نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

ادارت کا فن اور اس کے مراحل

کوئی بھی انسانی کارنامہ اپنی تمام تر خوبیوں کے باوصف تسامحات، غلطیوں اور فروگزاشتوں سے مبرا نہیں ہوتا۔ اس میں کسی نہ کسی سطح پر اور کسی نہ کسی حد تک خطا کا امکان بہرحال پایا جاتا ہے اور یہ دعویٰ نہیں کیا جا سکتا کہ وہ خامیوں سے یکسر محفوظ ہے اور اس میں کسی بھی نقطہ نظر سے حذف و اضافہ، تصحیح یا ترتیب و تہذیب کی ضرورت نہیں۔زندگی کے مختلف شعبوں میں انسانی کارناموں کو نقائص سے ممکنہ حد تک پاک کرنے اور انہیں ایک زیادہ مکمل شکل دینے کی غرض  سے مختلف طریقے اپنائے جاتے ہیں۔علوم و فنون کے متعدد شعبوں  میں ادارت ایسا ہی ایک طریقہ ہے جو علم و ادب سے متعلق  متعدد اصناف کی تصحیح و تکمیل کے لیے ابتدا ہی سے  اپنایا جاتارہا  ہے۔ موجودہ دور میں دیگر علوم و فنون کی طرح ادارت کے فن نے بھی بڑی ترقی کی ہے جس کے نتیجے میں وہ ایک منظم ، باضابطہ اور باقاعدہ فن کے طور پر تسلیم کیاجاتا ہے۔فی زمانہ ادارت کاعمل الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا کے ہر شعبے میں جاری و ساری  ہے  اورعلمی و فکری کارناموں اور اخباری صحافت کے علاوہ  فلم ، ریڈیو اور ٹیلی وژن  کی دنیا میں بھی اس فن کا دور دورہ ہے۔ لیکن ذرائع ابلاغ کی مختلف اصناف اور ہیئتوں میں  فن ادارت کی اپنی منفرد اور جداگانہ اہمیت ہے۔ مثلاً فلم اور ڈاکیومنٹری کی صنف میں ادارت  بعینہ وہی چیز نہیں ہے جو جو صحافت کے شعبے میں ہے ۔ وہاں اس کا تصور، اس کا ضابطہ ٔ اخلاق ، اس کے حدود کار اور اس کے مراحل بہت دوسرے ہیں۔ ہم جانتے ہیں کہ صحافت کی دنیا میں مدیروں کو وہی اختیارات حاصل ہیں جو فلمی دنیا میں ہدایت کاروں کو۔ لیکن فن ادارت کی مختلف شعبوں اور اصناف میں اس کی حیثیت و نوعیت سے انتہائی حد  تک صرف نظر کرتے ہوئے ہم یہاں علم و فکر، شعروادب ، ترجمہ اور صحافت کی دنیا میں فن ادارت  اور اس کے مختلف مراحل کا جائزہ لیں گے۔
ادارت ‘ عربی کے لفظ ’ادارہ‘ سے ماخوذ ہے جس کے معنی تدبیر، انتظام ،حکم، اور توجیہ کے ہیں۔  اردو میں اس سے مراد ایک اجتماعی ہیئت  کے بھی ہیں جس نے کوئی کام اپنے ذمے لیا ہو۔ آگے چل کر علمی ضروریات کے تحت اردو میں ادارت کے لفظ میں انگریزی کے لفظ edit کے مختلف لغوی اور اصطلاحی معنی بھی شامل ہو گئے جن میں سے ایک ہے: ’’کسی تحریری، سمعی، یا بصری مواد کی اشاعت کی غرض سے اس کو ترتیب دینا اور اس پر نظرثانی کرنا‘‘۔ آسان طور پر اس کا مقصد کسی متن میں ممکنہ طور پر پائی جانے والی مختلف قسم کی خامیوں اور کمیوں کی اصلاح ہے تا کہ مواد یا متن کو اشاعت کی غرض سے بہتر اور مکمل شکل میں پیش کیا جا سکے۔
فن ادارت کاایک  وسیع تر مفہوم
