جوں جوں عامۃ الناس بالخصوص
عامۃ المسلمین اور اس کے تعلیم یافتہ خواص کے درمیان یہ نقطہ نظر مضبوط
ہوگا کہ بیوی کو کتنی ہی ہلکی مار مارنا بہرحال اخلاقاً اور قانوناً ہر
لحاظ سے ایک قبیح فعل ہے, ویسے ویسے تجدد پسند اسلامسٹ طبقہ کی کوشش ہوگی
کہ قرآن کریم کی "وضربوھنَّ" والی آیت کی کوئی دوسری تاویل کر دی جائے اور
دنیا سے یہ بتایا جائے کہ "یہ صرف لوگوں کی ایک غلط فہمی ہے کہ قرآن کریم
میں بیوی کو سرکشی پر مارنے کی اجازت دی گئی ہے".
تجدد پسندوں کے نزدیک اسلام کے متعلق پھیلی ہوئی "غلط فہمیوں" کی فہرست بہت طویل ہے. ان میں کچھ کو ہم ذیل میں درج کرتے ہیں:
تجدد پسندوں کے نزدیک اسلام کے متعلق پھیلی ہوئی "غلط فہمیوں" کی فہرست بہت طویل ہے. ان میں کچھ کو ہم ذیل میں درج کرتے ہیں:
1. شادی شدہ زانی کے لیے رجم کا قانون
2. مرتد کے لیے قتل کا قانون
3. چوری پر ہاتھ کاٹنے کا قانون
4. قومِ لوط کا عمل (بشمول ایل جی بی ٹی حقوق) کرنے پر سزائے موت
5. محاربین کو غلام اور باندی بنانے کی شرعی رخصت
6. باندی سے بلانکاح تمتع کر سکنے کی ابدی شرعی رخصت (جس میں تعداد کی کوئی قید نہیں)
7. مردوں اور عورتوں کے لیے کام کی جگہوں, تعلیم گاہوں اور دیگر معاشرتی امور میں ایک ساتھ مل کر کام کرنے کی ممانعت
8. عورتوں کا دائرہ کار مردوں سے مختلف ہونا
عورتوں پر مردوں کو ایک درجہ حاصل ہونا
بیوی کی سرکشی پر مرد کو مارنے کا قانونی اختیار ہونا.
9. عورت کے لیے سر پر دوپٹہ رکھنا
10. عورت کی حکمرانی کی ممانعت یعنی اسلامی خلافت میں عورت خلیفۃ المسلمین نہیں بن سکتی.
11. عورت نماز میں مردوں کی امامت نہیں کر سکتی.
12. ذی روح کی مصوری (بشمول فوٹو گرافی و ویڈیوگرافی) کی حرمت
13. سنگ تراشی و مجسمہ سازی کی حرمت
14. اداکاری یعنی تھیئٹر میں کام کرنے کی حرمت
15. داڑھی رکھنے کی سنت جس کی تاکید احادیث میں آئی ہے...
یہ صرف کچھ مثالیں ہیں, تجدد پسندوں کی یہ فہرست بہت لمبی ہے...
واضح رہے کہ یہ احکام, ہدایات اور قوانین چودہ سو سالوں سے اسلام کا ناگزیر حصہ رہے ہیں. لیکن ماڈرن اسلام کے حامی چونکہ مغرب کو مسلمان کرنا چاہتے اور مغرب اسی مجموعہ قانون پر ایمان لا سکتا ہے جس میں اس قسم کے قوانین نہ ہوں, اس لیے وہ اسلام کے متعلق پھیلی ہوئی ان غلط فہمیوں کو دور کرنا چاہتے ہیں! (نعوذباللہ من ذالک).
اسلام جو ہے وہی رہے گا اور عصری تقاضوں کے مطابق نہیں بدلے گا. اگر عصری تقاضے اتنے ہی پرکشش اور ناگزیر ہیں تو مسلمانوں کو ان کے مطابق اپنے آپ کو بدلنا چاہیے. قرآن و سنت کے ثابت شدہ احکام بدلنے سے ذرہ برابر فائدہ نہ ہوگا.
(فیس بک اسٹیٹس اپڈیٹ، ۱۶ مئی ۲۰۱۶)
2. مرتد کے لیے قتل کا قانون
3. چوری پر ہاتھ کاٹنے کا قانون
4. قومِ لوط کا عمل (بشمول ایل جی بی ٹی حقوق) کرنے پر سزائے موت
5. محاربین کو غلام اور باندی بنانے کی شرعی رخصت
6. باندی سے بلانکاح تمتع کر سکنے کی ابدی شرعی رخصت (جس میں تعداد کی کوئی قید نہیں)
7. مردوں اور عورتوں کے لیے کام کی جگہوں, تعلیم گاہوں اور دیگر معاشرتی امور میں ایک ساتھ مل کر کام کرنے کی ممانعت
8. عورتوں کا دائرہ کار مردوں سے مختلف ہونا
عورتوں پر مردوں کو ایک درجہ حاصل ہونا
بیوی کی سرکشی پر مرد کو مارنے کا قانونی اختیار ہونا.
9. عورت کے لیے سر پر دوپٹہ رکھنا
10. عورت کی حکمرانی کی ممانعت یعنی اسلامی خلافت میں عورت خلیفۃ المسلمین نہیں بن سکتی.
11. عورت نماز میں مردوں کی امامت نہیں کر سکتی.
12. ذی روح کی مصوری (بشمول فوٹو گرافی و ویڈیوگرافی) کی حرمت
13. سنگ تراشی و مجسمہ سازی کی حرمت
14. اداکاری یعنی تھیئٹر میں کام کرنے کی حرمت
15. داڑھی رکھنے کی سنت جس کی تاکید احادیث میں آئی ہے...
یہ صرف کچھ مثالیں ہیں, تجدد پسندوں کی یہ فہرست بہت لمبی ہے...
واضح رہے کہ یہ احکام, ہدایات اور قوانین چودہ سو سالوں سے اسلام کا ناگزیر حصہ رہے ہیں. لیکن ماڈرن اسلام کے حامی چونکہ مغرب کو مسلمان کرنا چاہتے اور مغرب اسی مجموعہ قانون پر ایمان لا سکتا ہے جس میں اس قسم کے قوانین نہ ہوں, اس لیے وہ اسلام کے متعلق پھیلی ہوئی ان غلط فہمیوں کو دور کرنا چاہتے ہیں! (نعوذباللہ من ذالک).
اسلام جو ہے وہی رہے گا اور عصری تقاضوں کے مطابق نہیں بدلے گا. اگر عصری تقاضے اتنے ہی پرکشش اور ناگزیر ہیں تو مسلمانوں کو ان کے مطابق اپنے آپ کو بدلنا چاہیے. قرآن و سنت کے ثابت شدہ احکام بدلنے سے ذرہ برابر فائدہ نہ ہوگا.
(فیس بک اسٹیٹس اپڈیٹ، ۱۶ مئی ۲۰۱۶)
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں
تبصرہ کریں