نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

مولوی ذکاءاللہ پر میری ایک تحقیق

اردو میں ساختیات و پس ساختیات کا تفصیلی تعارف و تجزیہ  پیش کرنے والوں میں نمایاں ترین نام گوپی چند نارنگ کا ہے اور اس موضوع پر ان کی انعام یافتہ کتاب "ساختیات، پس ساختیات اور مشرقی شعریات"  میں مغربی حکمائے لسانیات اور مصنفوں کی عمدہ ترجمانی ملتی ہے۔
ساختیاتی فلسفہ لسان کے بنیاد گزار فرڈی ننڈ ڈی سوسیئر کے ہاں  ایک بنیادی  بحث لفظ یعنی "سگنی فائر"   اور اس سے مراد ذہنی تصور   یعنی "سگنی فائیڈ" میں" فطری رشتہ "نہ ہونے کی ہے. واضح رہے کہ زبان کے سوسیئری ماڈل میں شے کے لیے کوئی جگہ نہیں۔
سوسیئر ی فلسفہ لسان کے اس ایک بنیادی نکتے سے بعینہ نہیں تو حیرت انگیز حد تک مماثلت رکھنے والی ایک بحث برصغیر کے ایک  اردو دانشور  مولوی محمد ذکاءاللہ دہلوی کے  رسالہ تقویم اللسان میں  پائی جاتی ہے۔  موصوف کا یہ رسالہ 1893 میں مطبع شمس المطابع دہلی میں طبع ہو کر شائع ہوا تھا. سوسیئر نے  جنیوا یونیورسٹی میں  جنرل لنگوئسٹکس پر اپنے تاریخی خطبات 1906سے 1911 تک  تک دیے تھے جو آگے چل کر ساختیاتی فلسفہ لسان کی بنیاد بنے.  اس لیے, مولوی ذکاءاللہ نے لفظ اور معنی کے متعلق موٹا موٹی وہی خیالات جو عام طور پر سوسیئر سے منسوب کیے جاتے ہیں ,سوسیئر سے کم از کم 12 سال پہلے پیش کیے تھے. حالانکہ علما لسانیات اس حقیقت سے بخوبی واقف ہیں کہ لفظ و معنی کے رشتے کے فطری نہ ہونے کی بات سوسیئر سےپہلے بھی کسی نہ کسی شکل میں متعدد فلاسفہ (مثلاً  جان لاک) کہہ چکے ہیں.  
سوسیئر  کی طرح اس خاص معاملے میں اس کے پیش رو مولوی ذکاءاللہ کے ہاں بھی سگنی فائر اور سگنی فائیڈ کا تصور بالکل واضح ہے  جس کا اردو ترجمہ نارنگ صاحب نے بالترتیب  ’’معنی نما ‘‘اور ’’تصور معنی‘‘ کیا ہے  جس کے لیے بالترتیب اردو میں "دال" اور "مدلول" کی اصطلاح بھی مستعمل ہے، حالانکہ مولوی ذکاءاللہ نے  ایک ممکنہ حکمت کے پیش نظر دال اور مدلول کی ڈائیکا ٹومی پیش نہیں کی  اور اس  کی جگہ  انہوں نے  ’’لفظ اور مدلول‘‘ کی اصطلاح استعمال کی ہے۔  اتنا ہی نہیں ، ان کے ہاں لفظ و معنی کی جو بحث پائی جاتی ہے اس میں مستعمل لفظیات و اصطلاحت کی اگر صحیح تعبیر نہ کی جائے تو بادی النظر میں کہا جا سکتا ہے کہ مولوی ذکاءاللہ بھی لفظ اور مدلول میں کسی "فطری رشتے"  کے نہ پائے جانے کے قائل  ہیں۔ لیکن یہ  محض تعبیر کی غلطی ہوگی ۔ میرے نزدیک مولوی ذکاءاللہ نے اپنے رسالہ تقویم اللسان میں لفظ اور معنی میں  ’’طبعی مناسبت نہ ہونے ‘‘کا نکتہ پیش کیا ہے  جو اس مسئلے پر ساختیاتی موقف ’’ سگنی فائر اور سگنی فائیڈ  میں فطری  رشتہ نہ ہونے ‘‘ سے مماثلت رکھتے ہوئے بھی ایک زاویہ کا فرق اپنے اندر رکھتا ہے ۔ اور یہی زاویاتی فرق   مولوی ذکاءاللہ کو پہلے اور بعد کے علمائے لسانیات سے ممتاز کرتا ہے۔  میں اس سلسلے میں تقریباً بیس صفحات پر مشتمل ایک مقالہ قریب قریب پورا لکھ چکا ہوں.
یہ تحقیق  میں  نے اب سے تقریباً دو سال پہلے   ۲۰۱۳  میں   مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسیٹی میں  زبان بحیثیت ترجمہ  کے موضوع پر  ایم فل کا مقالہ لکھنے کے دوران کی تھی اور  اپنے ابتدائی مسودے میں  اپنی اس تحقیق کو بھی حسب ضرورت تفصیل کے ساتھ درج بھی کیا تھا, پھر اپنے نگراں ڈاکٹر فہیم الدین احمد   کو وہ پورا مسودہ مولوی ذکا اللہ کے رسالہ تقویم اللسان کی سافٹ کاپی کے ساتھ ۲۵ دسمبر  ۲۰۱۳ عیسوی کو بذریعہ جی میل ارسال کر دیا تھا تا کہ سند رہے. ڈاکٹر فہیم الدین احمد صاحب نے   اس سلسلے میں  بھی میری بڑی حوصلہ افزائی فرمائی ہے جس کے لیے میں ان کا ہمیشہ شکرگزار رہوں گا۔
اسی زمانے میں  اپنی اس اہم تحقیق کے بعض نکتے میں نے عزیز دوست محمد سعید  کو فون پر بتائے تو انہوں نے مجھے انتہائی مفید مشورے دیے جن میں سے ایک  یہ تھا کہ مجھے اس تحقیق کو اردو میں ساختیاتی و پس ساختیاتی   افکار پر ہونے والی بحثوں کے  پس منظر میں پیش کرنا چاہیے۔  آگے چل کر مجھے ان کا یہ مشورہ بہت  پسند آیا۔ میں  اکثر مختلف النوع  فکری مسائل  پر ان سے  طویل بحثیں  کرتا رہا ہوں اور ان   کی فکری صلاحتیوں کا قائل ہوں۔
گزشتہ دو سالوں سے گوں ناگوں مصروفیات کے سبب  مولوی ذکاءاللہ کے تصور لفظ و معنی پر   مقالہ لکھنے کا یہ کام ادھورا تھا ۔ ادھر کچھ فرصت ملی تو میں نے اس  پر توجہ کی اور تصنیف حیدر، مدیر  ادبی دنیا  ڈاٹ کوم کو ارسال کیا  اور انہوں نے اسے اپنے نئے رسالے 'جدید ترین'  کے پہلے شمارے میں شائع کرنے کا فیصلہ کیا، میں اس کے لیے ان کا بہت  زیاد ہ شکرگزار ہوں۔

