نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

اشاعتیں

2011 سے پوسٹس دکھائی جا رہی ہیں

سماجی علوم کا نصب العین اور طریقہ کار

یہ موضوع بحث کے تفصیلی مطالعے کے بعد لکھی گئی کوئی باضابطہ، مربوط اور منظم تحریر نہیں ہے۔اس میں سائنسی اور سماجی علوم کے نصب العین اور طریقہ کار کے سلسلے میں جو کچھ عرض کیا گیا ہے اس کی نوعیت صرف ایک سرسری اور طائرانہ نظر کی ہے۔ سائنسی و سماجی علوم میں اوپر اور دور سے جو کچھ نظر آتا ہے بس اسی کو پیش نظر رکھ کر ایک بے ضابطہ سا مقدمہ قائم کیا گیا ہے ۔ اس لیے اس تحریر کو مصنف کی طرف سے حرف آخر نہ سمجھا جائے۔ ایک موجودہ دور میں علوم و فنون کی درس و تدریس کو دو بڑے حصوں کے تحت انجام دیا جاتا ہے۔ ایک کا نام سائنس ہے اور دوسرے کا آرٹس۔ سائنس کے تحت طبیعیات (فزکس)، حیاتیات (بایولوجی)، کیمیا (کیمسٹری) اور ان تینوں بنیادی سائنسی علوم سے مرکب متعدد علوم آتے ہیں مثلاً بایو کیمسٹری، بایو فزکس۔ سائنس کے عملی انطباق (پریکٹیکل ایپلی کیشن) کو تکنالوجی کہتے ہیں۔ اسے بھی سائنس کے ساتھ ہی رکھا جاتا ہے. آرٹس کے تحت مذہبیات، منطق، ریاضی، فلسفہ، ادبیات عالیہ، فنون لطیفہ (رقص وموسیقی، مصوری، مجسمہ سازی) سماجیات، سیاسیات، معاشیات، نفسیات، جغرافیہ وغیرہ جیسے علوم آتے ہیں۔ آرٹس کے تحت آنے والے علوم کی جن شاخوں (...

رٹو اور

ایورسٹ پر گیان کا سورج اگا تھا پورب ہی میں اگا تھا پورب ہی میں پیارے طوطا بھائیو جھوٹ موٹھ مت گاو اتنا اب دھرتی ہے گتی مئے گول فرار ہو گیا سورج پشچم سات سمندر پار اِدھر بھی جل دیوتا گرج رہے تھے ڈر جاتے تھے طوطا پن میں لوگ پشچم پیر دھریں تو کیسے لہروں سے لڑتے بھڑتے ہٹلر ہی آتے تھے سچ مچ ہٹلر ہی آتے تھے ریل چلانے گاووں کو شہر بنانے جیسے نئے کولمبس آج انت رکش سے مل کر پھینکیں جگ مگ جال طلسم پیارے طوطا بھائیو اب آنکھ میچ کر سانس کھینچ کر گاو اوم ڈبلو ڈبلو ڈبلو دنیا بن گئی گاوں 2006

نو مینس لینڈ (میل فی میل پالیٹکس)

پڑھو اے بی سی ڈی جتنے مرد ہیں اتنی عورتیں یعنی برابر برابر تو سنسد میں بھی ، فوج میں بھی دونوں ہوں گے برابر برابر نہ ایک کم نہ ایک زیادہ بلکہ پردھان منتری بھی دو ہوں گے ایک مرد ، ایک عورت مرد مردوں کا پردھان منتری عورت عورتوں کی پردھان منتری مگر ایک میان میں دو تلواریں نہیں رہ سکتیں دو پردھان منتریوں سے ایک دیش نہیں چل سکتا اس لیے پارٹیشن بہتر ہے مردوں کا دیش الگ عورتوں کا دیش الگ دونوں دیشوں کی اپنی سنسد اپنی سرحد ، اپنی فوج اور جہاں پر دونوں دیشوں کی سیما ریکھا ملے گی وہ نو مینس لینڈ ہوگا —”اور ایچ آر ڈی کا کیا ہوگا بھین جی؟“ ایچ آر ڈی کا کیا ہوگا ، ا یچ آر ڈی کا کیا ہوگا ! ہم مشین نہیں عورتیں ہیں مردوادیو سمجھے ایچ آر ڈی کا کام نومینس لینڈ میں ہوگا! ”تھینک یو بھین جی ، پاسپورٹ کے چکر سے تو نجات ملی !“ 2006

