نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

امت کی بازیافت

فیس بک پر ایک بلند پایہ عالم دین سے ہونی والی گفتگو سے ایک اقتباس. ان کا نام حذف کر دیا گیا ہے:

عالم دین: شیعہ اور سنی فرقہ بندی مجهے بہت زیادہ مضحکہ خیز لگتی ہے. ڈیڑه ہزار سال پہلے اقتدار کے مسئلے پر جنگ ہوئی اور ختم ہوگئی. پر بعد میں آنے والے احمقوں کی جنگ ختم ہونے کا نام نہیں لیتی.

طارق صدیقی: اتحاد امت کا ہر درس جعلی/ بناوٹی ہے, یا سادہ لوحی ہے, اور اتحاد امت کے نعرے سے انتخابی پروپگنڈے کی باس آتی ہے.

عالم دین: میں اتحاد امت کی بات نہیں کررہا ہوں. میں تو امت کی بازیافت کی فکر میں ہوں. اور اسی لئے کسی فرقے کی بات مجهے نہیں بهاتی.

طارق احمدصدیقی: یہ امت فرقوں اور ذیلی فرقوں میں عقائد کی بنا پر منقسم ہو چکی ہے. اور ہر ایک فرقہ اور ذیلی فرقہ اب بجائے خود ایک امت ہے. اس لیے امت کی بازیافت کا عمل فرقوں اور ذیلی فرقوں کے اندر کی چیز ہے. اور جیسے جیسے ان فرقوں کے اندر "امت کی بازیافت" اور اس جیسی دوسری علمی کوششیں ہوتی ہیں, ویسے ویسے مزید جدید فرقے اور ذیلی فرقے وجود میں آتے چلے جاتے ہیں. اصل سے رجعت کی ہر کوشش کا نتیجہ مزید فصل, افتراق اور انتشار کی شکل میں برآمد ہوتا ہے. پس, مسلمانوں کی مذہبی وحدت اب کثرت میں بدل چکی ہے, اور امت واحدہ کا تصور پارہ پارہ ہو چکا ہے. عقائد و افکار کی بنیاد پر تقسیم در تقسیم کے ذریعے "اصل اسلام" کے  "بازیافتی عمل" سے پہلے تو خود مروجہ لفظی عقائد غیر معتبر ہوں گے, پھر ان عقائد و افکار کی ماتحت جماعتیں اور فرقے غیر معتبر ہوں گے, اور انتشار کا ایک دور اپنی انتہا کو پہنچے گا جس کے بعد مسلمان ایک دوسرے سے عقائد کی بنا پر نہیں بلکہ ماضی کی  اپنی مجرد مذہبی شناخت کی بنا پر خاندانی و معاشرتی تعلقات قائم کر سکیں گے. صرف نکاح و طلاق, اور تدفین سے متعلق رسوم و رواج عملاً باقی رہ جائیں گے لیکن ان کا اسی دنیا کی انسانی روایت سے تعلق ہوگا نہ کہ کسی اور دنیا سے:
ہم موحد ہیں, ہمارا کیش ہے ترک رسوم
ملتیں جب مٹ گئیں, اجزائے ایماں ہو گئیں
دیکھیے غالب تو ملتوں کو مٹانے کی بات کرتا ہے, دانشور وہی ہے جو قبل از وقت آنے والے حالات کی نشاندہی کرے.
ملت کی بازیافت کا یہ عمل متعدد دوسرے ناموں کے ساتھ چل رہا ہے اور اس میں امت کے ہر فرقے کے لوگ زور و شور سے لگے ہوئے ہیں لیکن وہ دراصل امت کو مزید منتشر کرنے کا کارنامہ انجام دے رہے ہیں, لیکن انہیں اس کا احساس نہیں ہو سکتا. اور یہ ملت مزید منتشر ہو, مزید سر سید, مزید شبلی و فراہی, مودودی و غامدی, جیراجپوری و پرویز, چکڑالوی و گورایہ, حنیف ندوی, فضل الرحمان, طاہرالقادری جیسے لوگ پیدا ہوں, یہی وقت کا تقاضا بھی ہے. لیکن بہت جلد, سو پچاس سالوں کے اندر اندر, امتداد زمانہ سے درکتا اور دھسکتا بوسیدہ منقولاتی تصور مذہب کا تاریخی ڈھانچہ تجددپسندانہ تاویلات و تعبیرات کے اوپری پلاسٹر اور سطحی رنگ و روغن کے باوجود بالآخر زمیں بوس ہو جائے گا اور اس کا ملبہ ایک جدید انسانی تہذیب کی تعمیر میں کام آسکے گا.
عالم دین:
انا نحن نزلنا الذکر وانا له لحافظون.
باقي سو سال بعد کیا ہوگا وہ طارق صاحب جیسے غیب داں بتاسکتے ہیں. اور چونکہ مستقبل کی بات ہے اس لئے ان کو دلیل پیش کرنے کی بهی ضرورت نہیں پڑے گی.

