نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

امت کی بازیافت کی دنیاوی بنیاد



علامہ غزالی جن کو بصد احترام امام لکھا جاتا ہے، اور ہمارے بہت سے احباب انہیں بہت بڑا اسلامی متکلم مانتے ہیں، اور ان کی تعریف میں زمین و آسمان کے قلابے ملاتے ہیں، ان کے متعلق جاننا چاہیے کہ وہ اسلامی فلسفیوں کے سخت دشمن تھے اور ان کی تکفیر فرماتے رہتے تھے۔آج میں اپنے اسی دعوے کا ایک ناقابلِ انکار ثبوت پیش کروں گا کہ انہوں نے کم از کم دو جید، عباقرہ روزگار اسلامی فلسفیوں کو کافر قرار دیا ۔ ان میں سے ایک کو ہم معلم ثانی امام ابو نصر فارابی اور دوسرے کو شیخ الرئیس بو علی ابن سینا کے نام سے جانتے ہیں، اور ان کے متعلق ہم آج فخر سے بتاتے ہیں کہ‘‘ یہ ہیں وہ لوگ جنہوں نےمغربی تہذیب کو علم سکھایا اور اسے ترقی کی نئی منزلوں تک پہنچایا۔’’

اس میں شک نہیں کہ آج مغربی تہذیب کی مادی ترقی کو دیکھ کر ہمارا کلیجہ پھٹا جا رہا ہے، یہاں تک کہ اقبال ایسے مفکرِ اسلام کا دل بھی ٹکڑے ٹکرے ہو گیا :

مگر وہ علم کے موتی ، کتابیں اپنے آبا کی

جو دیکھیں ان کو یورپ میں تو دل ہوتا ہے سی پارا

یہ کتنی بڑی بات ہے میرے بزرگو اور دوستو کہ تاریخ انسانی کے اتنے عظیم فلسفیوں پر پر کفر کا فتوی اُن حضرت نے لگایا جن کو ہم امام غزالی رحمۃ اللہ علیہ کے نام سے جانتے ہیں۔آئیے ہم امامِ عالی مقام کی کتاب ‘‘المنقذ من الضلال ’’ سے وہ اقتباس پڑھیں جس میں ان کی علمی تکفیر کا ایک نمونہ پایا جاتا ہے:


‘‘پھر ارسطاطالیس نے افلاطون اور سقراط کی اور ان سب فلاسفہ الٓہیہ کی جو اُس سے پہلے گذرے ہیں ایسی تردید کی ہے کہ کچھ کسر باقی نہیں رکھی۔ اور ان سب سے اپنی بیزاری ظاہر کی ہے۔ لیکن اُس نے بعض رذایل کفر و بدعت ایسے چھوڑ دیے جس کی تردید کی توفیق خدا تعالی نے اس کو نہیں بخشی تھی ۔ پس واجب ہے کہ اُن کو اور اُن کے اتباع مثلاً علمائے اسلام میں سے بوعلی ابن سینا اور فاریابی وغیرہ کو کافر کہا جائے۔ کیونکہ ان دو شخصوں کی مانند اور کسی شخص نے فلاسفہ اہل اسلام میں سے فلسفہ ارسطاطالیس کو اس قدر کوشش سے نقل نہیں کیا ۔’’

[حوالہ: ابی حامد محمد غزالی، خیرالمقال فی ترجمہ المنقذ من الضلال ، ترجمہ :مولوی سید ممتاز علی، مترجم چیف کورٹ پنجاب لاہور، مطبع :اسلامیہ پریس لاہو، 1890عیسوی، صفحہ نمبر 32-35]


