نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

تحقیق کے مسائل

تحقیق ایک اہم علمی فریضہ ہے۔ تحقیق کے ذریعے ہم نامعلوم کا علم حاصل کرتے ہیں۔ غیر محسوس کو محسوس بناتے ہیں۔ جو باتیں پردہ ٔ غیب میں ہوتی ہیں، انہیں منصہ ٔ شہود پر لاتے ہیں تا کہ کسی امر میں یقینی علم ہم کو حاصل ہو، اور اس کی بنیاد پر مزید تحقیق جاری رکھی جا سکے۔تحقیق ایک مسلسل عمل ہے۔ موجودہ دور میں یہ ایک نتیجے تک پہنچنے سے زیادہ ایک طریقے ( تک پہنچنے) کا نام ہے۔نتیجہ خواہ کچھ ہو، موجودہ دور میں اس کے طریقہ ٔ کار یا منہاجیات کو صاف و شفاف بنانا فلسفیانہ طور پر زیادہ ضروری سمجھا جاتا ہے تاکہ زیادہ تر نتائج صحت کے ساتھ محسوسات کے دائرے میں حتی الامکان منتقل ہو سکیں۔ دائرہ تحقیق میں ایک مقدمہ کو نتیجہ میں بدلنے کے طریقے کی جس قدر اصلاح ہوتی جائے گی اسی قدر تحقیق معتبر مانی جائے گی۔ البتہ بعض اوقات یوں بھی ہوتا ہے کہ کسی تحقیق کا طریقہ صحیح نہیں ہو اور نتیجہ بالکل صحیح ہو۔ لیکن اس ناقابل حل مسئلے کے باوجود بہرحال طریقے میں حذف و اضافہ اور اصلاح و تصحیح کی ضرورت ہمیشہ باقی رہتی ہے۔

