بدھ، 4 جنوری، 2017

ناقل اور عاقل کا فرق

ناقل اور عاقل میں قطبین کا فرق ہے۔ ناقل اور کائنات کے درمیان آیات و روایات کا حجاب حائل رہتا ہے اور وہ زندگی کے تقریباً ہر چھوٹے بڑے مسئلے میں اپنی مذہبی کتاب سے رجوع کرنے پر مجبور ہوتا ہے جبکہ عاقل کائنات کا براہ راست مطالعہ کرتا ہے اور درپیش صورتحال میں اپنی انسانی عقل سے ایک راہ عمل متعین کرتا ہے۔ دور جدید میں مذہبی معذرتخواہوں ںے ایک منقول معقولی طریق کار اپنایا ہے جس کے مطابق وہ نقل کی روشنی میں عقل سے کام لیتے ہیں۔ یعنی پہلے وہ کسی زیر بحث مسئلے میں تمام آیات و روایات کو اکٹھا کرتے ہیں، ان کے سیاق کا تعین کرتے ہیں اور پھر جدید حالات کا تجزیہ کرتے ہوئے ایک ملتا جلتا حکم اپنے اس منقول معقولی طریقہ کار سے برامد کرتے ہیں۔ یہ کوئی نیا طریقہ نہیں ہے بلکہ اگلے زمانوں میں بھی ائمہ مجتہدین اسی طریقہ کار سے کام لے کر مذہبی منقولات سے جدید احکام و ہدایات برامد کرتے تھے۔ نقل پہلے بھی عقل پر مقدم تھی، اور آج بھی ہے۔ یہ سمجھنا کہ تجدد پسندوں ںے ائمہ مجتہدین کی روش سے ہٹ کر کوئی نیا طریق کار اپنا لیا ہے، ایک خام خیالی ہے۔ جب تک مذہبی منقولات کی بالادستی انسانی ذہن پر قائم رہے گی، اس وقت تک انسانی عقل جدید تر حالات کو انہیں کی روشنی میں دیکھتی رہے گی اور عوام الناس کی اکثریت زندگی کے ہر معاملے میں پسماندگی کی شکار ہوگی اور علمی و فنی ترقی کے اعلی درجوں پر نہ پہنچ سکے گی۔

عہدِ رسالت کے کسی حکم کی بعینہِ پابندی تبھی ہو سکتی ہے جب ہمارا سیاق بھی بعینہِ وہی ہو جو عہدِ رسالت میں پایا جا سکتا ہے۔ ہمارے اور عہدِ رسالت کے سیاقوں میں اگر کامل یکسانیت ہوگی تبھی ہم عہدِ رسالت کے کسی حکم کی مکمل پیروی کر سکتے ہیں۔
اسلامی متجددین جب یہ کہتے ہیں کہ کسی حدیث کے سلسلے میں موقع و محل دیکھنا ضروری ہے کہ وہ کب کہا گیا، کس صورتِ حال میں کہا گیا، کس لہجے میں کہا گیا، تو اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ وہ موقع و محل کو مرکزی اہمیت دے رہے ہیں۔ جب بات موقع و محل کی مرکزیت کی ہے تو آج حدیث کے کسی حکم کو نافذ کرنے سے پہلے یہ بھی دیکھنا ضروری ہوگا کہ آج کیا موقع و محل پایا جاتا ہے۔ اگر آج کے موقع و محل عہدِ رسالت کے موقع و محل میں یکسانیت ہوگی تبھی عہدِ رسالت کا کوئی حکم قابلِ عمل قرار پائے گا ورنہ نہیں۔ کوئی حکم کسی خاص صورتِ حال میں ہی دیا جاتا ہے اور اگر صورت حال بدل چکی ہوں تو حکم بھی لازماً وہ نہیں ہوگا۔ مثال کے طور پر ایک مشرک اور ایک مومن ہوائی جہاز میں سوار ہوں اور وہ حادثے کا شکار ہو کر استوائی جنگلات میں جا گرے اور جہاز کے سب مسافر ہلاک ہو جائیں سوائے ان دو مومن و مشرک نفوس کے جن میں سے ایک کنواری عورت ہو اور دوسرا کنوارا مرد، اور ان کے مہذب دنیا میں واپس جانے کی کوئی امید نہ ہو، ہفتوں دونوں بھٹکتے رہیں، جنگلی پھل پھول کھا کر اپنا پیٹ بھرتے رہیں۔ ایسی صورت میں آخر ان کی جنسی خواہش کی تسکین کیسے ہوگی؟ کیا اس صورت حال میں ایک مومن اور مشرک کا نکاح ہو سکتا ہے اگر دونوں میں سے کوئی اپنا عقیدہ بدلنے پر آمادہ نہ ہو؟ پھر کیا مومن کو اس صورتِ حال میں بھی اپنی مذہبی کتاب پر عمل کرتے ہوئے زندگی بھر کنوارا رہنا چاہیے یا خالص دنیاوی بنیادوں پر نکاح کر لینا چاہیے؟ یہ بالکل ظاہر ہے کہ موحد مشرک سے نکاح نہیں کر سکتا۔ لیکن اس حکم کا ایک سیاق ہے اور اس پر اسی سیاق کے اندر رہتے ہوئے عمل درآمد کیا جا سکتا ہے۔ استوائی جنگلات میں مومن و مشرک کے موجود ہونے سے جو نئی صورتِ حال پیدا ہوئی کیا اس کے سلسلے میں کسی الہامی کتاب میں کوئی ہدایت پائی جاتی ہے؟ فرض کیجیے، ہدایت پائی جاتی ہے لیکن مومن /مومنہ کو اس کا علم نہیں۔ وہ صرف اتنا جانتا/ جانتی ہے کہ مشرکہ/ مشرکہ سے نکاح ممنوع ہے۔ اس لیے وہ یہی کرے گا نہ کہ زندگی بھر اس مشرکہ عورت مشرک مرد کے ساتھ مہذب دنیا تک پہنچنے کی جدوجہد کرتا رہے گا لیکن اس سے نکاحی جنسی تعلق قائم نہ کر سکے گا۔ اور اگر اس درمیان کسی جانور نے حملہ کر دیا تو زندگی کا لطف لیے بغیر پرلوک سدھار جائے گا۔
اب اس پوری سچویشن میں ایک ذی شعور شخص کو رکھ کر دیکھیے جو مذہبی متن کو اپنے لیے حجت نہیں سمجھتا۔ بلکہ وہ ہر سچویشن میں اپنی عقل کو اولیت دیتا ہے۔ وہ نہایت اطمینان سے جنس مخالف کے ساتھ نکاح کر لے گا۔ اس مثال سے معلوم ہوتا ہے کہ انسانی زندگی میں عقل کو اولیت حاصل ہے نہ کہ نقل کو۔ ناقل ہمیشہ مذہبی کتابوں کے علم کا محتاج ہوتا ہے جبکہ عاقل علم کے بجائے غور و فکر سے کام لیتا ہے. وہ نئے حالات کا مشاہدہ کرتا اور ان کی مناسبت سے عقل کی مدد سے راستہ نکال لیتا ہے۔ اس کے ذہن میں یہ کھٹکا نہیں رہتا کہ میری بات کسی مذہبی کتاب سے ثابت ہے یا نہیں، بلکہ وہ اپنے اندر موجود اخلاقی شعور کو اپنا رہنما بناتا ہے۔ عاقل کا عمل حالات سے متشکل ہوتا ہے نہ کہ کاغذ پر لکھی لکھائی آیات سے۔ عاقل جس صورتِ حال میں پایا جاتا ہے اس میں اُس کے اور اُس کی صورتِ حال کے درمیان آیت یا روایت کا حجاب نہیں پایا جاتا۔ اس کے عمل کا ماخذ خود اس کا اپنا غور و فکر اور مشاہدہ ہوتا ہے۔ اس کی نظر زیادہ گہری اور دور رس ہوتی ہے جبکہ ناقل جس صورتِ حال میں گرفتار ہوتا ہے اس میں اس کے اور اس کی صورتِ حال کے درمیان آیات و روایات یا مذہبی منقولات کا حجاب حائل ہوتا ہے۔ وہ اپنے سیاق کو منقولات کی روشنی میں سمجھنے کی کوشش کرتا اور ہر قدم پر ٹھوکر کھاتا چلا جاتا ہے۔ حقیقت کی اس کی سمجھ جو کچھ کاغذ پر لکھی ہوئی ہے اس سے متشکل ہوتی ہے۔
پچھلے چودہ سو سالوں میں علما کی اکثریت نے جاندار کی تصویر کشی کو حرام ہی قرار دیا ہے۔ اور اس کا سبب سوائے اس کے کچھ نہ تھا کہ یہ مذہبی طور پر ایک سخت ممنوع اور جہنم میں لے جانے والا کام تھا۔ لیکن مغرب کے لوگ جنہوں نے ابن الہیثم کے نظریات و تحقیقات کی بنیاد پر جدید کیمرا بنایا، ان کے سامنے جاندار کی مصوری کے حلال یا حرام ہونے کا مسئلہ نہیں تھا۔ انہوں نے کیمرے سے ہر وہ کام لیا جو اس سے لیا جا سکتا تھا۔ انہوں نے اس کے ذریعے انسانوں کی کہانیوں پر مبنی فلمیں بنائیں، اور ان سے فائدہ اٹھایا۔