برادرانِ اسلام، اب جتنا چاہے افسوس کیجیے لیکن حقیقت یہی ہے کہ علامہ غزالی نے ابن سینا اور فارابی کے متعلق بالکل صحیح فیصلہ کیا کہ وہ کافر تھے کیونکہ ان دونوں جید فلسفیوں کے عقائد و افکار بالتحقیق غیراسلامی اور خلافِ قرآن تھے۔ لیکن اگر آپ بھی علامہ غزالی کی طرح ابونصر فارابی اور ابن سینا کو کافر مانتے ہیں، تو پھر یہ کیوں کہتے ہیں کہ مسلمانوں نے مغربی تہذیب کو علم سکھایا؟ فارابی و ابن سینا تو مسلمان تھے ہی نہیں، پھر ہمارا یہ دعوی باطل ہوا یا نہیں کہ مسلمانوں نے اپنے دور میں فلسفہ و سائنس کے فروغ میں تاریخ ساز کارنامہ انجام دیا؟ اہلِ مغرب نے امام ابوحنیفہ اور امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ سے دین کا علم تو حاصل نہیں کیا ، انہوں نے تو فارابی و ابن سینا اور دوسرے کافر وملحد لوگوں سے فلسفہ ہی سیکھا، پھر سوال یہ ہے کہ عہدِ وسطی کے سائنسی کارناموں کو اسلام اور مسلمانوں کا کارنامہ کیوں کہا جائے؟ صرف اس لیے کہ فارابی اور ابن سینا مسلمانوں میں پیدا ہوئے تھے، اور انہوں نے اپنے دور کے فلسفہ و سائنس میں اعلی ترین مقام حاصل کیا تھا؟ اگر ہاں، تو پھر عقیدہ کی بنیاد پر تکفیر کا یہ باب بند کیا جائے اور ان سب لوگوں کو مسلمان تسلیم کیا جائے جو مسلمان گھروں میں پیدا ہوئے، اور / یا خود کو مسلمان قرار دیا۔یہی امت کی بازیافت اور اس کی تعمیرِ نو کی دنیاوی بنیاد ہے جسے ہم سب کو تسلیم کرنا ہوگا۔ اگر یہ منظور نہیں توباطل تعمیمات پر مبنی ایسے گمراہ کن اور بوگس دعوے ختم کیے جائیں کہ مسلمانوں نے اہل ِ مغرب کو فلسفہ اور سائنس سکھایا، اور ٹھیک ٹھیک یہ پتا لگایا جائے کہ عہدِ وسطی کے کتنے فلاسفہ و سائنسداں اپنے عقائد کے اعتبار سے صحیح العقیدہ سنی مسلمان تھے اور کتنے ان میں ملحد و زندیق اور دیگر اقسام ‘گمراہ’ اور ’گمراہ گر’ پیدائشی مسلمان تھے جنہیں امتِ مسلمہ سے خارج کرنا شرعاً ضروری ہے۔

تبصرے

گمنام نے کہا…
یہاں ایک اہم اور عام فہم غلطی کا ازالہ کردینا نامناسب نہ ہوگا۔ آج کے دور میں اکثر آزاد خیال اور عقلیت پسند حلقوں کی جانب سے یہ الزام لگایا جاتا ہے کہ شاید غزالی نے اسلام میں فلسفے یا سائنس کی تحقیق کے خلاف علم بغاوت بلند کیا تھا۔ اور اسی دلیل کی بنا پر غزالی کو علم دشمن بھی تصور کیا جاتا ہے۔ حالانکہ مستند تاریخی دستاویزات کا مطالعہ بتاتا ہے کہ غزالی نے واضح طور پر فلسفے کو دو بنیادی حصوں میں تقسیم کیا جس میں سے ایک حصہ کائنات کے مادی پہلو اور دوسرا خالص مابعدالطبیعاتی مسائل سے تعلق رکھتا ہے۔ غزالی کی تنقید محض اس مابعدالطبیعاتی پہلو سے ہے وگرنہ وہ مادی کائنات کے لئے سائنس ہی کو مستند قرار دیتے ہیں۔ مسلم فلاسفہ کے وہ نظریات جن کا تعلق خالص الہیات کے مسائل سے تھا ان پر غزالی نے سخت تنقید کی ہے۔ http://www.laaltain.com/%D8%A7%D8%B3%D9%84%D8%A7%D9%85-%DB%8C%D8%A7-%D8%B3%D8%A7%D8%A6%D9%86%D8%B3%D8%9F/

