نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

عورت : مشرق و مغرب

ان کی عمریں نباتات کی عمروں کی طرح بسر ہو جاتی ہیں۔
— ابن رشد

[حالانکہ مشرق اور مغرب کا فرق اب ساری دنیا میں تقریباًختم ہوگیا ہے اور ہر مشرق میں ایک مغرب اور ہر مغرب میں ایک مشرق کا مشاہدہ کیا جا سکتا ہے، ٹھیک اسی طرح جس طرح مقناطیس کے ہر ذرے میں قطبین کا وجود ہوتا ہے، لیکن بغور دیکھا جائے اور مشرق و مغرب کو الگ الگ سوچا جائے ، تو معلوم ہوگا کہ عورت کے مشرقی و مغربی تصور میں آج وہی فاصلہ ہے جو خود مشرق اور مغرب میںہے۔ تصور کا یہ فرق ماضی بعید میں کس قدر تھا ،یہ تاریخ کا سوال ہے ، مگرجو فرق زمانہ حال میں موجود ہے اس پر غور کرنا پہلے ضروری ہے۔ یہ بھی ذہن میں رہے کہ عورت آخر عورت ہے ، خواہ مشرق میں ہو یامغرب میں، اس لیے خود اس میں اور اس کے تصور میں دونوں تہذیبوں میں مشترک قد ریں بھی پائی جاتی ہیں جن کا سامنے لایا جانا بھی ضروری ہے جو اس مضمون کا موضوع نہیں۔
چونکہ یہ مضمون یکے بعد دیگرے دو انتہاﺅں پرجا جا کر لکھا گیا ہے اس لیے بعض الفاظ یا جملے ناگوار ہو سکتے ہیں ۔مگر یہ زیادہ ضروری تھا کہ مشرقی اور مغربی تہذیب کے ٹھیکے داروں کا دماغ جن دو انتہاﺅں پررہتا ہے اسے بیان کیا جائے نہ کہ روایتی ذوقِ مطالعہ کی رعایت کرتے ہوئے میٹھی میٹھی باتیں کی جائیں ۔]


مشرقی اور مغربی عورت میں چراغِ خانہ اور شمعِ محفل کا فرق ہے۔ مغرب میں عورت آلہ ¿ تفریح و تجارت ہے اور مشرق میں سامان خدمت و اطاعت۔یعنی مغربی خاتون محبوبہ ہے اور مشرقی عورت لونڈی۔ رفیقہ ¿ حیات وہ کہیں نہیں ہے، الا ماشااللہ۔ نسوانی حسن کا ذوقِ مصرف بھی مشرق و مغرب میں جدا جدا ہے ۔ایک جگہ وہ شو کیس میں سجی ہے اوردوسری جانب چہاردیواری کی زینت بنی ہے ۔غالباًصنف’ ِنازک‘ کایہی وہ مصرف ہے جس کے پیش نظر پیہم اُس کی تربیت کرتے رہنے کی ضرورت ہوتی ہے۔مشرقی اور مغربی قوموں کے ذوقِ تربیت میں بھی خاصافرق ہے۔مغربی ذوق ہر ممکن طریقے سے جوہر نسوانیت کو آشکار کرنے کی طرف مائل رہتا ہے اورمشرقی ذوق اس کو ہر طرح پوشیدہ رکھنے کی سعی کرتا ہے۔یہی وجہ ہے کہ ایک اسے استقبالیہ پر مسکرانے کا انعام دیتا ہے اور دوسرا اسے کھڑکی سے باہر جھانکنے کی سزا۔گویا اپنے اندازِتربیت میں مغرب سراپا ترغیب ہے اور مشرق سراپا ترہیب۔حالانکہ ترغیب ا ور ترہیب دونوں کی غرض و غایت ایک ہی ہے، یعنی تربیت کرنا اور سدھانا، لیکن ایک خود کو عورت کا مربی اور مزکی قرار دیتا ہے اور دوسرا اس کا دوست اور ساتھی ہونے کا دم بھرتا ہے۔ مربی و مزکی ہونے کی حیثیت سے ایک اسے سنوارتا اور پھٹکارتا ہے اوردوست ہونے کی مناسبت سے دوسرا خیر خواہانہ مشوروں میں یقین رکھتا ہے ، وہ بھول کر بھی سرزنش نہیں کرتا کہ سرزنش اور گوشمالی سے بغاوت جنم لیتی ہے۔