"چونکہ حدیث کا کوئی حکم, مثلاً ایک مشت داڑھی رکھنا یا ذی روح کی مصوری کا حرام ہونا قرآن سے ثابت نہیں ہے اس لیے داڑھی رکھنا یا ذی روح کی مصوری کرنا کوئی اسلامی حکم نہیں ہے"، یہ موجودہ دور کی ایک غالب تقریر ہے, اور اس کا سبب یہ ہے کہ تجددپسند اسلام کو بجائے ایک مذہب رہنے دینے کے, ایک سیاسی آئیڈیالوجی بنا دینا چاہتے ہیں. اس قسم کے تخفیفی اسلامزم کے سبب ہم سینہ ٹھوک کر یہ تو کہہ سکتے ہیں کہ ہمارا مذہب سراسر عقل و خرد کی بنیاد پر قائم ہے گو ہماری محدود عقل خدائی مصلحتوں کو نہ سمجھ سکے لیکن اس کے بعد ہم "یہ حکم قرآن میں نہیں ہے" کہہ کر مروجہ اسلام میں جہاں چاہے تبدیلی کر سکتے ہیں. سرسید, فراہی اور غامدی ایسے تجدد پسند اسلامسٹ اپنی دانست میں چونکہ صداقت کو مقدس صحیفے میں برقرار رکھنا چاہتے ہیں اس لیے حتی الامکان یہ کوشش کرتے ہیں کہ حدیثوں سے کسی نہ کسی طرح نجات پالیں جن پر موجودہ سائنسی دور میں ایمان نہیں لایا جا سکتا. لیکن اس کے بعد اسلام پانی کی طرح رقیق ہو جاتا ہے اور اس کو جس برتن میں چاہو ڈھال لو.
تجدد پسندوں کا مسئلہ یہ ہے کہ انہیں یہ یقین ہی نہیں آتا کہ صداقت مذہب کے علاوہ کہیں اور بھی ہو سکتی ہے۔ اپنے مذہب کوصداقت کے اپنے تصور سے بعید ہوتے وہ دیکھنا ہی نہیں چاہتے. ان کے تو پیروں تلے زمین نکل جاتی ہے اور ہاتھ پھولنے لگتے ہیں کہ خدا اگر نہ ہوا تو آخر کیا ہوگا! چنانچہ یہ تجددپسند قدیم تصورِ صداقت کے اسیر ڈرے اور سہمے ہوئے لوگ ہیں. یہ زندگی کے معاصر حقائق سے دور آباپرستی میں مبتلا لوگ ہیں جو ہمہ وقت "اسلام میں یہ نہیں ہے, اسلام میں وہ نہیں ہے" کرنے پر مجبور ہیں. مثلاً اگر وہ مان لیں کہ اسلام میں مشت بھر ڈاڑھی ہے, یا ذی روح کی مصور ہے, یا قتلِ مرتد ہے, یا سنگسار ہے، یا محاربین کو لونڈی و غلام بنانا جائز ہے, تو صداقت کا ان کا تصور ارڑ دھڑام ہو جاتا ہے. کیونکہ وہ جدید حالات میں یہ یقین جٹا ہی نہیں سکتے کہ ایک سچے مذہب میں ایسے احکامات پائے جا سکتے ہیں. پس, وہ اپنے مذہب کو سچا ثابت کرنے کے لیے احادیث کا سرے سے انکار کر دیتے ہیں, پھر باقی رہ جاتا ہے صرف قرآن تو بوگس تاویلیں پیش کرنے کا طریقہ تو ہے ہی جس سے کام لے کر وہ قرآنی تعلیمات کو معاصر صداقتوں کے سانچے میں ڈھال کر دنیا کی قوموں کے سامنے پیش کر رہے ہیں کہ آؤ اور اس الٰہی آئیڈیالوجی کو تسلیم کر لو ورنہ جہنم تمہارا ٹھکانہ ہوگا. یہ ایک خود فریبی ہے جس میں ہر وہ شخص پڑا ہوا ہے جو اسلام کو عصری تقاضوں کے تحت جدیدیانے کی کوشش کرتا ہے.
زندگی کے حقائق کو محض مقدس مذہبی صحیفے میں دیکھنا, کتاب اللہ کو حیات و کائنات کا یوزر مینوئیل بنا لینا, اس کو ایک سیاسی دستور سمجھنا, یہ ایسی فاش غلطیاں ہیں جن کے سبب قوم سیکڑوں سال پیچھے رہ جائے گی. منقولاتی نظامِ حیات کے قائلین اپنے جامد عقیدہ اور عمل کو اپنی مقلدانہ نوعیت کی تفکیری سرگرمیوں سے چھپانے کی کوشش کرتے ہیں لیکن دراصل وہ اپنے ہاتھوں سے ملت کی عمدہ صلاحیتوں کو برباد کر رہے ہیں. حقیقت اور صداقت کو مقدس متن میں منحصر بتانا دراصل اس کو زندگی اور کائنات کے براہِ راست مطالعے اور مشاہدے سے روگردانی کا بہانہ بنا لینا ہے. حقیقت و صداقت چند گنے چنے الفاظ تک مقید نہیں ہو سکتی. اگر زندگی کے اس اصول کو مان لیا جائے کہ اب سے سیکڑوں ہزاروں سال قبل نازل ہونے والے مقدس متون میں ہی سارا محوری اور اساسی علم یا ہدایات نازل ہو چکیں تو پھر یہ بھی تسلیم کر لیا جانا چاہیے کہ سقراط, افلاطون , ارسطو, آریہ بھٹ, فارابی, ابوبکر زکریا رازی, کوپرنیکس, گیلیلو, ڈارون, مارکس اور فرائیڈ اور ان جیسے تمام تر عباقرہ روزگار حکما کی زندگیاں عبث تھیں اور ان کی نجات نہ ہوگی.