تحقیق کے عربی لفظ کا مفہوم حق کو ثابت کرنا یا حق کی طرف پھیرنا ہے۔ حق کے معنی سچ کے ہیں۔ مادہ حق سے دوسرا لفظ حقیقت بنا ہے۔ تحقیق کے لغوی معنی کسی شئے کی حقیقت کا اثبات ہے۔ ’’تحقیق کے لیے انگریزی میں استعمال ہونے والا لفظ ریسرچ ہے…اس کے ایک معنی توجہ سے تلاش کرنے کے ہیں، دوسرے معنی دوبارہ تلاش کرنا ہیں …ریسرچ فرنچ سے نکلا ہو لفظ ہے جس کے معنی ہیں پیچھے جا کر تلاش کرنا۔‘‘ (تحقیق کا فن از گیان چند جین) مختلف علوم کے ماہرین نے تحقیق کے اصطلاحی معنی بھی بیان کیے ہیں اور ان میں لفظی و معنوی اختلاف و نزاع ہے ۔ ان سب کے احاطے کا موقع نہیں لیکن بطور ایک اصطلاح کے تحقیق کے جو بھی معنی ہوں،تحقیق کو اور تحقیق میں درپیش مسائل کے باب میں اصل بات دیکھنے کی یہ ہے کہ کیا تحقیق کے مقاصد اور اس کی منہاجیات پرمذہبی، فلسفیانہ و سائنسی اور دیگر تمام علوم کے مابین کوئی ہمہ گیر اتفاق پایا جاسکتا ہے؟ جواب ہے نہیں۔کیونکہ خود زندگی اور اس کے مقاصد مختلف فیہ اور متصادم ہیں۔ اور زندگی کے انہیں مختلف النوع مقاصد کے اعتبار سے باہم مختلف متضاد اور متصادم علوم و فنون پائے جاتے ہیں۔ غیب کو شہود یا شہود کو غیب میں بدلنے کے ان کے مقاصد جدا اور طریقے مختلف ہیں۔مابعد جدید ادوار میں علمی تحقیق کو صرف تیقین کے لیے نہیں بلکہ تشکیک کے لیے بھی استعمال کیا جا سکتا ہے۔ پروفیسر ژاں بودریلار جب اپنی کتاب
The Gulf War Did Not Take Place (1991)
میں ثابت کرتا ہے کہ ۱۹۹۱ میں خلیج کی جنگ دراصل واقع ہی نہیں ہوئی تو ایسا نتیجہ دراصل رائج الوقت نظامہائے فکر و نظر پرتشکیک کے ایک گہرے عمل کے بعد ہی نکالنا ممکن ہے۔ ظاہر ہے یہ سن کر ذہن چونکتا ہے اور جنگ ِخلیج کے مناظر کے خلاف شک پیدا کرتا ہے اور ایسا لگتا ہے کہ جو حقائق ہماری آنکھوں کے سامنے دن رات ٹی وی سے نشر کیے جاتے ہیں، وہ واقعی حقائق بھی ہیں؟ بودریلار یہ قطعی نہیں کہہ رہا کہ خلیج میں سرے سے کچھ ہوا ہی نہیں، بلکہ وہ صرف یہ کہتا ہے جو کچھ ہوا اس پر ’’جنگ‘‘ کی تعریف کا اطلاق نہیں کیا جا سکتا۔وہاں جو کچھ واقع ہوا وہ ظلم تھا جس نے جنگ کا ’بہروپ‘ بھر کر دنیا کو گمراہ کیا۔جو کچھ ہوا اگر وہ جنگ نہیں تھا تو پھر وہ ہوا ہی نہیں۔ اس کے بجائے کچھ دوسری چیز ہوئی جس کو اخباری ذہن قبول کرنے پر آمادہ نہیں۔ تحقیق اخباری ذہنیت سے نکل کر اوہام اور دروغ کی دھند کو ہٹا نے اور ان پر شک کرنے کا عمل ہے اور جب تک خود مروجہ ’’حقائق‘‘ پر شک نہ کیا جائے ، ان کے اندر سے جو واقعتاً حق ہے وہ کبھی برامد نہیں ہوسکتا۔
پس کیا چیزیں قطعیات و تیقنات کے دائرے میں داخل ہیں ، بلکہ یہاں تک بھی کہ کیا چیزیں بدیہیات میں شمار ہیں اور کیا نہیں، ان کی بنا پر دنیا میں ہمیشہ سیاست ہوتی رہی ہے۔ کہنا مقصود یہ نہیں ہے کہ تحقیق کوئی قابل اعتماد سرگرمی نہیں ہو سکتی، مگر اب لوگ اس پربھی غور کرنے لگے ہیں کہ انسانی زندگی اور ان سے متعلق علوم و فنون، اور وہ علوم جو سماجی علوم اور انسانیات کے دائرے میں آتے ہیں اپنے فکری و تحقیقی طریقہ کار میں کیا واقعی قابل اعتماد ہیں؟ فلسفہ میں متشککین کا ایک گروہ ہمیشہ سے رہا ہے جو زندگی کو عملاً برتتے ہوئے بھی تمام تر موجودات کو دلائل کی بنیاد پر ’’حلقہ ٔ دام خیال‘‘ مانتے رہے ہیں۔ دور جدید میں بھی سائنسدانوں کی طرف سے یہ قیاس کیا جاتا رہا ہے کہ کائنات دیکھنے کے حسی عمل میں وجود پذیر ہوتی رہتی ہے ، اورکائنات کا وہ مادی تصور جو ہزارہا سالوں سے چلا آرہا تھا سائنسی بنیادوں پر ثابت نہیں ہوتا۔ چونکہ سائنس کی ایک شرط حواس خمسہ کو پہنچنے والا علم ہے ، اور حواس خمسہ قائم بالذات نہیں، اور اس کو بھی عقل و شعور سے تصدیق کی ضرورت ہوتی ہے، اس لیے محسوسات اپنے سے باہر کی ایک شئے ، یعنی معقولات کو حجت بنانے پر مجبور ہے اور محض اسی لیے سائنسی نوعیت کا’’ معقول‘‘ یا بہ الفاظ دیگر ’’ نظریہ ٔ سائنس ‘‘ خود ایک فلسفیانہ زاویہ ہے خود اپنے ہی ’’محسوس ‘‘ کا اثبات اپنے ہی ڈسکورس میں کرتا ہے ، اور اس کی صحت و عدم صحت کے لیے دیگر فلسفیانہ زاویوں سے طبعاً رجوع نہیں کر سکتا کیونکہ اس کی نظر میں دیگر فلسفیانہ زاویوں سے اس کی عداوت ہے۔ اس خیال میں صداقت کا ایک عنصر پایا جا سکتا ہے۔ بارہا دیکھا گیا ہے کہ سائنسی نظریہ’’ محسوسات‘‘ سے کام لے کر دیگر فلسفیانہ زاویوں کا انسداد کرتا ہے یعنی: انہیں ہیومین سائنسیز کے ڈسکورس سے یا تو مکمل طور پر باہر کر دیتا ہے یا اس ڈسکورس میں رکھ کر ان پر اپنے طریق و منہاج کی رو سے تحقیقاتی کارروائی کے ذریعے کبھی حسبِ منشا ان کی تربیت کرتا اور کبھی ان میں سے بعض پر قابو پا کر انہیں بے دست و پا کر دیتا ہے ۔تحقیق کا یہ ایک ایسا مسئلہ ہے جو تاحال ناقابل حل ہے الا یہ کہ سائنسی نظریہ اور دیگر فلسفیانہ (بشمول متصوفانہ ) زاویوں کے درمیان کسی فکری نوعیت کی مفاہمت کی گنجائش نکالی جا سکے جس سے کہ تمام تر علوم انسانی کا انفراد بھی قائم رہے اور وہ اپنے مخصوص میدان میں اپنی طرح ایک دوسرے سے فائدہ اٹھاتے ہوئے حقیقت تک رسائی حاصل کر سکیں۔اس طرح علوم کے درمیان مکالمہ کا ایک عمل شروع ہوتا ہے جو بین العلومی تحقیق سے عبارت ہے( جس کے اپنے مسائل اور امکانات ہیں۔ اس کی تفصیل اس مضمون کے اگلے حصے میں درج کی جائے گی)۔
اس پورے مسئلے کو ایک اور نقطہ نظر سے دیکھتے ہیں: جدیدیت اور مابعد جدیدیت کے جدلیاتی و مکالماتی ڈسکورس میں پائے جانے والے تنقیدی رجحانات انسانی علوم میں تحقیقات کی رو سے جاری مسلمات سازی کے عمل میں مداخلت (Intervention) کرتے ہیں، اور کچھ اس قسم کے دلائل پیش کرتے ہیں: جو علوم و فنون سائنس کے دائرے میں آتے ہی نہیں، ان میں معقولاتی و منقولاتی نیز جزوی طور پر حسی طریق ہائے کار سے تو کام لیا جا سکتا ہے لیکن وہاں سائنسی طریقۂ کار سائے کی طرح ہمارے ساتھ نہیں رہ سکتا،اور نتیجتاً و لازماً تحقیق کو کہیں نہ کہیں فلسفیانہ تعبیر ات کا ’’شکار ‘‘ہونا پڑتا ہے، یا زیادہ غیرجانب دار طور پر کہا جائے تو اسے کہیں نہ کہیں ان فلسفیانہ تعبیرات سے ’’مدد لینی‘‘ پڑتی ہے اور تعبیرات میں پہلے ہی عقولِ انسانی کے مابین اختلافات ہیں۔یہی سبب ہے کہ انسانیات اور سماجی علوم کے میدان میں سائنسی طریقے سے انجام دی جا رہی تحقیقات میں کسی زیرتحقیق مسئلہ پر وقت واحد میں دستیاب یکساں ماخذ و مواد کے باوجود عقلی نوعیت کی تعبیرات و ترجیحات کے سبب زاویے کا اختلاف ہو سکتا اور ہوتا ہے۔ اور جیسے ہی ہم ان تعبیرات و ترجیحات کو دفع کرنے کی غرض سے ان پرسائنسی اصولوں کا سخت اطلاق (rigorous implementation) کرتے ہیں ، عمل تحقیق ایک ہمالیائی ریاضت بن کررہ جاتی ہے ۔اسی دقت کے پیش نظر ہماری یونیورسیٹیوں میں تحقیق کی یہ تعریف کی جاتی ہے:
Discovery of new facts or new interpretation of old facts.
ظاہر ہے تحقیق کے میدان میں تعبیرکی اہمیت کو تسلیم کیا گیا ہے ورنہ فقط محسوسات سے کام آگے نہیں بڑھ سکتا۔ لیکن اس کے سبب دیگر کئی اہم مسائل پیدا ہوتے ہیں اور اسی سبب سے گیان چند جین تحقیق کی اس تعریف کو’’ بدقسمتی‘‘ سے تعبیر کرتے ہیں (تحقیق کا فن، صفحہ ۸۰)۔ تعبیر کے حد سے زیادہ بڑھ جانے کے سبب تحقیق میں کیا مسائل پیش آتے ہیں اس کا اشارہ اس مضمون کے اگلے حصوں میں لیا جائے گا۔

