ہفتہ، 18 مئی، 2013

اسلامی ہند میں فلسفہ کی روایت

فلسفہ و سائنس  کے فروغ میں مادری و تہذیبی زبان کے لزوم پر میں نے  ۳ مارچ ۲۰۱۲ عیسوی کو فیس بک پر ایک نوٹ لکھا تھا۔ میرا موقف یہ تھا کہ  عظیم فلسفے مادری یا تہذیبی زبان میں ہی  وجود میں آ سکتے ہیں۔ چونکہ ہم نے آزادی کے بعد بھی برصغیر میں انگریزی زبان کے تسلط کو برقرار رکھا، اس لیے ہمارے ہاں مغربی ممالک جیسے عظیم خلاق فلاسفہ کے ظہور کا امکان ہی سرے سے ختم ہو کر رہ گیا۔ اس پر کئی احباب نے مثبت و منفی تبصرے کیے۔ انہیں میں سے ایک صاحب نے درجِ ذیل تبصرہ کیا تھا:   
جناب طارق صاحب، آپ نے فرمایا: ’’میں سمجھتا ہوں کہ دور جدید میں برصغیر ہندوپاک، بلکہ عالم اسلام کے اکثر ملکوں میں بھی، عظیم فلسفی یا سائنسداں اس لیے پیدا نہ ہو سکے کہ برطانوی استعمارکے خاتمے کے بعد بھی پوری اکادمک دنیا پرانگریزی جیسی غیر موزوں زبان (مذکورہ بالا معنوں میں) کا تسلط قائم رہا‘‘ مجھے صرف یہ جاننا ہے کہ برطانوی استعمار اور اس کے ساتھ انگریزی زبان کے تسلط سے قبل کم از کم پانچ سو سالوں میں برصغیر میں کون سا عظیم فلسفی پیدا ہوا۔ بلکہ ہماری پوری تاریخ میں عظیم فلسفیوں کی مجموعی تعداد کیا ہے؟
میں  کوئی محقق تو ہوں نہیں اور نہ میں نے تاریخ کا گہرا مطالعہ کیا ہے، اس لیے ان کے سوالات کا بروقت کوئی جواب میں نہ دے سکا۔ لیکن ان کے ایک سوال کا جواب مجھے اتفاقاً مولانا شبیر احمد خاں غوری کے ایک مقالے ‘‘قرونِ وسطیٰ کے ہندوستان میں فلسفۂ و حکمت کا ارتقا’’ میں مل گیا۔  پھر میں نے انہیں فیس بک پر درجِ ذیل جواب دیا:  
برطانوی استعمار اور انگریزی کے تسلط سے قبل کم از کم پانچ سو سالوں کے اندر اسلامی ہند میں فلسفہ کی کیا صورت حال تھی میں نے اس پر کوئی باضابطہ تحقیق تو اب تک نہیں کی (اور نہ فی الحال میں اس تحقیق کی کوئی خاص ضرورت سمجھتا ہوں کیونکہ مسلمانوں کو ابھی تحقیقِ ماضی کے بجائے ترجمہ ٔ مغرب کی ضرورت ہے) لیکن اتفاقاً مجھے مولانا شبیر احمد خاں غوری کی ایک تحریر اس سلسلے میں ہاتھ آ گئی ہے۔ وہ آپ کی خدمت میں پیش کر رہا ہوں:۔’’قرونِ وسطیٰ کے ہندوستان میں مدارسِ کے اندر شروع ہی سے علوم دینیہ اور عربی ادب کے ساتھ ساتھ منطق و حکمت کی تعلیم بھی ہوتی تھی اور اس طرح ابتدا ہی سے منقول کے ساتھ معقول کی تعلیم کابھی رواج تھا۔ مگر دسویں صدی کے آغاز سے یہاں معقولات کا رواج بہت زیادہ بڑھنے لگا [1]  اور اس صدی کے آخر سے تو اس نے غیر معمولی اعتنا کی و اہتمام کی شکل اختیار کر لی۔ [2]فلسفہ و معقولات کی اس گرم بازاری کا نتیجہ یہ ہوا کہ بارہویں صدی کے ہجری (اٹھارہویں صدی مسیحی) میں جب کہ عالم اسلام کے دوسرے ممالک سیاسی و معاشرتی انقلابات کا تختۂ مشق بنے ہوئے تھے اور علم و حکمت بالخصوص منطق و فلسفہ کا چرچا برائے نام رہ گیا تھا، علمائے ہند نے اپنی مساعی ٔ جمیلہ سے اس شاندار علمی ورثے کو اپنے نقطہ ٔ عروج پر پہنچا دیا۔ بالخصوص ملا عبد الحکیم سیالکوٹی، ملا محمود جونپوری، میر زاہد، ملا محب اللہ بہاری وغیرہم کی کوششوں سے منطق و فلسفہ کے ایک نئے دور کا آغاز ہوا، جس کی روایات کو ان کے جانشینوں ، بالخصوص علمائے فرنگی محل و خیر آباد اور دیگر شراح ’’مسلم العلوم‘‘  و محشیان ’’صدرا‘‘ و ’’شمس بازغہ‘‘ نے اگلی صدی میں بھی جاری رکھا۔ بعد میں ان علوم کے اندر اس درجہ توغل و انہماک کیا گیا کہ مدارس ِ عربیہ کے نصاب پر معقولات ہی معقولات چھا کر رہ گئی۔
