بی بی سی ہندی پر زبیر احمد کی ایک اسٹوری میں حوالوں کے ساتھ خبر دی گئی
ہے کہ سلفی مسلمانوں نے کیرلا میں ایک مثالی گاوں بسایا تھا جو اپنے مقصد
میں ناکام ہو گیا۔ اس مثالی مذہبی گاوں میں ایک ہی عقیدہ کے ماننے والوں
میں کسی سبب سے مذہبی اختلاف یہاں تک بڑھا کہ گاوں دو گروہوں میں بٹ گیا۔
یہی حال اس حکومت کا ہوگا جو مذہبِ اسلام یا کسی بھی دوسرے مذہب کی بنیاد
پر قائم ہو۔
کوئی بھی مذہب فرقہ بندی سے خالی نہیں ہے۔ اور فرقہ بندی ایسی چیز ہے کہ کبھی اس کا خاتمہ نہیں ہو سکتا۔ فرقہ بندی کا بنیادی سبب مذہبی منقولات یعنی آیات و روایات کی نئی تعبیر بنتی ہے۔ آیات و روایات ایک خاص سیاق یا صورتحال میں وجود آتی ہیں لیکن صورتحال ہمیشہ بدلتی رہتی ہے۔ دنیا کی کوئی ایسی مذہبی کتاب نہیں جو تمام حالات میں ہدایات فراہم کرتی ہو۔
اس مشکل سے نبرد آزما ہونے کے لیے مذہبی علما بالخصوص علمائے اسلام نے جدید ترین حالات میں اجتہاد کا طریقہ اپنایا ہے۔ لیکن اجتہاد کا کارنامہ مقدس متن کی بنیاد پر ہی انجام دیا جاتا ہے۔ لیکن جب بنیاد ہی قدیم ہو تو اس پر کوئی جدید عمارت کھڑی نہیں کی جا سکتی۔ جدید عمارت کھڑی کرنے کے لیے بنیادیں بھی جدید ہونی چاہئیں۔ پرانی بنیادوں پر جدید عمارت تعمیر کرنے میں ہمیشہ یہ خطرہ ہوتا ہے کہ پوری عمارت ہی زمین بوس ہو جائے۔ بنیاد اور اس کے اوپر کا ڈھانچہ یعنی پوری عمارت ایک کُل ہے۔ اورمحض اس کے اوپری حصے کو بدلنا اور بنیادوں کو جوں کا توں باقی رہنے دینا انتہائی مہلک ہے۔ اول تو ایسی کوئی عمارت بن ہی نہیں سکتی اور اگر بن جائے تو تادیر باقی نہیں رہ سکتی الا یہ کہ بنیادیں بہت زیادہ پرانی نہ ہوں۔ ماضی قریب کی بنیادوں پر زمانہ حال میں ایک عمارت ضرور کھڑی کی جا سکتی ہے لیکن ایسی عمارت بھی دوسری جدید ترین عمارت کے حسنِ تعمیر کا مقابلہ نہیں کر سکتی۔ کیونکہ جب بنیادوں کو وہی کا وہی رکھنا ہے تو ظاہر ہے کسی دوسرے نقشے پر ہم عمارت کی تعمیر نہیں کر سکتے۔ ایک جدید ترین عمارت اپنے تمام تر لوازمات اور حسن و جمال کے ساتھ اسی وقت تعمیر کی جا سکتی ہے کہ جبکہ آپ کو نقشہ بنانے کی پوری آزادی ہو۔ لیکن مذہب کی عمارت ایسی ہے کہ آپ از سرِ نو اس کا نقشہ نہیں بنا سکتے۔ آپ کو لازماً انہیں پرانی بنیادوں پر نئی تعمیر کرتے رہنا ہوگا۔ بصورتِ دیگر آپ یہ کر سکتے ہیں کہ اس عمارت میں رہتے ہوئے نئے مقام پر پلاٹ خریدیں اور نئے تعمیراتی میٹیریل کے ساتھ ایک عمارت بنانا شروع کر دیں۔ بے شک آپ پرانے نقشے سے کچھ نہ کچھ سیکھ سکتے ہیں لیکن ٹھیک پرانے نقشے جیسا نقشہ نہیں بنا سکتے کیونکہ اس صورت میں جدید تقاضے پورے نہ ہوں گے۔ مثال کے طور پر دورِ جدید میں ہر خوابگاہ کے ساتھ ایک ملحق بیت الخلا اور غسلخانہ کا ہونا اگر ضروری نہیں تو مطلوب ضرور ہے۔ مجھے یہ علم نہیں کہ زمانہ قدیم میں خوابگاہ سے ملحق غسلخانہ اور بیت الخلا بنائے جاتے تھے یا نہیں، اس پر تحقیق کروں گا۔ دورِ جدید میں خوابگاہ کے ساتھ غسلخانہ اور بیت الخلا دونوں ایک ساتھ بنائے جاتے ہیں اورانہیں طہارت خانہ کہا جاتا ہے۔ کوشش کی جاتی ہے کہ طہارت خانہ کی لمبائی چوڑائی مثالی ہو، اس میں الیکٹریسیٹی اور پلمبنگ سسٹم بھی موجود ہو، مختلف الاقسم نلکے اور ٹونٹیاں لگے ہوئے ہوں، اور ایک شخص اندر داخل ہونے کے بعد پوری طرح فریش ہو کر ہی باہر نکلے۔ نئی عمارت بنات وقت ان سب باتوں کا دھیان رکھنا ہوگا۔ لیکن اگر عام طرز کی کسی پرانی عمارت کو آپ مذہبی نوعیت کا خیال کر لیں تو اس کی ایک ایک اینٹ کو ادھر سے ادھر رکھتے وقت آپ کو تکلف ہوگا کہ خدا معلوم کیا غضب ہو جائے۔ اس عمارت کو منہدم کر کے اس کی جگہ ایک نئی عمارت تعمیر کرنا تو دور، آپ یہ تک نہ کر سکیں گے کہ نئی جگہ زمین خرید کر ٹھیک اسی جیسی کسی دوسری عمارت کی تعمیر کر سکیں کجا کہ آپ بالکل آزادانہ ایک نیا نقشہ بنا کر اس کے مطابق اس کی تعمیر کر سکیں۔
اس میں شک نہیں کہ مذہب ایک مقدس قلعہ اور قدیم گڑھی ہے جس کو توڑ کر نئی کالونی بنانا ایک بدعت اور زبردست کفر ہے۔ اور میں بھی اس کا قائل ہوں کہ مذہب میں کسی اصلاح کی کوئی ضرورت نہیں۔ مذہب کو اس کی اصل پر یقینا باقی رکھنا چاہیے۔ اور جدید حالات میں منصوصات کی بنیاد پر اجتہاد بھی یقیناً فرمانا چاہیے لیکن اس سب کے باوجود میں سمجھتا ہوں کہ مذہب میں اجتہاد کا مقصد محض اس کو امتدادِ زمانہ سے محفوظ رکھنے اور قدیمی طریقے سے رنگ و روغن کرتے رہنا ہے تاکہ یہ کچھ مدت اور ٹھہر جائے لیکن ایک نہ ایک دن بالآخر اس میں دراڑیں پھٹنے لگیں گی، اور اوپری رنگ و روغن اور بعد میں تعمیرکردہ دیواریں کچھ کام نہ آئیں گی۔ پرانی عمارت کی مرمت در مرمت کرتے رہنے کی بھی ایک حد ہوتی ہے اور جب وہ حد گزر جائے گی، تب یہ کثیر آبادی جو پرانے قلعے میں رہ رہی ہے، ہم ایسے آزادخیالوں کی تعمیر کردہ نئی عمارت میں ہی پناہ لینے آئے گی۔
یہ نئی عمارت کیسے بنے گی؟ کیا یہ ایسے بنے گی کہ جو پرانا قلعہ ابھی موجود ہے اس میں رہائش ترک کر دی جائے؟ میں ایسا ہرگز نہیں کہہ رہا۔ کیا یہ ایسے بنے گی کہ پرانے قلعے کو منہدم کر کے اس کی جگہ پر نیا قلعہ بنایا جائے؟ نہیں میں یہ بھی نہیں کہہ رہا۔ پھر میں کیا کہہ رہا ہوں؟ کیا یہ ایسے بنے گی کہ اپنی مہدویت و مجددیت کا دعوی کیا جائے اورایک نیا نقشہ بنایا جائے تا کہ نیا پلاٹ خرید کر اس کی تعمیر کی جائے؟ میں یہ بھی ہرگز نہیں کہہ رہا ہوں۔ ان میں سے کوئی طریقہ صحیح نہیں۔ میں کیا کہہ رہا ہوں اس کو ذرا ٹھیک سے سمجھنا چاہیے۔ اور اس کو وہی لوگ سمجھ سکتے ہیں جن کے پاس وقت ہو اور میرے سابقہ اسٹیٹس پوسٹس پڑھیں۔ میں اس سلسلے میں پیچھے بہت کچھ کہہ چکا ہوں اور بہت کچھ کہنا باقی ہے۔