طارق صدیقی: آپ کا یہ تبصرہ ذاتی نوعیت کا ہے. میرے دعوے کی دلیل تبصرے میں ہی موجود ہے کہ امت کی بازیافت یا تعمیر نو یا امت سازی کا کام "اصل اسلام" کی بازیافت کے علمی کارنامے پر موقوف ہے اور جس قدر اصل اسلام (بشمول عقائد و افکار) کی بازیافتیں ہوں گی, اسی قدر نئے نئے فرقے اور ذیلی فرقے وجود میں آتے چلے جائیں گے یہاں تک کہ فرقوں کی کثرت سے خود لفظی عقیدہ غیرمعتبر ہو جائے گا, اور ان کے ماتحت فرقے بھی بے اثر ہو جائیں گے. امت کی بازیافت کا کوئی ایک طریقہ نہیں بلکہ جس قدر جماعتیں کام کر رہی ہیں, وہ سب اپنے طریقے سے عہد رسالت کے اصل اسلام ہی کو وجود میں لانا چاہتی ہیں, اس طرح تحقیق ماضی کے عمل میں دیکھنے کا ہمارا زاویہ ہی ایک سے زیادہ "اصل اسلام" کو وجود میں لاتا یے. اور ہمارا اسلام ہی اصل اسلام ہے اس لیے اسی کی بنیاد پر امت کی بازیافت, تشکیل نو یا تعمیر نو ہونی چاہیے, ایسا دعوی کسی ایک فرد یا جماعت کا نہیں ہے بلکہ بے شمار افراد اور جماعتیں یہی کر رہی ہیں, اور اصل یا حقیقی اسلام کے نام پر جو کچھ وہ پیش کرتی ہیں, اس پر قیل وقال کا ایک نیا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے, جس سے افتراق و انتشار کی نئی نئی صورتیں پیدا ہوتی ہیں.
ہر وہ شخص جس نے کم از کم دو مخالف جماعتوں کے درمیان ہونے والی علمی بحثوں کو پڑھا ہو, اس موجودہ صورتحال کا بخوبی اندازہ کر سکتا ہے جس کی طرف میں ابتدا سے ہی اشارہ کر رہا ہوں.

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

تحقیق کے مسائل

تحقیق ایک اہم علمی فریضہ ہے۔ تحقیق کے ذریعے ہم نامعلوم کا علم حاصل کرتے ہیں۔ غیر محسوس کو محسوس بناتے ہیں۔ جو باتیں پردہ ٔ غیب میں ہوتی ہیں، انہیں منصہ ٔ شہود پر لاتے ہیں تا کہ کسی امر میں یقینی علم ہم کو حاصل ہو، اور اس کی بنیاد پر مزید تحقیق جاری رکھی جا سکے۔تحقیق ایک مسلسل عمل ہے۔ موجودہ دور میں یہ ایک نتیجے تک پہنچنے سے زیادہ ایک طریقے ( تک پہنچنے) کا نام ہے۔نتیجہ خواہ کچھ ہو، موجودہ دور میں اس کے طریقہ ٔ کار یا منہاجیات کو صاف و شفاف بنانا فلسفیانہ طور پر زیادہ ضروری سمجھا جاتا ہے تاکہ زیادہ تر نتائج صحت کے ساتھ محسوسات کے دائرے میں حتی الامکان منتقل ہو سکیں۔ دائرہ تحقیق میں ایک مقدمہ کو نتیجہ میں بدلنے کے طریقے کی جس قدر اصلاح ہوتی جائے گی اسی قدر تحقیق معتبر مانی جائے گی۔ البتہ بعض اوقات یوں بھی ہوتا ہے کہ کسی تحقیق کا طریقہ صحیح نہیں ہو اور نتیجہ بالکل صحیح ہو۔ لیکن اس ناقابل حل مسئلے کے باوجود بہرحال طریقے میں حذف و اضافہ اور اصلاح و تصحیح کی ضرورت ہمیشہ باقی رہتی ہے۔ تحقیق کے عربی لفظ کا مفہوم حق کو ثابت کرنا یا حق کی طرف پھیرنا ہے۔ حق کے معنی سچ کے ہیں۔ مادہ حق سے...