بہت کم تحریریں یا متون ایسے ہوتے ہیں جو ادارت کے مختلف مراحل سے گزرے بغیر شائع کیے جا سکتے ہوں۔ اور اس صورت میں بھی عام طور پر مصنف خود اپنے متن کی ادارت کرتا ہے۔ البتہ بعض استثنائی صورتیں اس کے باوجود پائی جاتی ہیں، مثلاً بہت سے شعرا اپنی موزونی طبع کے سبب فی البدیہ طویل نظمیں اور غزلیں بھی کہتے رہے ہیں، اور بہت سے مقرر ایسے خطبے بھی دیتے  رہے ہیں، جنہیں تحریری شکل میں لانے کے بعد ادارت کی گنجائش نہیں رہتی یعنی ان میں کسی حذف و اضافہ یا تصحیح مزید کی گنجائش نہیں ہوتی۔ پھربھی یہ نہیں کہا جا سکتا کہ وہ شعرا اور مقررین اپنے فی البدیہہ اظہار سے پہلے خود اپنے ذہن میں خلق ہونے والے اشعار یا خطبے کی تصحیح نہ کرلیتے ہوں گے، یا کم از کم اظہار سے پہلے ان کے ذہن میں ادارت یا اس جیسا کوئی عمل واقع نہ ہوتا ہوگا۔ پس بغور جائزہ لینے پر امرواقعہ تو یہی نظر آتا ہے کہ وسیع ترین معنوں میں ادارت خود تخلیق کے متوازی طور پر، یا اس کے فوراً یا ایک عرصے کے بعد پیش آنے والا فطری عمل ہے جو کہ ایک طرف شاعر، مقرر یا مصنف کی سطح پرانجام دیے جانے والے تخلیقی و تنقیدی عمل کا  حصہ ہے تو دوسری طرف اس متن کی نشرواشاعت کے لیے ادارتی سطح پر انجام دیا جانے والا ایک غیرجانب دارانہ اورہم نفسی پر مبنی عمل[1] ہے جس کے لیے مختلف الاقسام صلاحیتوں کے ساتھ تنقیدی و تخلیقی صفات بھی  درکار ہوتی ہیں۔
فن ادارت کی تعریف
فن ادارت کے اس قدر وسیع تر معنوں کے ساتھ اس کامتعینہ مفہوم اور اصطلاحی معنی بھی ہیں اور اس کے کچھ فکری و تکنیکی تقاضے اور پیشہ ورانہ اصول و آداب یا حدود بھی۔ متعینہ معنوں میں ادارت کسی متن میں ممکنہ طور پر پائی جانے والی مختلف قسم کی خامیوں اور غلطیوں کی تصحیح، اور متن میں حذف و اضافہ کرنا ہے تا کہ  اس میں بقدر ضرورت اور / یا مطلوبہ جامعیت اور ایجاز و اختصار پیدا ہو سکے۔موجودہ دور میں ادارت پرنٹ میڈیا سے لے کر الیکٹرانک میڈیا تک میں رائج ایک وسیع سرگرمی ہے جس کی تعریف درج ذیل طور پر کی جا سکتی ہے:
ادارت کسی منتخب سمعی، بصری اور تحریری مواد یا متن کی تصحیح، اس کی بقدر ضرورت تلخیص، اس کی تنظیم، اور دیگر تبدیلیوں پر مبنی ایک تخلیقی، تحقیقی اور تنقیدی عمل ہے جس کا مقصد اس مواد یا متن کو بہتر، مربوط ، جامع ومانع اور مکمل شکل میں پیش کرنا ہے۔
ادارت بحثیت فن
ادارت ایک فن  یا آرٹ ہے ۔ اور آرٹ  ہمیشہ اپنی فطرت میں سائنس سے بہت دور ہوتی ہے۔  بلاشبہ ادارت  کے تحت  سائنسی نوعیت کی کارروائیاں بھی ہوتی ہیں، مثلاً، متن کے لسانیاتی، کتابیاتی، اشاریاتی ، حوالہ جاتی اور حسابی پہلو و ں کی ادارت ۔ لیکن بحثیت مجموعی ادارت متن کے ساتھ اس قدر لطیف ، نہ پکڑ میں آنے والی مگر اثر انگیز کارروائی ہے کہ جب ایک لائق مصنف ادارت کے بعد اپنے متن کو دیکھتا ہے تو اسے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ یہ ہے تو وہی متن جو اس نے لکھا تھا لیکن صحت و صفائی کے بعد اس کی فکری صلابت اور اثرپذیری میں بڑا اضافہ ہوگیا ہے ۔ اور اس بات کو صرف ایک مصنف ہی محسوس کر سکتا ہے یا  پھر وہ لوگ جو ادارت کے فن پر قدرت کاملہ رکھتے ہیں۔ ایسا نہیں ہے کہ ادارت کسی ناکارہ متن کو بامعنی بنا سکتی ہے لیکن یہ ضرور ہے کہ وہ ایسے متون کو جو انتہائی عجلت میں لیکن برسوں کے غور و فکر کے بعد لکھے گئے ہوں، انتہائی حد تک بااثر بنا سکتی ہے۔ دراصل مدیر کی فنکارانہ مہارت ایسے متون کے قلب میں جھانکتی ہے اور وہاں سے وہ کچھ نکال لاتی ہے جو مصنف کے لیے وقت کی کمی اور عجلت کے سبب ممکن نہیں ہوسکتا تھا۔ ایک فن کی حیثیت سے ادارت اپنے پیش نظر متن میں اسی طرح مستغرق اور منہمک ہوتی ہے جس طرح ایک سنگ تراش اپنے مجسمے کی تخلیق کے بعد اس کی مزید  تراش خراش  کرتے ہوئے فائینل ٹچ دیتا ہے ۔ یہ واقعی ایک حیرت انگیز امر ہے کہ مدیر اس متن کو جونہ کبھی اس کا تھا اور نہ کبھی اس کا ہو سکے گا، کچھ اسی طرح سنوارتا ہے جس طرح ایک مصور اپنی پینٹنگ کی ، ایک فوٹوگرافر اپنی تصویر کی نوک پلک  درست کرتا ہے۔ دوسروں کے متن کی اس قدر انہماک کے ساتھ نوک پلک  درست کرنا، اس کو اس رخ پر لے جانا جس پر خود اس متن کا مصنف لے جانا چاہتا تھا، دراصل ایک ایسا بے غرض اور لوث فن ہے جو کہ انسانی بصیرتوں سے معمورایک ذہن و دل کا وظیفہ  ہی ہو سکتا ہے۔ ادارت کی سب بڑی اور بااثر منزلوں میں سے ایک ہے ایک  بااثر رسالے کا مدیر ہونا جس کے تحت ایک مدیر اپنے رسالے میں شائع ہونے والی تحریروں پر اثر ڈالتا ہے اور ایسے مصنفوں کی بھیڑ سے ایسے مصنفوں کو نکال لاتا ہے جن کے متن واقعی قابل رشک کہے جا سکتے ہیں۔ اردو ادب میں ایسے مدیروں اور رسالوں کی کمی نہیں ہے۔
ادارتی عمل کیا ہے؟
ادارت کے فن کی حقیقت و نوعیت کواور قریب  سے سمجھنے کے لیے ادارت کے عمل  سے واقفیت اور اس کو محسوس کرنا ضروری ہے۔ ادارتی عمل متن کے ساتھ مختلف الاقسام کارروائیوں پر مشتمل ہے۔ اس میں زبان و بیان کی روانی و سلاست کے نقطہ نظر سے بھی حذف و اضافے کیے جا سکتے ہیں، اور موضوع و مضمون کے لحاظ سے سے بھی بعض مشکل مقامات کو کھولا جا سکتا ہے: متن میں نئے الفاظ اور جملے جوڑے جا سکتے ہیں؛ غیر موزوں الفاظ اور جملوں پیرگراف، حتی کہ ابواب تک کو قلم زد کیا جا سکتا ہے اگر اس کی واقعی ضرورت ہو؛ متن کے مدعا، اس کے مشتملات ، اور  سیاق و سباق کو ملحوظ رکھتے ہوئے جملوں اور پیراگراف، اور ابواب کو آگے پیچھے کیا جا سکتا ہے؛ کہیں پر مصنف کا مدعا واضح نہ ہو تو حاشیے میں مصنف کا مدعا ظاہر کیا جا سکتا ہے (خاص طور سے اگر مصنف زندہ یا دستیاب نہ ہو) اور دیگر نوعیتوں کے ادارتی حاشیے بھی لکھے جا سکتے ہیں؛ بعض اوقات ادبی متون میں مصنف کی اجازت سے نئے استعارات و تشبیہات اور دیگر ادبی نوعیت کی تفصیلات داخل کرنے کے مشورے دیے جا سکتے ہیں ؛ زبان و بیان کی غلطیوں کی مروجہ معیاری زبان کے لحاظ سے تصحیح کی جا سکتی ہے اور انہیں روزمرہ کے لحاظ سے درست کیا جا سکتا ہے نیز مروجہ یا راجح املا کے لحاظ سے الفاظ کی تصحیح کی جا سکتی ہے—الغرض ایک متن کو فنی لحاظ سے معیاری، جامع، موزوں، بقدر ضرورت مختصر، موثر اور مکمل شکل دینے اور اس طرح اس کو قابل اشاعت بنانے کے لیے فن ادارت سے کام لیتے ہوئے ہر وہ کارروائی کی جا سکتی ہے جو مسلمہ علمی وفکری او راخلاقی اصولوں کے اعتبار سے مفید، ضروری یا ناگزیر ہو۔
فن ادارت  اور مدیر کے حدود و اختیارات
