نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

احسان اور تجارت

نزاع اجنبیوں سے نہیں، اپنوں سے ہوتی ہے۔ اپنوں سے ہمیں جائز و ناجائز توقعات ہوتی ہیں جن کے پورا نہ ہونے پر ہم ان سے جھگڑتے ہیں۔ اس لیے بہتر یہی ہے کہ کسی کو اپنا نہ سمجھا جائے۔ اگر ہم دوسروں کو اپنا نہ سمجھیں گے تو توقع ہی ختم ہو جائے گی۔ بقول غالب:
جب توقع ہی اٹھ گئی غالب
کیوں کسی کا گلہ کرے کوئی
اس کے بعد نہ کسی سے دشمنی ہے اور نہ کسی سے دوستی۔ البتہ جس قدر دوسروں کا ہم نے احسان لیا ہے، اسی قدر احسان انہیں ہم ادا کر دیں۔ لیکن اس میں ایک شرط ہے، وہ یہ کہ اگر اگر ہم کسی کا احسان اپنے سر لیں تو بس اتنا کہ اس کو ہم ادا کر سکیں۔ اتنا زیادہ احسان لے لینا کہ اس کو ادا کرنا ہمارے لیے ممکن نہ ہو، مناسب نہیں ہے۔ بالفرض، کسی سے اتنا زیادہ احسان لینے کی نوبت آ ہی جائے تو پھر اسی وقت کہہ دینا چاہیے کہ بھائی میں اتنا زیادہ ادا کرنے کی پوزیشن میں نہیں رہوں گا۔ اس لیے تم میری طرف سے اپنے اس احسان کا بدلہ پانے کی توقع مت رکھنا۔ یہی وہ شرط ہے جسے عائد کرنے کی جرات احسان اٹھاتے وقت ہم کو ہو، تو ہم اپنے تئیں دوسروں کے توقعات کا خاتمہ کر سکتے ہیں۔ بہ الفاظِ دیگر، ہم دوسروں سے یہ مطالبہ کریں کہ وہ اگر ہم پر احسان کرنا ہی چاہتے ہیں تو اس کا بدلہ پانے کی توقع ہم سے بالکل نہ رکھیں۔ اسی طرح ہم دوسروں پر کوئی احسان کرنا چاہیں، تو اس کا بھی بدلہ پانے کی توقع رکھنا ہمارے لیے صحیح نہیں ہو سکتا۔
لیکن اگر ہم زندگی کو تجارت سمجھتے ہوں تو پھر اس پر تجارت کے اصول و قوانین نافذ کرنے ضروری ہیں۔ پھر اس کے بعد یہ نہیں ہو سکتا کہ ہم دوسروں پر احسان کریں اور دوسروں سے احسان کی توقع نہ رکھیں۔ زندگی اگر تجارت ہے تو پھر اپنوں اور دوسروں کے احسان کو تجارت کے ترازو پر تولنا ہمارے لیے ضروری ہے۔ پھر کسی پر ایک احسان کرنے کے بعد ہم اسے یاد دلا سکتے ہیں کہ ہم نے آپ پر فلاں احسان کیا تھا۔ لیکن اگر ہم زندگی کو تجارت نہ سمجھ کر سراپا احسان سمجھیں تو پھر زندگی کی اس تجارت میں ہونے والے نفع و نقصان سے بے نیاز ہو جانا ہمارے لیے ضروری ہے۔ بلکہ زندگی کو احسان کے طور پر تسلیم کرنے کے بعد زندگی سےتجارتی رویہ کو رخصت ہو جانا چاہیے۔ پھر نہ کسی کو بدلہ دینا ہے اور نہ کسی سے بدلہ لینا ہے۔ بس احسان کرتے چلے جانا ہے اور کبھی بھول کر بھی کسی سے احسان کا بدلہ نہیں چاہنا ہے۔