موجودہ دور میں علوم کی فہرست زمانہ کی ترقی کے ساتھ طویل ہوتی جا رہی ہے۔ کیا ان میں کوئی ایسی درجہ بندی یا تقسیم کی جا سکتی ہے جیسی حیاتیات میں انواع و اقسام کی درجہ بندی رائج ہے؟ یا یہ اسی طرح الگ الگ رہیں گے جیسے مختلف قوموں، زبانوں اور مذہبوں نے اپنا آزادانہ تشخص قائم کر رکھا ہے اور ان میں ادغام ممکن نہیں کیونکہ یہ سب علوم و فنون جو کچھ ’کہنا ‘چاہتے ہیں ، اپنی طرح کہتے ہیں، اپنے مواد اور موضوع، اور اپنے مخصوص رجحانات کے ساتھ سائنسی تحقیق کرتے ہیں۔ لیکن کیا مشترکہ طور پر وہ کوئی ایک بات کہتے ہیں؟ کسی ایک طریقے پر متفق ہیں؟ایک بار پھر جواب نہیں میں ہی ہوگا۔ تحقیق کا ایک بڑا مسئلہ یہی ہے کہ اس کا کوئی ایک طریقہ نہیں بلکہ جس قدر علوم و فنون ہیں اسی قدر طریقے بھی پائے جاتے ہیں ،اور ان میں اگر کوئی قدر مشترک ہے تو اس کی نوعیت تحقیقی نہ ہو کر تخلیقی ہے۔ موجودہ دور میں ’’علم کی تخلیق‘‘ یا
Creation of Knowledge
جیسی عام بولے جانے والے الفاظ اسی کی نشاندہی کرتے ہیں۔ ورنہ عقل میں یہ بات نہیں آتی کہ علم کی تخلیق آخر کیسے کی جا سکتی ہے؟ یا تو تخلیق کی تعریف میں کوئی غلطی ہے یا علم کی تعریف میں۔ ’’علم کی تخلیق ‘‘ کا یہ خیال کیا اس لیے جائز ہے کہ ایک ’’معلومات‘‘ جس کا وجود نہیں تھا ، اب تحقیقی کاوش کی مدد سے اس کو وجود میں لا دیا گیا؟ گویا عدم سے وجود میں آنے کو اگر تخلیق کہا جائے تو پھر کمپوٹر پر کسی لفظ کو کاپی اور پیسٹ کرنے کے بعد بھی جونئی ’’نقل ‘‘ وجود میں آتی ہے وہ بھی تو عدم سے ہی آتی ہے، پھر کیا سبب ہے کہ ہم اس کو تخلیق نہ کہیں؟ اسی طرح ایک شخص اپنی تحقیق کے بعد کسی بات کو مستند ذرائع سے من و عن ’’نقل ‘‘کردیتا ہے جو ہمیں پہلے معلوم نہیں ہوتی تویہ عمل کاپی اور پیسٹ کے عمل سے کس حد تک مختلف ہے؟ بے شک ہم ایسے محقق کو ناقل نہیں کہہ سکتے کیونکہ اس نے اس میں ذہنی کاوش کا مظاہرہ کیا ہے۔لیکن ذہنی کاوش کا مظاہرہ تو فلسفی ، ادیب، نقاد، شاعر اور فنکار سب کرتے ہیں۔ اگر شخص کا مطالعہ اور یادداشت بہت وسیع ہو تو اس کی تحقیق بھی شاعری کی طرح فی البدیہہ ہوسکتی ہے۔
جس طرح علوم و فنون کے درمیان تفریق ظواہر کی بنا پر کی جاتی ہے اور اسی بنا پر ان میں ہونے والی تحقیقات کے طریق ہائے کار کو متعین کیا جاتا ہے، اسی طرح تحقیق ، تخلیق اور تنقید میں بھی تفریق کی جاتی ہے حالانکہ ان کے باطن میں ایکا ہے۔ چونکہ ظواہر میں ہم اختلاف دیکھتے یا دیکھنے پر مجبور ہوتے ہیں اسی لیے ہم ایک کو دوسرے سے اور دوسرے کو تیسرے سے ممیز کرنے پر مجبور ہیں۔ لیکن مختلف علوم و فنون میں طویل عرصے کی تحقیقی، تخلیقی اور تنقیدی کاوش کے بعد ان کے مشتملات میں گہرائی اور دائرہ میں وسعت پیدا ہونے لگتی ہے اور ایک کی سرحد دوسرے کو چھوتی ہے اور دوسرے کی تیسرے کو ۔ حتی کہ جس طرح شاعری میں جدیدفکری مسائل کے بڑھنے سے وزن و آہنگ متاثر ہوا اور نثری نظموں کا سیلاب آیا، فلسفیانہ اسالیب میں ادبیت عود کر آئی (ژاک دریدا)، ادب فلسفہ بننے کی کوشش کرنے لگا، سائنس اور مذہب نے باہم ایک دوسرے کو متاثر کیا، سماجیات نے نفسیاتی تجزیہ شروع کیا اور سماجی نفسیات کا وجود ہوا، غرض ایک علم یا فن نے جس طرح اپنے ہی ظواہر کے میدان کو اس طرح پھیلایا کہ ایک کے مشتملات دوسرے کی سرحد پر سرمارنے لگے ، ٹھیک اسی طرح تفکیر، تنقید، تخلیق اور تحقیق کا ادغام دکھائی دینے لگا۔تنقید نے تحقیق پر عمل جراحی شروع کیا اور تحقیق نے تنقید میں سیندھ لگائی، اور تخلیق نے فن پاروں کی شکل میں تنقید یاتحقیق کا عمل انجام دینا شروع کیا۔اسی کو گیان چند جین نے علوم و فنون کے درمیان ’’وصل‘‘ سے تعبیر کیا ہے۔ اس لیے اگر موجودہ دور میں تحقیق کہیں پر تنقید بنتی دکھائی دے، یا اس میں تخلیقی کیفیت نظر آئے تو یہ ایک بہت بڑا مسئلہ بن جاتا ہے۔ اور اکادمک دنیا کی روایت کے بظاہر خلاف ہوتا ہے ۔ بعض اوقات اس روایت کے زیر اثر تحقیق کے میدان میں معروضیت پر اصرار اس حد تک کیا جاتا ہے کہ وہ علوم و فنون کے مجموعی رجحان کے خلاف ہوجاتا ہے۔اس سے عملاً بڑے نقصانات ہوتے ہیں۔
علوم کے درمیان وحدت قائم کرنے اور کبھی ان کے انفراد پر اصرار کرنے کے پس پشت دراصل فلسفیانہ تفکیر کا عمل جاری رہتا ہے جو سیاسی جغرافیے کی طرح ایک عہد میں علم کو منقسم کرتا اور دوسرے عہد میں انہیں باہم ملانے کی سعی کرتا ہے۔تاریخ سے معلوم ہوتا ہے کہ پہلے فلسفہ نے ادب اور سائنس کو اپنے سے الگ کیا، پھر اس کے بعد دیگر علوم مثلاً تاریخ، جغرافیہ، نفسیات، وغیرہ کو اپنے سے الگ کرتا چلا گیا۔ موجودہ دور کا فلسفیانہ رجحان تمام تر متفرق علوم و فنون میں احدیت یا اکھنڈتا کے تصور کو نافذ کرنا تو نہیں البتہ ان کے درمیان رابطہ بحال کرنے پر ہے جو کبھی ماضی میں پایا جاتا تھا۔ اور یہ عمل بین العلومی تحقیقات کے دائرے میں انجام دیا جاتا ہے۔ظواہر کی سبب چیزوں کو الگ الگ سوچنا اور پھر ایک طویل عرصے کے بعد ان میں ’’تحقیق‘‘ کے ذریعے بازارتباط کی سعی کرنا’’علم ‘‘ کے میدان میں کسی بحران کی نشاندہی کرتا ہے جس سے تحقیق کو آنکھیں چار کرنا ہے اور یہ فیصلہ کرنا ہے کہ اس میں سائنسی معروضیت اور عقلی تعبیروں سے کس حد تک کام لیا جا سکتا ہے اور کس حد تک نہیں ۔