قرآن اور بگ بینگ

ایک بہت طویل عرصے سے اہل اسلام کا مغرب زدہ طبقہ قرآن کی تصدیق جدید ترین سائنسی تحقیقات کی بنیاد پر کرنا چاہتا ہے. اس کی اصل دلیل یہ ہے کہ اگر قرآن خدا کی کتاب نہ ہوتی تو اس میں بیسویں صدی کے سائنسی انکشافات کا ذکر چودہ سو سال پہلے کیونکر ممکن تھا؟ اس سلسلے میں ایک بہت بڑی مثال بگ بینگ کی دی جاتی ہے اور قرآن کی اس آیت کو دلیل بنایا جاتا ہے: اَوَلَمْ يَرَ الَّذِيْنَ كَفَرُوْٓا اَنَّ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ كَانَتَا رَتْقًا فَفَتَقْنٰهُمَا ۭ وَجَعَلْنَا مِنَ الْمَاۗءِ كُلَّ شَيْءٍ حَيٍّ ۭ اَفَلَا يُؤْمِنُوْنَ کیا کافروں نے نہیں دیکھا کہ آسمان اور زمین دونوں ملے ہوئے تھے تو ہم نے جدا جدا کردیا۔ اور تمام جاندار چیزیں ہم نے پانی

مذہب و تصوف اور فلسفہ و سائنس کا منتہائے مقصود

     یہ کائنات نہ کوئی ڈیزائن ہے اور نہ اس کا کوئی ڈیزائنر۔ اور نہ یہ کائنات عدم ڈیزائن ہے جس کا ڈیزائنر معدوم ہے۔ یہ دونوں بیانات ناقص ہیں۔ ہم بحیثیت انسان بذریعہ حواس خارج میں جو کچھ دیکھتے ہیں وہ دراصل ہماری وجدان کی مشین اور ذہن ہی سے پروسیس ہو کر نکلتا ہے۔ اور وجدان کے اس جھروکے سے نظر آنے والی یہ کائنات ایک ایسی احدیّت کے طور پر ابھرتی ہے جس میں یہ ڈیزائن صرف ایک منظر ہے جس کی شناخت عدم ڈیزائن کے دوسرے منظر سے ہوتی ہے۔ اسی طرح اس کائنات میں منصوبہ بھی ایک منظر ہے جس کی شناخت عدمِ منصوبہ کے دوسرے منظر سے ہوتی ہے۔ کائنات میں چیزیں ایک دوسرے کے بالمقابل ہی شناخت ہوتی ہیں۔ اس لیے یہ کہنا کہ کائنات میں کوئی منصوبہ ہے اس لیے کوئی منصوبہ ساز ہونا چاہیے، یا کائنات بجائے خود کوئی ڈیزائن ہے اس لیے اس کا ڈیزائنر لازماً ہونا چاہیے ناقص خیال ہے۔ اسی طرح یہ کہنا کہ اس کائنات میں عدم ڈیزائن ہے اور اس لیے اس کا کوئی ڈیزائنر نہیں ہے یہ بھی ایک ناقص خیال ہی ہے۔ یہ دونوں بیانات آدھے ادھورے مناظر کی تعمیم کی بنا پر گمراہ کن قیاس کی مثالیں ہیں۔ یاد رہے کہ منصوبہ صرف ایک منظر ہے، یا یوں...