جبکہ بعض اعتدال پسندوں کا خیال یہ ہے کہ عورت کی تربیت کے لیے ترغیب اور ترہیب دونوں سے کام لینا ضروری ہے۔ صرف رغبت دلانے یا صرف دہشت پیدا کرنے کا رویہ غیر معتدل ہے۔ کامیاب اور بہترین مربی وہ ہے جو پیار بھی جتائے اور پھٹکاربھی لگائے۔ اِسی سے نسوانی شخصیت کا ارتقا ہوتا ہے اور اس میں توازن و اعتدال کی صفت جلوہ گر ہوتی ہے۔اِسی سے اس میں وفاداری ، اطاعت شعاری اور خدمت گزاری پیدا ہوتی ہے ۔ اور اِسی سے اس کا حسن دوبالا ہو جاتا ہے۔
مغرب میں عورت کو دکھا کر سنوارا ، اور سنوار کر دکھایا جاتا ہے اور مشرق میں چھپا کر سنوارا، اور سنوار کر چھپادیا جاتا ہے۔سجنا اور سنورنا ہردو جگہ اس کا مقدر ہے ،مگر آفتابِ حسن کو مغرب میں زوال نہیں۔اور اِس وقت تویہ نصف النہار پر ہے۔اور عالمِ مشرق میں اس کو برقعے کی تاریکی میں لپیٹ دیا گیا ہے۔نتیجے کے طور پرمغرب کے نصف النہار کے مقابلے مشرق میں شبِ تار کا عالم ہے۔ مگردونوں جگہ عورت کے جسم پر بارہ بج رہے ہیںاور روح کاکہیںکوئی پتا نہیں۔ مغرب کا نصف النہار جس میں اس کا ایک ایک عضو چاندی سا چمکتا اور سونے سا دمکتا ہے ۔نصف النہار— جس کی چمک نے بصارت ہی نہیں بصیرت کو بھی خیرہ کر دیا ہے ۔ اتنا خیرہ کر دیا ہے کہ ُاس کے بدن کی نسبتاً آسان راہوں سے ہو کر روح کی دشوار گھاٹی میں اترنے کی راہ نہیں سوجھتی۔ اورادھر مشرق کی شب تارمیں بدن ایک شجر ممنوعہ ہے جس کی کوئی شاخ ہری نہیں — بس ایک منحوس میلی چادر جس کی تاریکی میں اس شجر ممنوعہ کی ہر شاخ اپنی فطری شادابی ،اور توازن ،اور لوچ کھو بیٹھی ہے۔واللہ یہ بدن روح کے منزل مقصود تک پہنچنے کا واحد راستہ ہے،بلکہ بدن خو د منزل ہے،بالذات منزل ہے ، اور مشرق میں یہی بدن اپنی حقیقی روح کھو بیٹھا ہے، حالانکہ روحانیت کی گرم بازاری ہے۔ بہر حال نصف النہار ہو یا شبِ تار ، دونوں کے اپنے فائدے بھی ہیں جن کا کہ کوئی حقیقی فائدہ نہیں۔
ہیہات !اُس پارحسن و جمال کا دریا بہہ رہا ہے کہ فیض اٹھانے والے فیض اٹھاتے اور دادِ حسن دیتے جاتے ہیں۔ اوراِدھر یہ حال کہ ہر گھڑی چور اچکوں ، اٹھائی گیروں اور تماش بینوں کادھڑکا لگا رہتا ہے، سو تالا لگاکر سونے چاندی سا محفوظ رکھتے ہیں۔ اُدھر افراط کاایسا چشم کشاہوشربامنظر کہ ریمپ پر قطار در قطار کیٹواک مچی ہے، گویا ہرنیاں پالتو بنا لی گئیں۔تہذیب کے دامن میں حسنِ وحشی کو ایسی تربیت ملی کہ چوکڑیوں میں طراری کے بجائے طرحداری پیدا ہوئی ، اور غمزوں میں تصنع کے سا تھ نزاکت، اورتبسم میں توقع کے ساتھ لگاوٹ۔ دیکھوکہ کس طرح آفتاب و ماہتاب ایک ساتھ بِنداس گریبانوں سے نکلے پڑتے ہیں جن کی حرارت سے مغرب بخارمیں پھنک رہا ہے۔ دیکھو اور سبق حاصل کرو کہ کس طرح وہاں حسن سے فیضیاب کرانے پر خطابات ملتے ہیں ۔ اوراِدھر ایسی تفریط کہ سہواً بھی ظاہر ہونے والی کوئی زینت ظاہر ہو جائے تو عتابوں کی جھڑی اور آنسوﺅں کی لڑی۔یا مظہر العجائب، اُدھر شارعِ عام، اِدھر حبسِ دوام! وہاں تنِ نازک پر کپڑے کا ایک تار اوررخِ زیبا پرشرم کا ایک چلّو تک باقی نہیں رہتا اوریہاں اسے برقعے میں کفنا کرحیا میں دفنا دیا جاتا ہے۔الغرض اُدھر بِکنی پر اصرار ،اِدھر برقعے کی تکرار۔اورمشرقیت ا ور مغربیت کی اس کشمکش میں عورت کی اپنی کہیں کوئی مرضی نہیںہے ۔اس کااپنی روح اوراپنے جسم پر کوئی اختیار، کوئی حق باقی نہیں ۔وہ اپنے فیصلے خود نہیں کر سکتی۔ہر کہیںمرد اس کے خدا بنے ہوئے ہیںجو لمحہ لمحہ اس کی تقدیر میں جنت یا جہنم لکھ رہے ہیں۔خود اسے آگے بڑھ کر اپنا جہنم یا اپنی جنت چن لینے کی آزادی نہیں ۔
اور جبر کے اس ماحول میں اعتدال کی پھٹکری لگانے والے پھٹکری یوں لگاتے ہیں: مغرب نے عورت کو ننگا کیا اور مشرق نے اسے چھپایا۔اورچھپانا، ننگا کرنے کے مقابلے بہتر ہے۔ عورت کا تو مفہوم ہی اسرار و خفاہے۔ آگاہ!عورت ایک راز نہاں ہے ، اس کو ہر گز افشا نہ کرنا چاہیے۔یہ تہذیب کی آبرو اورزندگی کی ضمانت ہے۔ مگر اسے مخفی رکھنے میں توسط و اعتدال کی شاہراہ سے یک سرِ مو تجاوز نہ ہو۔اسے چھپاﺅ جتنا کہ چھپاﺅ جتنا کہ چھپانے کاحق ہے اور دکھاﺅ جتنا کہ دکھانے کا حق ہے۔
اور ’ چھپاﺅ ‘اور’ دکھاﺅ‘ کی ساری کھینچ تان کے درمیان عورت ہر دو جگہ عملاً ایک غیر ذی روح شئے ہے۔مشرق میں عورت کا مرد سے زیروزبر یعنی امیرو مامور کاتعلق ہوتا ہے اور مغرب میں شیر و شکر یعنی عاشق و معشوق کا۔ غور کیجیے تومعلوم ہوتا ہے کہ یہاں عورت کو امور خانہ داری کے بھرم اوروہاں امور مملکت کے وہم میں لاحق رکھا گیا ہے۔ یعنی یہ باورچی خانے کی ملکہ اور وہ ڈرائنگ روم کی شوبھا۔اِدھر یہ دیگچیوں کی ٹھناٹھن ،اُدھر وہ قلقلِ مینا۔زیبا ہو یا کرسٹینا۔ زیادہ سے زیادہ مشرقی عورتیں گھریلو مکھیوں کی حیثیت رکھتی ہیں اور مغربی عورتیں خوشرنگ تتلیوں کی۔دونوں کا مقابلہ کیے بغیر نہیں رہا جاسکتا۔مشرق میںان کی زندگیاں نباتات کی طرح بسر ہو جاتی ہیں اور مغرب میں حیوانات کی طرح۔ پس لکھو کہ مشرق میں وہ دن رات مسالا پیسنے کی سل پر اپنا مقدر کوٹ رہی ہے۔اور لکھو کہ مغرب میں اس نے اپنی مامتا کو سگریٹ کے دھوئیں میں تحلیل کر دیا ہے۔اورلکھو کہ مشرقی عورتیں وہ کلیاں ہیں جو حجلہ ¿ عروسی کی ملگجی روشنی میں سیج کے کام آ گئیںاور یہ بھی لکھو کہ مغربی عورت روزانہ بدل دیے جانے والے کوٹ کے گلاب سے زیادہ کچھ نہیں جس کو آخرکار ڈسٹ بن کی نذر ہوجاناہے۔