تحقیق زندگی اور اس کے مسائل سے انتہائی واضح طور پر جڑی ہوتی ہے ۔ آج سے پچیس پچاس سال پہلے کہا جاتا تھا کہ خلائی تحقیقات کے ذریعے ’’ستاروں‘‘ پر کمند ڈالنے کا آخر کیا فائدہ ہے؟ انسان اپنی زمین کے مسائل کیوں نہیں حل کرتا کہ آسمان کی طرف متوجہ ہے؟ بعد میں ہمیں معلوم ہو گیا کہ وہاں انتہائی کارآمد معدنیات اور انرجی کے ذخائر ہیں اور انسان وہاں جا کر بھی قیام پذیر ہو سکتا ہے۔ علمی و سائنسی تحقیق پرجس نوع کے اعتراضات سننے کو ملتے رہے ہیں وہ کچھ اس سبب سے تھے کہ یہ فضول خرچی ہے اور کچھ اس سبب سے کہ سائنسی و سماجی تحقیقات و اکتشافات سے پرانے معیار اور رسوم و رواج ، اور ازکار رفتہ خیالات بدلنے لگتے ہیں۔ موجودہ دور میں مذہبی حلقوں کی طرف بارہا یہ اعتراض کیا جاتا رہا ہے کہ آخر نظریۂ ارتقا پر تحقیق و تجسس کرنے کی کیا ضرورت ہے؟ لیکن یہ بالکل ممکن ہے آئندہ اسی عمل سے انسان کو خدا تک پہنچنے کا کوئی وسیلہ پا لے۔
تحقیق دراصل فلسفیانہ تجسس کے سبب پیدا ہوتی ہے۔ اور تنقید کے سبب آگے بڑھتی ہے۔ اور زندگی کی نئی صورت حال کی تخلیق میں معاون ہوتی ہے۔ لیکن موجودہ دور میں تحقیق کو درپیش مسئلہ فلسفیانہ تجسس کے زوال کا ہے۔برصغیر میں فلسفہ کے ادارے انتہائی تیزی سے ختم ہو تے جا رہے ہیں، اور کم طلبا اس میں داخلہ لیتے ہیں۔ چونکہ سبب زوال پذیر ہے اس لیے تحقیقی عمل میں دلچسپی کی وہ کیفیت نہیں پائی جاسکتی جو مطلوب ہے۔ یوں تحقیق ایک تھکان محسوس کرانے والی سرگرمی بن جاتی ہے ۔ریسرچ اسکالروں کے سامنے زندگی کے مسائل اپنی تمام تر آب و تاب کے ساتھ روشن نہیں ہوپاتے ۔ فلسفیانہ کاوشوں کے سبب زندگی میں سوال بھی پیدا ہوتا ہے اور خلا کا احساس بھی۔ کسی معاشرے میں جب فلسفہ کی روایت کمزور ہو جاتی ہے تو محقق کے سامنے موضوعات و سوالات اس تہذیب کے نہ ہو کر اُن تہذیبوں کے ہوتے ہیں جہاں فلسفیانہ عمل انتہائی تیز ہوتا ہے۔ ظاہر ہے انسان جب تک اپنے ہی معاشرے اور اپنی ہی تہذیب یعنی اپنی ’’اجتماعی خودی ‘‘ اور شعور میں نہ ڈوبے تب تک اسے اپنے وجود اور اپنے شناخت سے باہر کی چیزوں سے وہ دلچسپی نہیں ہو سکتی۔ برصغیر میں انسانیات اور سماجی سائنسوں میں تحقیق ایک خشک اور بے جان شئے اسی سبب سے ہے۔