احسان کا نہ کوئی بدل ہو سکتا ہے اور نہ اس کو خود تسلیم کرنے یا دوسروں سے کرانے کی ضرورت ہوتی ہے۔ پس، شکریہ کے الفاظ بھی غیرضروری ہیں۔ جس وقت ایک شخص ہم پر احسان کرتا ہے، اگر ہم اسی وقت اس کا شکریہ ادا کر دیں تو گویا زندگی ایک تجارت ہو گئی، ہم نے شکریہ کا لفظ کہہ کر احسان کا بدلہ چکا دیا۔ اسی طرح اپنے احسان کے بدلے کسی سے شکریہ کی توقع رکھنا بھی عبث ہے کیونکہ آپ زندگی کو تجارت نہیں احسان سمجھتے ہیں اور احسان کی نوعیت ہی یہ ہوتی ہے کہ اس کے بدلے آپ کچھ بھی نہ چاہیں، یہاں تک کہ شکریہ کے کلمات بھی نہیں۔ شکریہ احسان کی رسید نہیں ہے۔ کیونکہ احسان کوئی تجارتی قسم کی چیز نہیں۔ شکریہ ادا کرنا ہمارا فرض بھی نہیں ہو سکتا۔ کیونکہ فرض وہی ہوتا ہے جس کو ہم اپنے ذمے قرض سمجھیں۔ اور کسی شخص کا ہم پر احسان کرنا قرض نہیں ہے، بلکہ بالکل مفت ہے۔ اور جو چیز بالکل مفت حاصل ہو، اس کے لیے کسی کو شکریہ کہنا نہ صرف یہ کہ وقت اور انرجی کی بربادی ہے، بلکہ اس احسان کو تجارت بنا دینا ہے جو ہم پر کسی اور نے کیا ہے۔
لیکن یہ بھی تو ممکن ہے کہ شکریہ کے وہ معنی ہی نہ ہوں جو ہم اب تک سمجھتے آئے ہیں۔ یہاں ہمیں شکریہ کے عام رائج مفہوم سے یا لغوی مفہوم سے بحث نہیں ہے۔ شکریہ کے معنی صرف مسرت کے ہیں۔ اگر ایک شخص نے آپ کو چائے پلا دی اور آپ واقعی چائے کی ضرورت محسوس کر رہے تھے تو اس پر آپ کو خوشی ہونی چاہیے اور آپ کے منہ سے اہا، واہ جیسے الفاظ نکلنے چاہئیں۔ یہ گویا اس بات کی اطلاع ہے کہ چائے دیکھ کر آپ کی طبیعت خوش ہوئی۔ چائے پلائے جانے پر جو واہ زبان سے ادا ہوئی، اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ آپ نے ایک رسید کاٹ کر دے دی کہ ہاں بھائی، میں اس وقت چائے کی ضرورت محسوس کر رہا تھا، جو تم نے پوری کر دی تو اب میں بھی تمہیں کبھی چائے پلا دوں گا۔ واہ کے معنی اس سے زیادہ کچھ نہیں کہ آپ کو از حد خوشی ہوئی۔ واہ کا مطلب صرف اظہارِ مسرت سے ہے۔ اور جو مطلب واہ کا ہے، وہی شکریہ کا بھی ہے۔ اس لیے شکریہ بھی اصلاََ صرف اپنے لیے ہے کیونکہ لطف ہمیں آیا اور چونکہ ہمارے محسن کو احسان کر کے لطف ملا، اس لیے ہم نے لفظ شکریہ اس کو بھی سنایا تا کہ اجتماعی لطف آ سکے۔
اس بات کی اطلاع ہے کہ آپ کو اپنے اوپر کیے جانے والے کسی احسان سے خوش ہوئی، یا آپ کی کوئی ضرورت پوری ہوئی۔ اس اطلاع سے آپ کے محسن کو بھی مسرت کا احساس ہوگا کہ چلو میری کوشش یا سرمایہ ضائع ہونے کے بجائے کسی کے کام آ گیا۔ یعنی احسان جو ہے وہ اگر نہ کیا جائے تو سراسر ایک ضائع ہو جانے والی چیز ہے۔ نیکی کر دریا میں ڈال کا مفہوم بھی یہی ہے کہ آپ نے جو نیکی کی، اگر وہ نہ کرتے تو بھی اس نیکی پر آنے والا صرفہ یا سرمایہ ضائع ہی ہو جانے والا تھا، اب آپ نے نیکی کر ہی دی، تو اس میں آپ کی کیا تخصیص ہے، ایسی نیکی پر تو وہ لوگ بھی قادر ہیں جنہوں نے یہ نہیں کیا، آپ نے کر دیا تو اس کے معنی یہ تھوڑے ہی ہوئے کہ آپ بڑی قدرت رکھتے ہیں جس کا احسان خدا کی طرح جتا رہے ہیں اگر آپ نے کوئی نیکی کی، اور وقت بے وقت اس کی گردان کرتے رہے، تو سمجھیے کہ آپ نے جو کچھ کیا، وہ بنیادی طور پر از قسم تجارت ہے۔ اور اب آپ بازار میں کھڑے ہو کر اس کی قیمت لگوا رہے ہیں۔ اور اس دنیا کی ریت یہی ہے کہ وہ مال خریدنے سے پہلے مول جول کرتی ہے۔ پھر آپ کے مال پر خریدار جرح کیوں نہ کریں گے؟ تجارت کے ہر مال کی طرح آپ کا مال بھی بازار کی زینت بنے گا اور لوگ اس کے دام لگائیں گے۔ اس میں شک نہیں کہ تجارت کرنا بھی ایک قسم کی نیکی ہی ہے اگر آپ اس میں نہ ڈنڈی ماریں اور نہ حق سے زیادہ منافع لیں۔
معلوم ہوا کہ نیکی دو قسم کی ہوتی ہے۔ تجارتی اغراض سے کی جانے والی نیکی، اور بالکل مفت یعنی دریا میں ڈال دینے والی نیکی۔ احسان جتانے والے زیادہ تر لوگوں سے مجھے اسی لیے کوفت ہوتی ہے کہ وہ ایک طرف تو اپنے ہی ذریعے کی گئی نیکی کی نوعیت کو نہیں سمجھ پاتے اور تکلیف دہ حد تک اپنے ذریعے کے جانے والے احسانات کا بدلہ، اور وہ بھی ان کے تمام تر احسانات سے زیادہ بدلہ چاہتے ہیں جو انہوں نے کیے ہیں۔۔ وہ اس بات کو نہیں سمجھ پاتے کہ اگر وہ نہ ہوتے تب بھی کوئی نہ کوئی میری مدد کرتا ہی، اور اگر کوئی نہ ہوتا تو میں اپنی مدد آپ کرتا۔ پھر ایسا بھی نہیں کہ جن لوگوں نے میرے ساتھ کوئی احسان کیا ہو، میں نے کبھی ان کا کوئی کام سرے سے کیا ہی نہ ہو۔ اپنے بہتیرے دوستوں کے لیے میں نے بہت کچھ کیا ہے، اور اکثر کسی بدلے کی خواہش کے بغیر کیا۔ البتہ کبھی کبھار ایسا ضرور محسوس ہوا کہ میں فلاں کا کام کر رہا ہوں تو وہ بھی ضرور میرا کام کر دے گا۔ لیکن مجھے تسلیم ہے کہ یہ کوئی اچھی سوچ نہیں. 
جن دوستوں کے لیے میں نے اپنا بہت وقت صرف کیا ہے، اس پر مجھے نہ کبھی کوئی افسوس ہوتا ہے اور نہ میں نے کبھی اس کا کوئی حوالہ اپنے کسی دوست کو دیا ہے اور نہ آئندہ کبھی دینے کی خواہش ہے۔