لیکن اس پورے عمل میں یہ واضح رہنا چاہیے کہ ہرمدیر کو کسی متن کو اڈٹ کرتے وقت ان سب کارروائیوں کے اختیارات  ایک ساتھ حاصل نہیں ہوتے۔ ایک مدیر کو مذکورہ کارروائیوں کا اختیار تبھی حاصل ہوتا ہے جب اخبار، رسالے یا اشاعت گھر کے مالک، اور خود متن کے مصنف کو مدیر کی علمی و فکری صلاحیت و لیاقت اور اس کی اخلاقی دیانت داری پر پورا اعتماد ہو اورانہوں نے اس کا باضابطہ اظہار بھی کیا ہو۔ ورنہ ایسا بھی دیکھنے آتا رہا ہے کہ مدیروں کو اپنی اصلاح اور کاٹ چھانٹ کے نیتجے میں بعض قانونی مسائل کا سامنا کرنا پڑا۔ اس ضمن میں ہر ادارہ ایک واضح پالیسی اپناتا ہے اور مصنف یا متن کے خالق سے ادارت کی پیشگی اجازت لیتا ہے یا یہ بات از خود ملحوظ ہوتی ہے، اور مدیر کو ادارہ کی پالیسیوں کے مطابق کام کرنا ہوتا ہے۔ دراصل مدیر کی پیشہ ورانہ ایمانداری کا اولین تقاضا یہی ہے کہ وہ اپنے ادارے کی پالیسی کے لحاظ سے، اور حاصل شدہ اختیارات کے مطابق اپنے فرائض انجام دے۔

فن ادارت  کے لیے مطلوبہ صلاحیتں اور اس کی صفات
ادارت کا پورا عمل اس قدر نازک، پیچیدہ، نتائج کے اعتبار سے دوررس ہوتا ہے کہ ایک مدیر اگر انتہائی ذکی الحس اور فکری طور پر پختہ نہ ہو تو بڑے مسائل پیدا ہو سکتے ہیں۔ اس کے علاوہ ادارت کے لیے ایک شخص میں مطلوبہ تخلیقی، تحقیقی اور تنقیدی صلاحیت کا ہونا بھی ضروری ہے۔ اگر اس میں مطلوبہ تخلیقی صلاحیت نہیں پائی جائے گی تو وہ مصنف کے ذریعے تخلیق کردہ متن کو کماحقہ سمجھ نہیں سکتا۔ اسے مصنف کے ذہن میں چل رہے تخلیقی پروسیس میں جھانکنا ہوتا ہے تا کہ وہ پیش نظر متن کو سمجھنے کے بعد اس میں کسی قسم کا حذف و اضافہ کر سکے۔ اسی طرح اگر وہ تحقیقی و تنقیدی صلاحیت سے عاری ہوگا تو نہ تو وہ متن میں پائی جانے والی غلطیوں کی نشاندہی کر سکتا ہے اور نہ اس کی تصحیح کے سلسلے میں کوئی فیصلہ لے سکتا ہے۔ یہ تمام تر صفات ایک شخص کے اندروسیع مطالعہ، مسلسل غور و فکراور اپنی تخلیقی و تنقیدی صلاحیت کوبروئے کار لانے، نیز مسلسل علمی نوعیت کے کام کرنے رہنے سے پیدا ہوتی ہیں۔ پھر ایک طویل عرصے تک ادارتی کاموں کی مشق کرتے رہنے سے ایک شخص کے اندر وہ مطلوبہ بصیرت پیدا ہو جاتی ہے جس کی بنیاد پر وہ بہ آسانی یہ فیصلہ کر سکتا ہے کہ متن میں کہاں کہاں اور کیا کیا حذف و اضافہ کی ضرورت ہے، یا اس میں سرے سےکسی بڑی تبدیلی کی ضرورت نہیں۔
ادارت کے مراحل
کسی بھی متن کی ادارت کے کئی مراحل ہیں اور ضرورت پڑنے پر ہر مرحلے کے لیے الگ الگ مدیروں کا انتخاب کیا جا سکتا ہے۔ پھر ہر ایک مرحلے میں اگر ضرورت ہو تو مدیر متعلقہ مصنف سے رابطہ قائم کرتا ہے اور اسے متن میں مختلف نقطہ ہائے نظر سے اصلاحات کی تجاویز پیش کر سکتا ہے۔ ادارت کے خاص مراحل درج ذیل ہیں:


پہلا مرحلہ: مصنف کا مسودے پر نظرثانی کرنا
کسی متن کو مدیر کے حوالے کرنے سے پہلے مصنف خود اس پر نظر ثانی کرتا ہے اور مختلف پہلووں سے اس میں حذف و اضافہ کرتا ہے اور اسے اپنی طرف سے آخری شکل دیتا ہے۔
دوسرا مرحلہ: متن کا جائزہ اور مصنف کو مشورہ