تحقیق کا تعلق علم سے ہے، اور علم اور جہل میں ہمیشہ سے امتیاز کیا جاتا رہا ہے۔ کیا چیزیں علم ہیں اور کیا چیزیں علم نہیں ہیں، ہر دور میں مقتدر فلسفیانہ یا مذہبی عقائد کے ذریعے انہیں طے کرنے کی روایت رہی ہے۔موجودہ زمانہ جس حد تک ا رتقا کر چکا ہے، یا جہاں تک وہ اپنے تمام تر تعصبات و تیقنات کے ساتھ پہنچ چکا ہے اس میں میں ’’علم ‘‘ کو’’ جہل‘‘ سے کم از کم توہم سے، عمل کی سطح پر ممتاز کرنے رجحان دیکھا جاتا ہے۔ موجودہ دور میں بھی بہت سی چیزیں ایسی ہیں جن کو’’ علم‘‘ تسلیم کرنے میں اتفاق نہیں ہے مثلاً جادو اور جیوتش، علم القیافہ، ستارہ شناسی، مستقبل بینی ۔بلکہ کسی نہ کسی حد تک مذہب اور تصوف کے ساتھ بھی موجودہ علمی نظام یہی فلسفیانہ موقف اپنانے پر مجبور ہوئی ہے۔ میرا مدعا یہ ہر گز نہیں ہے کہ ان چیزوں میں ’’حقیقت‘‘ کے کسی پہلو کا کوئی علم مخفی نہیں ہے، لیکن موجودہ علمی نظام کے مطابق یہ چیزیں اصلاً’’ حقیقت کے علم‘‘ کے دائرے سے خارج ہیں، اور محسوسات کو معیار بنا کر ان کا مطالعہ’’ معلومات‘‘ کی حیثیت سے کیا جاتا ہے۔ مثلاً، جادو منتر کے زور پر بھوت بیتال کوبلانے یا تسخیرِ اجِنّا کا عمل مستند سرگرمی نہیں ہے ۔ بلکہ اب تو جادو کی تعریف تک بدلنے لگی ہے اور جادوگری کی سرّی تعبیر کے بجائے اس کی ایک عقلی و حسی توضیح کو بھی اختیار کیا جاتا ہے اور متعدد انسٹی ٹیوٹس میں اسے سائنسی فن یا’ ٹرک ‘کے طور پر پڑھایا جاتا ہے۔
مذہب، اساطیر اور تصوف جیسی چیزوں کا مطالعہ بھی ’’معلومات‘‘ ہی کی حیثیت سے کیا جاتا ہے اور ان میدانوں کی تحقیق میں یہ نہیں دیکھا جاتا کہ ان کے دعاوی میں کیا سچائی ہے بلکہ یہ دیکھا جاتا ہے کہ وہ انسان سے کیا کہہ رہے ہیں اور انسان کو کیسے متاثر کرتے ہیں۔ تصوف اپنے ابتدائی بیانیہ میں انتہائی سائنسی معلوم ہوتا ہے کیونکہ اس کے ذریعے سے بھی غیب کو حضور میں بدلنے کا دعویٰ کیا جاتا ہے، مثلاً جمع الجمع ، حقیقت کو بچشم خود دیکھ سکنے کی ریاضت۔ لیکن آگے چل کر اس کا بھی حال جادو سے مختلف نہیں ہوتا۔ تصوف اور جادو کا عمل سب کے لیے یکساں قابل استعمال اور مفید نہیں ہوتے۔ خود مذہب کے اساسی دعاوی کا تجرباتی اثبات اب تک نہیں کیا جاسکا ۔ اور اس لیے یہ بھی علم کے دائرے سے خارج ہے اور بطور ایک ’’شئے‘‘ کے اس کا مطالعہ کیا جاتا ہے، مثلا اسلامک اسٹڈیز۔ یعنی ان سب چیزوں کو چونکہ اعتقاد عامہ مبنی برحقیقت سمجھتی ہے اس لیے ان کا مطالعہ سائنسی طریقہ کار سے کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ ایسے سب معاملات میں تحقیق کا ایک کام ہے کہ جو چیزیں ’علوم ‘نہیں ہیں ، ان کو بہت کچھ ’’اوہام‘‘ یا کچھ اور باور کرتے ہوئے علوم کے دائرہ کار میں بطور ایک ’’ شئے‘‘ کے لانا اوران کا مطالعہ کرنا۔ ایسا اس لیے کیا جاتا ہے کہ یہ چیزیں انسانی معاشرہ پر اثرانداز ہوتی ہیں، لوگ ان کی پیروی کرتے ہیں۔
سائنسی ، تجرباتی یا محسوساتی طریقہ ٔٔ کار سے ان ’’اوہام‘‘ یا جو کچھ بھی وہ ہیں، پر تحقیق کرنے سے نہ صرف یہ کہ ان پر منفی اثر پڑتا ہے بلکہ اکثر اوقات ایسا ہوتا ہے کہ خود تحقیق غیرجانب دار نہیں رہ پاتی، اور ان چیزوں کے سلسلے میں بھی ایک طرف جھک پڑتی ہے، اور ایک طرح سے فیصلہ سنانے لگتی ہے، جن پر اس کو اپنے موجودہ سائنسی طریقۂ کار کی رو سے مکمل خاموشی اختیار کرنی چاہیے تھی۔ (اس کی دلیل آگے آ رہی ہے) ۔ مختلف النوع اکادمیوں اور فلسفیانہ رجحانات کے تناظر میں تحقیق بطور ایک زندہ وجود کے اپنی گروہی ،فلسفیانہ، نظریاتی، منہاجیاتی، ترجیحات کی رو سے حیات و کائنات کے متعلق کوئی نہ کوئی اساسی نظریہ قائم کرنے پر مجبور ہوتی ہے اور اسی کے زیر اثر تحقیق کے طریقے،اس کے موضوعات کا تعین ہوتا ہے۔ کیا چیزیں تحقیق کے دائرے میں ہیں اور کیا اس سے باہر ، اس کا کوئی یکساں معیار ہمارے نزدیک نہیں ہوتا اور صاف نظر آجاتا ہے کہ ایک معاملے میں ہم جس اصول کو ترجیح دیتے ہیں دوسرے معاملے میں اس کو نظرانداز کرتے ہیں۔ چونکہ علم پردہ ٔ غیب میں ہے اس لیے ہم کسی موضوع کے سلسلے میں ایک مفروضہ، ایک مقدمہ قائم کرتے ہیں، گویا ایک طرف کو جھکتے ، جانبدار ہو جاتے ، پھر اسی مقدمہ کے اعتبار سے مواد جمع کرتے ، اور ان کے تجزیے کی بنا پر ہی اپنے مخصوص نتائج نکالتے ہیں۔ مقدمہ خود تحقیق کے اندر کا اساسی مسئلہ ہے۔ اگر کوئی امر واقعہ یا فیکٹ مستقبل میں تحقیقی مواد کے تجزیے سے برامد ہونا ہے ، اور وہ تاحال برامد نہیں ہو سکا، اور اسی لیے ہم ایک مفروضہ قائم کرتے ہیں تو اصولاً تو یہ ہونا چاہیے کہ ہم کو اپنے مفروضے کے خلاف ایک دوسرا مفروضہ یا مفروضات پیش کرتے ، اوران کے حق میں بھی مواد تلاش کرتے ،لیکن انسان فطرتاً اپنے فلسفیانہ عقائد و مفروضات کا ’’ مومن‘‘ ہے اور ان کے خلاف از خود دلائل پیش کرنا اس کے لیے اکثر و بیشتر ممکن نہیں ہوتا ۔ اگر اعلیٰ درجے کی تحقیق میں یہ اصول پیش نظر رکھا جائے تو ایسی تحقیق اپنے آپ میں ایک تنقیدی کائنات بن جاتی ہے جس میں ایک سے زیادہ مفروضے کارفرما نظر آتے ہیں اور آخر کار کسی ایک نتیجے کی ترجیحی تعبیر پیش کرتے ہیں۔ اگر تحقیق میں تعبیر کی گنجائش ہے تو ایک ہی واقعے کی وقت واحدمیں ایک سے زیادہ تعبیریں ممکن ہیں۔ لیکن رشید حسن خاں لکھتے ہیں:
اس زمانے میں یہ رجحان فروغ پا رہا ہے کہ تحقیقی مقالوں کے لیے ایسے موضوعات منتخب کیے جاتے ہیں جو اصلاً تنقید کے دائرے میں آتے ہیں۔ یہ تحقیق اور تنقید دونوں کی حق تلفی ہے۔۔۔ تحقیق بنیادی حقائق کا تعین کرے گی ۔۔۔۔ اخذ نتائج میں جہاں سے تعبیرات کی کارفرمائی شروع ہوگی اور ان پر مبنی اظہارِ رائے کا پھیلاو شروع ہوگا، وہاں تحقیق کی کارفرمائی ختم ہو جائے گی۔ ‘‘ (ادبی تحقیق صفحہ ۱۲ بحوالہ تحقیق کا فن صفحہ ۸۱) ۔
لیکن اگر’’بنیادی حقائق کا تعین ‘‘ کو تحقیق کی لازمی شرط قرار دے دی جائے اور تعبیرات کو تحقیق کے دائرے سے بالکلیہ خارج کر دیا جائے ، تو پھر خود تحقیق کا دائرہ اپنے موضوعات سے لے کر عنوانات تک انتہائی تنگ ہو کر رہ جائے گا ۔ محسوسات پر اس قدر اصرار کرنے سے (جس سے بہرحال مفر نہیں) تحقیق کے لیے ،جواپنی نظری، گروہی، مکتبی، اکادمیاتی حیثیت میں ایک’’ زندہ اور مسلسل عمل‘‘ ہے ، سانس لینا بھی دشوار ثابت ہوگا۔ لیکن گیان چند جین کے مطابق:
بدقسمتی سے یونیورسیٹیوں میں ریسرچ کی تعریف یہ کی جا تی ہے:
Discovery of new facts or new interpretation of old fact.
اس میں ’’پرانے حقائق کی نئی تشریح‘‘ کے پردے میں تحقیق کے حصار میں خالص تنقیدی موضوعات کا در یا ڈربہ کھل جاتا ہے۔ (حوالہ سابق، صفحہ نمبر ۸۰)
یہ مسئلہ اپنی جگہ انتہائی مبنی بر حقیقت ہے۔ اور اس سے کسی طور انکار کرنا میرے پیش نظر نہیں۔ لیکن یہ مسئلہ اسی لیے تو پیش آ رہا ہے کہ اکادمیاتی دنیا سے تنقید ی عمل کو خارج کر دیا گیا ہے۔ اور تنقید کا پانی اپنے باندھ کو توڑ کرتحقیق کی حدوں میں داخل ہو جاتا ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ آج تحقیق کو جو مسائل درپیش ہیں ان کو خود تحقیق کی رو سے نہیں سلجھایا جا سکتا۔ تحقیق اپنے پیروں پر نہیں کھڑی ہوئی ہے کیونکہ اس کا طریقہ کارکسی نہ کسی فلسفہ یا تنقیدی نظریہ سے مستعار ہے۔
علم وفن کا کوئی بھی رخ خواہ وہ تخلیق ہو، تنقید ہو، یا تحقیق ہو ایک دوسرے آزاد نہیں ہے۔علمی و بین العلومی و بین الفنونی تحقیق، تنقید، اور تخلیق کو ایک دوسرے سختی سے جدا کرنا اور اکادمیوں میں صرف ایک پہلو ’’تحقیق‘‘ کا فروغ پانا اور دیگر پہلوؤں کا انسداد تحقیق کو درپیش اس مسئلے کا ایک سبب ہے جس کی طرف گیان چند جین نے اشارہ کیا ہے۔ اگر ہمارے ہاں اکادمک صحت مند اور باادب تنقید کو باضابطہ فروغ دیا جاتا تو تحقیق کے حصار میں خالص تنقیدی موضوعات کا ڈربہ ہر گز نہ کھلتا، کیونکہ ناقدانہ مزاج کے لیے جو تحقیق کے فن میں دلچسپی نہیں رکھتا ایک تنقیدی کام کا متبادل ہمیشہ موجود رہتا۔