سوال پیدا ہوتا ہے کہ خود مسلمان ابن الہیثم کے نظریات و تحقیقات سے فائدہ اٹھا کر جدید کیمرہ کیوں نہ بنا سکے؟ صرف اس لیے کہ ان کے ذہن میں جاندار کی تصویر کشی کا شوق مذہب نے بالکل ختم کر دیا تھا۔ وہ یہ سمجھتے تھے کہ مصور پر اللہ تعالیٰ نے لعنت فرمائی ہے اور قیامت کے روز انہیں اپنی بنائی ہوئی تصویروں میں جان ڈالنی پڑے گی۔ علمائے اسلام آج تک تصویر کے سلسلے میں پائے جانے والے مذہبی متن کی تاویل و تعبیر میں مصروف ہیں لیکن صحیح اللفکر علما اس کو ناجائز و حرام ہی ثابت کرتے آ رہے ہیں۔ کیمرہ کی ایجاد کے کم و بیش ڈیڑھ سو سالوں کے بعد صرف چند مستند علما ہی اس حقیقت تک پہنچ سکے کہ جاندار کی تصویر کشی حرام نہیں ہو سکتی۔ بقیہ ۹۹ فیصد علما اب تک ذی روح کی تصویر کو اصلاً حرام قرار دیتے آ رہے ہیں۔ جن مٹھی بھر علما نے تصویر کو اصلاً و دائماً حرام قرار دیا، ان میں زیادہ تر لوگ وہ ہیں جو ٹی وی اور انٹرنیٹ پر ذی روح کی تصویر کشی کا عام رواج دیکھ کر احادیث سے کیمرے کی تصویر کو جائز کرنے پر مجبور ہوئے ہیں۔ رفیع مفتی جیسے حضرات اگر ذی روح کی تصویر کشی کو حدیث سے جائز نہ کرتے تو ان کا اسلام غلط ہو جاتا۔ لیکن جن لوگوں نے جدید کیمرہ بنایا، اور اس کی مدد سے ذی روح کی تصویر کشی کرتے رہے، انہوں نے اپنی عقل کی بنیاد پر اس کام کو جائز سمجھا تبھی تو وہ اسے انجام دے سکے۔ اگر وہ علمائے اسلام کی طرح ذی روح کی تصویر کشی کو ناجائز و حرام سمجھتے ہوتے تو نہ کیمرہ بنا سکتے تھے اور نہ جاندار کی فلمیں اتار سکتے تھے۔ اب اگر چند مسلم علما نے ذی روح کی تصویر کشی کو حدیث اور قرآن سے جائز ثابت کر بھی دیا تو کون سا تیر مار لیا۔ کیمرے اور ٹی وی کی ایجاد، فلم سازی کی ابتدا کا سہرا تو فرزندانِ مغرب کے سربندھا۔ آپ مغرب کی سائنسی ایجادات کی مخالفت کرتے رہے اور جب اس کا خوب چلن ہو گیا تو اس کو قرآن و سنت کی رو سے جائز قرار دے لیا۔ اور مطمئن ہو گئے کہ ہمارے اسلام میں سب کچھ ہے۔ لیکن
عقل کی پگ ڈنڈی بالکل سیدھی ہے۔ یہ فطرت سے براہ راست مکالمہ کرتی ہے اور اپنے لیے موقع و محل کے مناسبت سے نیا حکم برامد کر لیتی ہے۔ نقل کی پگ ڈنڈی ٹیڑی میڑھی اور پیچیدہ ہے۔ منقولاتی عقل ہر مسئلے میں پہلے نقل کو دیکھتی ہے کہ اس کی رو سے کیا جائز ہے اور کیا ناجائز، حالانکہ سابقہ میں جو کچھ جائز و ناجائز تھا وہ سابقہ حالات کے اعتبار سے تھا۔ اس طرح سابقہ حالات اور ان میں رائج احکام منقولاتی آنکھ پر عینک کی طرح لگ جاتے ہیں اور موجودہ حالات کو ماضی کے رنگ میں رنگ دیتے ہیں۔ حالانکہ زمانۂ موجودہ کا رنگ زمانۂ گزشتہ کے رنگ سے مختلف ہے۔ منقولاتی عقل ماضی کی عینک کو اتارنا نہیں چاہتی۔ جبکہ وہ شخص جو معقول کو حجت سمجھتا ہے، حقائقِ موجودہ کو بغیر کسی تعصب کے دیکھتا ہے اور صحیح تجزیہ کر لیتا ہے۔ یہ ٹھیک ہے کہ منقولاتی عقل بھی آخر کار وہیں پہنچتی ہے لیکن معقولاتی عقل کے بعد ۔ اس طرح رہنمائی اور رہبری کا مقام عاقل کو ملتا ہے نہ کہ ناقل کو۔ ناقل تو عاقل کے پیچھے چلتا ہے لیکن وہ دراصل یہ دکھاوا کرتا ہے کہ وہ منقولات کی پیروی کر رہا ہے۔ تصویر کے سلسلے میں بھی یہی بات ہے۔ عاقلوں کو تصویر کے حلال ہونے کے لیے کسی مذہبی متن سے دلیل لانے کی کوئی ضرورت ہی نہ تھی، اس لیے انہوں نے سب سے پہلے کیمرہ بنایا، سب سے پہلے فلمیں بنائیں۔ اور جب ناقلوں کو خوب اچھی طرح محسوس ہو گیا کہ عاقل کا یہ قدم دانشمندانہ ہے اور اس کی پیروی کیے بغیر چارہ نہیں تو انہوں نے اپنے مذہبی متن کی تاویل کچھ اس طرح کر لی کہ معلوم ہو کہ منقولات کی رو سے بھی تصویر حرام نہیں ہے۔ آپ دیکھ سکتے ہیں کہ عاقل کی امامت ماضی اور حال کی تاریخ سے ثابت شدہ ایک حقیقت ہے۔