اس میں شک نہیں کہ مذہب میں صداقت ہے کیونکہ وہ زندگی کے نظام کا ایک حصہ ہے جس کا تعلق دوسرے حصوں سے ہے. صداقت کو صرف مذہب تک محدود کرنا , گھڑی کے ایک پرزے, مثلاً ڈائل کو گھڑی سے الگ کر کے اس سے وقت بتانے کی ضد کرنا ہے. ظاہر ہے مجرد گھڑی کی سوئی یا اس کا ڈائل وقت نہیں بتاتا بلکہ گھڑی کے تمام پرزے ایک ساتھ مل کر ہی صحیح وقت بتا پاتے ہیں. اسی طرح مذہب بھی ہے کہ زندگی میں اپنے مخالف اور موافق عناصر کے درمیان رہ کر ہی معنی دے سکتا ہے۔ تنہا نہ مذہب کے اور نہ کسی اور کے بس کی بات ہے کہ وہ زندگی کی معنویت کا احساس کرائے. کسی تمدن کو اس کے مذہب سے, مذہب کو فلسفہ سے, فلسفہ کو سائنس سے, سائنس کو تکنالوجی سے نسبتی تعلق ہے اور کبھی ایک کے خلفشار سے دوسرے کی تنظیم ہوتی ہے تو کبھی ایک کی ترقی سے دوسرا بھی ترقی کرتا ہے.
فی زمانہ, غیرترقی یافتہ ممالک میں مذہب میں جس قدر انتشار و خلفشار ہوگا, فلسفہ و سائنس میں اتنی ہی ترقی دیکھی جائے گی. اور ترقی یافتہ ممالک میں جس قدر مذہب پرستی بڑھتی جائے گی, سائنس اور تکنالوجی کا زوال وہاں اسی تیزی سے ہوگا. یہ فکری اعتبار سے پسماندہ معاشروں میں بہت سنہرا موقع ہے کہ روایتی مذہبی وحدتیں ٹوٹ رہی ہیں اور اس کا سبب خود یہ تجدد پسند مذہبی جدیدیے ہیں جو اپنے مذہب کو عصری تقاضوں کے مطابق ڈھالتے جاتے ہیں اور عقل پرستوں کا طبقہ یہ سب دیکھ دیکھ کر تالیاں بجا رہا ہے اور کہہ رہا ہے کہ دیکھ لو, مذہب نے جدید لب و لہجے کو قبول کر لیا اور اب جدید منطق بھی ان کی سمجھ میں آیا چاہتی ہے!
تجدد پسندوں کا مسئلہ یہ ہے کہ انہیں یہ یقین ہی نہیں آتا کہ صداقت مذہب کے علاوہ کہیں اور بھی ہو سکتی ہے۔ اپنے مذہب کوصداقت کے اپنے تصور سے بعید ہوتے وہ دیکھنا ہی نہیں چاہتے. ان کے تو پیروں تلے زمین نکل جاتی ہے اور ہاتھ پھولنے لگتے ہیں کہ خدا اگر نہ ہوا تو آخر کیا ہوگا! چنانچہ یہ تجددپسند قدیم تصورِ صداقت کے اسیر ڈرے اور سہمے ہوئے لوگ ہیں. یہ زندگی کے معاصر حقائق سے دور آباپرستی میں مبتلا لوگ ہیں جو ہمہ وقت "اسلام میں یہ نہیں ہے, اسلام میں وہ نہیں ہے" کرنے پر مجبور ہیں. مثلاً اگر وہ مان لیں کہ اسلام میں مشت بھر ڈاڑھی ہے, یا ذی روح کی مصور ہے, یا قتلِ مرتد ہے, یا سنگسار ہے، یا محاربین کو لونڈی و غلام بنانا جائز ہے, تو صداقت کا ان کا تصور ارڑ دھڑام ہو جاتا ہے. کیونکہ وہ جدید حالات میں یہ یقین جٹا ہی نہیں سکتے کہ ایک سچے مذہب میں ایسے احکامات پائے جا سکتے ہیں. پس, وہ اپنے مذہب کو سچا ثابت کرنے کے لیے احادیث کا سرے سے انکار کر دیتے ہیں, پھر باقی رہ جاتا ہے صرف قرآن تو بوگس تاویلیں پیش کرنے کا طریقہ تو ہے ہی جس سے کام لے کر وہ قرآنی تعلیمات کو معاصر صداقتوں کے سانچے میں ڈھال کر دنیا کی قوموں کے سامنے پیش کر رہے ہیں کہ آؤ اور اس الٰہی آئیڈیالوجی کو تسلیم کر لو ورنہ جہنم تمہارا ٹھکانہ ہوگا. یہ ایک خود فریبی ہے جس میں ہر وہ شخص پڑا ہوا ہے جو اسلام کو عصری تقاضوں کے تحت جدیدیانے کی کوشش کرتا ہے.