ہم کوئی تحقیق اسی لیے انجام دیتے ہیں کہ اس کی بنیاد پر جو نتیجہ نکلے گا وہ حرفِ آخر کا حکم رکھتا ہوگا۔ اس پر کسی کلام کی گنجائش نہ ہوگی۔ وہ ہر قسم کے شک و شبہے سے بالا تر ہوگا۔ یہ تحقیق کا آدرش ہے جس کو لے کر ہم آگے بڑھتے ہیں۔ لیکن جیسے جیسے ہم تحقیق کے میدان میں دستیاب علمی ماخذ کے ساتھ آگے بڑھتے جاتے ہیں، ویسے ویسے ہم کو یہ معلوم ہوتا جاتا ہے کہ اصول اور آدرش اپنی جگہ، لیکن واقعات کی دنیا میں اس کو قائم کرنا تقریباً ناممکنات میں سے ہے۔کیونکہ حیات و کائنات کے اکثرو بیشتر امورو مسائل میں بلکہ انسانی زندگی کے انتہائی اساسی امور تک میں عالم غیب کا حصہ عالم شہادت سے انتہائی ناقابل ادراک طور پر زیادہ ہے۔ لیکن اس کے باوجود انسان میں جرأ ت تحقیق پائی جاتی ہے ۔ اس کا سبب یہ ہے کہ وہ دنیا میں تحقیق کے ذریعے کوئی نہ کوئی عملی رویہ ،پالیسی اور راستہ اپنانے پر مجبور ہے۔ تحقیق کا یہی لزوم اس کی روز افزوں اہمیت کا سبب بھی ہے۔
شہود سے غیب تک جانے یا نا معلوم کو معلوم کرنے کے عمل میں تحقیق سے مدد لیتے ہوئے ہم جن موضوعات کو منتخب کرتے ہیں اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ہم نتیجے میں ’’ قطعیت ‘‘ چاہتے ہیں ورنہ بہت سے ایسےامور ہیں جو تجسس کا موضوع ہیں، اور ہمارے لیے مستقل مسئلہ کی حیثیت رکھتے ہیں لیکن ہم انہیں تحقیق کا موضوع بنانے کی اجازت نہیں دے سکتے۔ انسانی زندگی سب سے اہم موضوعات ، مثلاً ،’’ خدا ہے یا نہیں ؟‘‘، تحقیق کے دائرے سے باہر ہے، اصولاً تحقیقی آدرش کو سامنے رکھ کر سوچا جائے تو ایسے موضوعات بھی تحقیق کے دائرے سے باہر نہیں ہونے چاہئیں کیونکہ ایسے مسائل ہمارے سامنے بہرحال نہ صرف موجود ہوتے ہیں بلکہ ہم پر اثرانداز بھی ہوتے ہیں۔ اور ہم ان کے سلسلے میں فلسفیانہ یا متعصبانہ یا جذباتی طور اپنی اپنی ذاتی ترجیحات قائم کر لیتے ہیں۔ اور یہی مسائل انسان کے لیے زیادہ اہمیت رکھتے ہیں۔ خدا انسان کی آنکھوں سے اوجھل ہے لیکن سب سے زیادہ اسی موضوع پر تجسس کا اظہار کیا جاتا ہے۔ لیکن یہ تحقیق کا موضوع اس لیے نہیں ہو سکتا کہ اس سمت میں بہت جستجو کی جا چکی ہے لیکن کسی کے ہاتھ کچھ نہ آ سکا اور حل نہ ہو سکنے کے سبب یہ ایمان یا آستھا کا مسئلہ ہے بن کر رہ گیا ہے ۔اس جیسی بہت سی مثالیں پائی جا تی ہیں۔
ایسا محسوس ہوتا ہے کہ انسانی زندگی کے وہ ناقابل حل مسائل جو تحقیق کے موضوع سے باہر ہیں، ہمارے لیے زیادہ اہمیت رکھتے ہیں، اور کسی نہ کسی طور ان مسائل پر جو تحقیق کے موضوع کے اندر ہیں اثر انداز ہوتے ہیں۔ خدا کا وجود ہے یا نہیں، اس پر تو کوئی سائنسی تحقیق نہیں چلائی جا سکتی، لیکن نظریۂ ارتقا پر بڑے اطمینان سے تحقیق جاری رکھی جا سکتی ہے جس سے خدا کے نظریے کو زک یا تقویت پہنچ سکتی ہے۔ نظریہ ارتقا سے متعلق ہر مثبت یا منفی تحقیق پر عام تعلیم یافتہ آبادی انتہائی شد و مد سے دلچسپی لیتی ہے۔ موجودہ دور میں براہ راست خدا کے نظریے پر تحقیق نہ کر کے تخلیق کائنات کے نظریہ Intelligent Design پر بھی تحقیق جاری ہے۔ گویا ہمارے لیے تحقیق کا کوئی نہ کوئی ایسا موضوع ہونا چاہیے جس پر تحقیق کا نتیجہ شائع کرنے کے ذریعے ہم تحقیق کے دائرے سے باہر کے ’’زیادہ حساس اور ناقابل تحقیق موضوعات‘‘ پر کسی نہ کسی طور پر اثرانداز ہو سکیں۔