کوئی بھی مذہب فرقہ بندی سے خالی نہیں ہے۔ اور فرقہ بندی ایسی چیز ہے کہ کبھی اس کا خاتمہ نہیں ہو سکتا۔ فرقہ بندی کا بنیادی سبب مذہبی منقولات یعنی آیات و روایات کی نئی تعبیر بنتی ہے۔ آیات و روایات ایک خاص سیاق یا صورتحال میں وجود آتی ہیں لیکن صورتحال ہمیشہ بدلتی رہتی ہے۔ دنیا کی کوئی ایسی مذہبی کتاب نہیں جو تمام حالات میں ہدایات فراہم کرتی ہو۔
اس مشکل سے نبرد آزما ہونے کے لیے مذہبی علما بالخصوص علمائے اسلام نے جدید ترین حالات میں اجتہاد کا طریقہ اپنایا ہے۔ لیکن اجتہاد کا کارنامہ مقدس متن کی بنیاد پر ہی انجام دیا جاتا ہے۔ لیکن جب بنیاد ہی قدیم ہو تو اس پر کوئی جدید عمارت کھڑی نہیں کی جا سکتی۔ جدید عمارت کھڑی کرنے کے لیے بنیادیں بھی جدید ہونی چاہئیں۔ پرانی بنیادوں پر جدید عمارت تعمیر کرنے میں ہمیشہ یہ خطرہ ہوتا ہے کہ پوری عمارت ہی زمین بوس ہو جائے۔ بنیاد اور اس کے اوپر کا ڈھانچہ یعنی پوری عمارت ایک کُل ہے۔ اورمحض اس کے اوپری حصے کو بدلنا اور بنیادوں کو جوں کا توں باقی رہنے دینا انتہائی مہلک ہے۔ اول تو ایسی کوئی عمارت بن ہی نہیں سکتی اور اگر بن جائے تو تادیر باقی نہیں رہ سکتی الا یہ کہ بنیادیں بہت زیادہ پرانی نہ ہوں۔ ماضی قریب کی بنیادوں پر زمانہ حال میں ایک عمارت ضرور کھڑی کی جا سکتی ہے لیکن ایسی عمارت بھی دوسری جدید ترین عمارت کے حسنِ تعمیر کا مقابلہ نہیں کر سکتی۔ کیونکہ جب بنیادوں کو وہی کا وہی رکھنا ہے تو ظاہر ہے کسی دوسرے نقشے پر ہم عمارت کی تعمیر نہیں کر سکتے۔ ایک جدید ترین عمارت اپنے تمام تر لوازمات اور حسن و جمال کے ساتھ اسی وقت تعمیر کی جا سکتی ہے کہ جبکہ آپ کو نقشہ بنانے کی پوری آزادی ہو۔ لیکن مذہب کی عمارت ایسی ہے کہ آپ از سرِ نو اس کا نقشہ نہیں بنا سکتے۔ آپ کو لازماً انہیں پرانی بنیادوں پر نئی تعمیر کرتے رہنا ہوگا۔ بصورتِ دیگر آپ یہ کر سکتے ہیں کہ اس عمارت میں رہتے ہوئے نئے مقام پر پلاٹ خریدیں اور نئے تعمیراتی میٹیریل کے ساتھ ایک عمارت بنانا شروع کر دیں۔ بے شک آپ پرانے نقشے سے کچھ نہ کچھ سیکھ سکتے ہیں لیکن ٹھیک پرانے نقشے جیسا نقشہ نہیں بنا سکتے کیونکہ اس صورت میں جدید تقاضے پورے نہ ہوں گے۔ مثال کے طور پر دورِ جدید میں ہر خوابگاہ کے ساتھ ایک ملحق بیت الخلا اور غسلخانہ کا ہونا اگر ضروری نہیں تو مطلوب ضرور ہے۔ مجھے یہ علم نہیں کہ زمانہ قدیم میں خوابگاہ سے ملحق غسلخانہ اور بیت الخلا بنائے جاتے تھے یا نہیں، اس پر تحقیق کروں گا۔ دورِ جدید میں خوابگاہ کے ساتھ غسلخانہ اور بیت الخلا دونوں ایک ساتھ بنائے جاتے ہیں اورانہیں طہارت خانہ کہا جاتا ہے۔ کوشش کی جاتی ہے کہ طہارت خانہ کی لمبائی چوڑائی مثالی ہو، اس میں الیکٹریسیٹی اور پلمبنگ سسٹم بھی موجود ہو، مختلف الاقسم نلکے اور ٹونٹیاں لگے ہوئے ہوں، اور ایک شخص اندر داخل ہونے کے بعد پوری طرح فریش ہو کر ہی باہر نکلے۔ نئی عمارت بنات وقت ان سب باتوں کا دھیان رکھنا ہوگا۔ لیکن اگر عام طرز کی کسی پرانی عمارت کو آپ مذہبی نوعیت کا خیال کر لیں تو اس کی ایک ایک اینٹ کو ادھر سے ادھر رکھتے وقت آپ کو تکلف ہوگا کہ خدا معلوم کیا غضب ہو جائے۔ اس عمارت کو منہدم کر کے اس کی جگہ ایک نئی عمارت تعمیر کرنا تو دور، آپ یہ تک نہ کر سکیں گے کہ نئی جگہ زمین خرید کر ٹھیک اسی جیسی کسی دوسری عمارت کی تعمیر کر سکیں کجا کہ آپ بالکل آزادانہ ایک نیا نقشہ بنا کر اس کے مطابق اس کی تعمیر کر سکیں۔
اس میں شک نہیں کہ مذہب ایک مقدس قلعہ اور قدیم گڑھی ہے جس کو توڑ کر نئی کالونی بنانا ایک بدعت اور زبردست کفر ہے۔ اور میں بھی اس کا قائل ہوں کہ مذہب میں کسی اصلاح کی کوئی ضرورت نہیں۔ مذہب کو اس کی اصل پر یقینا باقی رکھنا چاہیے۔ اور جدید حالات میں منصوصات کی بنیاد پر اجتہاد بھی یقیناً فرمانا چاہیے لیکن اس سب کے باوجود میں سمجھتا ہوں کہ مذہب میں اجتہاد کا مقصد محض اس کو امتدادِ زمانہ سے محفوظ رکھنے اور قدیمی طریقے سے رنگ و روغن کرتے رہنا ہے تاکہ یہ کچھ مدت اور ٹھہر جائے لیکن ایک نہ ایک دن بالآخر اس میں دراڑیں پھٹنے لگیں گی، اور اوپری رنگ و روغن اور بعد میں تعمیرکردہ دیواریں کچھ کام نہ آئیں گی۔ پرانی عمارت کی مرمت در مرمت کرتے رہنے کی بھی ایک حد ہوتی ہے اور جب وہ حد گزر جائے گی، تب یہ کثیر آبادی جو پرانے قلعے میں رہ رہی ہے، ہم ایسے آزادخیالوں کی تعمیر کردہ نئی عمارت میں ہی پناہ لینے آئے گی۔
یہ نئی عمارت کیسے بنے گی؟ کیا یہ ایسے بنے گی کہ جو پرانا قلعہ ابھی موجود ہے اس میں رہائش ترک کر دی جائے؟ میں ایسا ہرگز نہیں کہہ رہا۔ کیا یہ ایسے بنے گی کہ پرانے قلعے کو منہدم کر کے اس کی جگہ پر نیا قلعہ بنایا جائے؟ نہیں میں یہ بھی نہیں کہہ رہا۔ پھر میں کیا کہہ رہا ہوں؟ کیا یہ ایسے بنے گی کہ اپنی مہدویت و مجددیت کا دعوی کیا جائے اورایک نیا نقشہ بنایا جائے تا کہ نیا پلاٹ خرید کر اس کی تعمیر کی جائے؟ میں یہ بھی ہرگز نہیں کہہ رہا ہوں۔ ان میں سے کوئی طریقہ صحیح نہیں۔ میں کیا کہہ رہا ہوں اس کو ذرا ٹھیک سے سمجھنا چاہیے۔ اور اس کو وہی لوگ سمجھ سکتے ہیں جن کے پاس وقت ہو اور میرے سابقہ اسٹیٹس پوسٹس پڑھیں۔ میں اس سلسلے میں پیچھے بہت کچھ کہہ چکا ہوں اور بہت کچھ کہنا باقی ہے۔
تبصرے
میری فہم کہتی ہے اسلام نے ایمان پر مختلف انداز میں زور دیا ہے، اور بہت زیادہ دیا ہے۔ لیکن باقی معمالات میں اتنی گنجائش رکھی ہے کہ سعداللہ، راکیش، پیٹر، بشریٰ، نیہا، ہیٹل اپنے مختلف اپیئرنس، زبان، قومیت اور معاشی و سماجی وابستگی کے ساتھ مسلمان ہونے کا دعویٰ کر سکتے ہیں اور کسی کو ان دعووں کو رد کرنے کا حق حاصل نہیں ہے۔۔۔
ایک تبصرہ شائع کریں
تبصرہ کریں