جمعرات، 20 اگست، 2015

دعوتِ دین اور داڑھی کی شرعی مقدار

فیس بک پر میرا ایک اسٹیٹس اپڈیٹ (تاریخ یاد نہیں):
مقلدین مودودی ﮐﻮ ﻻﮐﮫ ﺳﻤﺠﮭﺎﺅ ﮐﮧ ﺑرادرانِ اسلام, ﺍﮔﺮ آپ ﮐﻮ ﺍﺳﻼﻡ ﮐﯽ ﺗﺒﻠﯿﻎ ﮐﺮنی ﮨﯽ ﮨﮯ ﺗﻮ ﭘﮩﻠﮯ ﻣﺸﺖ ﺑﮭﺮ ﺩﺍﮌﮬﯽ سنت کے مطابق ﺭکھیں, تفریحی اغراض سےﺍﭘﻨﯽﺗﺼﻮﯾﺮﯾﮟﮐﮭﻨﭽﺎﻧﺎ ﺑﻨﺪ ﮐﺮیں, ﻓﻠﻢ ﺑﯿﻨﯽ ﺳﮯ ﺳﺨﺖ ﺍﺣﺘﺮﺍﺯ ﮐﺮیں, ﺍﻟﻐﺮﺽ ﭘﮩﻠﮯ ﺍﻣﮑﺎﻧﯽ ﺣﺪ ﺗﮏ ﺍﭘﻨﯽ ﺫﺍﺕ ﭘﺮ ﺍﻟﻠﮧ ﮐﯽ ﺣﮑﻮﻣﺖ ﻗﺎﺋﻢ ﮐﺮ لیں, ﺍﺱ ﮐﮯ ﺑﻌﺪ ﺍﺱ ﮐﯽ ﻃﺮﻑ ﺩﻋﻮﺕِ ﻋﺎﻡ فرمائیں, ﻟﯿﮑﻦ ﻗﺮﺁﻥ ﻭ ﺳﻨﺖ ﺳﮯ ﻗﻄﻌﯽ معروضی ﻃﻮﺭ ﭘﺮ ﺛﺎﺑﺖ ﺍﻥ ﭼﯿﺰﻭﮞ ﮐﯽ ﻃﺮﻑ ﺟﺐ بھی انہیں متوجہ کیا ﺟﺎﺗﺎ ﮨﮯ, ﻭﮦ ﺍﻥ ﮐﺎ ﻣﺬﺍﻕ ﺍﮌﺍﻧﮯ ﻟﮕﺘﮯ ﮨﯿﮟ.
ﺟﺐ ﻭﮦ ﮐﮩﺘﮯ ﮨﯿﮟ ﮐﮧ ﺍﺳﻼﻡ ﻣﯿﮟ ﺩﺍﮌﮬﯽ کی مقدار ﺷﺮﻁ ﻧﮩﯿﮟ تو وہ اس مسئلے میں مولانا مودودی کے من مانے فتوے پر چل رہے ہوتے ہیں. ﭼﻮﻧﮑﮧ ﮐﻮﺋﯽ ﻗﻮﻝ ﺭﺳﻮﻝ ﺍﯾﺴﺎ ﻧﮩﯿﮟ ﺟﺲ سے ﺩﺍﮌﮬﯽ ﮐﯽ صریحی ﻣﻘﺪﺍﺭ ﻣﺘﻌﯿﻦ ہوتی ہو, اس لیے  علامہ مودودی نے حدیث میں گنجائش پیدا کرتے ہوئے داڑھی کی روایتی مقدار میں تخفیف فرما دی تھی (دیکھیں رسائل و مسائل) جس کے نتیجے میں مشت بھر سے خاصی ﮐﻢ ﺩﺍﮌﮬﯽ رکھنے کی ایک نئی سنت (صحیح معنوں میں بدعت) رائج ہو گئی. مجھے علم نہیں کہ مولانا مودودی نے اس رخصت سے کس حد تک فائدہ اٹھایا, لیکن آج دنیائے علم و ادب, یونیورسیٹیوں, کالجوں اور دفاتر  میں پائے جانے والے تجدد پسند اسلامسٹوں میں داڑھی کا مودودی ماڈل بیحد مقبول ہے.
ﺍتنی ﮐﻢ ﺩﺍﮌﮬﯽ ﺭﮐﮭﻨﮯ ﺳﮯ ﺑﻈﺎﮨﺮ یہ معلوم نہیں ہوتا کہ یہ شخص "کٹھ ملا" ہے، بلکہ اول اول ایک سنجیدہ مفکر کا تاثر قائم ہوتا ہے.
ایک مشت داڑھی کی قید سے شرعاً نجات پانے کے بعد رفتہ رفتہ سینٹی میٹر بلکہ میلی میٹر میں بھی ٹریمر سے داڑھی ٹرم کرنے کی ایک روایت عملاً وجود میں آ گئی, اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ اسلام پسندوں کی خاصی اسمارٹ صورت نکل آئی. ﺍﺱ ﻃﺮﺡ ﺷﮑﻞ ﻭ صورت ﻣﯿﮟ ﻣﻐﺮﺑﯽ ﺫﻭﻕ ﮐﯽ ﺑﮭﯽ ﺭﻋﺎﯾﺖ ﮨﻮ گئی ﺍﻭﺭ ﻗﻮﻝ ﺭﺳﻮﻝ ﮐﯽ ﭘﺎﺳﺪﺍﺭﯼ ﺑﮭﯽ. ﺭﻧﺪ ﮐﮯ ﺭﻧﺪ ﺭﮨﮯ ﮨﺎﺗﮫ ﺳﮯ ﺟﻨﺖ ﻧﮧ ﮔﺌﯽ!
جب کبھی روایتی علما نے ان سے سوال کیا کہ یہ سنت کی پیروی کا کون سا طریقہ آپ نے اپنایا ہے تو ان کا جواب یہی تھا کہ تم اسلام کو داڑھی میں قید سمجھتے ہو؟ اسلام  کرتے پاجامے کی مخصوص کاٹ اور داڑھی کا طول و عرض نہیں, یہ سب تو چھوٹی موٹی اور فروعی بحثیں ہیں, اصل چیز تو تقوی ہے جس کے متعلق فرمایا گیا ہے کہ وہ دل میں ہوتا ہے. ان مودودیوں کو ایسی تاویلیں کرتے ہوئے یہ بھی نہ سوجھا کہ قرآن و سنت سے معنی اخذ کرنے کا ان کا طریقہ بھی وہی ہے جو روایتی علما کا ہے, اور احکام شریعت کے نفاذکے معاملے میں یہ ہرگز نہیں دیکھا جاتا کہ معاملہ چھوٹا ہے یا بڑا, بلکہ یہ دیکھا جاتا ہے کہ خود مذہبی متن سے کیا معنی برآمد ہوتے اور صحابہ و سلف ان سے کیا مراد لیتے آ رہے ہیں. اور داڑھی کی مقدار کا مسئلہ اس قدر چھوٹا موٹا اور غیراہم ہے تو کیوں نہیں یہ مودودیے ایک مشت داڑھی رکھ ہی لیتے ہیں؟ اور اگر یہ اتنی ہی غیر اہم فروعی بات ہوتی تو داڑھی نہ رکھنے پر روایتی علمائے کرام فاسق اور مردود الشہادۃ ہونے کا فتوی کیوں دیتے؟ اور یہ فتوی تو اسی روایتی فقہی طریقے سے لگایا جاتا ہے جس طریقے سے نکاح و طلاق کے مسائل میں فتوے لگائے جاتے ہیں. پھر روایتی فقہ کے ایک نتیجے کو ماننے اور ایک کو نہ ماننے کا کیا مطلب ہے؟

