پیر، 17 اگست، 2015

امت کی بازیافت

فیس بک پر ایک بلند پایہ عالم دین سے ہونی والی گفتگو سے ایک اقتباس. ان کا نام حذف کر دیا گیا ہے:

عالم دین: شیعہ اور سنی فرقہ بندی مجهے بہت زیادہ مضحکہ خیز لگتی ہے. ڈیڑه ہزار سال پہلے اقتدار کے مسئلے پر جنگ ہوئی اور ختم ہوگئی. پر بعد میں آنے والے احمقوں کی جنگ ختم ہونے کا نام نہیں لیتی.

طارق صدیقی: اتحاد امت کا ہر درس جعلی/ بناوٹی ہے, یا سادہ لوحی ہے, اور اتحاد امت کے نعرے سے انتخابی پروپگنڈے کی باس آتی ہے.

عالم دین: میں اتحاد امت کی بات نہیں کررہا ہوں. میں تو امت کی بازیافت کی فکر میں ہوں. اور اسی لئے کسی فرقے کی بات مجهے نہیں بهاتی.

طارق احمدصدیقی: یہ امت فرقوں اور ذیلی فرقوں میں عقائد کی بنا پر منقسم ہو چکی ہے. اور ہر ایک فرقہ اور ذیلی فرقہ اب بجائے خود ایک امت ہے. اس لیے امت کی بازیافت کا عمل فرقوں اور ذیلی فرقوں کے اندر کی چیز ہے. اور جیسے جیسے ان فرقوں کے اندر "امت کی بازیافت" اور اس جیسی دوسری علمی کوششیں ہوتی ہیں, ویسے ویسے مزید جدید فرقے اور ذیلی فرقے وجود میں آتے چلے جاتے ہیں. اصل سے رجعت کی ہر کوشش کا نتیجہ مزید فصل, افتراق اور انتشار کی شکل میں برآمد ہوتا ہے. پس, مسلمانوں کی مذہبی وحدت اب کثرت میں بدل چکی ہے, اور امت واحدہ کا تصور پارہ پارہ ہو چکا ہے. عقائد و افکار کی بنیاد پر تقسیم در تقسیم کے ذریعے "اصل اسلام" کے  "بازیافتی عمل" سے پہلے تو خود مروجہ لفظی عقائد غیر معتبر ہوں گے, پھر ان عقائد و افکار کی ماتحت جماعتیں اور فرقے غیر معتبر ہوں گے, اور انتشار کا ایک دور اپنی انتہا کو پہنچے گا جس کے بعد مسلمان ایک دوسرے سے عقائد کی بنا پر نہیں بلکہ ماضی کی  اپنی مجرد مذہبی شناخت کی بنا پر خاندانی و معاشرتی تعلقات قائم کر سکیں گے. صرف نکاح و طلاق, اور تدفین سے متعلق رسوم و رواج عملاً باقی رہ جائیں گے لیکن ان کا اسی دنیا کی انسانی روایت سے تعلق ہوگا نہ کہ کسی اور دنیا سے:
ہم موحد ہیں, ہمارا کیش ہے ترک رسوم
ملتیں جب مٹ گئیں, اجزائے ایماں ہو گئیں
دیکھیے غالب تو ملتوں کو مٹانے کی بات کرتا ہے, دانشور وہی ہے جو قبل از وقت آنے والے حالات کی نشاندہی کرے.
ملت کی بازیافت کا یہ عمل متعدد دوسرے ناموں کے ساتھ چل رہا ہے اور اس میں امت کے ہر فرقے کے لوگ زور و شور سے لگے ہوئے ہیں لیکن وہ دراصل امت کو مزید منتشر کرنے کا کارنامہ انجام دے رہے ہیں, لیکن انہیں اس کا احساس نہیں ہو سکتا. اور یہ ملت مزید منتشر ہو, مزید سر سید, مزید شبلی و فراہی, مودودی و غامدی, جیراجپوری و پرویز, چکڑالوی و گورایہ, حنیف ندوی, فضل الرحمان, طاہرالقادری جیسے لوگ پیدا ہوں, یہی وقت کا تقاضا بھی ہے. لیکن بہت جلد, سو پچاس سالوں کے اندر اندر, امتداد زمانہ سے درکتا اور دھسکتا بوسیدہ منقولاتی تصور مذہب کا تاریخی ڈھانچہ تجددپسندانہ تاویلات و تعبیرات کے اوپری پلاسٹر اور سطحی رنگ و روغن کے باوجود بالآخر زمیں بوس ہو جائے گا اور اس کا ملبہ ایک جدید انسانی تہذیب کی تعمیر میں کام آسکے گا.
عالم دین:
انا نحن نزلنا الذکر وانا له لحافظون.
باقي سو سال بعد کیا ہوگا وہ طارق صاحب جیسے غیب داں بتاسکتے ہیں. اور چونکہ مستقبل کی بات ہے اس لئے ان کو دلیل پیش کرنے کی بهی ضرورت نہیں پڑے گی.

طارق صدیقی: آپ کا یہ تبصرہ ذاتی نوعیت کا ہے. میرے دعوے کی دلیل تبصرے میں ہی موجود ہے کہ امت کی بازیافت یا تعمیر نو یا امت سازی کا کام "اصل اسلام" کی بازیافت کے علمی کارنامے پر موقوف ہے اور جس قدر اصل اسلام (بشمول عقائد و افکار) کی بازیافتیں ہوں گی, اسی قدر نئے نئے فرقے اور ذیلی فرقے وجود میں آتے چلے جائیں گے یہاں تک کہ فرقوں کی کثرت سے خود لفظی عقیدہ غیرمعتبر ہو جائے گا, اور ان کے ماتحت فرقے بھی بے اثر ہو جائیں گے. امت کی بازیافت کا کوئی ایک طریقہ نہیں بلکہ جس قدر جماعتیں کام کر رہی ہیں, وہ سب اپنے طریقے سے عہد رسالت کے اصل اسلام ہی کو وجود میں لانا چاہتی ہیں, اس طرح تحقیق ماضی کے عمل میں دیکھنے کا ہمارا زاویہ ہی ایک سے زیادہ "اصل اسلام" کو وجود میں لاتا یے. اور ہمارا اسلام ہی اصل اسلام ہے اس لیے اسی کی بنیاد پر امت کی بازیافت, تشکیل نو یا تعمیر نو ہونی چاہیے, ایسا دعوی کسی ایک فرد یا جماعت کا نہیں ہے بلکہ بے شمار افراد اور جماعتیں یہی کر رہی ہیں, اور اصل یا حقیقی اسلام کے نام پر جو کچھ وہ پیش کرتی ہیں, اس پر قیل وقال کا ایک نیا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے, جس سے افتراق و انتشار کی نئی نئی صورتیں پیدا ہوتی ہیں.
ہر وہ شخص جس نے کم از کم دو مخالف جماعتوں کے درمیان ہونے والی علمی بحثوں کو پڑھا ہو, اس موجودہ صورتحال کا بخوبی اندازہ کر سکتا ہے جس کی طرف میں ابتدا سے ہی اشارہ کر رہا ہوں.

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

تبصرہ کریں