ایک شخص جو آپ کا ساتھی ہو، آپ کا دن رات اس کے ساتھ اٹھنا بیٹھنا ہو، اگر وہ اس قسم کا طرز عمل اپنائے تو ذہنی اذیت کا ہونا لازمی ہے۔ سوال یہ ہے کہ ایک چھوٹے سے چھوٹا اور بڑے سے بڑا احسان، خواہ وہ قلم گر جانے پر اٹھا دینے، یا دو چار گھنٹوں سے لے کر دو چار دنوں تک دوڑ دھوپ کرنے کا احسان ہی کیوں نہ ہو، کیا اسی لیے کیا گیا تھا کہ اس کا بدلہ چاہا جائے؟ اور ہمیشہ ہمیشہ مختلف طریقوں سے اس کا حوالہ دیا جاتا رہے؟ کیا اس کا مطلب یہ نہ ہوا کہ کسی کا احسان اٹھا کر گویا ہم نے ایک دائمی اذیت مول لے لی۔ اب ہم اس کے ہاتھوں گروی ہو گئے کہ وہ جب چاہے اپنے احسانات کا حوالہ دے اور ہر مرتبہ ہم اس کے آگے دم ہلانے پر مجبور ہوں۔ ہم بارہا لوگوں کے منہ سے سنتے آئے ہیں کہ کسی کا احسان نہیں اٹھانا چاہیے، لیکن اس کا صحیح مفہوم اس وقت تک سمجھ میں نہیں آ سکتا جب تک کہ آپ عملا کسی کے احسان کے شکار نہ ہوئے ہوں۔ ہمیشہ دھیان رکھنا چاہیے کہ لوگ احسانات کر کے دراصل آپ کا شکار کر رہے ہیں، اس لیے بہتر یہی ہے کہ کسی کا احسان لینے سے پہلے بار بار سوچیں کہ تھوڑی سی زحمت سے بچنے کے لیے آپ مستقبل میں اپنے لیے کوئی بڑی مصیبت تو کھڑی نہیں کر رہے۔
لیکن زندگی میں ایسے موڑ بھی آ سکتے ہیں جب دوسروں کا احسان اٹھانا ہمارے لیے ناگزیر ہو جاتا ہے۔ اس لیے ایسے احسانات کو تجارتی نوعیت کا سمجھنا چاہیے اور انہیں وقتاََ فوقتاََ چکتا کرتے رہنا چاہیے الا یہ کہ احسان کرنے والا عالی ظرف اور وسیع القلب ہو. لیکن خبردار، احسان کبھی ایسے شخص کا نہ اٹھائیں جو انتہائی جھگڑالو ہو، یا اپنی افضلیت کو تسلیم کرانا چاہتا ہو، یا اس کی خواہش یہ ہو کہ آپ اس کے چیلا رحمانی بنے اس کے آگے ہمیشہ دم ہلاتے رہیں۔ البتہ ایسے شخص کا احسان ضرور اٹھایا جا سکتا ہے جو اس کو خالصتاََ تجارتی نوعیت کی چیز سمجھتا ہے اور آپ سے بدلے کی توقع رکھتا ہے۔ لیکن اس میں ایک دقت یہ ہے کہ آخر آخر تک یہ معلوم نہیں ہوتا کہ وہ اپنے احسان کا بدلہ کس شکل میں اور کب چاہتا ہے؟ بہتر ہے کہ اسے لوگوں سے مدد لیتے وقت، خواہ وہ کتنی ہی چھوٹی کیوں نہ ہو، یہ واضح کر دینا چاہیے کہ آپ اس کے بدلے مستقبل میں اس کی کوئی مدد اسی وقت کر سکتے ہیں جب آپ کے پاس اس کے لیے مطلوبہ وقت، سرمایہ، صحت اور صلاحیت وغیرہ پائی جاتی ہو۔
لیکن اس تمام تر احتیاطی تدابیر کے باوجود میں اب بھی یہی سمجھتا ہوں کہ احسان کا حقیقی مفہوم صرف اتنا ہے کہ یہ بالکل مفت وجود میں آنے والا عمل ہے اور جس نے کیا، اور جس پر ہوا، دونوں ایک دوسرے سے بالکلیہ آزاد ہیں اور کسی کو کسی پر کوئی فضیلت نہیں۔ محسن کی حیثیت نہ زبردست کی ہوتی ہے نہ زیردست کی۔ بلکہ جس وقت وہ ہم پر احسان کر رہا ہوتا ہے، وہی خود گویا احسانمند بھی ہوتا ہے کہ اس کو احسان کرنے کا موقع ملا۔ 