خداوند ہو یا خاوند،مشرقی عورت کے لیے دونوں یکساں ہیں۔ دونوں کو خوش رکھنا مشرقی تہذیب اور روایات کی رو سے اس کا فرض منصبی ہے۔ اور دونوں اپنی مرضی کے مالک و مختار ہیں۔ جو چاہیں کریں ۔ دونوںعادل و منصف اور جبار و قہار ہیں، جو چاہیں سزا دیں۔ جب ، جہاں اور جتناچاہے ماریں،بلکہ مار ہی ڈالیں۔خواہ وہ موت حادثاتی نظر آئے یا طبعی۔ دونوں اس سے عفت و پاکدامنی کا مطالبہ کرتے ہیں۔دونوں ہی اسے خدمت گذار ، وفادار اور اطاعت شعار دیکھنا چاہتے ہیں۔ اور دونوں بلا شرکت غیرے اس کے حاکم اور آقا ہیںکہ عورت کو دونوں میں سے دونوں کا انتخاب کرنا ہے۔ اور دونوں میں سے کسی ایک کی نافرمانی بھی قابل سزا جرم ہے۔ایک کی نافرمانی عاقبت خراب کردیتی ہے اور دوسرے کی نافرمانی چہرا۔
اورمغربی عورت میں نہ خوف ِخدا ہے ، نہ خوفِ خاوند۔ وہ بے لگام ہے۔ لیکن جدھر بہاﺅ ،اُدھر بہے گی۔ پیار کی چمچ سے چلاﺅ حل ہو جائے گی۔سیدھے اٹھا کر پی جاﺅ ، احتجاج نہ کرے گی۔ یہ مغربیت سے پیدا شدہ روحانیت کے فقدان اور جسمانیت کے ہیجان کے علاوہ اور کچھ نہیں۔ اس نا گفتہ بہ صورت حال سے تنگ آکر بعض مغربی عورتیںکبھی روحانی سکون کی تلاش میں مشرق کی خاک چھانتی ،سادھو سنیاسیوںکی سیوا میں جوگن کا روپ دھارے موکش کو پراپت ہو جاتی ہیں اور کبھی مشرق کی سخت گیر گھریلو زندگی میں جذب ہو کررہنا ہی ان کا مقدر ہوتاہے۔یہ مغرب سے مشرق کی طرف عورت کی ہجرت ہے ۔ مگر( توازن برقرار رہے اِس لیے )یہ بھی ذہن میں رہنا چاہیے کہ یہ ہجرت ایکطرفہ نہیں ہے۔ یہ مشرق سے مغرب کی طرف بھی ہوتی ہے جس کی نوعیت زیادہ تر نظریاتی اور تہذیبی ہے۔ یہ مشرق کے کانجی ہاﺅسوں سے بھاگ کر مغربی افکار کے استوائی جنگلات میں پناہ لینے کی ایک کوشش ہے ۔ مغربی فکر کے استوائی جنگلات اور ان کی مہیب تاریکی —جو فکر و نظر کے درندوں کی پناہ گاہ بھی ہے اور شکار گاہ بھی۔تاریکی—جس میں شیر چیتوں،لومڑکتوں اور بھیڑیوں کی آنکھیں بھوک سے چمک چمک اٹھتی ہیں کچھ سنا !آہوئے رمیدہ— مفرور باغی عورت کی چیخ و پکار ، جو انجانے ہی رد تشکیل کے ہتھیار کو اپنے بدن پرآزما تے اور المیہ کاسکھ بھوگتے ہوئے کہہ رہی ہے : میں تنہا ہوں،میں بے وطن ہوں، میں ایک زندہ لاش ہوں۔

۲
یہ حقیقت ہے کہ عورت سے متعلق ہر بحث اس کے بدن سے شروع ہوتی ہے اوربدن ہی پر جاکر ختم ہو جاتی ہے۔مشرق میں یہ بدن حیاسے عبارت ہے اور مغرب میں ادا سے۔ حیا عورت کوروکتی اور باندھتی ہے ، پوشیدہ رکھتی ہے ، مطیع و فرمانبردار بناتی ہے اور ادا اسے کھولتی ہے، ظاہر کرتی ہے،آزاد و خود مختاربناتی ہے۔ حیا مشرقی عورت کا زیورہے۔یہ اس کی گردن کا طوق،گلے کا ہار، بازو کا بازو بند اور پیروںکی پازیب ہے۔زیورات میں ایک قسم کی پھانس ہے، گھیرا بندی ہے۔زیور قیدو بند کی علامت ہے۔چہاردیواری کے اندریہ ننھی ننھی سنہری زنجیریںاُس کے جسم کو جکڑ کر رکھتی ہیں۔ اور روح کے مسرور و مطمئن ہونے کا فریب دیتی ہیں۔ یہ زنجیریںاس کی’ ناقابل اعتبار سرکش ادا‘ کے لیے حیا کی مضبوط لگام ہیں۔
