نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

مولوی ذکاءاللہ اور معنی کی تکثیریت

(ایک فیس بک اسٹیٹس پر میرا تبصرہ)
ساختیات و پس ساختیات کا ایک سیاق بلاشبہ مقامی (یعنی مغربی ) ہے لیکن دوسرا آفاقی نوعیت بھی رکھتا ہے۔ قاری اساس تنقید کے سلسلے میں بھی یہی نقطہ نظر اختیار کرنا چاہیے۔ بجائے اس کے کہ ہم ہر مغربی نظریے کو بے دردری سے مسترد کر تے چلے جائیں، جیسا کہ محمد حسن عسکری اور محمد علی صدیقی نے کیا، یہ ضروری معلوم ہوتا ہے کہ ہم یہ معلوم کرنے کی کوشش کریں خود ہمارے بزرگوں نے اس سلسلے میں کس رائے کو پسند فرمایا ہے ، اور اس کے بعد خود اپنی فکر و تحقیق سے ایک نتیجے تک پہنچنے کی کوشش کریں ۔اردو میں ساختیات و پس ساختیات کو متعارف کرانے اور اس کو ادبی نظریہ کے طور پر رائج کرنے والے اردو میں فلسفہ لسان کی روایت سے باخبر نہیں تھے۔ وہ نہیں جانتے تھے کہ مولوی ذکاءاللہ کے ہاں لسانیاتی نشان کی تشکیل فرڈیننڈ ڈی سوسیئر سے پہلے ہو گئی تھی حالانکہ مولوی ذکاءاللہ کے فلسفہ زبان (خواہ وہ مغربی حکمائے زبان سے ماخوذ ہی کیوں نہ ہو) میں وہ خامیاں نہیں پائی جاتیں جن کے سبب سوسیئر کی تنقید ہوئی ۔ قاری اساس تنقید معنی کی تکثیریت کا فلسفہ ہے اور اسے بھی مولوی ذکاءاللہ نے رسالہ تقویم اللسان نامی اپنی تالیف میں جگہ دی ہے۔ میں یہاں ان کی مذکورہ تالیف سے ایک اقتباس پیش کرنا چاہوں گا جس سے یہ صریحاً یہ نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہے کہ قرات کا عمل تکثیری ہوتا ہے لیکن یہ ضروری نہیں کہ مولوی ذکاءاللہ کی رائے معنی کی تکثیریت پر بعینہ وہی ہو جو قاری اساس تنقید کے جدید نظریہ سازوں نے پیش کی۔ اب وہ اقتباس ملاحظہ ہو:
‘‘ہر شخص جو لفظ استعمال کرتا ہے وہ اپنے تصور کی ایک علامتِ محسوسہ دکھاتا ہے۔ ان الفاظ کا استعمال دو مقصدوں کے لیے وہ کرتا ہے کہ کیا تو اپنے حافظہ کی اعانت کے لیے ان کو لکھتا ہے یا اپنے تصور کو دوسرے پر ظاہر کرنے کے لیے بولتا ہے۔ یہ الفاظ اپنے ابتدائی معانی ساتھ لیے ہوئے ہوتے ہیں اور استعمال کرنے والے کے تصور کے قائم مقام ہونے کے سوأ وہ کچھ اور کام نہیں کرتے۔جب ایک آدمی دوسرے آدمی سے اپنی بات سمجھانے کے لئے بولتا ہے تو اس بات چیت کا مآل یہی ہوتا ہے کہ بولنے والے کے تصورات بذریعہ اصوات جو اس کے تصورات کی علامات ہیں سننے والے کو معلوم ہو جائیں۔ بولنے والا اپنے تصورات کی نشانیاں بناتا ہے اپنے سے غیرتصورات کے لئے ان کو نہیں بنا سکتا۔ یہ ایک بے معنی بات ہے کہ وہی نشانیاں جو اپنے تصور کے لئے کام میں لائے وہی غیرتصور کے لئے کام میں لائے جس کے معنی یہ ہیں کہ وہ تصور کے لئے نشانیاں بناتا بھی ہے اور نہیں بھی بناتا ہے۔ الفاظ تو ااختیاری علامات ہیں۔ بھلا جن چیزوں کو آدمی جانتا ہے نہیں ان کے واسطے کیسے اپنے اختیار سے علامات بنا سکتا ہے۔ ایسی چیزوں کے لئے جو ذہن میں موجود نہ ہوں الفاظ بنانے بے معنی آواز نکالنی ہے۔ جب تک آدمی خود ذہن میں خیالات موجود نہ ہوں وہ دوسرے آدمی کے خیالات سے ان کو مطابق نہیں کر سکتا۔ اور نہ ان کے لئے کوئی علامت وضع کر سکتا ہے۔ نامعلوم چیز کے لئے کوئی لفظ نہیں بنایا جاتا۔ جب آدمی اور آدمیوں کے تصورات کو اپنے تصورات سے تعبیر کرتا ہے اور ان کا اِن ناموں کا رکھنا منظور کر لیتا ہے جو اوروں نے رکھا ہے تو یہ تصورات بھی اس کے اپنے وہی تصورات ہوتے ہیں جو اس کے ذہن میں موجود ہوتے ہیں نہ وہ جو معدوم ہوتے ہیں۔غرض زبان بولنے کے لیے یہ امر لازمی ہے کہ ایک ہی الفاظ جاہل عالم۔بچے بڑے بولیں مگر معانی انکے جدا جدا اپنے تصوراتِ ذہن کے موافق ہوں۔ ایک بچے نے ایک دھات میں جسے سونا کہتے ہیں چمکتا ہوا سنہرا رنگ دیکھا سو وہ اپنے خیال کے موافق جس چیز کا چمکتا ہوا رنگ دیکھے گا اسے سوناکہہ دے گا، مور کی دم میں یہ رنگ دیکھ کر اسے بھی سونا کہدیگا دوسرا آدمی جو اس بچے سے زیادہ جانتا ہوگا کہ یہ دھات سوا چمکتے ہوئے سنہرہ رنگ کے بہت بھاری بھی ہوتا ہے تو جب وہ سونے کا لفظ بولتا ہے تو اوس کے ذہن میں اس کا مفہوم وہ دھات ہوتا ہے کہ سنہرا اور بھاری۔ تیسرا شخص اس سے زیادہ اگر واقف ہوگا کہ سونے میں گلنے پگھلنے کی بھی قابلیت ہوتی ہے سو وہ اپنے خیال کے موافق سونے کا لفظ بولے گا تو اوس کے ذہنمیں اس کا مفہوم وہ دھات ہوگا جو سنہرا چمکتا ہوا رنگ اور بھاری اور پگھلنے والا ہوگا۔ چوتھا شخص اسکے باریک ورق بننے کی قابلیت سے واقف ہوگا تو سونے کا مفہوم اسکے ذہن اور بڑھ جائیگا پس یہ چاروں شخص لفظ تو ایک سونے کا بولینگے مگر ہر ایک کے ذہن میں اسکا مفہوم یا مدلول جدا جدا ہوگا۔’’ (مولوی ذکاءاللہ، رسالہ تقویم اللسان، مطبوعہ 1893 ء، مطبع شمس المطابع, دہلی, صفحہ 6-7)
کیا مولوی ذکاءاللہ کے اس اقتباس سے یہ نہیں معلوم ہوتا ہے کہ مصنف اپنے ہی علم اور تجربے کی رو سے کسی متن کی تخلیق کرتا ہے اور قاری بھی اپنی استعداد کے اعتبار سے کسی متن کو سمجھ سکتا ہے۔یہ ٹھیک ہے کہ مصنف اور قاری کے معنی میں جو اشتراک پایا جاتا ہے ، اس سے ایک متن بامعنی بنتا ہے۔ لیکن اس سے یہ نتیجہ اخذ نہیں کیا جا سکتا کہ قرات کا عمل تکثیری نہیں ہوتا۔