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

تحقیق کے مسائل

تحقیق ایک اہم علمی فریضہ ہے۔ تحقیق کے ذریعے ہم نامعلوم کا علم حاصل کرتے ہیں۔ غیر محسوس کو محسوس بناتے ہیں۔ جو باتیں پردہ ٔ غیب میں ہوتی ہیں، انہیں منصہ ٔ شہود پر لاتے ہیں تا کہ کسی امر میں یقینی علم ہم کو حاصل ہو، اور اس کی بنیاد پر مزید تحقیق جاری رکھی جا سکے۔تحقیق ایک مسلسل عمل ہے۔ موجودہ دور میں یہ ایک نتیجے تک پہنچنے سے زیادہ ایک طریقے ( تک پہنچنے) کا نام ہے۔نتیجہ خواہ کچھ ہو، موجودہ دور میں اس کے طریقہ ٔ کار یا منہاجیات کو صاف و شفاف بنانا فلسفیانہ طور پر زیادہ ضروری سمجھا جاتا ہے تاکہ زیادہ تر نتائج صحت کے ساتھ محسوسات کے دائرے میں حتی الامکان منتقل ہو سکیں۔ دائرہ تحقیق میں ایک مقدمہ کو نتیجہ میں بدلنے کے طریقے کی جس قدر اصلاح ہوتی جائے گی اسی قدر تحقیق معتبر مانی جائے گی۔ البتہ بعض اوقات یوں بھی ہوتا ہے کہ کسی تحقیق کا طریقہ صحیح نہیں ہو اور نتیجہ بالکل صحیح ہو۔ لیکن اس ناقابل حل مسئلے کے باوجود بہرحال طریقے میں حذف و اضافہ اور اصلاح و تصحیح کی ضرورت ہمیشہ باقی رہتی ہے۔ تحقیق کے عربی لفظ کا مفہوم حق کو ثابت کرنا یا حق کی طرف پھیرنا ہے۔ حق کے معنی سچ کے ہیں۔ مادہ حق سے...

قرآن اور بگ بینگ

ایک بہت طویل عرصے سے اہل اسلام کا مغرب زدہ طبقہ قرآن کی تصدیق جدید ترین سائنسی تحقیقات کی بنیاد پر کرنا چاہتا ہے. اس کی اصل دلیل یہ ہے کہ اگر قرآن خدا کی کتاب نہ ہوتی تو اس میں بیسویں صدی کے سائنسی انکشافات کا ذکر چودہ سو سال پہلے کیونکر ممکن تھا؟ اس سلسلے میں ایک بہت بڑی مثال بگ بینگ کی دی جاتی ہے اور قرآن کی اس آیت کو دلیل بنایا جاتا ہے: اَوَلَمْ يَرَ الَّذِيْنَ كَفَرُوْٓا اَنَّ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ كَانَتَا رَتْقًا فَفَتَقْنٰهُمَا ۭ وَجَعَلْنَا مِنَ الْمَاۗءِ كُلَّ شَيْءٍ حَيٍّ ۭ اَفَلَا يُؤْمِنُوْنَ کیا کافروں نے نہیں دیکھا کہ آسمان اور زمین دونوں ملے ہوئے تھے تو ہم نے جدا جدا کردیا۔ اور تمام جاندار چیزیں ہم نے پانی

مذہب و تصوف اور فلسفہ و سائنس کا منتہائے مقصود

     یہ کائنات نہ کوئی ڈیزائن ہے اور نہ اس کا کوئی ڈیزائنر۔ اور نہ یہ کائنات عدم ڈیزائن ہے جس کا ڈیزائنر معدوم ہے۔ یہ دونوں بیانات ناقص ہیں۔ ہم بحیثیت انسان بذریعہ حواس خارج میں جو کچھ دیکھتے ہیں وہ دراصل ہماری وجدان کی مشین اور ذہن ہی سے پروسیس ہو کر نکلتا ہے۔ اور وجدان کے اس جھروکے سے نظر آنے والی یہ کائنات ایک ایسی احدیّت کے طور پر ابھرتی ہے جس میں یہ ڈیزائن صرف ایک منظر ہے جس کی شناخت عدم ڈیزائن کے دوسرے منظر سے ہوتی ہے۔ اسی طرح اس کائنات میں منصوبہ بھی ایک منظر ہے جس کی شناخت عدمِ منصوبہ کے دوسرے منظر سے ہوتی ہے۔ کائنات میں چیزیں ایک دوسرے کے بالمقابل ہی شناخت ہوتی ہیں۔ اس لیے یہ کہنا کہ کائنات میں کوئی منصوبہ ہے اس لیے کوئی منصوبہ ساز ہونا چاہیے، یا کائنات بجائے خود کوئی ڈیزائن ہے اس لیے اس کا ڈیزائنر لازماً ہونا چاہیے ناقص خیال ہے۔ اسی طرح یہ کہنا کہ اس کائنات میں عدم ڈیزائن ہے اور اس لیے اس کا کوئی ڈیزائنر نہیں ہے یہ بھی ایک ناقص خیال ہی ہے۔ یہ دونوں بیانات آدھے ادھورے مناظر کی تعمیم کی بنا پر گمراہ کن قیاس کی مثالیں ہیں۔ یاد رہے کہ منصوبہ صرف ایک منظر ہے، یا یوں...