حیامشرقی عورت کا سب سے قیمتی زیور ہے جس کو اس نے اب تک سنبھالے رکھا ہے۔ یہ بیش قیمتی زیور اس کے سر تا پا لبادے میں مخفی رہتا ہے۔ جبکہ مغربی عورت کا لباس مختصرہوتے ہوتے زیوروں کے سائز تک آ پہنچاہے۔بلکہ یہ مختصر لباس عملاً زیور بن گیاہے۔ زیور جو قید و بند کی علامت اور مردانہ اقتدار کی نشانی ہے ۔اورمغرب کی بیٹیوں کا یہ زیورخاتونِ مشرق کی طرح کسی سرتاپالبادے کے نیچے نہیں بلکہ لباسِ فطرت کے اوپرسجایا جاتا ہے :
حوا کی بیٹیوں نے آدم کے بیٹوں کو للکارا
ازل سے آج تک
تم نے میرے ساتھ جو کیا
اس کا حساب دو
آدم کے بیٹوں نے کہا
تم میرے برابر نہیں ہو کیا؟
اچھا تو آﺅ ”اِستری وِمَرش“ کریں
اور پھر خوب استری ومرش ہوا
ادب، آرٹ اور کلچرمیں
اور پردہ سیمیں پر
اور نوٹنکیوں،میلوں ٹھیلوں میں
حتٰی کہ باقی رہ گئے
حوا کی بیٹیوں کے تن پر
کپڑوں کے دو تار
اور ہاتھ میں ایک رومال
آنسو پونچھنے کے لیے !
کیا فرق پڑتا ہے اگر تمہیںکھلی ڈلی چراگاہوں میںغلامی کا چارہ ملے اور کیا فرق پڑتا ہے اگر کانجی ہاﺅسوں میں تمہیں سنہرے زیوروں سے لاد دیا جائے۔آزمائش تو تب ہے جب تم عالمِ مغرب میں ہر سو برپا اُس ہیجان خیز رقصِ برہنہ کے درمیان دفعتاًپکار اٹھو کہ مشرق کا یہ سرتاپا حجاب میرے لیے کافی ہے۔مگر یہ کہتے ہی نکیلے پنجوں اور پینے دانتوں والے بھیڑیے تمہیں نوچ ڈالیں گے۔ وہ لبادہ تار تار کردیں گے جس کو خود تم نے بہ رضا و رغبت چنا ہوگا۔تم ذرا یہ کر تو دیکھو۔تمہیں معلوم ہو جائے گا کہ مغرب میں تم محض ایک ٹشو پیپرہو جس سے وہی مردوادی سور یعنی Male chauvinistic pig اپنی نجاست صاف کرتا ہے۔ اورذرا مشرق کے کانجی ہاﺅسوں سے نکل کر دیوانہ وار دوڑتی ہوئی کھلی ہوا میںآکسیجن لینے باہر نکلو اس حال میں کہ ظاہر ہونے والی کوئی زینت ظاہر ہو رہی ہو— گھسیٹ کر پھر انہیں کانجی ہاﺅسوں میں بند کردیا جائے گا۔ پس صنف ِنازک نے نہ کہیں اپنی مرضی سے خود کو چھپایا اورنہ کہیں اپنی رغبت سے آشکار ہوئی ۔
حیا اور ادا، یہ دو مختلف اور متضاد قوتیں ہیں۔ اِن سے صنف ِنازک کا بھرم قائم رہتا ہے۔ یہ بھرم مٹائے نہیں مٹتا۔یہ فطری و لابدی ہے۔یہ بھرم عورت کو عورت بنائے رکھتا ہے۔اسے مرد سے الگ ایک مستقل صنف ہونے کا امتیاز بخشتا ہے۔عورت سب کچھ سے نجات پا سکتی ہے ،مغرب میںاپنی مامتا کی شراب نچوڑ سکتی ہے اور مشرق میں اسی مامتا کی خاطر اپنے وقار کو چولہے میں جھونک سکتی ہے، لیکن اِن دونوں قوتوں سے اسے کہیں نجات نہیں۔جب ایک سامنے ہوتی ہے تو لازماً دوسری چھپ جاتی ہے۔ ایک مشرق میں اس کے بدن پرچھا گئی ہے۔ اور دوسری مغرب میں اس پر غالب آگئی ہے۔یعنی اِدھرجو شئے حیا کے گہن سے گہنا گئی ہے ادھر وہی شئے شعلہ صفت اپنی ہی آگ میں دہک رہی ہے ۔دیکھتے دیکھتے اس کاوجود آپ ہی جل بجھے گا۔ اب ان دونوں قوتوں سے ، اپنے اندر کی اپنی ہی قوتوں سے ،اپنی ہی ساخت سے بلکہ خود اپنے آپ سے کیسے نپٹے گی عورت؟ہے کوئی رد تشکیلی، ساخت شکن فارمولا؟