زندگی کے حقائق کو محض مقدس مذہبی صحیفے میں دیکھنا, کتاب اللہ کو حیات و کائنات کا یوزر مینوئیل بنا لینا, اس کو ایک سیاسی دستور سمجھنا, یہ ایسی فاش غلطیاں ہیں جن کے سبب قوم سیکڑوں سال پیچھے رہ جائے گی. منقولاتی نظامِ حیات کے قائلین اپنے جامد عقیدہ اور عمل کو اپنی مقلدانہ نوعیت کی تفکیری سرگرمیوں سے چھپانے کی کوشش کرتے ہیں لیکن دراصل وہ اپنے ہاتھوں سے ملت کی عمدہ صلاحیتوں کو برباد کر رہے ہیں. حقیقت اور صداقت کو مقدس متن میں منحصر بتانا دراصل اس کو زندگی اور کائنات کے براہِ راست مطالعے اور مشاہدے سے روگردانی کا بہانہ بنا لینا ہے. حقیقت و صداقت چند گنے چنے الفاظ تک مقید نہیں ہو سکتی. اگر زندگی کے اس اصول کو مان لیا جائے کہ اب سے سیکڑوں ہزاروں سال قبل نازل ہونے والے مقدس متون میں ہی سارا محوری اور اساسی علم یا ہدایات نازل ہو چکیں تو پھر یہ بھی تسلیم کر لیا جانا چاہیے کہ سقراط, افلاطون , ارسطو, آریہ بھٹ, فارابی, ابوبکر زکریا رازی, کوپرنیکس, گیلیلو, ڈارون, مارکس اور فرائیڈ اور ان جیسے تمام تر عباقرہ روزگار حکما کی زندگیاں عبث تھیں اور ان کی نجات نہ ہوگی.
اس میں شک نہیں کہ مذہب میں صداقت ہے کیونکہ وہ زندگی کے نظام کا ایک حصہ ہے جس کا تعلق دوسرے حصوں سے ہے. صداقت کو صرف مذہب تک محدود کرنا , گھڑی کے ایک پرزے, مثلاً ڈائل کو گھڑی سے الگ کر کے اس سے وقت بتانے کی ضد کرنا ہے. ظاہر ہے مجرد گھڑی کی سوئی یا اس کا ڈائل وقت نہیں بتاتا بلکہ گھڑی کے تمام پرزے ایک ساتھ مل کر ہی صحیح وقت بتا پاتے ہیں. اسی طرح مذہب بھی ہے کہ زندگی میں اپنے مخالف اور موافق عناصر کے درمیان رہ کر ہی معنی دے سکتا ہے۔ تنہا نہ مذہب کے اور نہ کسی اور کے بس کی بات ہے کہ وہ زندگی کی معنویت کا احساس کرائے. کسی تمدن کو اس کے مذہب سے, مذہب کو فلسفہ سے, فلسفہ کو سائنس سے, سائنس کو تکنالوجی سے نسبتی تعلق ہے اور کبھی ایک کے خلفشار سے دوسرے کی تنظیم ہوتی ہے تو کبھی ایک کی ترقی سے دوسرا بھی ترقی کرتا ہے.
فی زمانہ, غیرترقی یافتہ ممالک میں مذہب میں جس قدر انتشار و خلفشار ہوگا, فلسفہ و سائنس میں اتنی ہی ترقی دیکھی جائے گی. اور ترقی یافتہ ممالک میں جس قدر مذہب پرستی بڑھتی جائے گی, سائنس اور تکنالوجی کا زوال وہاں اسی تیزی سے ہوگا. یہ فکری اعتبار سے پسماندہ معاشروں میں بہت سنہرا موقع ہے کہ روایتی مذہبی وحدتیں ٹوٹ رہی ہیں اور اس کا سبب خود یہ تجدد پسند مذہبی جدیدیے ہیں جو اپنے مذہب کو عصری تقاضوں کے مطابق ڈھالتے جاتے ہیں اور عقل پرستوں کا طبقہ یہ سب دیکھ دیکھ کر تالیاں بجا رہا ہے اور کہہ رہا ہے کہ دیکھ لو, مذہب نے جدید لب و لہجے کو قبول کر لیا اور اب جدید منطق بھی ان کی سمجھ میں آیا چاہتی ہے!