نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

مردوں کی حاکمانہ قوامیت اور نئی عورت

انسان کی نظری اخلاقیات میں ہمیشہ ترقی ہوتی رہی ہے۔ زمانہ ٔ جاہلیت میں غلامی کا رواج تھا۔ اسلام نے آ کر اس کو اخلاقی طور پر مٹا دیا۔ لیکن قانونی طور پر اس کو برقرار رکھا۔ غلامی کی حرمت پر کوئی نصِ شرعی نہیں ہے ورنہ صحابہ کرام جنگوں میں محارب خواتین کو لونڈی نہ بناتے۔ لیکن چونکہ نظری اخلاقیات میں ہمیشہ ترقی ہوتی رہتی ہے اس لیے قانون کا فرض ہے کہ وہ تبدیل شدہ اخلاقیات کی پیروی کرے۔ اللہ کے رسول  صلی اللہ علیہ وسلم نے غلامی کو ناپسندیدہ قرار دیے کر ایک اخلاقی اصول قائم فرما دیا لیکن بعض مصلحتوں کے تحت اس قانون کو باقی رہنے دیا گیا۔ لیکن اب جبکہ ان مصالح کی ضرورت ختم ہو گئی ہے، یہ قانون بھی عملاً دنیا سے اٹھ چکا ہے۔ اور جو قوم بھی جنگ کے بعد محاربین کو غلام بنائے، وہ غیر انسانی سلوک کی مرتکب کہلائے گی۔ بے شک اسلام میں جنگ کی اجازت دی گئی ہے لیکن ایک دور وہ بھی آ سکتا ہے جب سرے سے جنگ کی ضرروت ہی نہ رہ جائے۔ اس صورت میں اسلامی قوانین جنگ بھی نہیں رہیں گے۔
اسی طرح عورت اور اس کی حیثیت کے سلسلے میں جو اخلاقی نظریے اور رویے چودہ سو سال پہلے پائے جاتے تھے، انہیں جدید انسانی معاشرے میں اعتبار حاصل نہیں رہا۔ اس دور میں عورت کا بدن ایک مرد کی قبائلی غیرت کا مرکز تھا جس کو نشانہ بنائے جانے پر  مرد کی رگ حمیت پھڑک اٹھتی تھی۔ وہ چیز آج بھی بڑی حد تک باقی ہے۔ چنانچہ آپ دیکھتے ہیں کہ اگر پاکستان کی ہیروئن وینا ملک ہندوستان آ کر ہولی کھیلتی ہے تو پاکستانیوں کی رگِ حمیت پھڑک اٹھتی ہے۔ لیکن موجودہ دور کی خواتین اپنے جسم کو کسی مرد کی عزت سے جوڑ کر نہیں دیکھنا چاہتیں۔ وہ چاہتی ہیں کہ ان کے جسم کے ارد گرد مردوادی غیرت کا جو بھونڈا مظاہرہ ہوتا رہتا ہے،اس کا کسی طرح خاتمہ ہو۔ نظری اخلاقیات میں یہ جو  تغیر عورتوں کی مداخلت سے واقع ہوا ہے ، وہ بہت قیمتی ہے۔
اب رہا یہ اشکال کہ اس طرح تو عورت جہاں چاہے , منہ مارے اور مرد اس کو برداشت کر تا رہے ، یہ کیسے ہو سکتا ہے؟ میرا جواب یہ ہے کہ ایسا ہی ہو رہا ہے اور اب مرد کچھ نہیں کر سکتا۔ وہ نہ عورت کے جسم کا مالک ہے اور نہ اس کے دل و دماغ کا۔ عورت اپنی ان چیزوں کو  جیسے چاہے گی استعمال کرے گی۔اس کو آپ کسی مذہبی کتاب کا حوالہ دے کر نہیں روک سکتے۔ اس کی  بہت سی مثالیں ہیں، اور میں مثالیں دینے سے یہاں  گریز کرنا چاہتا ہوں۔ مثال سنتے ہی بنیاد پرستوں کو غصہ آ جاتا ہے۔ میں صرف یہ کہہ رہا ہوں کہ عورت کو مذہب کے حوالے سے قابو میں نہیں کیا جا سکتا ۔دورِ جدید میں اس کو فنونِ لطیفہ کے ذریعے قابو میں کیا جا تا ہے۔ آرٹ اور کلچر کے نام پر بالکل ایک مختلف قسم کی غلامی میں اس کو مبتلا کر دیا جاتا ہے۔ یعنی عورت کا مقدر بالکل صاف طور پر یہ ہے کہ یا تو وہ چہار دیواری میں  رہ کر غلامی کرے، یا پھر وہاں سے باہر نکل کر جدید ثقافتی بھیڑیوں کی شکار بن جائے۔ بعض روایتی مذہبی طبقے عورت کو چہار دیواری میں رہنے کا حکم دیتے اور رقص و سرود سے منع کرتے ہیں اور اس کی امنگوں کا گلا گھونٹ کر اس کو بچہ پیدا کرنے کی مشین بنا دیتے ہیں۔ وہ مرد کو عورت پر حاکمانہ قوامیت کا اختیار عطا کرتے ہیں جس کی رو سے وہ اس کو راہ راست پر لانے کے لیے آخری چارہ ٔ کار کے طور پر مار  بھی سکتا ہے۔ چہار دیواری سے باہر اس کو قانونی طور پر مارنے پیٹنے کا اختیار تو کسی کو نہیں مگر  غیر قانونی طور پر اس کا استحصال بہت کیا جاتا ہے۔ ویسے گھر کے اندر کی دنیا میں بھی اس کا جنسی استحصال ہوتا ہی ہے  تاہم  یہاں عورت کو اصولاً کم از کم ایک مقدس شئے ضرور سمجھا جاتا ہے۔ لیکن وہ تقدس کس کام کا جو اس کو گھریلو دایہ اور نوکرانی بنا کر رکھ دے؟ اس لیے وہ چہاردیواری کی اپنی  ذلیل محکومانہ حالت سے باہر  کھلے میدان میں نکل آتی ہے جہاں پہلے ہی  اپنے ہوس ہونٹوں سے رال ٹپکاتے  شہوانی درندے  منتظر ہوتے جو اس کے جسم کو بھنبھوڑتے ہیں۔  موجودہ حالات میں دونوں جگہوں پر عورت  ایک ذلیل شئے ہے۔ اس کی جدوجہد اس ذلت  و محکومی  اور استحصال و ابتذال سے نکلنا ہے خواہ وہ گھر کی زندگی میں ہورہا  ہو یا باہر کی۔ اب یہ معاملہ طے  ہو چکا ہے کہ وہ مرد کی  ماتحت بن کر نہیں رہ سکتی۔ مغرب میں  وہ تن ِ تنہا مرد کی مدد کے بغیر اپنے بچے پال رہی ہے یا نہیں؟ کتنے ہی بے وفا مرد ایسے ہیں جو سال ڈیڑھ سال ساتھ رہ کر اس کو چھوڑ جاتے ہیں اور عورت  اکیلی اپنی اولاد کی پرورش اور تربیت میں مصروف رہتی ہے۔  جس طرح بن ماں کے بچے پل جاتے ہیں، اسی طرح بن باپ کے بھی پل ہی جائیں گے۔ اور اگر اس کا کوئی بہت برا نتیجہ نکلے گا، یا نکل رہا ہے تو اس کی فکر اکیلے عورت کو ہی کیوں ہو؟ مرد اپنے اخلاق کی اصلاح کیوں نہیں کرتا؟ فرمانبردار، اطاعت شعاری، وفاداری اور پے در پے قربانیوں کا سارا مطالبہ عورت سے ہی کیوں؟
 یہ سمجھنا کہ عورت مرد سے کمزور ہے اس لیے لازماً اس کو آج نہ کل مرد کی ماتحتی میں آنا ہوگا، یا اس قسم کی باتیں کرنا کہ چاقو تربوز پر گرے یا تربوز چاقو پر، دونوں صورتوں میں نقصان صرف عورت کا ہوتا ہے، ایک ضلالت  آمیز فکر ہے۔ نہ عورت تربوز ہے، نہ مرد چاقو، عورت کی تذلیل گھر میں ہو یا باہر، اس سے مرد کا بھی اتنا ہی نقصان ہے جتنا عورت کا۔ بلکہ مرد کا کچھ زیادہ ہی نقصان ہے۔ عورت کے لیے اولاد پیدا کرنا تو اس کے بائیں ہاتھ کا کھیل ہے۔  آج کل تو بہت سے طریقے نکل آ ئے ہیں۔ اب یہ ایک انجکشن کی بات رہ گئی ہے۔ مرد  میں اس کی صلاحیت سرے سے ہے ہی۔  ظاہر ہے اس کے لیے بھی اس کو ایک عورت ہی کی ضرورت  پیش آئے گی۔ اولاد کی خواہش انسان کی فطری خواہش ہے اور جس قدر عورت کو اس کی ضرورت ہے ، اسی قدر مرد کو بھی ہے۔ اس لیے جب دونوں مذاکرے کی میز پرآئیں گے تو مرد کو اپنی حاکمانہ قوامیت سے دست بردار ہونا ہی پڑے گا۔ ورنہ عورت جیسے ابھی جی رہی ہے، ویسے ہی جیتی رہے گی ۔اور جب تک مرد مذہبی طور پر اپنی بالادستی اور حاکمانہ قوامیت سے دست بردار نہ ہوگا، عورت واپس مرد کی زندگی میں وہ خوشیاں نہیں بکھیر سکتی جس کا مرد ازل سے ہی شائق رہا ہے۔ یہاں اس قسم کی بوگس دلیلیں پیش کرتے رہنا کہ ــــــــــــــــــــــــــــــــــ خاندان کے ادارے کا ایک سربراہ ہونا چاہیے، اور مرد ہی میں اس کی صلاحیت پائی جاتی ہے، عورت تو صرف ایک جذباتی مخلوق ہے، وہ کیا سربراہی کر سکے گا ـــــ انتہائی درجے کی نادانی ہے اور اس سے مابعد جدید عورتیں مزید مشتعل ہوتی ہیں۔ مرد میں اگر عورت سے زیادہ جسمانی طاقت ہے تو اس کی حیثیت سربراہ کی نہیں بلکہ باڈی گارڈ کی ہے۔ اور یہ مسلم ہے کہ باڈی گارڈ کو تحفظ فراہم کرنے کے لیے رکھا جاتا ہے نہ کہ حکم چلانے کے لیے۔ مابعد جدید عورت تحفظ فراہم کرنے کی مردوادی دلیل کی چالاکی کو سمجھ گئی ہے۔ اس لیے اس نے باڈی گارڈ کو معزول کر دیا ہے اور اپنے جسم کو ہی اپنا ہتھیار بنا لیا ہے۔