حیا اور ادا سے کہیں نجات نہیں کیوں کہ یہ ایسی قوتیں ہیں جو اس کے باطن میںپیدا ہوتی ہیں اور ظاہرمیں ان کے آثار دکھائی دیتے ہیں۔حیا اور ادا کو کہیں اور سے لاکر نہیں ٹھونسا گیا ، یہ اُس کے وجود میں پہلے سے موجود ہیں۔ماقبل تاریخ سے موجود ہیں۔ اس سے بھی پہلے سے موجود ہیں۔ حیا اور ادا ایک ہی حقیقت کے دو رخ ہیں۔یہ بہ باطن ایک ہیں اور بہ ظاہر دو۔ حیاکے ساتھ کچھ دور تلک جادیکھو۔ ہجر کے سوا کچھ ہاتھ نہ آیا؛ ہجر— جو لذت آگیں بھی ہے اور دردآفریں بھی ، ہجر— جو وصال کا صحیح مفہوم سمجھاتا ہے،اور اس کی تمنا اور خواہش کو جلا دیتا ہے؛ وہی ہجرحیا کے ساتھ رہتے ہوئے در حقیقت ہجر نہ رہا ،حسرت کی آگ بن گیا، اور بالآخر یہ حسرت بھی دم توڑنے لگی ، اور اِس کے ساتھ ہی وصال کامفہوم بھی خطرے میں پڑ گیا اور زندگی بھی اپنی معنویت کھونے لگی۔ ناچار و بالقصد، ادا کے ساتھ چند ہی قدم چلے کہ دفعتاً وصال ہو گیاتا آنکہ پھرعالم ہجر میں لوٹ جانے کی تمنا ہوئی۔ حیا بظاہر کچھ نہ ہونا ہے ۔اور ادا بظاہر کچھ’ہو ‘جانا۔حیا چپ رہنا ہے اور ادا بول پڑنا۔بالقصد چپ رہنا اور بے اختیار بول پڑنا۔ کیا خاموشی اور گویائی دو چیزیں ہیں؟ظاہر بیں آنکھ کہے گی کہ دو ہیں۔مگر اِس کم فہمی سے پرے شاعر نے کہا ہے :
نشو و نما ہے اصل سے غالب فروع کو
خموشی ہی سے نکلے ہے جو بات چاہیے
حیا خاموشی ہے اور ادا گویائی۔ حیااصل ہے اور ادا فرع۔حیا جڑ ہے اور ادا شاخ۔شاخ کی نشو نماجڑ سے ہے اورجڑ کی محنت کا حاصل شاخیں ۔مگر شاخوں نے آسمان سے لو لگائی اور جڑوں نے شاخوں کی خاطر پستی کا سفر منظور کیا۔
حیا اور ادا کی یہی کیفیت مطلوب ہے۔ مگر مشرق ومغرب میں نہ حیا کی یہ کیفیت ہے نہ ادا کا یہ رجحان۔مشرق میں حیا ،حیا نہیں اور مغرب میں ادا ،ادا نہیں۔ مشرق میں حیا نظام جبر کا سناٹا ہے اور مغرب میں ادا سناٹے کی چیخ۔ایک طرف حیا نظامِ جبر کا سیاسی استحکام اور دوسری طرف ادا ایک دہشت گردانہ کارروائی،خود کش دھماکہ! مغرب میں عورت کو خاموش رکھا گیا تھا۔ اب وہ بول رہی ہے۔اورمشرقی عورت ابھی بولنا سیکھ رہی ہے۔مگر اس کی بھی لے وہی ہے ۔
مغربی عورت اب تک حیا اور اداکی حقیقت کبریٰ کو نہ سمجھ سکی، اور شائی لاک نے اس کی کوکھ کو رہن رکھ لیااور اس نے سود در سود وصول کیایہاں تک کہ وہ بنجر ہو گئی۔اور اِدھر مشرق میں دولتِ حسن میںسے بقدرِ زکوٰة بھی آمادگی نہیں۔ یہاںنسوانی حسن کی حیثیت ایک خزینے اور دفینے کی ہے جس پروہی مردوادی ناگ پھن کاڑھے بیٹھا ہے:
نسوانیت ِزن کا نگہباں ہے فقط مرد!