اس پر ایک صاحب نے درج ذیل تبصرہ کیا:

ڈاڑھی کا رکھنا معاملات کی قبیل سے ہے یا عبادات کی؟  اس بات کو سمجھنے سے شرعی حکم کی نوعیت بمعنی فتوی بالکل بدل جائے گی اور بالخصوص جب کہ اس کا تعلق بھی فروعی احکام سے ہو.

میں نے ان کے تبصرہ کا درج ذیل جواب دیا:

پس, آپ کے فتوے کی رو سے ستر عورت کے مروجہ حدود بھی ختم ہو جائیں گے, اور دوپٹہ رکھنا بھی لازم نہیں ہوگا, بلکہ منی اسکرٹ پہن کر نامحرم مردوں سے تنہائی میں ملنا بھی عورت کے لیے جائز ہو جائے گا کیونکہ ان سب باتوں کا تعلق بھی عبادات سے نہیں معاملات سے ہے. اسی طرح چور کے ہاتھ کاٹنے کی سزا بھی ہمیشہ کے لیے ختم ہو جائے گی کیونکہ یہ بھی عبادات میں سے نہیں ہے. آپ یہ کہہ کر نہیں بچ سکتے کہ یہ قرآن کا حکم ہے (اس لیے اس میں تبدیلی نہیں ہو سکتی)  کیونکہ قرآن خود یہ کہتا ہے کہ جو کچھ اللہ کے رسول تمہیں دیں اسے لے لو, اور جس چیز سے منع کریں, اس سے رک جاؤ.
اس لیے ایک بار کسی حدیث کے متعلق یہ بات ثابت ہو گئی کہ یہ واقعی قول رسول ہے اور اس میں کسی بات کا حکم دیا جا رہا ہے تو آپ کے فتوے کے مطابق اگر وہ عبادات میں سے نہ ہو کر معاملات میں سے ہو, تو اس کو بدلا جا سکتا ہے؟ یہی کہنا چاہتے ہیں نہ آپ؟ تو اب میں آپ کے مطابق تبدیل شدہ فقہی احکام کی ایک فہرست مرتب کروں, یا آپ خود ہی کریں گے؟

