[بہت پہلے ہمارے ایک دوست نے مسئلہ ٔ ارتداد پر مولانا عنایت اللہ سبحانی کے حوالے سے حضورِ پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک حدیث کی تاویل پیش کی تھی۔ ان کی تاویل کے مطابق اس حدیث سے یہ ثابت ہوتا تھا کہ اسلام میں تبدیلی مذہب ارتداد کے مترادف نہیں ہے اس لیے مذہبِ اسلام ترک کرنے کی سزا ‘‘قتل ’’ نہیں ہے۔میں نے اس کے جواب میں ایک طویل تبصرہ لکھا تھا جس پر آج اتفاق سے میری نظر پڑ گئی۔ میں نے اپنے لکھے تبصرے کو دوبارہ پڑھا اور قارئین کے فائدے کی غرض سے اس میں چند حذف اور اضافے کے بعد اسے بلاگر پر پوسٹ کر رہا ہوں:۔]
جناب ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ صاحب،
روایتی اصولِ شریعت کی رو سے اختلاف بھی اسی وقت منعقد اور معتبر ہو سکتا ہے جب کہ خود نصوص شرعیہ میں اس کی گنجائش پائی جاتی ہو۔ یعنی گنجائش خود آیت یا روایت کے الفاظ ہی میں ہو نہ کہ ہم باہر سے ایک مفہوم لا کر اس میں ٹھونسنے کی کوشش کریں۔ پھر جب اختلاف ہی منعقد نہ ہو تو وہ معتبر کیسے ہو سکتا ہے؟ پس ایسے جملہ امور میں مختلفین کی تکفیر کی جائے گی نہ کہ ان کے اختلاف کو برداشت کیا جائے گا۔ اختلاف میں رواداری وہیں تک ہے جہاں تک نصوصِ شرعیہ میں ایک سے زیادہ معنی لینے کی گنجائش پائی جائے۔ البتہ نصوصِ شرعیہ سے ناواقفیت کی بنا پر اگر کسی شخص سے ایسے غیرمعتبر اختلاف کا صدور ہو تو یہ قابل معافی ہے کیونکہ اس غریب کو خبر ہی نہ تھی کہ نصِ شرعی کیا ہے۔ اگر اس کو خبر ہوتی تو وہ اپنا اختلاف واپس لے لیتا۔ یہ جو ترجمانی میں نے روایتی اصولِ شریعت کی پیش کی ہے،یہ اس کا ایک محکم اصول ہے جس پر قیل قال کرنا بھی کفر اور دائرہ اسلام سے نکل جانے کے مترادف ہے۔
آپ نے اپر آئیوا یونیورسیٹی کے ڈاکٹر محمد عمر فاروق کے مضمون کا جو لنک پیش یا کیا ہے اس میں ڈاکٹر صاحب نے ایک حدیث اس بات کے حق میں بطور دلیل پیش کی گئی ہے کہ اسلام میں مرتد کی سزا قتل نہیں ہے۔ لکھتے ہیں:
Readers are invited/urged to explore a vast amount of resources/links presented at this blog, where scholars authoritatively have shown that none of the hadiths about apostasy is without problem or weakness. Also, there is no hadith confirming punishment or retribution solely for apostasy. In every single case, where punishment has been meted out,riddah involved treason or rebellion. The following is an example of how the Prophet dealt with solely apostasy.
A bedouin gave the Pledge of allegiance to Allah's Apostle for Islam. Then the bedouin got fever at Medina, came to Allah's Apostle and said, "O Allah's Apostle! Cancel my Pledge," But Allah's Apostle refused. Then he came to him (again) and said, "O Allah's Apostle! Cancel my Pledge." But the Prophet refused Then he came to him (again) and said, "O Allah's Apostle! Cancel my Pledge." But the Prophet refused. The bedouin finally went out (of Medina) whereupon Allah's Apostle said, "Medina is like a pair of bellows (furnace): It expels its impurities and brightens and clears its good. [Sahih al-Bukhari, Vol. 9, #318]
Notably, as Dr. M. E. Subhani explained in his book:
“This was an open case of apostasy. But the Prophet neither punished the Bedouin nor asked anyone to do it. He allowed him to leave Madina. Nobody harmed him.” [Apostasy in Islam (New Delhi, India: Global Media Publications, 2005), pp. 23-24.]یہاں بھی ارتداد کے موضوع پر پائی جانے والی تمام احادیث کو ‘‘کمزور’’ قرار دیا گیا ہے۔ مابعد مودودی اسلام پسندوں کو حدیث کی جو باتیں غیر معقول لگتی ہوں ، ان کو تو وہ کمزور، غریب اور ضعیف کہہ کر نکل جاتے ہیں لیکن جو حدیث ان کے ‘‘ مغرب زدہ’’ موقف کی تصدیق کرتی نظر آتی ہو،وہ بہت معتبر اور مستند ہوتی ہے۔ ڈاکٹر عمر فاروق نے بھی اپنی اسی تحریر میں قتل مرتد پر آنے والی تمام حدیثوں کو ضعیف کہہ دیا ہے سوائے اس ایک حدیث کے جو ان کے موقف کی تصدیق کر رہی تھی۔لیکن سوئے اتفاق کہ اس حدیث سے بھی بالکل ثابت نہیں ہوتا کہ’’ اسلام میں مرتد کی سزا قتل نہیں ہے‘‘۔ قتلِ مرتد کے خلاف بخاری کی جو حدیث ڈاکٹڑ صاحب نے پیش کی ہے ،اس کا اردو ترجمہ درجِ ذیل ہے:ہم سے عبداللہ بن یوسف تنیسی نے بیان کیا ‘ انہوں نے کہا ہم کو امام مالک نے خبر دی ‘ انہیں محمد بن منکدر نے اور انہیں جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما نے کہ ایک دیہاتی نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اسلام پر بیعت کی پھر اسے مدینہ میں بخار ہو گیا تو وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور کہا کہ یا رسول اللہ! میری بیعت فسخ کر دیجئیے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے انکار کیا پھر وہ دوبارہ آیا اور کہا کہ میری بیعت فسخ کر دیجئیے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس مرتبہ بھی انکار کیا پھر وہ آیا اور بیعت فسخ کرنے کا مطالبہ کیا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس مرتبہ بھی انکار کیا۔ اس کے بعد وہ خود ہی (مدینہ سے) چلا گیا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر فرمایا کہ مدینہ بھٹی کی طرح ہے اپنی میل کچیل کو دور کر دیتا ہے اور خالص مال رکھ لیتا ہے۔ (صحیح بخاری، مترجم: مولانا داود راز، کتاب الاحکام، باب: بیعت کرنے کے بعد اس کا فسخ کرانا، حدیث نمبر 7211)۔اگر میں آپ سے کوئی وعدہ کروں، پھر کچھ ہی دیر بعد یہ کہوں کہ میں اس کو پورا نہیں کرنا چاہتا ، اور آپ انکار کردیں، میں تین بار آپ سے یہی درخواست کروں اور ہر بار آپ انکار کر دیں، تو اس کا مطلب یہ کہاں ہوا کہ میں نے آپ سے کیا ہوا اپنا وعدہ توڑ دیا؟ میں بہرحال اپنے وعدے پر قائم ہوں کیونکہ اگر اس کو توڑنا ہوتا تو مجھے آپ سے پوچھنے کی کیا ضرورت تھی، میں صاف کہتا کہ بھائی، میں آپ سے کیا گیا وعدہ توڑتا ہوں۔ اسی طرح جب اس دیہاتی نے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ درخواست کی کہ میری بیعت کو فسخ کر دیجیے، تو اس سے یہ مفہوم نہیں نکلتا کہ اس نے اپنی طرف سے بیعت کو توڑ دیا تھا ۔اس سے تو صرف اتنا معلوم ہوتا ہے کہ اسلام قبول کرتے ہی اسے بخار ہو گیا اور شاید اسی سبب سے اس پر بیعت گراں گزر رہی تھی ۔ وہ اس سے نجات حاصل کرنا چاہتا تھا اور اسی لیے بار بار وہ اس کی اجازت مانگ رہا تھا۔اس کا بیعت فسخ کروانے کے ارادے سے تین بار آنا اور تینوں بار اللہ کے رسول کا اس کو واپس لوٹا دینا خود اس بات کا ناقابلِ انکار ثبوت ہے کہ وہ ہر بار بیعت کے دائرے میں ہی تھا۔ پہلی بار جب وہ اجازت مانگنے آیا تب بھی ، اور آخری بار آیا تب بھی۔اگر یہ ارتداد کا ’’کھلاہوا ‘‘ معاملہ تھا تو پھر وہ دوسری بار کیوں آیا؟ اسی لیے نہ کہ بیعت اس کی برقرار تھی۔ اور دوسری بار بھی اللہ کے رسول نے بیعت کو فسخ کرنے سے انکار کر دیا۔ اور اسی طرح تیسری بار ہوا۔ اور ہر بار وہ دیہاتی بیعت کے دائرے میں ہی تھا، اور اسی سبب سے قانوناً وہ اسلام کی حد میں ہی تھا۔ پھر اس کو عام مسلمانوں کی طرح حق تھا کہ وہ جہاں چاہے جائے، پس وہ مدینے سے باہر چلا گیا۔