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

تحقیق کے مسائل

تحقیق ایک اہم علمی فریضہ ہے۔ تحقیق کے ذریعے ہم نامعلوم کا علم حاصل کرتے ہیں۔ غیر محسوس کو محسوس بناتے ہیں۔ جو باتیں پردہ ٔ غیب میں ہوتی ہیں، انہیں منصہ ٔ شہود پر لاتے ہیں تا کہ کسی امر میں یقینی علم ہم کو حاصل ہو، اور اس کی بنیاد پر مزید تحقیق جاری رکھی جا سکے۔تحقیق ایک مسلسل عمل ہے۔ موجودہ دور میں یہ ایک نتیجے تک پہنچنے سے زیادہ ایک طریقے ( تک پہنچنے) کا نام ہے۔نتیجہ خواہ کچھ ہو، موجودہ دور میں اس کے طریقہ ٔ کار یا منہاجیات کو صاف و شفاف بنانا فلسفیانہ طور پر زیادہ ضروری سمجھا جاتا ہے تاکہ زیادہ تر نتائج صحت کے ساتھ محسوسات کے دائرے میں حتی الامکان منتقل ہو سکیں۔ دائرہ تحقیق میں ایک مقدمہ کو نتیجہ میں بدلنے کے طریقے کی جس قدر اصلاح ہوتی جائے گی اسی قدر تحقیق معتبر مانی جائے گی۔ البتہ بعض اوقات یوں بھی ہوتا ہے کہ کسی تحقیق کا طریقہ صحیح نہیں ہو اور نتیجہ بالکل صحیح ہو۔ لیکن اس ناقابل حل مسئلے کے باوجود بہرحال طریقے میں حذف و اضافہ اور اصلاح و تصحیح کی ضرورت ہمیشہ باقی رہتی ہے۔ تحقیق کے عربی لفظ کا مفہوم حق کو ثابت کرنا یا حق کی طرف پھیرنا ہے۔ حق کے معنی سچ کے ہیں۔ مادہ حق سے...