دانو اور پری

ناری تم لوک کتھا کی وہی پری ہو دور گگن سے اس دھرتی پر کریڑا کرنے جو آتی تھی یہیں بس گئی یہیں بس گئی ؟ نہیں نہیں اک دانو نے پکڑ لیا تھا جس کے جھلمل نبھ پنکھوں کو دھر پوَرُش سے کتر دیا تھا جس کے تن کو تن کے من کو اس دانو نے بس اک چھن میں رشتوں ناتوں سمبندھوں کے کرُور جال میں جکڑ لیا تھا پھر ُیگ جانے کتنے بیتے پنکھ رَہِت اُن بیاکل ڈَینوں کی تڑپھن میں سونا چاندی ، ہیرے موتی لعل ، جواہر ، نیلم روبی مٰخمل ،ریشم، خوشبو سب نیوچھاور سب نیوچھاور اس کے تن پر پھر بھی من تھا چھٹ پٹ چھٹ پٹ جیسے جل بن مچھلی سورج، چندا اور ستارے گنگا ،جمنا اور ہمالَے آتی جاتی ساری رِتوئیں کلی، پھول اور تتلی، بھونرے سب روتے تھے اس کے دکھ پر یہ کہتے تھے اڑ جا وپھرمُکت گگن میں پنکھ لگا کر نقلی او ری پگلی 2005

بھیتر کی یاترائیں

بلی ، کتے ، گدھے ، بندر، سور پیارے پیارے اور بھیانک ، گندے یا نالی کے کیڑے بھِن بھِن یا مکھی مچھر، تتلی بھونرے بھَن بھَن سب جیتے ہیں اوپر اوپر عام سطح پر باہر باہر اِس مایا سے اُس مایا پر جا پڑتے ہیں جبری جبری بے خبری میں نہیں جانتے سب کایا ہے فانی جو ظاہر ہے سب چھایا ہے جانی ظاہر باہِر کوئی حقیقت نہیں ہے ایسی تیسی اس دنیا کی چل بھیتر جا فلس فلس فس ہاں بھیتر جا رینگ رینگ کر سرک سرک کر اپنے اندر ڈوب خودی میں اُب ڈُب اُب ڈُب پھر باہر آ کھول کے آنکھیں دیکھ یہ دنیا، سندر اور بھیاوہ ہے قدموں میں آنکھ بچھائے لوٹ رہے ہیں کس شردھا سے سب دوپائے جیت لیا نا آخر تو نے بھیتر جا کر اس دنیا کو مردِ قلندر مرد ِسکندر اس مایا کو، اس مدیرا کو چھان لیا ناآخر جی لینا ہے ٹھان لیا نا آخر! 2009

ملتِ مرحوم

ہم تاریخ میں دفن ہیں اور تہذیب ہمارا کفن ہے اورزبان ہمارے ماتم کا گیت اور مذہب ہمارے قبرستان کی کانٹے دار گھیرا بندی جو باہر ہے وہ اندر آ سکتا ہے مگر اندر کے لوگ باہر نہیں جا سکتے کھلی فضا میں (2008)