اب مدینے سے باہر جانے کے بعد غالب گمان یہ ہے کہ اس نے اسلام کو ترک کردیا ہوگا۔ لیکن حدیث میں اس کی بھی تصریح نہیں ہے ۔کیا اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کے پیچھے کسی شخص کو تعینات کر دینا چاہیے تھا کہ جاو، اور مدینے سے باہر اگر وہ اسلام ترک کر دے تو اسے قتل کر دو؟ ظاہرہے یہ مناسب نہ ہوتا۔ پھر اس حدیث میں یہ کہاں لکھا ہوا ہے کہ اس وقت اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا یعنی اسلام کا اقتدار مدینے سے باہر بھی تھا؟اس کی بھی تصریح نہیں ہے کہ یہ فتح مکہ سے پہلے کی حدیث ہے یا بعد کی( فتح مکہ کے بعد کی حدیث ہونے کی صورت میں اسلام کا اقتدار مدینے سے باہر بھی ہو سکتا تھا)۔ ممکن ہے وہ بدو مدینے سے باہر اسی لیے چلا گیا ہو کہ ارتداد کی سزا سے بچ سکے۔ ورنہ متعدد احادیث سے ثابت ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ارتداد کے جرم پر سزا دی ہے۔ایسا لگتا ہے کہ مولانا مودودی نے مسئلہ ارتداد میں’’ ریاست سے بغاوت ‘‘کا تصور اپنی طرف سے ملا دیا ہے۔ ورنہ قتل مرتد کے سلسلے میں پائی جانے والی احادیث میں کہیں ایسے الفاظ نہیں ہیں کہ جو شخص مملکت یا ریاست کی اطاعت سے منحرف ہو جائے اس کو قتل کر دو۔ پھر یہ بھی دیکھنا چاہیے کہ جن لوگوں کو قتل کیا گیا، کیا ان سب نے ریاست کے خلاف مسلح بغاوت کی تھی، یا اسلامی حکومت کے اقتدار کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیا تھا؟ ایک اور اہم سوال یہ بھی ہے کہ اللہ کے رسول نے اپنے صحابہ کو واضح الفاظ میں کیوں نہ فرما دیا کہ قتل اس کا ہوگا جو ریاست کے اقتدار کو نہ مانے اور اس کا نہ ہوگا جو صرف اسلام کو ترک کر دے؟ من بدل دینہ فاقتلوہ میں یہ بات صاف آگئی کہ جو مسلمان کوئی اور مذہب اختیار کر لے، اس کو قتل کردو۔ اس وقت عیسائیت اور یہودیت بھی ادیان میں ہی شمار ہوتے تھے۔اس لیے عہدِ نبوی میں بھی دین سے مراد وہی چیز تھی جس کو ہم آج مذہب کہتے ہیں۔ ورنہ پھر دین بدلنے کے کیا معنی؟ ایک دین بدل کر دوسرا اختیار کرلینا ہی نہ؟ پھر یہ باور کرنا ہی پڑے گا کہ دین بدلنے سے مراد عیسائیت چھوڑ کر اسلام قبول کر لینا تھا یا اسلام چھوڑ کر یہودیت قبول کر لینا تھا۔ پھر’’ من بدل دینہ ‘‘ سے یہ مراد نہیں لیا جا سکتا کہ عیسائی اگر مسلمان ہو جائے تو اس کو قتل کر دو کیونکہ اللہ کے رسول کسی دوسرے دین کے حامل افراد سے نہیں بلکہ خود اپنے صحابہ سے خطاب کررہے ہیں کہ جو دین بدل لے، اس کو قتل کر دو۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا منشا بالکل واضح ہے۔ پھر ان کے منشا کو سب سے پہلے سمجھنے والے صحابہ تھے۔ انہوں نے اس کو سمجھ کر بیان کیا ، اور اس کو قانونی شکل دی جو آج بھی بعض ممالک میں رائج ہے۔ چودہ سو سال پر محیط اتنی ساری واضح شہادتوں کو چھوڑ کر ایک غیر واضح حدیث (جس میں بہ تصریح یہ بات بھی نہیں آئی کہ بدو نے واقعی اسلام ترک کر دیا)کیونکر قتل مرتد کے مروجہ قانون کے خلاف کوئی دلیل بن سکتی ہے؟
یہ حدیث ارتداد کے مروجہ اسلامی قانون کے خلاف اس صورت میں دلیل بن سکتی تھی جبکہ اس حدیث میں یہ شہادت موجود ہوتی کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اس دیہاتی کے حسبِ خواہش بیعت کو فسخ کرنے کے بعد اس کو زندہ رہنے دیا تھا۔ لیکن اس حدیث میں یہ شہادت نہیں ہے۔ بلکہ اس حدیث سے تو مروجہ اسلامی قانونِ ارتداد کی صحت کی تصدیق ہوتی ہے۔ پھر حضرت مولانا عنایت اللہ اسد سبحانی مدظلہ العالی کا مروجہ قانون ارتداد کے خلاف یہ فرمانا کہThis was an open case of apostasy. But the Prophet neither punished the Bedouin nor asked anyone to do it. He allowed him to leave Madina. Nobody harmed him.” [Apostasy in Islam (New Delhi, India: Global Media Publications, 2005), pp. 23-24.صحیح نہیں۔ بدو تو ابھی مستوجب سزا ہی نہ ہوا تھا کیونکہ بیعت برقرار تھی اور وہ اسلام کے دائرے میں تھا۔ مولانا موصوف سے یہاں سخت تسامح ہوا ہے کہ اللہ کے رسول نے بدو کو مدینہ سے باہر جانے کی اجازت دے دی تھی۔ حدیث کے الفاظ اس پر دلالت نہیں کرتے۔بدو تو خود ہی مدینہ سے باہر گیا تھا۔ پھر وہاں جا کر اس نے اسلام کو ترک کیا یا نہیں ، یہ کون جانتا ہے؟ حدیث میں تو اس بدو کا نام بھی نہیں بتایا گیا ہے پھر کیسے معلوم ہوگا کہ وہ بدو آخر گیا تو کہاں اور اسلام کو چھوڑ کر اس نے کون سا مذہب قبول کیا؟