آہ یہ نازک صنف! بغاوت اس کے بس کی بات نہیں۔مگر اس نے اطاعت بھی کی تو اس سے اطاعت نہ ہو سکی۔ اطاعت و بغاوت کے درمیان ہر موڑ پہ رسوائی،ہرمحاذ پہ پسپائی اورہر سودا خام ۔ اس نے خود کو جتنا افشا کیا اتنا ہی اسے چھپ جانا پڑا، اتنا ہی بے نام و نشان ہونا پڑا۔ اورجتنا چھپنے کی کوشش کی ، اتنا ہی اس کا چرچا ہوا۔ مگر اس کا حقیقی جلوہ نہ کوئی دیکھ سکا اور نہ وہ خود کسی کو دکھا سکی۔اس کی حقیقت مستور ہی رہی۔ سطحِ ظاہر پر جو ظاہر ہوا وہ بدن تھا اور جو مخفی رہا وہ بھی بدن ہی تھا۔پس کیا عورت بدن کے علاوہ بھی کچھ ہے؟اگر ہاں تو اس کی کوئی دلیل سوائے اس دلیل کے نہیں کہ ہم چاہتے ہیں کہ عورت بدن کے علاوہ بھی کچھ ہوبلکہ بدن سے زیادہ کچھ ہو۔لیکن اسے بدن سے زیادہ کچھ نہیں رہنے دیاگیا۔ مشرق و مغرب میں اس نے جو کچھ چھپایا اور جو کچھ دکھایا اس میں وہ خود کہیں نہیں تھی۔ مشرق میں ، وہ خداوند قدوس کی نہیں، مجازی خداﺅں کی شریعت تھی جس نے اسے جکڑ کر رکھا اور ’حق‘ کو تسلیم کرنے پر مجبور کیا۔ اور مغرب میں سرے سے تمام شریعتوں کی دھجیاں اڑا کر خرد کی روشنی کو یہاں تک پھیلادیا گیا کہ وہ اظہر من الشمس تو ہو گئی مگر اس کی اندرونی کیفیتوں اور وارداتوںتک کسی کی رسائی نہ ہوسکی۔ دکھانے اور چھپانے کا یہ سلسلہ ہنوز جاری ہے۔ ایک طرف روزافزوں تاریکیوں میں ہاتھ کو ہاتھ نہیں سجھائی دیتا اور دوسری طرف روشنیوں کے جھماکوں میں آنکھوں کے آگے اندھیرا چھا رہا ہے۔

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

تحقیق کے مسائل

تحقیق ایک اہم علمی فریضہ ہے۔ تحقیق کے ذریعے ہم نامعلوم کا علم حاصل کرتے ہیں۔ غیر محسوس کو محسوس بناتے ہیں۔ جو باتیں پردہ ٔ غیب میں ہوتی ہیں، انہیں منصہ ٔ شہود پر لاتے ہیں تا کہ کسی امر میں یقینی علم ہم کو حاصل ہو، اور اس کی بنیاد پر مزید تحقیق جاری رکھی جا سکے۔تحقیق ایک مسلسل عمل ہے۔ موجودہ دور میں یہ ایک نتیجے تک پہنچنے سے زیادہ ایک طریقے ( تک پہنچنے) کا نام ہے۔نتیجہ خواہ کچھ ہو، موجودہ دور میں اس کے طریقہ ٔ کار یا منہاجیات کو صاف و شفاف بنانا فلسفیانہ طور پر زیادہ ضروری سمجھا جاتا ہے تاکہ زیادہ تر نتائج صحت کے ساتھ محسوسات کے دائرے میں حتی الامکان منتقل ہو سکیں۔ دائرہ تحقیق میں ایک مقدمہ کو نتیجہ میں بدلنے کے طریقے کی جس قدر اصلاح ہوتی جائے گی اسی قدر تحقیق معتبر مانی جائے گی۔ البتہ بعض اوقات یوں بھی ہوتا ہے کہ کسی تحقیق کا طریقہ صحیح نہیں ہو اور نتیجہ بالکل صحیح ہو۔ لیکن اس ناقابل حل مسئلے کے باوجود بہرحال طریقے میں حذف و اضافہ اور اصلاح و تصحیح کی ضرورت ہمیشہ باقی رہتی ہے۔ تحقیق کے عربی لفظ کا مفہوم حق کو ثابت کرنا یا حق کی طرف پھیرنا ہے۔ حق کے معنی سچ کے ہیں۔ مادہ حق سے...