ابھی نہیں

ابھی نہیں مالک ابھی نہیں مولا ضعیفی میں میں آسانی سے مرنا چاہتا ہوں اپنی طبعی موت اپنے بستر پر رات کو سونے کے بعد گہری نیند میں مجھ سے پہلے مر چکی ہو ماں مجھ سے پہلے مر چکا ہوباپ جو سمجھتا ہے مجھے لاٹھی بڑھاپے کی اور صفیہ مجھ سے پہلے مر چکی ہو اور نافرمان اولادیں مری زندہ رہیں بدن پر کوڑھ کی مانند اور انور بھی مجھ سے پہلے مر چکا ہو کٹ چکے ہوں دوستی کے سلسلے سارے پرانے اور نئے تاکہ تنہائی مقدر ہو مرا یہاں تک کہ زندگی بوجھ بن جائے اور پھر تیری ضرورت ہو تب اٹھا لینا مجھے مشکل کشا ابھی نہیں مالک ابھی نہیں مولا (2006)

ہم تم

ہم تم ترجمے ہیں دوست ایک دوجے کے لیے آج تک جو بھی کہا میں نے تمہیں جو بھی کہا تم نے مجھے سب ترجمہ پن سے کون سمجھا ہے کسی کو تہہ تلک خوامخواہ جذبات کی رو میں سنو اوریجنل کچھ بھی نہیں ہمدم تم وہی ہو ایو میں وہی آدم اسی ڈسکورس میں جینا اسی ڈسکورس میں مرنا کبھی اقرار کا چکر کبھی انکار کا دھرنا یہی اپنا مقدر ہے یہی ہے زندگی کرنا متن سے کھینچ لوں گا ایک دن بالجبر نفس معنی کی طرح تم کو توڑ ڈالوں گا کسی دن فن کی زنجیریں تمام (2006)

عورت

عورت ایک طرح سے بیل ہے جو پاس کے پیڑ پر چڑھتی ہے عورت ایک طرح سے تیل ہے جو دیے میں جلتی رہتی ہے چپ چاپ عورت ایک طرح سے کھیل ہے جسے کھیلتے ہیں ہم بار بار جیتنے کے لیے عورت ایک طرح سے ریل ہے جس کا ڈرائیوراور گارڈ دونوں ہی ہیں مرد عورت ایک طرح سے جیل ہے جس میں قید رہتی ہے مرد کی جان بڑے آرام سے (2009)

یاد

یاد جانے کب چلی آئی کب چلی آئی دبے پاوں جیسے آتی ہے بہار معتدل موسم سرما کے بعد تنہائیوں میں جب تمہاری یاد آتی ہے تو لگتا ہے کہ آیا ہے کوئی جھونکا ہوا کا مری بے چارگی مری مصروفیت کے بند کمرے میں جھروکے سے سرک جاتی ہے گویا دل سے اک پتھر کی سل اف نہ جانے کب چلی جائے کب چلی جائے دبے پاوں آکاش میں اڑتے کسی اجلے کبوتر کے سمٹ جاتے ہیں پر جیسے زمیں پر آٹھہرتاہے وہ جب دو چار دانوں کے لیے کیوں نہیں رہتی ہمیشہ کیوں نہیں رہتی موجزن دل میں سمندر کی طرح جب بھی آئی جاں بہ لب آئی جیسے برساتی ندی 2006

جانب ِمنزل

جس دن بھر آئیں گی آنکھیں اس دن چل دوں گا چپ چاپ اٹھا کر جھولا جس میں تہہ بر تہہ ہونگے میلے کپڑے دوچار بڑھی شیو اور مڑا تڑا سا کرتا پہنے ہاتھ میں ایک ٹفن جس میں رکھ لوں گا خرید کرتھوڑے بُھنے چنے کہیں رکوں گاکسی موڑ پر کھا لوں گاسر پر ہاتھ دھرے سرکاری نل کے نیچے کپڑے دھو لوں گا اور سکھا کرپھر چل دوں گا انجانی منزل کی اُور (2009)