قرآن اور بگ بینگ

ایک بہت طویل عرصے سے اہل اسلام کا مغرب زدہ طبقہ قرآن کی تصدیق جدید ترین سائنسی تحقیقات کی بنیاد پر کرنا چاہتا ہے. اس کی اصل دلیل یہ ہے کہ اگر قرآن خدا کی کتاب نہ ہوتی تو اس میں بیسویں صدی کے سائنسی انکشافات کا ذکر چودہ سو سال پہلے کیونکر ممکن تھا؟ اس سلسلے میں ایک بہت بڑی مثال بگ بینگ کی دی جاتی ہے اور قرآن کی اس آیت کو دلیل بنایا جاتا ہے: اَوَلَمْ يَرَ الَّذِيْنَ كَفَرُوْٓا اَنَّ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ كَانَتَا رَتْقًا فَفَتَقْنٰهُمَا ۭ وَجَعَلْنَا مِنَ الْمَاۗءِ كُلَّ شَيْءٍ حَيٍّ ۭ اَفَلَا يُؤْمِنُوْنَ کیا کافروں نے نہیں دیکھا کہ آسمان اور زمین دونوں ملے ہوئے تھے تو ہم نے جدا جدا کردیا۔ اور تمام جاندار چیزیں ہم نے پانی

مذہب و تصوف اور فلسفہ و سائنس کا منتہائے مقصود

     یہ کائنات نہ کوئی ڈیزائن ہے اور نہ اس کا کوئی ڈیزائنر۔ اور نہ یہ کائنات عدم ڈیزائن ہے جس کا ڈیزائنر معدوم ہے۔ یہ دونوں بیانات ناقص ہیں۔ ہم بحیثیت انسان بذریعہ حواس خارج میں جو کچھ دیکھتے ہیں وہ دراصل ہماری وجدان کی مشین اور ذہن ہی سے پروسیس ہو کر نکلتا ہے۔ اور وجدان کے اس جھروکے سے نظر آنے والی یہ کائنات ایک ایسی احدیّت کے طور پر ابھرتی ہے جس میں یہ ڈیزائن صرف ایک منظر ہے جس کی شناخت عدم ڈیزائن کے دوسرے منظر سے ہوتی ہے۔ اسی طرح اس کائنات میں منصوبہ بھی ایک منظر ہے جس کی شناخت عدمِ منصوبہ کے دوسرے منظر سے ہوتی ہے۔ کائنات میں چیزیں ایک دوسرے کے بالمقابل ہی شناخت ہوتی ہیں۔ اس لیے یہ کہنا کہ کائنات میں کوئی منصوبہ ہے اس لیے کوئی منصوبہ ساز ہونا چاہیے، یا کائنات بجائے خود کوئی ڈیزائن ہے اس لیے اس کا ڈیزائنر لازماً ہونا چاہیے ناقص خیال ہے۔ اسی طرح یہ کہنا کہ اس کائنات میں عدم ڈیزائن ہے اور اس لیے اس کا کوئی ڈیزائنر نہیں ہے یہ بھی ایک ناقص خیال ہی ہے۔ یہ دونوں بیانات آدھے ادھورے مناظر کی تعمیم کی بنا پر گمراہ کن قیاس کی مثالیں ہیں۔ یاد رہے کہ منصوبہ صرف ایک منظر ہے، یا یوں...