اس کا ردعمل بھی ناگزیر تھا۔ اور مختلف تعلیمی اداروں نے اصلاح نصاب کے نام سے معقولات کو انتہائی بے دردی کے ساتھ اپنے یہاں سے خارج کرنا شروع کیا  مگر بعد میں اکابر ملت کو اس بے اعتنائی کے مضر اثرات کا احساس ہوا۔ ان میں نمایاں شخصیت حکیم مشرق علامہ اقبال کی تھی۔ ‘‘الٰہیات اسلامی کی تشکیل جدید ‘‘ کی ترتیب کے دوران میں ’’مسئلہ زمان‘‘ کی توضیح کے سلسلے میں انہوں نے علامہ سید سلیمان ندوی کے مشورے سے اس موضوع پر علمائے ہند کی تصانیف کا بھی مطالعہ کیا۔ اس سے انہیں معلوم ہوا کہ اس مسئلے میں بھی جس نے حکمائے یورپ کو مبتلائے حیرت بنا رکھا ہے ہندوستانی فضلا کی کوششیں کسی طرح فلاسفہ ٔ یورپ کی فکری کاوشوں سے کم نہیں ہیں۔ اس طرح انہیں اسلامی ہند کی فلسفیانہ عبقریت کا احساس ہوا اور انہوں نے سید سلیمان ندوی کو اپنے مکتوب  (۴ ستمبر ۱۹۳۳) میں تحریر فرمایا: ’’ درالمصنفین کی طرف سے ہندوستان کے حکمائے اسلام پر ایک کتاب نکلنی چاہیے ۔ اس کی سخت ضرورت ہے۔ عام طور پر یورپ میں سمجھا جاتا ہے کہ ہندوستان کے مسلمانوں کی کوئی فلسفیانہ روایات نہیں ہیں۔‘‘مگر بعد میں کاتب و مکتوب الیہ دونوں کی گوں ناگوں مصروفیتں اس مقدس خواہش کی تکمیل کرنے اور کرانے میں مانع رہیں، لیکن اقبال کا مذکورۃالصدر ارشاد ہنوز قوم پر ایک واجب الادا فرض ہے اور جس قدر جلد یہ فرض ادا ہو جائے اتنا ہی اچھا ہے۔ ‘‘ (غوری، شبیر احمد خاں، قرونِ وسطیٰ کے ہندوستان میں فلسفہ و حکمت کا آغا ز و ارتقا، مشمولہ اسلامی ہند میں کلا م و فلسفہ، ناشر  خدابخش اورینٹل پبلک لائبریری، صفحہ ۲۴۹ تا ۲۵۰)
ہندوستانی مسلمانوں میں فلسفہ کے زوال کے اسباب دو ہیں۔ ایک ہے علمائے منقولات کی فلسفہ دشمنی۔ وہ عوام کو فلسفہ کے خلاف یہ کہہ کر  بھڑکاتے ہیں کہ اس سے تمہاری آخرت برباد ہو جائے گی۔ اور دوسری ہے مسلمانوں پر غیر زبان کا تسلط ۔ یہ دونوں چیزیں ایک ساتھ مل کر انتہائی طاقتور ہو جاتی ہیں اور قوم میں فلسفیانہ عمل کی ترقی نہیں  ہوتی۔ پھر جب  ہمارے ہاں فلسفہ نہ رہا تو سائنس بھی نہ رہی۔ اور سائنس کا فقدان تکنالوجی کے فقدان کو مستلزم ہوا۔ پھر فلسفہ کے زوال کے ساتھ ہی  قومی قیادت کا زوال بھی یقینی تھا کیونکہ فلسفہ انسان کو  ذہنی و فکری  طور پر بلند کرتا ہےجو کسی جامد عقیدے کے ساتھ ممکن نہیں۔ وہ تو شکر منائیے کہ ہندوستان میں شعر و ادب سلامت رہا جس کی بدولت قوم میں کچھ شعور باقی ہے ورنہ سب غارت ہو جاتا۔
آپ کے سوال کا جواب یہی ہے کہ انگریزی زبان کے تسلط سے پہلے ہندوستانی مسلمانوں میں فلسفہ کی ایک عظیم روایت ضرور  پائی جاتی تھی جس کو علمائے منقولات نے فنا کے گھاٹ اتار دیا۔ میں تو بس فکری مقدمات قائم کرتا ہوں، اور دیکھ لیجیے کہ وہ تحقیق سے کس قدر صحیح ثابت ہوتے ہیں۔ 
[1] مولانا عبداللہ تلبنی۔۔۔ و شیخ عزیزاللہ تلبنی رخت رحلت بدارالخلافہ دہلی کشیدند و علم معقول را دریں دیار مروج ساختند‘‘ (ماثرالکرام، صفحہ ۱۹۱) یہ دونوں بزرک سلطان سکندر لودی (۸۹۴۔۹۲۴ ہجری) کے زمانہ میں تھے۔)
[2] ’’تصانیف علمائے متاخرین  ولایت مثل محقق دوانی و میر صدرالدین و میر غیاث الدین منصور و میرزا جان میر (امیر فتح اللہ شیرازی) ہندوستان آورد و در حلقہ درس انداخت۔۔۔ و ازاں عہد معقولات را رواجے دیگر پیدا شد‘‘ (ایضاً، صفحہ ۲۳۸) امیر فتح اللہ شیرازی دکن سے شمالی ہندوستان میں ۹۹۰ ہجری میں تشریف لائے تھے۔ 

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

تبصرہ کریں