مدیر زیر نظر متن کا بقدرضرورت بغور جائزہ لیتا ہے اور اس میں موجود مسائل یا خامیوں کا پتا لگاتا ہے اور اس غرض سے یادداشتیں تحریر کرتا ہے۔ اس عمل میں وہ بطور نمونہ متن کے چند پیراگراف یا ضرورت ہو تو طویل اقتباسات یا متن کے بعض منتخب حصوں کی بنیاد پر تمام تر متن میں موضوع اور مضمون، اسلوب، زبان و قواعد، اور فکری و فنی لحاظ سے پائے جانے والے مسائل یا خامیوں کا پتا لگاتا ہے۔ اس جائزے کے بعد وہ مصنف کو بحیثیت مدیر اپنے تاثرات سے مدلل طور پر زبانی یا تحریری طور پر آگاہ کرتا ہے۔ (بعض اوقات مدیر کو مصنف یا پبلشر کی طرف سے ہر قسم کی اصلاح کی پیشگی اجازت حاصل ہوتی ہے۔)
تیسرا مرحلہ: ساختی ادارت (Structural Editing)

یہ تیسرا مرحلہ ہے جو مصنف یا پبلشر کی طرف سے مجوزہ اصلاحات کی اجازت مل جانے کےبعد شروع ہوتا ہے۔ اس مرحلے میں مدیر بنیادی طور پر اپنے حاصل شدہ اختیارات اور ادارتی پالیسی کے حدود میں رہتے ہوئے متن کے موضوع اور مضمون، اس میں پائے جانے والے مفاہیم، منطقی ترتیب، خیالات کے مابین ربط و تعلق کا جائزہ لیتا ہے اور اس سے متعلق اصلاح کا کام انجام دیتا ہے۔ اس مرحلے میں درج ذیل کام انجام دیے جاتے ہیں:
۱۔ مدیر اپنے پیش نظر ادبی، علمی، سائنسی یا دیگر نوعیت کے متن کے  ابتدائی حصے (تعارف، مقدمہ)، اس کے درمیانی حصے (تحقیق، تجزیہ) اور آخری حصے (حاصل کلام، نتیجہ) کا جائزہ لیتا ہے کہ آیا ان میں موضوع اور مضمون کے لحاظ سے ربط ہے یا نہیں نیز متن کے کلی مفہوم کے اعتبار سے کوئی منطقی عدم تسلسل تو واقع نہیں ہو رہا ہے۔ یعنی وہ دیکھتا ہے کہ: ابتدائی حصے میں پورے متن کا تعارف ٹھیک طور پر لکھا اور تمام مقدمات درست طور پر قائم کیے گئے ہیں یا نہیں؛ درمیانی حصے میں ابتدا میں قائم کردہ مقدمات کی بنیاد پر منطقی تحقیق و تجزیہ یا اس کے مناسب و موزوں اظہار خیال کیا گیا ہے یا نہیں؛ پھر آخری حصہ میں، ابتدائی اور درمیانی حصے کی بنیاد پر برامد ہونے والے نتائج یا اثبات شدہ حقائق کو صحت کے ساتھ پیش کیا گیا ہے یا نہیں؛ اور اگر مدیر کے پیش نظر کوئی ادبی متن ہے تو کہانی یا نظم کی ساخت، اس کی ابتدا، وسط اور انتہا میں ربط و تسلسل ہے یا نہیں، نیز ان میں موضوع کے مناسب حال اسلوب، تفصیلات اور ادبی نوعیت کے مشتملات پائے جاتے ہیں یا نہیں۔
مذکورہ تمام جائزوں کے بعد یا تو متوازی طور پر بروقت تصحیح کی جاتی ہے یا متن کی نوعیت کو دیکھتے ہوئے اور ضرورت پڑنے پر مصنف کو اس کے بعض حصوں کو دوبارہ لکھنے کا مشورہ دیا جاتا ہے۔
ساختی ادارت میں چونکہ کئی بار مصنف سے مشورہ کرنا پڑسکتا ہے، اس لیے اُس مرحلے میں میں ہر سطر کی ادارت نہیں ہو سکتی۔  سطر در سطر ادارت کے لیے ایک الگ مرحلہ ہے جس کو سطری ادارت کہتے ہیں۔
چوتھا مرحلہ: سطری ادارت
 (Line Editing)
اس مرحلے میں متن کے ایک ایک جملے اور پیراگراف کو بغور پڑھتے، ربط و تعلق کا جائزہ لیتے ہوئے خامی پائے جانے پر اس کی تصحیح بھی کی جاتی ہے، مثال کے طور پر:  جملوں میں غیرضروری الفاظ اور پیراگرافوں میں خیالات کی غیرضروری تکرار کو حذف کرنا؛ ایک جملے کو دوسرے جملے سے جوڑنا اور توڑنا؛ حاصل شدہ اجازت اور موضوع اور مضمون کے لحاظ سے، نیز مصنف کے اسلوب کے لحاظ سے مصنف کو نئے الفاظ اور جملوں کا اضافہ کرنے کا مشورہ دینا، یا خود ہی مختصر اضافے کردینا۔ یہ پورا عمل چونکہ مصنف اور مدیر کے درمیان طے شدہ معاہدے اور متن کی نوعیت پر منحصر کرتا ہے، اور یہ نظری سے زیادہ عملی نوعیت کا مسئلہ ہے، اس لیے اس کے کوئی بہت واضح اصول متعین نہیں کیے جا سکتے ہیں، البتہ اس سلسلے میں مدیر کو مصنف اور مدیر کا فرق بہرحال ملحوظ رکھنا چاہیے اور کسی ایسے حذف و اضافہ سے کام نہیں لینا چاہیے جو تصنیف و ادارت دونوں کے پیشہ ورانہ اخلاقی اصولوں کے منافی ہو۔
سطری ادارت ساختی ادارت سے مختلف تو ہے لیکن اس میں بھی تقریباً انہی صلاحیتوں کی ضرورت پڑتی ہے اس لیے عام طور پر ساختی ادارت کرنے والے مدیر کو ہی سطری ادارت کرنی چاہیے۔
پانچواں مرحلہ: کاپی ادارت
 (Copy Editing)
یہ ادارت کا آخری مرحلہ ہے۔ متن کی بڑی خامیاں اس سے پہلے کے مراحل میں دور ہو چکی ہوتی ہیں۔ کاپی ادارت کے اس مرحلے میں پورے مسودے کو سطردرسطر بغور پڑھتے ہوئے اور قواعد، املا، رموز اوقاف وغیرہ کے لحاظ سے اس کی تصحیح کی جاتی ہے۔ اکثر رموز اوقاف کے نامناسب استعمال سے مفہوم میں غیرمتوقع تبدیلیاں واقع ہو جاتی ہیں۔ کبھی کبھی مصنف یا خود سابقہ ادارت کے عمل میں غیر مروجہ املا درج ہو جاتا ہے، کبھی لفظوں، سطروں اور پیرگراف کے درمیان خلا کی کمی یا زیادتی جیسی متعدد غلطیاں متن میں راہ پا جاتی ہیں ۔ کاپی اڈیٹران سب خاموں کی اصلاح اپنے ادارے میں مروجہ اسٹائیل مینوئیل کو ذہن میں رکھتے ہوئے کرتا ہے۔
مذکورہ بالا پانچ مراحل میں ادارتی عمل کی انجام دہی سے متن میں زبان و بیان کے اعتبار سے سلاست و روانی پیدا ہوتی ہے اور وہ موضوع و مضمون کے اعتبار سے ایک نکھری ہوئی اور مکمل شکل میں سامنے آتا ہے۔ پھر مسودے کو کتابت یا کمپوزنگ کے لیے روانہ کر دیا جاتا ہے جہاں کاتب اڈٹ کیے گئے مسودے کی کتابت کرتا ہے یا اسے کمپیوٹر پر ٹائپ کرتا ہے۔ آج کل زیادہ تر مصنف کمپیوٹر پر ہی لکھنا پسند کرتے ہیں اوراکثروبیشتر حالات میں مسودہ ادارتی عمل سے پہلے ہی کمپوز ہو چکا ہوتا ہے۔ آج کے مدیران مسودے کی صحت و صفائی کے خیال سے پرنٹیڈ مسودے کو ترجیح دیتے ہیں اور ادارت کا عمل اسی پرنٹیڈ مسودے پر انجام دیا جاتا ہے۔ جب ادارت کے تمام تر مراحل پورے ہو جاتے ہیں تو پھر ادارت شدہ مسودے کو ایک بار پھر کاتب کے پاس بھیجا جاتا ہے جو مدیر کی ہدایت کے عین مطابق اس میں حذف و اضافہ کرتا ہے۔ اس کے بعد فائینل پرنٹ نکال کر کتابت شدہ مسودے کو پروف خواں کے پاس بھیجا جاتا ہے۔ وہ یکے بعد دیگرےمسودے کے کئی پروف پڑھتا ہے اور آخری پروف کے بعد اشاعت کے لیے تیار مسودے کی فائینل کاپی اڈیٹر کو روانہ کر دیتا ہے۔
برسبیل تذکرہ: موجودہ دور میں کمپیوٹر ٹیکنالوجی کے استعمال نے ادارت کے فن میں مختلف النوع سہولتیں پیدا کر دی ہیں۔ مثلا اب ادارت کا کام بجائے کاغذ کے براہ راست کمپوٹر پر ہو رہا ہے جس سے حذف و اضافہ اور اصلاح کے عمل میں صفائی اور آسانی پیدا ہو گئی ہے۔ مائیکروسافٹ ورڈ کے ریویو آپشن میں ادارتی کام ٹھیک اسی طرح انجام دیے جا سکتے ہیں جا سکتا ہے جس طرح ہم کاغذ پر دیتے آ رہے ہیں۔ نیز،اس سافٹ ویر میں ادارت کے تمام ترمراحل کو بہ آسانی محفوظ بھی کیا جا سکتا ہے اور کس مدیر نے کس وقت کس مسودے میں کیا حذف و اضافہ یا اصلاح کی اسے بہ آسانی ٹریک کیا جا سکتا ہے۔