ڈاکٹر محمد عمر فاروق صاحب کا مولانا سبحانی مدظلہ کے اس جملے کو دلیل بنانا ایک غلطی ہے۔ اور یہ صرف اس لیے سرزد ہوئی ہے کہ مابعد مودودی اسلام یا دوسرے تجدد پسند اپنی’’ مغرب زدگی ‘‘ میں ہر اس حدیث کو اپنے لیے دلیل بنا لیتا ہے جس میں وہ اپنے خودساختہ معانی ٹھونس سکے اور ہر اس حدیث کی صحت سے انکار کر دیتا ہے جو شریعت کی اس کی ’’مغرب زدہ ‘‘تعبیروں کے خلاف ہو ۔پھر جب ڈاکٹر صاحب کا ایک غلط حدیث کو بنائے استدلال بنانا ثابت ہو گیا تو انہوں نے حضرت عمر بن عبد العزیز اور حضرت سفیان ثوری جیسے بزرگوں کا جو حوالہ دیا ہے ، وہ خود مشکوک ہو جاتا ہے ۔ حضرت عمرنے تو قطعِ ید کی سزا پر بھی عمل نہیں کیا تھا ، کیا اس سے قطعِ ید کا حکم کالعدم ہو جاتا ہے؟ حضرت عمر بن عبدالعزیز کا معاملہ بھی کچھ اسی طرح کا ہوگا۔ کیا حضرت عمر بن عبد العزیز نے مسئلہ ارتداد سے متعلق احادیث پر اظہار خیال کرتے ہوئے وہ فرمایا تھا جو حضرت مولانا سبحانی مدظلہ اور ڈاکٹر عمر فاروق فرما رہے ہیں؟ رہا حضرت سفیان ثوری اور شمس الدین سرخسی، تو کیا ان حضرات کے کچھ لکھ دینے سے قتل مرتد کے متعلق صحابہ ٔ کرام کا فہم اور عمل دونوں یکسر غلط ہو جاتے ہیں:۔۔۔ ایک مر تبہ معاذ رضی اللہ عنہ ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ سے ملنے کے لیے آئے، دیکھا ایک شخص بندھا ہوا ہے۔ پوچھا یہ کیا بات ہے؟ ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ نے بتلایا کہ یہ ایک یہودی ہے، پہلے خود اسلام لایا اب یہ مرتد ہو گیا ہے۔ معاذ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میں اسے قتل کئے بغیر ہرگز نہ رہوں گا۔۔۔۔
(صحیح بخاری، کتاب المغازی، باب: حجۃ الوداع سے پہلے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ابوموسیٰ اشعری اور حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہما کو یمن بھیجنا، حدیث نمبر 4344 – 4345)۔کیا اس حدیث کا مطلب یہ ہو سکتا ہے کہ حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ ایسے زبردست صحابی سے ایک گناہِ عظیم ہو گیا؟ اور انہوں نے ناحق ہی ایک یہودی کو قتل کر دیا؟ یا پھر یہ کہ یہودی پہلے خود اسلام لایا پھر اس کے بعد نہ صرف یہ کہ اسلام ترک کر دیا بلکہ اسلامی ریاست کے خلاف تلوار بھی اٹھا لی؟
یہی روایت کئی دیگر مجموعہ ٔ احادیث میں اور زیادہ وضاحت کے ساتھ پائی جاتی ہے۔ سعید احمد جلال پوری نے ماہنامہ بینات میں اپنے ایک مضمون میں اس حدیث کو نقل کرتے ہوے اس کا ترجمہ بھی پیش کیا ہے اور ساتھ ہی ان تمام کتبِ حدیث کے حوالے بھی فراہم بھی کیے ہیں جن میں یہ موجود ہے:”عن ابی موسیٰ قال اقبلت الی النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم… فقال:… و لکن اذہب انت یا ابا موسیٰ او یا عبداللّٰہ بن قیس الی الیمن‘ ثم اتبعہ معاذ بن جبل‘ فلما قدم علیہ القی لہ وسادة قال: انزل و اذا رجل عندہ موثق قال: ما ہذا؟ قال: کان یہودیاً فاسلم ثم تہود‘ قال: اجلس! قال: لا اجلس حتی یقتل‘ قضاء اللّٰہ و رسولہ ثلٰث مرات فامر بہ فقتل…الخ“ (بخاری ص:۱۰۲۳‘ ج:۲‘ مسلم ص:۱۲۱‘ ج:۲‘ ابوداؤد ص:۲۴۲‘ ج:۲‘ نسائی ص:۱۶۹‘ ج:۲‘ سنن کبریٰ بیہقی ص:۱۹۵ ج:۸)