عورت : مشرق و مغرب

ان کی عمریں نباتات کی عمروں کی طرح بسر ہو جاتی ہیں۔ — ابن رشد [حالانکہ مشرق اور مغرب کا فرق اب ساری دنیا میں تقریباًختم ہوگیا ہے اور ہر مشرق میں ایک مغرب اور ہر مغرب میں ایک مشرق کا مشاہدہ کیا جا سکتا ہے، ٹھیک اسی طرح جس طرح مقناطیس کے ہر ذرے میں قطبین کا وجود ہوتا ہے، لیکن بغور دیکھا جائے اور مشرق و مغرب کو الگ الگ سوچا جائے ، تو معلوم ہوگا کہ عورت کے مشرقی و مغربی تصور میں آج وہی فاصلہ ہے جو خود مشرق اور مغرب میںہے۔ تصور کا یہ فرق ماضی بعید میں کس قدر تھا ،یہ تاریخ کا سوال ہے ، مگرجو فرق زمانہ حال میں موجود ہے اس پر غور کرنا پہلے ضروری ہے۔ یہ بھی ذہن میں رہے کہ عورت آخر عورت ہے ، خواہ مشرق میں ہو یامغرب میں، اس لیے خود اس میں اور اس کے تصور میں دونوں تہذیبوں میں مشترک قد ریں بھی پائی جاتی ہیں جن کا سامنے لایا جانا بھی ضروری ہے جو اس مضمون کا موضوع نہیں۔ چونکہ یہ مضمون یکے بعد دیگرے دو انتہاﺅں پرجا جا کر لکھا گیا ہے اس لیے بعض الفاظ یا جملے ناگوار ہو سکتے ہیں ۔مگر یہ زیادہ ضروری تھا کہ مشرقی اور مغربی تہذیب کے ٹھیکے داروں کا دماغ جن دو انتہاﺅں پررہتا ہے اسے بیان کیا جائے نہ ...

خاتون اسلام اور ورک کلچر

کسی قوم کی حالت کا صحیح اندازہ اس قوم کی عورتوں کی حالت سے لگایا جا سکتا ہے ۔ جس قوم کی عورتیں تعلیم یافتہ ، باشعور اور مہذب ہوتی ہیں وہی قوم صحیح معنوں میں ترقی یافتہ کہلانے کی مستحق ہے۔ پس ماندہ قوم عورتوں کو نفسیاتی طور پر کمزور سمجھ کربے جا نگرانی میں رکھتی ہے۔ انہیں پابند بناتی ہے ، خود مختار نہیں ہونے دیتی۔ان پر شک کرتی ہے ،اعتبار نہیں کرتی۔ فتووں کی زبان میں بات کرتی ہے ،دوستانہ مشورے نہیں دیتی۔   معیاری اور اعلیٰ تعلیم سے محروم رکھ کر ان کی تربیت کی کوشش کرتی ہے۔ ان سے تقویٰ اور احسان کا ایسا مطالبہ کرتی ہے جو اس قوم کے مردوںسے ممکن نہیں ہوتا۔حتیّٰ کہ مردوں کی بڑی سے بڑی کجروی کو ٹھنڈے پیٹوں برداشت کر نا پڑتاہے اور خواتین کی چھوٹی چھوٹی باتوں پر طوفان کھڑے ہو جاتے ہیں ۔مسلم قوم میں عورتوں کو لے کر یہ تمام رویے اپنائے جاتے ہیں ۔ان باتوں کو لیپ پوت کر چھپانے سے بہتر ہے کہ انہیں بے کم و کاست بیان کردیا جائے تا کہ ان کے علاج کی واقعی فکر پیدا ہو ۔ اسلام میں عورتوں کے حقوق پر تقریریں چاہے جتنی ہو جائےں لیکن عملی طور پر متوسط طبقے میں مسلمان خواتین کے ساتھ’ نصف بہتر ‘کے بجائ...