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

تحقیق کے مسائل

تحقیق ایک اہم علمی فریضہ ہے۔ تحقیق کے ذریعے ہم نامعلوم کا علم حاصل کرتے ہیں۔ غیر محسوس کو محسوس بناتے ہیں۔ جو باتیں پردہ ٔ غیب میں ہوتی ہیں، انہیں منصہ ٔ شہود پر لاتے ہیں تا کہ کسی امر میں یقینی علم ہم کو حاصل ہو، اور اس کی بنیاد پر مزید تحقیق جاری رکھی جا سکے۔تحقیق ایک مسلسل عمل ہے۔ موجودہ دور میں یہ ایک نتیجے تک پہنچنے سے زیادہ ایک طریقے ( تک پہنچنے) کا نام ہے۔نتیجہ خواہ کچھ ہو، موجودہ دور میں اس کے طریقہ ٔ کار یا منہاجیات کو صاف و شفاف بنانا فلسفیانہ طور پر زیادہ ضروری سمجھا جاتا ہے تاکہ زیادہ تر نتائج صحت کے ساتھ محسوسات کے دائرے میں حتی الامکان منتقل ہو سکیں۔ دائرہ تحقیق میں ایک مقدمہ کو نتیجہ میں بدلنے کے طریقے کی جس قدر اصلاح ہوتی جائے گی اسی قدر تحقیق معتبر مانی جائے گی۔ البتہ بعض اوقات یوں بھی ہوتا ہے کہ کسی تحقیق کا طریقہ صحیح نہیں ہو اور نتیجہ بالکل صحیح ہو۔ لیکن اس ناقابل حل مسئلے کے باوجود بہرحال طریقے میں حذف و اضافہ اور اصلاح و تصحیح کی ضرورت ہمیشہ باقی رہتی ہے۔ تحقیق کے عربی لفظ کا مفہوم حق کو ثابت کرنا یا حق کی طرف پھیرنا ہے۔ حق کے معنی سچ کے ہیں۔ مادہ حق سے...

قرآن اور بگ بینگ

ایک بہت طویل عرصے سے اہل اسلام کا مغرب زدہ طبقہ قرآن کی تصدیق جدید ترین سائنسی تحقیقات کی بنیاد پر کرنا چاہتا ہے. اس کی اصل دلیل یہ ہے کہ اگر قرآن خدا کی کتاب نہ ہوتی تو اس میں بیسویں صدی کے سائنسی انکشافات کا ذکر چودہ سو سال پہلے کیونکر ممکن تھا؟ اس سلسلے میں ایک بہت بڑی مثال بگ بینگ کی دی جاتی ہے اور قرآن کی اس آیت کو دلیل بنایا جاتا ہے: اَوَلَمْ يَرَ الَّذِيْنَ كَفَرُوْٓا اَنَّ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ كَانَتَا رَتْقًا فَفَتَقْنٰهُمَا ۭ وَجَعَلْنَا مِنَ الْمَاۗءِ كُلَّ شَيْءٍ حَيٍّ ۭ اَفَلَا يُؤْمِنُوْنَ کیا کافروں نے نہیں دیکھا کہ آسمان اور زمین دونوں ملے ہوئے تھے تو ہم نے جدا جدا کردیا۔ اور تمام جاندار چیزیں ہم نے پانی

مذہب و تصوف اور فلسفہ و سائنس کا منتہائے مقصود

     یہ کائنات نہ کوئی ڈیزائن ہے اور نہ اس کا کوئی ڈیزائنر۔ اور نہ یہ کائنات عدم ڈیزائن ہے جس کا ڈیزائنر معدوم ہے۔ یہ دونوں بیانات ناقص ہیں۔ ہم بحیثیت انسان بذریعہ حواس خارج میں جو کچھ دیکھتے ہیں وہ دراصل ہماری وجدان کی مشین اور ذہن ہی سے پروسیس ہو کر نکلتا ہے۔ اور وجدان کے اس جھروکے سے نظر آنے والی یہ کائنات ایک ایسی احدیّت کے طور پر ابھرتی ہے جس میں یہ ڈیزائن صرف ایک منظر ہے جس کی شناخت عدم ڈیزائن کے دوسرے منظر سے ہوتی ہے۔ اسی طرح اس کائنات میں منصوبہ بھی ایک منظر ہے جس کی شناخت عدمِ منصوبہ کے دوسرے منظر سے ہوتی ہے۔ کائنات میں چیزیں ایک دوسرے کے بالمقابل ہی شناخت ہوتی ہیں۔ اس لیے یہ کہنا کہ کائنات میں کوئی منصوبہ ہے اس لیے کوئی منصوبہ ساز ہونا چاہیے، یا کائنات بجائے خود کوئی ڈیزائن ہے اس لیے اس کا ڈیزائنر لازماً ہونا چاہیے ناقص خیال ہے۔ اسی طرح یہ کہنا کہ اس کائنات میں عدم ڈیزائن ہے اور اس لیے اس کا کوئی ڈیزائنر نہیں ہے یہ بھی ایک ناقص خیال ہی ہے۔ یہ دونوں بیانات آدھے ادھورے مناظر کی تعمیم کی بنا پر گمراہ کن قیاس کی مثالیں ہیں۔ یاد رہے کہ منصوبہ صرف ایک منظر ہے، یا یوں...