میرے مذکورہ بالا تبصرے کے بعد انہوں نے درج ذیل جواب دیا:
آپ کے مذکور نکات درست ہوتے اگر ڈاڑھی کا تعلق معاملات میں سے ہوتا. میں اس کو عبادات کے فروعی احکام میں سے سمجھتا ہوں.  "معاملات" کی لفظی ترکیب خود اس بات کی وضاحت ہے کہ ایسے امور جو سماج کے باہمی اتصال و احکام پر مشتمل ہوں. کسی کی ڈاڑھی بڑی ہے یا چھوٹی، ایک مشت ہے یا کم یا سرے سے ہے ہی نہیں اس بات کا "معاشرتی معاملات" سے کیا تعلق؟؟

میرا جواب:
یوں تو انسان کا ہر کام عبادت ہے جو اللہ کے حکم کے مطابق انجام دیا جائے لیکن اصطلاحی معنوں میں عبادات سے مراد  پرستش کے وہ مخصوص رسمی طریقے ہیں جن کو اللہ نے اپنے بندوں کے لیے نازل کیا ہے.
داڑھی رکھنا عبادت کا کوئی مخصوص اور رسمی طریقہ نہیں ہے کیونکہ ایک تو ہر انسان کے داڑھی ہو, یہ ضروری نہیں؛ دوسرے, عورتوں کو سرے سے داڑھی ہوتی ہی نہیں جس کا مطلب یہ ہوگا کہ وہ ایک عبادت سے محروم ہیں؛  تیسرے, مذہبی عبادات انسان کے اضطراری افعال (مثلاً سانس لینا) کے بجائے ایسے اختیاری اعمال پر مبنی ہوتے ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ فلاں مذہب کے ماننے والوں کا طریقہ پرستش ہے, اور داڑھی کوئی اختیاری چیز نہیں یعنی داڑھی کا اگانا یا نہ اگانا بندے کے اپنے ہاتھ میں نہیں ہے, بلکہ یہ سراسر ایک فطری امر ہے کہ کسی کو داڑھی ہوتی ہے اور کسی کو نہیں, چوتھے, ہر انسان کے اختیار میں چونکہ داڑھی کا اگانا یا نہ اگانا نہیں بلکہ اگر داڑھی اگے تو اس کو رکھنا یا نہ رکھنا ہے, اس لیے داڑھی کے مسئلے میں لفظ عبادت کا اطلاق خود آپ ہی کے نقطہ نظر سے تبھی درست مانا جائے گا جب آپ اس کو چھوڑ دیں یا مونڈیں. (کیا آپ بتا سکتے ہیں کہ آپ کے نزدیک داڑھی کا رکھنا عبادت ہے یا اس کا مونڈنا؟)  پانچویں, پھر آپ ہی کے نظریے کی رو سے جسم پر جس قدر بال ہیں ان میں سے بعض  کے متعلق احادیث میں مونڈنے (عانہ) یا اکھیڑنے (بغل کے بال) کا حکم آیا ہے, پس انہیں مونڈنا یا نہ مونڈنا یا اکھیڑنا یا نہ اکھیڑنابھی (آپ کی فقہ کی مقدار کے مطابق) بھی عبادات میں ہی شمار ہوگا؛ عورت کے سر کے بالوں کو خاصا لمبا رکھنے  کا حکم آیا ہے اور انہیں بہت  چھوٹا کرنے کی سخت ممانعت آئی ہے, پس یہ بھی آپ کی رو سے عبادات میں ہی شمار ہوگا.  بلکہ اسی اصول کی رو سے ناخن بڑھانا یا کاٹنا بھی رسمی عبادت کی ہی ایک شکل ہوگی. اس کے علاوہ ایک بات اور بھی آپ کہتے ہیں کہ "عبادات کے فروعی احکام میں فتوی بالکل بدل جائے گا" (اپنا پہلا تبصرہ دیکھیں) تو اب چاہےجسم پر کہیں بھی بال بڑھیں یا ناخن, ان کو کسی بھی حد تک کاٹنا/مونڈنا یا نہ کاٹنا/نہ مونڈنا بھی عبادات کے فروعی احکام قرار پائیں گے, پھر آپ ہی کے نقطہ نظر سے غسل و وضو بلکہ غسل جنابت بھی عبادات کے فروعی احکام ہیں, پھر ان میں ایک شخص چاہے تو اپنی ڈیڑھ اینٹ کی فقہ لے کر الگ بیٹھ جائے اور ان کو بالکل بدل دے! خواہ صحابہ کا عمل کچھ بھی کیوں نہ ہو! مثلاً وہ بیوی سے صحبت کرے اور غسل جنابت نہ کرے اور جب اس سے گھر کے لوگ پوچھیں کہ تم کبھی غسل نہیں کرتے اور مسجد میں جا کر نماز پڑھ لیتے ہو, تو وہ آپ کی فقہ کے مطابق جواب دے کہ یہ تو عبادات سے متعلق  فروعی حکم ہے جس کو بدلا جا سکتا ہے! معاذ اللہ.