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

تحقیق کے مسائل

تحقیق ایک اہم علمی فریضہ ہے۔ تحقیق کے ذریعے ہم نامعلوم کا علم حاصل کرتے ہیں۔ غیر محسوس کو محسوس بناتے ہیں۔ جو باتیں پردہ ٔ غیب میں ہوتی ہیں، انہیں منصہ ٔ شہود پر لاتے ہیں تا کہ کسی امر میں یقینی علم ہم کو حاصل ہو، اور اس کی بنیاد پر مزید تحقیق جاری رکھی جا سکے۔تحقیق ایک مسلسل عمل ہے۔ موجودہ دور میں یہ ایک نتیجے تک پہنچنے سے زیادہ ایک طریقے ( تک پہنچنے) کا نام ہے۔نتیجہ خواہ کچھ ہو، موجودہ دور میں اس کے طریقہ ٔ کار یا منہاجیات کو صاف و شفاف بنانا فلسفیانہ طور پر زیادہ ضروری سمجھا جاتا ہے تاکہ زیادہ تر نتائج صحت کے ساتھ محسوسات کے دائرے میں حتی الامکان منتقل ہو سکیں۔ دائرہ تحقیق میں ایک مقدمہ کو نتیجہ میں بدلنے کے طریقے کی جس قدر اصلاح ہوتی جائے گی اسی قدر تحقیق معتبر مانی جائے گی۔ البتہ بعض اوقات یوں بھی ہوتا ہے کہ کسی تحقیق کا طریقہ صحیح نہیں ہو اور نتیجہ بالکل صحیح ہو۔ لیکن اس ناقابل حل مسئلے کے باوجود بہرحال طریقے میں حذف و اضافہ اور اصلاح و تصحیح کی ضرورت ہمیشہ باقی رہتی ہے۔ تحقیق کے عربی لفظ کا مفہوم حق کو ثابت کرنا یا حق کی طرف پھیرنا ہے۔ حق کے معنی سچ کے ہیں۔ مادہ حق سے...

