہ اس دنیا کی زندگی میں ممکن نہیں ہے۔ دودھ میں اگر پانی ملا ہوا ہو یا سونے چاندی میں دیگر دھاتوں کی آمیزش کر دی گئی ہو تو سائنسی آلات کی مدد سے اس کا پتا لگایا جا سکتا ہے لیکن مذہب میں جو آمیزش ہو چکی، اس کی تحقیق کا کوئی یکساں معروضی آلہ ہمارے پاس ہمارے پاس نہیں ہے جس سے کام لے کر ہم ثابت کر دیں کہ ایک ہمارا ہی مذہب حق اور خالص ہے اور بقیہ تمام باطل اور ملاوٹ والے ہیں۔
اس لیے مذہبی مسائل بنیادی طور پر ناقابلِ حل ہیں۔ اور جب مذہب کی بنیاد پر جماعت سازی اور گروہ بندی ہو تو ان کے درمیان جو تنازعات ہوں گے، وہ بھی حتمی طور پر لاینحل ہوں گے۔ پھر جب وہ تنازعات مذہبی گروہوں کے مابین جنگ و جدال میں بدلیں گے تو ظاہر ہے انسانی خون کا بہنا بھی رک نہ سکے گا۔ اس کے برعکس، اگر مذہب کو ہر فرد کا نجی معاملہ بنا دیا جائے تو ہم دیکھیں گے کہ اہلِ مذاہب کے درمیان امن و سکون کی ایک دائمی حالت پیدا ہو گئی ہے اور ہر شخص اپنا من پسند عقیدہ چننے یا ایک نئے عقیدے کی تخلیق کرنے کے لیے آزاد ہے اور کسی دوسرے کے کان پر جوں نہیں رینگتی کہ وہ کس مذہب کو ترک کر کے کیا عقیدہ اختیار کر رہا ہے یا اس کے ایسا کرنے سے کس مذہبی قوم کے افراد کی تعداد گھٹ یا بڑھ رہی ہے!
مذہب کو اگر قوموں اور جماعتوں کی بنیاد نہ بنایا جائے تو اس کے بعد اول تو یہی ممکن نہیں کہ کوئی دوسری چیز اس کی جگہ لے سکے گی، دوسرے یہ کہ اگر زبان، نسل یا کوئی اور شئے اس کی جگہ لینے کی کوشش کرتی بھی ہے اور اس کے سبب مسائل پیدا ہوتے ہیں تو وہ شئے، اور اس سے پیداشدہ مسائل چونکہ اسی دنیا سے متعلق ہوں گے نہ کہ حیات بعد الموت یا مابعدالطبیعات سے، اس لیے انہیں بحسن و خوبی حل کیا جا سکتا ہے۔
مذہب کو ایک نجی و ذاتی، داخلی و موضوعی، اور انفرادی نوعیت کی شئے بنانے کے بعد ان تمام فتنوں کا سدّ باب ہو جائے گا جو مذہب کو اجتماعی شئے کے طور پر برتنے سے پیدا ہوتی ہیں۔

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

تحقیق کے مسائل

تحقیق ایک اہم علمی فریضہ ہے۔ تحقیق کے ذریعے ہم نامعلوم کا علم حاصل کرتے ہیں۔ غیر محسوس کو محسوس بناتے ہیں۔ جو باتیں پردہ ٔ غیب میں ہوتی ہیں، انہیں منصہ ٔ شہود پر لاتے ہیں تا کہ کسی امر میں یقینی علم ہم کو حاصل ہو، اور اس کی بنیاد پر مزید تحقیق جاری رکھی جا سکے۔تحقیق ایک مسلسل عمل ہے۔ موجودہ دور میں یہ ایک نتیجے تک پہنچنے سے زیادہ ایک طریقے ( تک پہنچنے) کا نام ہے۔نتیجہ خواہ کچھ ہو، موجودہ دور میں اس کے طریقہ ٔ کار یا منہاجیات کو صاف و شفاف بنانا فلسفیانہ طور پر زیادہ ضروری سمجھا جاتا ہے تاکہ زیادہ تر نتائج صحت کے ساتھ محسوسات کے دائرے میں حتی الامکان منتقل ہو سکیں۔ دائرہ تحقیق میں ایک مقدمہ کو نتیجہ میں بدلنے کے طریقے کی جس قدر اصلاح ہوتی جائے گی اسی قدر تحقیق معتبر مانی جائے گی۔ البتہ بعض اوقات یوں بھی ہوتا ہے کہ کسی تحقیق کا طریقہ صحیح نہیں ہو اور نتیجہ بالکل صحیح ہو۔ لیکن اس ناقابل حل مسئلے کے باوجود بہرحال طریقے میں حذف و اضافہ اور اصلاح و تصحیح کی ضرورت ہمیشہ باقی رہتی ہے۔ تحقیق کے عربی لفظ کا مفہوم حق کو ثابت کرنا یا حق کی طرف پھیرنا ہے۔ حق کے معنی سچ کے ہیں۔ مادہ حق سے...