آپ کو معلوم ہو کہ فروعی حکم بھی نہیں بدلتا اگر وہ اللہ کے رسول کی صریح احادیث سے ثابت ہو. البتہ فروعی احکام جن مذہبی متون سے برامد ہوتے ہیں ان کے معنی اگر ایک سے زیادہ نکلتے ہوں, تو یہ ایک فروعی مسئلہ اور فروعی اختلاف ہوا. غرض فروعی حکم اور فروعی احکام میں اختلاف دو باتیں ہوئیں. لیکن یہ کہنا کہ ہم سرے سے فروعی حکم کو ہی نہ مانیں گے, یا اس کو جب چاہے بدل دیں گے, اس سے بے شمار رکاوٹیں پیدا ہو جائیں گی اور اسلام پر عمل ناممکن ہو جائے گا.
بال, داڑھی, ناخن, اور لباس کی تراش  خراش اور ہماری وضع قطع کا تعلق بالذات رسمی عبادات سے نہیں بلکہ ہماری معاشرت اور ہمارے معاملات سے ہی ہے. ہماری ہر ایک حرکت کا اثر دوسروں پر پڑتا ہے, مسلمانوں میں سے کوئی شخص اگر سرعام برہنہ ہو جائے  تو اس سے دوسروں کا براہ راست کچھ نہیں بگڑتا, لیکن اس کا بالواسطہ اثر دوسروں پر ضرور پڑتا ہے. بالخصوص داڑھی کا مونڈنا حقیقی مومن عورتوں کو سخت ناپسند ہوگا اور بہت سی مسلمان خواتین کو پسند ہوگا. داڑھی اور جسم کے دوسرے بالوں کے رکھنے یا نہ رکھنے کا تعلق چونکہ جنڈر اپیل سے بھی ہے, صفائی و ستھرائی, ذوق سلیم, تزئین و آرائش, اور آداب نمائش سے بھی ہے, اور اس کا اثر پورے معاشرے پر پڑتا ہے, اگر ایک شخص داڑھی منڈا کر یا فرینچ کٹ داڑھی رکھ کر سر بازار گھومے تو اس کا اثر لازماً دوسروں پر پڑےگا, اسی طرح ملبوسات اور ستر عورت کا معاملہ ہے کہ ایک شخص غیر شرعی لباس پہنے جس سے ستر عورت کی سربازار نمائش ہوتی ہو, تو بے شک وہ ایسا کام کرتا ہے جس سے دوسرے بالواسطہ طور پر متاثر ہوتے ہیں, اس لیے شخصی طور طریقوں اور  تزئین و آرائش کا انداز بھی بالواسطہ طور پر معاملات کے اندر ہی آتا ہے. عبادات سے بھی ان کا تعلق ضرور ہے لیکن وہ عبادت کی شرطیں ہیں, اور بالذات عبادت نہیں, عبادت کے فروعی احکام میں ان کا شمار نہیں کیا جا سکتا.
میں مفتی تو نہیں ہوں, اس لیے جو کچھ میں نے کہا ہے اس میں ممکن ہے فقہی اصطلاحات سے متعلق غلطیاں پائی جائیں. جو کچھ میں کہہ رہا ہوں, اس کے مافی الضمیر کو سمجھنے کی ضرورت ہے.

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

تبصرہ کریں