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

تحقیق کے مسائل

تحقیق ایک اہم علمی فریضہ ہے۔ تحقیق کے ذریعے ہم نامعلوم کا علم حاصل کرتے ہیں۔ غیر محسوس کو محسوس بناتے ہیں۔ جو باتیں پردہ ٔ غیب میں ہوتی ہیں، انہیں منصہ ٔ شہود پر لاتے ہیں تا کہ کسی امر میں یقینی علم ہم کو حاصل ہو، اور اس کی بنیاد پر مزید تحقیق جاری رکھی جا سکے۔تحقیق ایک مسلسل عمل ہے۔ موجودہ دور میں یہ ایک نتیجے تک پہنچنے سے زیادہ ایک طریقے ( تک پہنچنے) کا نام ہے۔نتیجہ خواہ کچھ ہو، موجودہ دور میں اس کے طریقہ ٔ کار یا منہاجیات کو صاف و شفاف بنانا فلسفیانہ طور پر زیادہ ضروری سمجھا جاتا ہے تاکہ زیادہ تر نتائج صحت کے ساتھ محسوسات کے دائرے میں حتی الامکان منتقل ہو سکیں۔ دائرہ تحقیق میں ایک مقدمہ کو نتیجہ میں بدلنے کے طریقے کی جس قدر اصلاح ہوتی جائے گی اسی قدر تحقیق معتبر مانی جائے گی۔ البتہ بعض اوقات یوں بھی ہوتا ہے کہ کسی تحقیق کا طریقہ صحیح نہیں ہو اور نتیجہ بالکل صحیح ہو۔ لیکن اس ناقابل حل مسئلے کے باوجود بہرحال طریقے میں حذف و اضافہ اور اصلاح و تصحیح کی ضرورت ہمیشہ باقی رہتی ہے۔ تحقیق کے عربی لفظ کا مفہوم حق کو ثابت کرنا یا حق کی طرف پھیرنا ہے۔ حق کے معنی سچ کے ہیں۔ مادہ حق سے...

قرآن اور بگ بینگ

ایک بہت طویل عرصے سے اہل اسلام کا مغرب زدہ طبقہ قرآن کی تصدیق جدید ترین سائنسی تحقیقات کی بنیاد پر کرنا چاہتا ہے. اس کی اصل دلیل یہ ہے کہ اگر قرآن خدا کی کتاب نہ ہوتی تو اس میں بیسویں صدی کے سائنسی انکشافات کا ذکر چودہ سو سال پہلے کیونکر ممکن تھا؟ اس سلسلے میں ایک بہت بڑی مثال بگ بینگ کی دی جاتی ہے اور قرآن کی اس آیت کو دلیل بنایا جاتا ہے: اَوَلَمْ يَرَ الَّذِيْنَ كَفَرُوْٓا اَنَّ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ كَانَتَا رَتْقًا فَفَتَقْنٰهُمَا ۭ وَجَعَلْنَا مِنَ الْمَاۗءِ كُلَّ شَيْءٍ حَيٍّ ۭ اَفَلَا يُؤْمِنُوْنَ کیا کافروں نے نہیں دیکھا کہ آسمان اور زمین دونوں ملے ہوئے تھے تو ہم نے جدا جدا کردیا۔ اور تمام جاندار چیزیں ہم نے پانی

مذہب و تصوف اور فلسفہ و سائنس کا منتہائے مقصود

     یہ کائنات نہ کوئی ڈیزائن ہے اور نہ اس کا کوئی ڈیزائنر۔ اور نہ یہ کائنات عدم ڈیزائن ہے جس کا ڈیزائنر معدوم ہے۔ یہ دونوں بیانات ناقص ہیں۔ ہم بحیثیت انسان بذریعہ حواس خارج میں جو کچھ دیکھتے ہیں وہ دراصل ہماری وجدان کی مشین اور ذہن ہی سے پروسیس ہو کر نکلتا ہے۔ اور وجدان کے اس جھروکے سے نظر آنے والی یہ کائنات ایک ایسی احدیّت کے طور پر ابھرتی ہے جس میں یہ ڈیزائن صرف ایک منظر ہے جس کی شناخت عدم ڈیزائن کے دوسرے منظر سے ہوتی ہے۔ اسی طرح اس کائنات میں منصوبہ بھی ایک منظر ہے جس کی شناخت عدمِ منصوبہ کے دوسرے منظر سے ہوتی ہے۔ کائنات میں چیزیں ایک دوسرے کے بالمقابل ہی شناخت ہوتی ہیں۔ اس لیے یہ کہنا کہ کائنات میں کوئی منصوبہ ہے اس لیے کوئی منصوبہ ساز ہونا چاہیے، یا کائنات بجائے خود کوئی ڈیزائن ہے اس لیے اس کا ڈیزائنر لازماً ہونا چاہیے ناقص خیال ہے۔ اسی طرح یہ کہنا کہ اس کائنات میں عدم ڈیزائن ہے اور اس لیے اس کا کوئی ڈیزائنر نہیں ہے یہ بھی ایک ناقص خیال ہی ہے۔ یہ دونوں بیانات آدھے ادھورے مناظر کی تعمیم کی بنا پر گمراہ کن قیاس کی مثالیں ہیں۔ یاد رہے کہ منصوبہ صرف ایک منظر ہے، یا یوں...