قرآن اور بگ بینگ

ایک بہت طویل عرصے سے اہل اسلام کا مغرب زدہ طبقہ قرآن کی تصدیق جدید ترین سائنسی تحقیقات کی بنیاد پر کرنا چاہتا ہے. اس کی اصل دلیل یہ ہے کہ اگر قرآن خدا کی کتاب نہ ہوتی تو اس میں بیسویں صدی کے سائنسی انکشافات کا ذکر چودہ سو سال پہلے کیونکر ممکن تھا؟ اس سلسلے میں ایک بہت بڑی مثال بگ بینگ کی دی جاتی ہے اور قرآن کی اس آیت کو دلیل بنایا جاتا ہے: اَوَلَمْ يَرَ الَّذِيْنَ كَفَرُوْٓا اَنَّ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ كَانَتَا رَتْقًا فَفَتَقْنٰهُمَا ۭ وَجَعَلْنَا مِنَ الْمَاۗءِ كُلَّ شَيْءٍ حَيٍّ ۭ اَفَلَا يُؤْمِنُوْنَ کیا کافروں نے نہیں دیکھا کہ آسمان اور زمین دونوں ملے ہوئے تھے تو ہم نے جدا جدا کردیا۔ اور تمام جاندار چیزیں ہم نے پانی

مذہب و تصوف اور فلسفہ و سائنس کا منتہائے مقصود

     یہ کائنات نہ کوئی ڈیزائن ہے اور نہ اس کا کوئی ڈیزائنر۔ اور نہ یہ کائنات عدم ڈیزائن ہے جس کا ڈیزائنر معدوم ہے۔ یہ دونوں بیانات ناقص ہیں۔ ہم بحیثیت انسان بذریعہ حواس خارج میں جو کچھ دیکھتے ہیں وہ دراصل ہماری وجدان کی مشین اور ذہن ہی سے پروسیس ہو کر نکلتا ہے۔ اور وجدان کے اس جھروکے سے نظر آنے والی یہ کائنات ایک ایسی احدیّت کے طور پر ابھرتی ہے جس میں یہ ڈیزائن صرف ایک منظر ہے جس کی شناخت عدم ڈیزائن کے دوسرے منظر سے ہوتی ہے۔ اسی طرح اس کائنات میں منصوبہ بھی ایک منظر ہے جس کی شناخت عدمِ منصوبہ کے دوسرے منظر سے ہوتی ہے۔ کائنات میں چیزیں ایک دوسرے کے بالمقابل ہی شناخت ہوتی ہیں۔ اس لیے یہ کہنا کہ کائنات میں کوئی منصوبہ ہے اس لیے کوئی منصوبہ ساز ہونا چاہیے، یا کائنات بجائے خود کوئی ڈیزائن ہے اس لیے اس کا ڈیزائنر لازماً ہونا چاہیے ناقص خیال ہے۔ اسی طرح یہ کہنا کہ اس کائنات میں عدم ڈیزائن ہے اور اس لیے اس کا کوئی ڈیزائنر نہیں ہے یہ بھی ایک ناقص خیال ہی ہے۔ یہ دونوں بیانات آدھے ادھورے مناظر کی تعمیم کی بنا پر گمراہ کن قیاس کی مثالیں ہیں۔ یاد رہے کہ منصوبہ صرف ایک منظر ہے، یا یوں...