فن ادارت تخلیقی، تحقیقی اور تنقیدی نوعیت کا ایک عظیم فن ہے جو اپنے وسیع معنوں میں خود تصنیفی عمل کا ایک حصہ ہے کیونکہ یہ تخلیقی پروسیس میں متوازی طور پر جاری رہتا ہے اور/یا متن کے وجود میں آنے کے فوراً یا کچھے عرصہ بعد شروع ہوتا ہے۔ لیکن یہ فن اپنے اصطلاحی اور متعینہ معنوں میں تصنیفی عمل سے الگ ایک باقاعدہ، باضابطہ، مرحلہ وار اور منظم فن ہے جس کی ضرورت اور اہمیت روز بروز بڑھتی جا رہی ہے۔
ادارت کا فن تبھی کامیاب ہو سکتا ہے جب  متن کو ادارت کے تمام تر مراحل  سےانتہائی چابکدستی اور پیشہ ورانہ مہارت کے ساتھ گزارا جائے۔ ادارت کے ابتدائی مرحلوں سے آخری مرحلے تک بلکہ  پروف خوانی کے بعد بھی  ایک مدیر کی ذمہ داریاں ختم نہیں ہوتیں اور اسے ہر لمحہ متن کے معیار اور مشتملات کی ترتیب و تہذیب اورمسلسل نگرانی   کرنی ہوتی ہے۔
کامیاب ادارت لسانی، فکری، تخلیقی، تنقیدی، تحقیقی اورجدید ترین علمی اور تکنیکی صلاحیتوں کو بروئے کار لانے پر منحصر کرتی ہے۔ایک اچھے مدیر کو زبان و بیان کے اعتبار سے عمدہ اور موضوع کے اعتبار سے وسیع المطالعہ ہونا چاہیے، نیز اس میں غور و فکر کی صلاحیت، تاریخی شعور، عصری آگہی، مجتہدانہ بصیرت اور انسانی معاملات و مسائل پر گہری نظر اور دوسروں کے نقطہ نظر کو کماحقہ سمجھنے اور اس کا احترام کرنے، نیز اختلافات کو برداشت کرنے کا مادہ بھی ہونا چاہیے تب ہی جا کر وہ ایک غیرجانب دار، انصاف پسند اور مثالی مدیر بن سکتا ہے یا اس فن میں قابل قدر اضافہ کرتے ہوئے اسے بلندیوں تک لے جا سکتا ہے۔
[1] Empathetic process

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

تحقیق کے مسائل

تحقیق ایک اہم علمی فریضہ ہے۔ تحقیق کے ذریعے ہم نامعلوم کا علم حاصل کرتے ہیں۔ غیر محسوس کو محسوس بناتے ہیں۔ جو باتیں پردہ ٔ غیب میں ہوتی ہیں، انہیں منصہ ٔ شہود پر لاتے ہیں تا کہ کسی امر میں یقینی علم ہم کو حاصل ہو، اور اس کی بنیاد پر مزید تحقیق جاری رکھی جا سکے۔تحقیق ایک مسلسل عمل ہے۔ موجودہ دور میں یہ ایک نتیجے تک پہنچنے سے زیادہ ایک طریقے ( تک پہنچنے) کا نام ہے۔نتیجہ خواہ کچھ ہو، موجودہ دور میں اس کے طریقہ ٔ کار یا منہاجیات کو صاف و شفاف بنانا فلسفیانہ طور پر زیادہ ضروری سمجھا جاتا ہے تاکہ زیادہ تر نتائج صحت کے ساتھ محسوسات کے دائرے میں حتی الامکان منتقل ہو سکیں۔ دائرہ تحقیق میں ایک مقدمہ کو نتیجہ میں بدلنے کے طریقے کی جس قدر اصلاح ہوتی جائے گی اسی قدر تحقیق معتبر مانی جائے گی۔ البتہ بعض اوقات یوں بھی ہوتا ہے کہ کسی تحقیق کا طریقہ صحیح نہیں ہو اور نتیجہ بالکل صحیح ہو۔ لیکن اس ناقابل حل مسئلے کے باوجود بہرحال طریقے میں حذف و اضافہ اور اصلاح و تصحیح کی ضرورت ہمیشہ باقی رہتی ہے۔ تحقیق کے عربی لفظ کا مفہوم حق کو ثابت کرنا یا حق کی طرف پھیرنا ہے۔ حق کے معنی سچ کے ہیں۔ مادہ حق سے...