الحاصل ، علوم میں تحقیق کے مسائل بے شمار ہیں۔ اصل مسئلہ خود تحقیق کی تعریف کا ہے۔ اس کو تنقید ، تفکیر اور تخلیق سے واضح طور پر الگ کرنے کا ہے۔ اور یہی نہیں ، جب ہم ایک کو دوسرے سےبہت الگ کرنے لگتے ہیں تواس کے سبب دوسرے مسائل تحقیق کو درپیش ہو جاتے ہیں۔ اور اس پورے عمل میں سائنسی معروضیت کی حد متعین کرنا، اس میں فلسفیانہ تعبیروں کی گنجائش پیدا کرنا نہ کہ اس کو مکمل طور پر فلسفہ کے ماتحت کردینا، اس میں دلچسپی پیدا کرنا نہ کہ خشک اور بے جان معروضیت پر حد سے زیادہ اصرار کرتے ہوئے اس کو ہمالیائی ریاضت میں بدل دینا، بین العلومیت سے کام لینا نہ کہ کسی موضوع کے علمی حصار میں مقید ہو جانا، تحقیق کو ایک مسلسل عمل کے طور پر دیکھنا نہ کہ کسی خاص مقام پر اس کو ٹھہرا کر نتائج کو حتمی بنا لینا، اور سب سے بڑی بات یہ کہ اپنے تحقیقی موضوع پر نہ صرف یہ کہ اپنے موقف کے حق میں دلائل پیش کرنا بلکہ بلکہ اس کے خلاف بھی چیزوں کی تلاش میں منہمک رہنا ، اور پھرتمام تر دستیاب ماخذ اور مواد کا ایسا تجزیہ اور تعبیر پیش کرنا جس سے کہ محقق کے طور پر ہمارے ذہن میں چل رہا تمام تر پروسیس بالکل آئینہ ہو کر مقالے میں نکھر آئے — یہ سب کچھ ایک بہت بڑا چیلنج ہے۔ بلکہ یہ کہا جائے تو بے جا نہ ہو گا کہ اگر خود تحقیق کو ایک مسئلہ باور کرتے اور بار بار اس کے طریقے پر شک کرتے ہوئے تحقیق کی جائے تو اس کے نتائج میں قطعیت اور اعتبار و استناد کا امکان بہت بڑھ جاتا ہے۔

