یہ کائنات نہ کوئی ڈیزائن ہے اور نہ اس کا کوئی ڈیزائنر۔ اور نہ یہ کائنات عدم ڈیزائن ہے جس کا ڈیزائنر معدوم ہے۔ یہ دونوں بیانات ناقص ہیں۔ ہم بحیثیت انسان بذریعہ حواس خارج میں جو کچھ دیکھتے ہیں وہ دراصل ہماری وجدان کی مشین اور ذہن ہی سے پروسیس ہو کر نکلتا ہے۔ اور وجدان کے اس جھروکے سے نظر آنے والی یہ کائنات ایک ایسی احدیّت کے طور پر ابھرتی ہے جس میں یہ ڈیزائن صرف ایک منظر ہے جس کی شناخت عدم ڈیزائن کے دوسرے منظر سے ہوتی ہے۔ اسی طرح اس کائنات میں منصوبہ بھی ایک منظر ہے جس کی شناخت عدمِ منصوبہ کے دوسرے منظر سے ہوتی ہے۔ کائنات میں چیزیں ایک دوسرے کے بالمقابل ہی شناخت ہوتی ہیں۔ اس لیے یہ کہنا کہ کائنات میں کوئی منصوبہ ہے اس لیے کوئی منصوبہ ساز ہونا چاہیے، یا کائنات بجائے خود کوئی ڈیزائن ہے اس لیے اس کا ڈیزائنر لازماً ہونا چاہیے ناقص خیال ہے۔ اسی طرح یہ کہنا کہ اس کائنات میں عدم ڈیزائن ہے اور اس لیے اس کا کوئی ڈیزائنر نہیں ہے یہ بھی ایک ناقص خیال ہی ہے۔ یہ دونوں بیانات آدھے ادھورے مناظر کی تعمیم کی بنا پر گمراہ کن قیاس کی مثالیں ہیں۔ یاد رہے کہ منصوبہ صرف ایک منظر ہے، یا یوں کہہ لیں کہ ڈیزائن...
ایورسٹ پر گیان کا سورج اگا تھا پورب ہی میں اگا تھا پورب ہی میں پیارے طوطا بھائیو جھوٹ موٹھ مت گاو اتنا اب دھرتی ہے گتی مئے گول فرار ہو گیا سورج پشچم سات سمندر پار اِدھر بھی جل دیوتا گرج رہے تھے ڈر جاتے تھے طوطا پن میں لوگ پشچم پیر دھریں تو کیسے لہروں سے لڑتے بھڑتے ہٹلر ہی آتے تھے سچ مچ ہٹلر ہی آتے تھے ریل چلانے گاووں کو شہر بنانے جیسے نئے کولمبس آج انت رکش سے مل کر پھینکیں جگ مگ جال طلسم پیارے طوطا بھائیو اب آنکھ میچ کر سانس کھینچ کر گاو اوم ڈبلو ڈبلو ڈبلو دنیا بن گئی گاوں 2006