قرآن اور بگ بینگ

ایک بہت طویل عرصے سے اہل اسلام کا مغرب زدہ طبقہ قرآن کی تصدیق جدید ترین سائنسی تحقیقات کی بنیاد پر کرنا چاہتا ہے. اس کی اصل دلیل یہ ہے کہ اگر قرآن خدا کی کتاب نہ ہوتی تو اس میں بیسویں صدی کے سائنسی انکشافات کا ذکر چودہ سو سال پہلے کیونکر ممکن تھا؟ اس سلسلے میں ایک بہت بڑی مثال بگ بینگ کی دی جاتی ہے اور قرآن کی اس آیت کو دلیل بنایا جاتا ہے: اَوَلَمْ يَرَ الَّذِيْنَ كَفَرُوْٓا اَنَّ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ كَانَتَا رَتْقًا فَفَتَقْنٰهُمَا ۭ وَجَعَلْنَا مِنَ الْمَاۗءِ كُلَّ شَيْءٍ حَيٍّ ۭ اَفَلَا يُؤْمِنُوْنَ کیا کافروں نے نہیں دیکھا کہ آسمان اور زمین دونوں ملے ہوئے تھے تو ہم نے جدا جدا کردیا۔ اور تمام جاندار چیزیں ہم نے پانی

مذہب و تصوف اور فلسفہ و سائنس کا منتہائے مقصود

     یہ کائنات نہ کوئی ڈیزائن ہے اور نہ اس کا کوئی ڈیزائنر۔ اور نہ یہ کائنات عدم ڈیزائن ہے جس کا ڈیزائنر معدوم ہے۔ یہ دونوں بیانات ناقص ہیں۔ ہم بحیثیت انسان بذریعہ حواس خارج میں جو کچھ دیکھتے ہیں وہ دراصل ہماری وجدان کی مشین اور ذہن ہی سے پروسیس ہو کر نکلتا ہے۔ اور وجدان کے اس جھروکے سے نظر آنے والی یہ کائنات ایک ایسی احدیّت کے طور پر ابھرتی ہے جس میں یہ ڈیزائن صرف ایک منظر ہے جس کی شناخت عدم ڈیزائن کے دوسرے منظر سے ہوتی ہے۔ اسی طرح اس کائنات میں منصوبہ بھی ایک منظر ہے جس کی شناخت عدمِ منصوبہ کے دوسرے منظر سے ہوتی ہے۔ کائنات میں چیزیں ایک دوسرے کے بالمقابل ہی شناخت ہوتی ہیں۔ اس لیے یہ کہنا کہ کائنات میں کوئی منصوبہ ہے اس لیے کوئی منصوبہ ساز ہونا چاہیے، یا کائنات بجائے خود کوئی ڈیزائن ہے اس لیے اس کا ڈیزائنر لازماً ہونا چاہیے ناقص خیال ہے۔ اسی طرح یہ کہنا کہ اس کائنات میں عدم ڈیزائن ہے اور اس لیے اس کا کوئی ڈیزائنر نہیں ہے یہ بھی ایک ناقص خیال ہی ہے۔ یہ دونوں بیانات آدھے ادھورے مناظر کی تعمیم کی بنا پر گمراہ کن قیاس کی مثالیں ہیں۔ یاد رہے کہ منصوبہ صرف ایک منظر ہے، یا یوں...