قرآن اور بگ بینگ

ایک بہت طویل عرصے سے اہل اسلام کا مغرب زدہ طبقہ قرآن کی تصدیق جدید ترین سائنسی تحقیقات کی بنیاد پر کرنا چاہتا ہے. اس کی اصل دلیل یہ ہے کہ اگر قرآن خدا کی کتاب نہ ہوتی تو اس میں بیسویں صدی کے سائنسی انکشافات کا ذکر چودہ سو سال پہلے کیونکر ممکن تھا؟ اس سلسلے میں ایک بہت بڑی مثال بگ بینگ کی دی جاتی ہے اور قرآن کی اس آیت کو دلیل بنایا جاتا ہے: اَوَلَمْ يَرَ الَّذِيْنَ كَفَرُوْٓا اَنَّ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ كَانَتَا رَتْقًا فَفَتَقْنٰهُمَا ۭ وَجَعَلْنَا مِنَ الْمَاۗءِ كُلَّ شَيْءٍ حَيٍّ ۭ اَفَلَا يُؤْمِنُوْنَ کیا کافروں نے نہیں دیکھا کہ آسمان اور زمین دونوں ملے ہوئے تھے تو ہم نے جدا جدا کردیا۔ اور تمام جاندار چیزیں ہم نے پانی

مذہب و تصوف اور فلسفہ و سائنس کا منتہائے مقصود

     یہ کائنات نہ کوئی ڈیزائن ہے اور نہ اس کا کوئی ڈیزائنر۔ اور نہ یہ کائنات عدم ڈیزائن ہے جس کا ڈیزائنر معدوم ہے۔ یہ دونوں بیانات ناقص ہیں۔ ہم بحیثیت انسان بذریعہ حواس خارج میں جو کچھ دیکھتے ہیں وہ دراصل ہماری وجدان کی مشین اور ذہن ہی سے پروسیس ہو کر نکلتا ہے۔ اور وجدان کے اس جھروکے سے نظر آنے والی یہ کائنات ایک ایسی احدیّت کے طور پر ابھرتی ہے جس میں یہ ڈیزائن صرف ایک منظر ہے جس کی شناخت عدم ڈیزائن کے دوسرے منظر سے ہوتی ہے۔ اسی طرح اس کائنات میں منصوبہ بھی ایک منظر ہے جس کی شناخت عدمِ منصوبہ کے دوسرے منظر سے ہوتی ہے۔ کائنات میں چیزیں ایک دوسرے کے بالمقابل ہی شناخت ہوتی ہیں۔ اس لیے یہ کہنا کہ کائنات میں کوئی منصوبہ ہے اس لیے کوئی منصوبہ ساز ہونا چاہیے، یا کائنات بجائے خود کوئی ڈیزائن ہے اس لیے اس کا ڈیزائنر لازماً ہونا چاہیے ناقص خیال ہے۔ اسی طرح یہ کہنا کہ اس کائنات میں عدم ڈیزائن ہے اور اس لیے اس کا کوئی ڈیزائنر نہیں ہے یہ بھی ایک ناقص خیال ہی ہے۔ یہ دونوں بیانات آدھے ادھورے مناظر کی تعمیم کی بنا پر گمراہ کن قیاس کی مثالیں ہیں۔ یاد رہے کہ منصوبہ صرف ایک منظر ہے، یا یوں...