تبصرے

Unknown نے کہا…
صفحات دیر میں لوڈ ہوتے ہیں۔

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

قرآن اور بگ بینگ

ایک بہت طویل عرصے سے اہل اسلام کا مغرب زدہ طبقہ قرآن کی تصدیق جدید ترین سائنسی تحقیقات کی بنیاد پر کرنا چاہتا ہے. اس کی اصل دلیل یہ ہے کہ اگر قرآن خدا کی کتاب نہ ہوتی تو اس میں بیسویں صدی کے سائنسی انکشافات کا ذکر چودہ سو سال پہلے کیونکر ممکن تھا؟ اس سلسلے میں ایک بہت بڑی مثال بگ بینگ کی دی جاتی ہے اور قرآن کی اس آیت کو دلیل بنایا جاتا ہے: اَوَلَمْ يَرَ الَّذِيْنَ كَفَرُوْٓا اَنَّ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ كَانَتَا رَتْقًا فَفَتَقْنٰهُمَا ۭ وَجَعَلْنَا مِنَ الْمَاۗءِ كُلَّ شَيْءٍ حَيٍّ ۭ اَفَلَا يُؤْمِنُوْنَ کیا کافروں نے نہیں دیکھا کہ آسمان اور زمین دونوں ملے ہوئے تھے تو ہم نے جدا جدا کردیا۔ اور تمام جاندار چیزیں ہم نے پانی

مذہب و تصوف اور فلسفہ و سائنس کا منتہائے مقصود

     یہ کائنات نہ کوئی ڈیزائن ہے اور نہ اس کا کوئی ڈیزائنر۔ اور نہ یہ کائنات عدم ڈیزائن ہے جس کا ڈیزائنر معدوم ہے۔ یہ دونوں بیانات ناقص ہیں۔ ہم بحیثیت انسان بذریعہ حواس خارج میں جو کچھ دیکھتے ہیں وہ دراصل ہماری وجدان کی مشین اور ذہن ہی سے پروسیس ہو کر نکلتا ہے۔ اور وجدان کے اس جھروکے سے نظر آنے والی یہ کائنات ایک ایسی احدیّت کے طور پر ابھرتی ہے جس میں یہ ڈیزائن صرف ایک منظر ہے جس کی شناخت عدم ڈیزائن کے دوسرے منظر سے ہوتی ہے۔ اسی طرح اس کائنات میں منصوبہ بھی ایک منظر ہے جس کی شناخت عدمِ منصوبہ کے دوسرے منظر سے ہوتی ہے۔ کائنات میں چیزیں ایک دوسرے کے بالمقابل ہی شناخت ہوتی ہیں۔ اس لیے یہ کہنا کہ کائنات میں کوئی منصوبہ ہے اس لیے کوئی منصوبہ ساز ہونا چاہیے، یا کائنات بجائے خود کوئی ڈیزائن ہے اس لیے اس کا ڈیزائنر لازماً ہونا چاہیے ناقص خیال ہے۔ اسی طرح یہ کہنا کہ اس کائنات میں عدم ڈیزائن ہے اور اس لیے اس کا کوئی ڈیزائنر نہیں ہے یہ بھی ایک ناقص خیال ہی ہے۔ یہ دونوں بیانات آدھے ادھورے مناظر کی تعمیم کی بنا پر گمراہ کن قیاس کی مثالیں ہیں۔ یاد رہے کہ منصوبہ صرف ایک منظر ہے، یا یوں...