ترجمہ:… ”حضرت ابو موسیٰ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا‘ آپ نے فرمایا: ابو موسیٰ یا عبداللہ بن قیس! یمن جاؤ‘ اس کے بعد آپ نے معاذ بن جبل کو بھی میرے پیچھے یمن بھیج دیا‘ حضرت معاذ یمن پہنچے اور ان کے بیٹھنے کے لئے مسند لگائی گئی تو انہوں نے دیکھا کہ (حضرت ابو موسیٰ کے پاس) ایک آدمی بندھا ہوا ہے‘ حضرت معاذ نے پوچھا: اس کا کیا قصہ ہے؟ فرمایا: یہ شخص پہلے یہودی تھا‘ پھر اسلام لایا اور اب مرتد ہوگیا ہے‘ آپ نے فرمایا: جب تک اس کو اللہ اور اس کے رسول کے فیصلے کے مطابق قتل نہیں کردیا جاتا‘ میں نہیں بیٹھوں گا‘ انہوں نے تین بار یہ جملہ ارشاد فرمایا‘ چنانچہ حضرت ابو موسیٰ نے اس کے قتل کا حکم دیا‘ جب وہ قتل ہوگیا تو حضرت معاذ تشریف فرما ہوئے۔ “(سعید احمد جلال پوری’’مرتد کی سزا قرآن و سنت اور اجماع کی روشنی میں‘‘ ماہنامہ بینات ، ۲۰۰۶ ماہنامہ بینات, جمادی الاولیٰ۱۴۲۷ھ جون۲۰۰۶ء, جلد 69, شمارہ 5) http://www.banuri.edu.pk/node/357کیا متن میں یہ معنی لینے کی کوئی گنجائش ہے کہ وہ یہودی اسلام ترک کرنے کے بعد اسلامی حکومت سے جنگ کرنے پر آمادہ ہو گیا تھا؟ بے شک یہاں یہ تاویل کی جا سکتی ہے کہ وہ یہودی باقاعدہ سازش کے تحت اسلام لایا تھا تاکہ بعد میں وہ اس سے پھر جائے اور اس طرح لوگوں کو یہ کہہ سکے کہ دیکھوں میں نے اسلام میں جا کر دیکھ لیا، اور مجھے بالکل اچھا نہیں لگا، اس لیے میں نے اسے ترک کر دیا۔ لیکن اگر قتل مرتد کا قانونی اسلامی شریعت کا حصہ نہیں ہے تو کیا ایسی سازش کرنے پر شرعاً سزا دی جا سکتی ہے؟ پھر ایسی سازش کا پتا کیسے چلایا جا سکے گا؟ ایک شخص کن عزائم کے ساتھ اسلام قبول کرتا اور پھر جاتا ہے اس کو معلوم کرنے کے لیے تو شہادت درکار ہوگی۔ ایسا فتنہ پرور شخص کیا اتنا بے وقوف ہو سکتا ہے کہ وہ لوگوں سے یہ بتاتا پھرےکہ میں ایک سازش کے تحت اسلام قبول کر رہا ہوں؟ یا اسلامی حکومت علام الغیوب ہوتی ہے کہ لوگوں کے دلوں کا حال جان لیتی ہے کہ کون کس مقصد کے تحت اسلام ترک کر رہا ہے؟
اچھا چلیے ، ایک منٹ کو یہ مان بھی لیا جائے کہ اسلام میں قتل مرتد نہیں ہے تو بھی اس صورت میں اس کے نتائج کا سامنا کرنے کے لیے دنیا کی کوئی ’’اسلامی حکومت ‘‘ تیار نہیں ہو سکتی ہے۔ ایک پیدائشی مسلمان شخص پیغمبری کا دعویٰ کر سکتا ہے۔وہ کہہ سکتا ہے کہ مجھ پر بھی وحی آتی ہے۔ مولانا جلال الدین رومی اور بہتیرے بزرگ صوفیا و فلاسفہ اس کے قائل ہیں۔ پھر سرمد و منصور جیسے لوگوں کو تصوف کی ہفوات و اباطیل کی کھلی چھوٹ مل جاتی ہے، ایک مسلمان شخص پھر سے بتوں کی پرستش شروع کر دے سکتا ہے۔اگر وہ مکہ یا مدینہ میں ہوا تو دن رات لات و عزیٰ کی عظمت رفتہ بیان کرتا پھرے گا۔ کوئی مسلمان کمیونسٹ نظریہ حیات پر ایمان لے آئے گا اور دوسرے مسلمانوں کو کمیونسٹ بنانے کی مہم شروع کر دے گا۔ اور آپ کسی کو ارتداد کے جرم میں ماخوذ نہ کر سکیں گے۔ کیونکہ آپ نے مذہب کی تبدیلی کی اجازت دے رکھی ہے۔مذاق ہی معلوم ہوتا ہے کہ اپنی اس مغرب زدگی کو آپ مفسرین کے بالکل خلاف لااکراہ فی الدین کی قرآنی آیت سے ثات کرتے ہیں۔ پھر اسی آیت کی رو سے اسلامی حکومت میں غیر اسلامی نظریہ حیات کی تبلیغ کا جواز بھی کھلتا ہے۔ سیدھی منطق ہے کہ اپنا مذہب بدلنے والے شخص کو اپنا نیا مذہب پھیلانے کی اجازت بھی ہونی ہی چاہیے۔ پھر آپ کی اسلامی حکومت کئے دن ٹکے گی؟ اسلام پہلے ہی اتنے زنادقہ و ملاحدہ سے اٹا پڑا ہے، ڈیڑھ ہزار سالوں تک ان کا استیصال کرتے کرتے آپ کی تلواریں کند ہوگئیں مگر الحاد کو مستاصل نہ کر سکے، اور اب مابعد جدید دور میں، جبکہ ہیومینزم ایسے لبرل فلسفوں تک کا جنازہ نکل چکا ہے، کہہ رہے ہیں کہ آپ ملاحدہ و زنادقہ کو برداشت کرنے پر آمادہ ہیں؟اسلامی تاریخ کا یہ دروغِ مصلحت آمیز بولنے سے پہلے آپ کو اسلامی تاریخ کا مطالعہ کرنا چاہیے صدرِ اول کے بعد سے جس کا ہر ورق خون سے تر ہے۔ بلکہ عہدِ رسالت و صحابہ کے بعدتاریخِ اسلامی کے ہر ہر لفظ سے فلاسفہ و ملاحدہ کی تذلیل و تحقیر اور خونِ ناحق کی بو آتی ہے۔