قرآن اور بگ بینگ

ایک بہت طویل عرصے سے اہل اسلام کا مغرب زدہ طبقہ قرآن کی تصدیق جدید ترین سائنسی تحقیقات کی بنیاد پر کرنا چاہتا ہے. اس کی اصل دلیل یہ ہے کہ اگر قرآن خدا کی کتاب نہ ہوتی تو اس میں بیسویں صدی کے سائنسی انکشافات کا ذکر چودہ سو سال پہلے کیونکر ممکن تھا؟ اس سلسلے میں ایک بہت بڑی مثال بگ بینگ کی دی جاتی ہے اور قرآن کی اس آیت کو دلیل بنایا جاتا ہے: اَوَلَمْ يَرَ الَّذِيْنَ كَفَرُوْٓا اَنَّ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ كَانَتَا رَتْقًا فَفَتَقْنٰهُمَا ۭ وَجَعَلْنَا مِنَ الْمَاۗءِ كُلَّ شَيْءٍ حَيٍّ ۭ اَفَلَا يُؤْمِنُوْنَ کیا کافروں نے نہیں دیکھا کہ آسمان اور زمین دونوں ملے ہوئے تھے تو ہم نے جدا جدا کردیا۔ اور تمام جاندار چیزیں ہم نے پانی

مذہب و تصوف اور فلسفہ و سائنس کا منتہائے مقصود

     یہ کائنات نہ کوئی ڈیزائن ہے اور نہ اس کا کوئی ڈیزائنر۔ اور نہ یہ کائنات عدم ڈیزائن ہے جس کا ڈیزائنر معدوم ہے۔ یہ دونوں بیانات ناقص ہیں۔ ہم بحیثیت انسان بذریعہ حواس خارج میں جو کچھ دیکھتے ہیں وہ دراصل ہماری وجدان کی مشین اور ذہن ہی سے پروسیس ہو کر نکلتا ہے۔ اور وجدان کے اس جھروکے سے نظر آنے والی یہ کائنات ایک ایسی احدیّت کے طور پر ابھرتی ہے جس میں یہ ڈیزائن صرف ایک منظر ہے جس کی شناخت عدم ڈیزائن کے دوسرے منظر سے ہوتی ہے۔ اسی طرح اس کائنات میں منصوبہ بھی ایک منظر ہے جس کی شناخت عدمِ منصوبہ کے دوسرے منظر سے ہوتی ہے۔ کائنات میں چیزیں ایک دوسرے کے بالمقابل ہی شناخت ہوتی ہیں۔ اس لیے یہ کہنا کہ کائنات میں کوئی منصوبہ ہے اس لیے کوئی منصوبہ ساز ہونا چاہیے، یا کائنات بجائے خود کوئی ڈیزائن ہے اس لیے اس کا ڈیزائنر لازماً ہونا چاہیے ناقص خیال ہے۔ اسی طرح یہ کہنا کہ اس کائنات میں عدم ڈیزائن ہے اور اس لیے اس کا کوئی ڈیزائنر نہیں ہے یہ بھی ایک ناقص خیال ہی ہے۔ یہ دونوں بیانات آدھے ادھورے مناظر کی تعمیم کی بنا پر گمراہ کن قیاس کی مثالیں ہیں۔ یاد رہے کہ منصوبہ صرف ایک منظر ہے، یا یوں...