حدیث، تفسیر اور تاریخ کو مسخ کرنے کی یہ غیر معقول کوشش ایک سیاسی اسلامسٹ اسی لیے کرتا ہے کہ وہ اپنی دانست میں یہ ثابت کرنا چاہتا ہے کہ اسلامی شریعت میں ایسا کچھ نہیں ہے جس کے لیے مسلمانوں کو ’’شرمندہ‘‘ ہونا پڑے۔ اسی لیے وہ چودہ صدیوں سے چلے آتے قوانین (قتل مرتد، سزائے رجم) کی صحت سے انکار کرتا ہے۔اسی لیے وہ احادیث سے مصوری و مجسمہ سازی کی گنجائش نکال لیتا ہے۔وہ منصوصات کو اجتہاد کا موضوع بنا دیتا ہے۔ متفق علیہ کو مختلف فیہ، صحیح کو ضعیف ، مستند کو محرف بتاتا ہے۔ اور اس طرح وہ اسلامی شریعت کی ایسی جعلی تشکیل کرتا ہے جس کا اسلام کے ماضی سے کوئی تعلق نہیں ۔ مابعدمودودی اسلام پسند تفسیر ، حدیث، فقہ اور تمام تر علوم ِ نقلیہ کو مسخ کرنے والا ایک ایسا گروہ ہے جو ایک طرف تو یہ بھی قبول نہیں کرنا چاہتا ہے کہ اسلام میں’’ قتل مرتد‘‘ اور اس جیسے متعدد ’’قابل اعتراض‘‘ قوانین موجود ہیں اور دوسری طرف وہ اسلامی ادوار میں ترقی پانے والے علوم عقلیہ سے بھی متنفر ہے ، اور تیسری طرف وہ مغربی حکما و فلاسفہ سے بغض رکھتا ہے اور ان کے علم و فضل سے کسب فیض کرنا تو دور ، وہ صبر و ضبط سے انہیں پڑھ بھی نہیں سکتا، اور چوتھی طرف اس کے پاس اسلام کی ایسی کوئی فلسفیانہ تعبیر بھی نہیں جس پر مسلمان صدق دل سے عمل پیرا ہو سکیں۔ ۔ وہ بوگس تاویل کرتا ہوا ایک ایسا گروہ ہے جس کے نزدیک اسلام کو شرمندگی سے بچانے کے لیے ہر فکری دھاندھلی جائز اور ہر علمی خیانت باعثِ اجر و ثواب ہے۔ روایتی علمائے کرام میں چاہے کتنی ہی خامی ہو، چاہے ان کی اکثریت علوم جدیدہ سے ناواقف ہی کیوں نہ ہو، لیکن ان کا اسلام ان نام نہاد اسلام پسندوں سےبہت زیادہ منطقی صلابت رکھتا ہے۔ وہ ان کی طرح نصف درجن شرعی قوانین کے ’’درحقیقت اسلام میں نہ ہونے‘‘ کی غیرمعقولیت میں مبتلا نہیں ہیں۔وہ ان نام نہادوں کی سخیفانہ تاویلات کو اسی لیے قبول نہیں کر پائے کہ اس کے بعد نصوصِ شرعیہ کی کوئی اہمیت ہی باقی نہ رہ جائے گی۔ یہی سبب ہے کہ انہوں نے مسئلہ ٔ تصویر میں اضطرار کے تحت رخصت عطا کی اور مصوری و مجسمہ سازی کی حرمت کو برقرار رکھا۔ یہ اور بات کہ موجودہ دور میں وہ ایک دائمی اضطرار کی حالت میں مبتلا ہو گئے ہوں۔ لیکن میں پیش گوئی کرتا ہوں کہ ایک نہ ایک دن ، یہ جو نکتہ میں بیان کر رہاہوں، وہ ان کو ضرور سمجھ میں آجائے گا، اور وہی دن اسلام کے عقلی تصور کی بازیافت کا ہوگا۔ پھر منقولات کی حیثیت ایک ریفرینس پوائنٹ کی ہوگی جہاں سے ملت اسلامیہ نے اپنا سفر شروع کیا تھا۔پھر مذہب کی بنیاد جو کچھ کہ منقول ہے، وہ نہ ہو کر جو کچھ کہ معقول ہے، وہ ہو جائے گا ۔پھر شاید، اور صرف شاید، ہم دیکھ سکیں گے کہ تمام دنیا کی زیادہ تر قومیں ایک مشترکہ تصورِ قانون پر متفق ہو گئی ہیں جس کی بنیاد انسانی تعقل پر ہے، یہ کچھ ایسی ہی بات ہوگی جیسی آج موجودہ دور میں دنیا کی زیادہ تر قوموں نے ایک مشترکہ تصورِسیاست کو اختیار کر لیا ہے۔
اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ مذاہب باقی رہیں، ان کا اختلاف باقی رہے، ان میں پائی جانے والی مختلف النوع اور متصادم تعبیریں باقی رہیں، لیکن انفرادی و اجتماعی زندگی گزارنے کے ظاہری پہلووں اور امن و آشتی کے قیام سے متعلق اصول و قوانین میں انسانی عقل کو بنیاد بنانادنیا کی قوموں کے لیے ناگزیر ہے (لیکن اس کا مطلب یہ بھی نہیں کہ دنیا سے قانونی اختلاف اور تنوع کا خاتمہ ہو جائے گا اور ساری دنیا میں ایک ہی قانون نافذ ہوگا) ۔ بعض عالمی مذاہب ایسے کسی مشترکہ تصورِ قانون قانون کی راہ میں مزاحم ہیں اور ایسا اس لیے ہے کہ (۱) جدید دور میں اب تک قانون کو خالص عقلی بنیادوں پر استوار نہیں کیا جاسکا۔ اور (۲) ان عالمی مذاہب کے ماننے والے ابھی تک جو کچھ کہ منقو ل ہے اس کو بدلتے ہوئےنئے سیاقوں میں بھی کارآمد اور دائمی سمجھتے ہیں۔ اہل مذاہب کی اکثریت اس حقیقت کبریٰ کو نہ سمجھ سکی کہ مذہبی متن کسی نہ کسی سیاق میں ہی وجودمیں آتا ہے اور اس میں درج قوانین نئے سیاقوں میں ناقابلِ عمل ہوجاتے ہیں۔ جس وقت روایتی علماے کرام اس حقیقت کوپا لیں گے اسی دن مذہب کا نیا سورج طلوع ہوگا۔انسان اب تک اسی لیے بھٹک رہا ہے کہ اس نے مذہب کے باب میں تعقل کو ترک کر دیا ہے اور مخصوص سیاق میں وجود میں آنے والے مذہبی متن کے جملوں اور لفظوں کو اپنے اوپر مسلط کر رکھا ہے۔ جیسے ہی کوئی مسئلہ پیش آتا ہے وہ انہیں جملوں اور لفظوں کے اندر اپنے مسئلے کا حل ڈھونڈتا ہے جو اسے وہاں مل ہی نہیں سکتا۔ زیادہ تر مذہبی لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ دنیا کے تمام مسائل کا حل مذہبی متن کو ٹھیک سے سمجھ لینے پر ہے کیونکہ اسے اس خدا نے نازل کیا ہے جو تمام زمانوں اور سیاقوں کی خبر رکھتا ہے، اور خدا نے اس کو قانون کے شعبے میں اصولی نوعیت کے تعقل و تدبر سے نجات دے دی ہے اورلفظوں کی شکل میں ایسا مجموعہ قانون اس کو عطا کر دیا ہے جس میں ہر زمانے کے لیے اصولی اور بنیادی قانون موجود ہے۔ وہ یہ نہیں سمجھ پاتے کہ فطرت ہر ایک شخص پر اپنے الہامات کی بارش کرتی ہے۔ پھر جس میں جتنا ظرف ہو، اسی کے بقدر پانی اس میں جمع ہوتا ہے۔ ورنہ پھر خدا پر یہ الزام آئے گا کہ اس نے بعض انسانوں پر الہام کیا اور کچھ کو اس سے محروم رکھا۔یہ اور بات کہ ایسے الہام کے سبب اس کو نبی نہ کہیں۔ حضرت مولانا جلال الدین رومی رحمۃ اللہ علیہ فیہ مافیہ میں تو یہاں تک فرماتے ہیں:ایں چہ می گویند بعد از مصطفی وحی بر دیگراں منزل نہ شود، چرانشود۔ شود الا آں را وحی نہ خوانند۔ (فیہ مافیہ صفحہ ۱۳۶، مطبوعہ دارالمصنفین)اور خلیفہ عبد الحکیم مولانا رومی کے عقیدے کے متعلق فیہ مافیہ کے درجِ بالا اقتباس کے حوالے سے لکھتے ہیں کہ مولانا رومی کاعقیدہ یہی ہے کہ وحی و الہام کا دروازہ بند نہیں، یہ لوگوں کا غلط خیال ہے کہ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کسی پر وحی نازل نہ ہوگی۔ یہ اور بات ہے کہ مصلحت کی وجہ سے اب اس کو وحی نہ کہیں۔‘‘ (خلیفہ عبدالحکیم ، حکمت رومی، اریب پبلی کیشنز، نئی دہلی، ۲۰۱۰ ، صفحہ ۱۰۵)یہ سمجھنا کہ انسان ایک مخصوص دور میں نازل ہونے والے مذہبی متن کے سوا جو اصولی قانون سازی کرے گا وہ گمراہ کن ہوگی ، ایک غلط نظریہ ہے۔ہر انسان پر اللہ تعالیٰ الہامات کی بارش کرتا ہے اور انسان جیسے جیسے غور و فکر اور تعلق باللہ کی استعداد بڑھاتا جاتا ہے ویسے ویسے اسے اپنے دور کے لیے موزوں ترین قوانین تک رہنمائی ملتی جاتی ہے۔ ورنہ اگر مذہب کا مودودی تصور ہی صحیح ہے تو پھر یہ تسلیم کرنے میں کیا قباحت ہے کہ تصویر حرام ہے، اور موسیقی نہیں سننی چاہیے، اور رقص نہیں کرنا چاہیے ۔ وغیرہ۔ جس دور میں ان چیزوں کی ممانعت آئی تھی، اس وقت ان سے لہولعب کا کام لیا جاتا تھا۔آج ان سے بالکل دوسرے کام لیے جاتے ہیں۔ اسی طرح رجم کی سزا کی بھی زمانہ ٔ قدیم سے چلی آتی ایک قانونی رسم تھی جو دورِ جدید میں چند ایک ممالک کو چھوڑ کر اب کہیں نہیں پائی جاتی۔ قتل مرتد بھی عہد وسطیٰ کے وحشیانہ دور میں ضروری سمجھا گیا کیونکہ تبدیلی مذہب کے ذریعے اس وقت حکومتوں کے نظام کو درہم برہم کرنا آسان رہا ہوگا۔ یا ممکن ہے ان سب قوانین کا کوئی نہ کوئی جواز رہا ہو۔ اور اگر نہ بھی رہا ہو ، تو ہم کو ایک فرضی جواز پیدا کرنے کی کیا ضرورت ہے؟ موجودہ دور کے انسان کے نظری اخلاق میں بہت ترقی ہوئی ہے۔اور دھیرے دھیرے اس کو عملی اخلاق میں آج نہ کل بدلنا ہی ہے۔ آج مہذب قوموں کی اکثریت نے نسلی بادشاہت کے طریقے کو ختم کر کے جمہوریت قائم کی ہے۔ ممکن ہے جمہوریت کے بعد کل اس سے بھی بہتر کوئی طریقہ حکومت نکل آئے۔ انسان کا سفر ہمیشہ وحشت سے مدنیت کی طرف رہا ہے۔ مدنیت سے صرف شہری کرن (یا اربنائزیشن) مراد نہیں لینا چاہیے بلکہ یہ انسان کے غور و فکر اور اپنے ارد گرد پائی جانے والی اشیا کی ترتیب و تہذیب سے متعلق ہے۔ اسلام وحشت سے مدنیت کے ارتقائی سفر کا اخلاقی رویہ ہے جو خود بھی زمانے کے ساتھ ارتقا کرتا رہا ہے۔اب اس چیز کو اسلام کہیں، تہذیب کہیں، مذہب کہیں، اخلاق کہیں، مجھے کوئی اعتراض نہیں۔ میرے نزدیک اسلام کسی جامد عقیدے یا مسلک کا نام نہیں ہے بلکہ ایک حالت سے دوسری حالت میں بدلتے چلے جانے کا فن ہے جس میں کم سے کم نقصان اور زیادہ سے زیادہ فائدہ ہو۔ جس میں انسانی جان کا اتلاف بھی کم سے کم ہو اور زمین و آسمان کے وسائل بھی برباد نہ ہوں۔ یہ وہ آفاقی رویہ ہے جس کے بغیر کسی بھی قسم کی تبدیلی ممکن نہیں ہوتی ۔ پھر یہ رویہ دنیا کی ہر قو م میں کم و بیش پایا ہی جاتا ہے۔ جس قوم میں یہ رویہ سب سے زیادہ پایا جائے اسی کو اسلام میں پورے کا پورا داخل سمجھنا چاہیے۔ پھر اس کے عقیدے اور مسلک کو دیکھنے کی کیا ضرورت ، یہ تو وقتی نوعیت کی چیزیں ہیں اور ہمیشہ بدلتی رہی ہیں۔خود اسلام میں پچاسوں عقائد ہیں، اور کسی ایک پر بھی مسلمانوں کے درمیان کوئی ہمہ گیر اتفاق نہیں پایا جاتا۔ ’’اللہ ایک ہے‘‘ اسی جملے پر نہیں پایا جاتا، اس کی کئی فلسفیانہ تعبیریں ہو سکتی ہیں اور ہیں۔ پھر حضرت گوتم بدھ نے تو خدا کے تصور پر کوئی بات ہی نہیں کی تھی۔اور وہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے بہت پہلے پیدا ہوئے تھے ۔ اور یہ کیسے مانا جا سکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہندوستان میں کسی پر وحی نازل نہ کی ہوگی؟اور اس باب میں یہ سمجھنا کہ گوتم بدھ کی تعلیمات محفوظ نہ رہ سکیں ، شدید غلطی ہے۔ وید گوتم بدھ سے بہت پہلے کی چیز ہیں، لیکن ان میں توحید کا تصور پایا جاتا ہے ۔یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ گوتم بدھ کے متبعین نےاپنے رہنما کی سب تعلیمات تو لکھ لی ہوں گی اور یہی نہ لکھ سکے ہوں گے کہ انہوں نے توحید کی تعلیم بھی دی تھی؟ اس لیے یہ تاویل کام نہیں آ سکتی کہ گوتم بدھ کی تعلیمات میں تحریف ہو گئی۔ تحریفیں تو بے شک ہوئی ہوں گی لیکن اتنی بڑی تحریف نہیں ہو سکتی کہ گوتم بدھ توحید ، رسالت ، آخرت کے تصور کو اپنی دعوت کی اصل بنیاد بنائیں اور ان کے پیروکار اس کو بدل کر یہ فرمانے لگیں کہ انہوں نے توحید پر کوئی بات ہی نہیں کی۔
پس، میرے نزدیک اسلام کسی جامد عقیدے سے بندھا ہوا نہیں ہے۔ انسان کو عقیدہ قائم کرنا ہی پڑتا ہے۔لیکن وہ اپنے دور کے حالات یا سیاق میں رہ کر ہی ایسا کر سکتا ہے۔عقائد و افکار میں حذف و اضافہ ہمیشہ ہوتا رہا ہے۔ خود اسلام کی تاریخ اس حقیقت کی طرف اشارہ کرتی ہے۔ ورنہ پھر اسلام کو عہدِ رسالت اور دور ِ صحابہ تک ہی محدود سمجھیے۔ اور بعد میں حالات بدلنے سے جو بے شمار فرقے وجود میں آگے، مثلاً خارجیہ، رافضیہ، قدریہ، مرجیہ، جبریہ، جہمیہ، معتزلہ، معطلہ، مشبہ، مجسمہ، ناصبیہ، اسماعیلیہ تو ان سب کو کافر کہہ دیجیے، حالانکہ ان میں سے ہر ایک فرقہ اپنی دانست میں مذہب کے صحیح تصور پر عمل پیرا تھا۔ان میں سے کون خود کو گمراہ سمجھتا تھا؟ سب اپنے برحق ہونے کا دعویٰ کرتے تھے ۔ اور ان میں سے بیشتر دوسروں کی تکفیر و تفسیق کرتے رہتے تھے۔ فرقوں کا ظہور، یا اختلاف کا پایا جانا کوئی برائی سرے سے تھی ہی نہیں، برائی یہ تھی کہ یہ لوگ ایک دوسرے کو اللہ کے نام پر ہی ذبح کرتے تھے اور بعض اسلامی فرقوں کے تشدد پسند لوگ آج تک ایک دوسرے کو ذبح کرتے آ رہے ہیں۔ یہ سلسلہ جاری نہ رہے ، اس کی فکر کرنی ہے۔ حق سے زیادہ حاملینِ حق کی جان بچائی جانی چاہیے۔جس حق کے چکر میں حاملینِ حق خود آپس میں لڑبھڑ کر ختم ہو جائیں وہ دراصل حق نہیں باطل ہے۔
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں
تبصرہ کریں