نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

ترجمہ میں تقلیب ، انتقال اور ارتقا کے تصورات

(۱)
کیا ترجمہ ایک زبان  کے اصل متن کے مفہوم کو دوسری زبان میں بدلنے کا نام ہے جس میں معانی آلودہ ہو جاتے ہیں؟ ہدفی زبان میں اصل متن  کی زبان کے عین مساوی لفظ نہیں مل  سکتا کیونکہ ایک زبان کے  حقیقی متبادل الفاظ  دوسری زبان میں اگر ملتے بھی ہیں تو ان کے خواص اور تاثرات سے ہاتھ دھو لینا پڑتا ہے۔ یہاں تک کہ ناموں کے بھی اپنے صوتی خواص ہوتے ہیں اور وہ بھی ایک زبان سے دوسری زبان میں داخل ہو کر اپنا تاثر بدل دیتے ہیں۔ انگریزی کا لنڈن اردو میں لندن ہوجاتا ہے اور ان دونوں الفاظ سے ذہن میں دو مختلف تاثر پیدا ہوتے ہیں۔ اسی طرح کرشن چندر اردو میں کرشن چندَر ہوجاتا ہے اور پریم چندر پریم چند۔ اس لیے ایک زبان کےایسے الفاظ بھی دوسری زبان میں آکر بہ اعتبارِ معنی اگر نہیں بدلتے تو بہ اعتبار تاثر منقلب ہو جاتے ہیں۔ چنانچہ ژاک دریدا اپنے انٹرویو کے مجموعے پوزیشنس میں کہتا ہے:
… for the notion of translation we would have to substitute a notion of transformation: a regulated transformation of one language by another, of one text by another. we will never have, and in fact have never had, to do with some “transport” of pure signifieds from one language to another, or within one and the same language, that the signifying instrument would leave virgin and untouched. .[1]
یہ واضح ہے کہ ژاک دریدا کی نظر میں  ترجمہ  میں تقلیبِ متن  ہی ہو سکتا ہے کیونکہ  ایک زبان کے تصورِ معنی کے دوسری زبان میں، یا ایک ہی زبان سے اسی زبان میں  منتقل ہوتے وقت معنی نمائی کرنے والا آلہ تصورِ معنی کو کورا اور ان چھوا نہیں رہنے دیتا۔ بن وان وائیکےکی نظر میں دریدا ترجمہ  کے  تقلیبی نوعیت ہونے کا حامی اس لیے ہے  کہ اوریجنل متن غیرمستحکم شئے ہے اور اس کی تعبیر مختلف طریقوں سے کی جا سکتی ہے ، اور کیونکہ کہ زبانیں  اساسی طور پر ایک دوسرے سے مختلف بھی  ہیں ، اس لیے ترجمہ معنی کی منتقلی نہ ہو کر ہمیشہ تقلیب کو مستلزم ہوگا۔ اصل الفاظ درج ذیل ہیں: 
Whereas the most translation discourse has historically been dominated by the idea that translation should transport the meaning of the original to another language, according to Derrida because an original is an unstable object that can be interpreted in various ways, and because languages are fundamentally different from one another, translation can never be a ‘transferral’ of meaing but will always entail its ‘transformation’ . [2]
اس میں شک نہیں کہ انتقالِ معنی  کے عمل میں معانی  وہی نہیں رہتے جو پہلے تھے، خواہ وہ ایک زبان کے کسی متن کی اسی زبان میں ترجمانی ہو، یا ایک زبان سے دوسری زبان میں ترجمہ ہو۔ لیکن یہاں ایک سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جس معنی کو ہم نے ترجمہ میں منتقل کیا وہ واقعی غیر آلودہ تھا؟  جب دریدا یہ کہتا ہے کہ  ایک ہی زبان میں ترجمہ یا ترجمانی کا عمل بھی خالص نہیں ہوتا اور معنی نما ئی کا آلہ اس کو Virgin یا Untouched نہیں رہنے دیتا تو اس سے یہ نتیجہ بھی نکلتا ہے کہ اصل متن خود Virgin  یا Untouched نہیں ہے کیونکہ ترجمانی کا زبان میں ہر کہیں عمل دخل پایا ہی جاتاہے۔ کیا ہم ترجمہ کو Transferral of meaning سے زیادہ Transformation  کا عمل صرف اس لیے مان لیں کہ معنی نمائی کا آلہ معنی کو آلودہ کر دیتا ہے؟ یا اس کا کوئی اور معقول سبب تلاش کیا جا سکتا ہے؟  ژاک دریدا کے نتائج اگرچہ بالکل صحیح ہیں لیکن  چونکہ اس کا یہ نتیجہ فرانس کے ایک  خاص عہد کی  پیدا وار ہے اور اس کے ردّ تشکیلی طریقِ کار اور رجحان  کے نتیجے میں وجود میں آیا ہے اس لیے ہر ایک  سیاق میں اس نتیجے کو من و عن  اور لفظ بہ لفظ قبول نہیں کیا جاسکتا۔

(۲)
ترجمہ اگر اصل متن  کے مفہوم کی منتقلی ہے تو اصل متن خود اپنے مفہوم کی منتقلی جو اصل مصنف کے ذہن میں پہلے سے نقش ہوتا ہے، لسانی مفہوم کی منتقلی کے اس زاویے سے دیکھا جائے تو اصل متن خود اپنے اس مفہوم کا ترجمہ  ہے جو اس کے تجربات و خیالات پر مبنی ہوتا ہے۔ اصل  متن تو دراصل محض ایک واسطہ اور وسیلہ ہے اس کے مفہوم تک پہنچنے اور اس کو ہدفی متن میں کسی نہ کسی طرح درآمد کرلینے کا۔پس ترجمہ کا تصور اگر مفہوم کی منتقلی سے عبارت ہےتو اصل متن محض ایک آلہ کار ہے نہ کہ مقصود بالذات۔ اگر اصل متن  ہی مترجم کا مقصود ہوتا تو وہ ہدفی  زبان  میں اصل متن کو ہی منتقل  کرتا، نہ کہ اس کے مفہوم اور تاثر وغیرہ کو۔ دلیل اس کی یہ ہے کہ اصل متن کوہدفی زبان میں  منتقل کرنا ترجمہ یا ٹرانسلیشن نہیں بلکہ  ٹرانسلٹریشن یا نقلِ حرفی ہے۔ اس   دلیل سے یہ نتیجہ نکالنا غلط نہیں ہو سکتا کہ  مترجم کی غرض  و غایت بجائے خود اصل متن  کی تقلیب نہیں بلکہ اصل متن کے معنی کی  ہدفی متن میں تقلیب ہے۔ ایک مترجم اصل متن کے الفاظ کے ذریعے ان کے رائج معنی تک پہنچتا ہے  اور پھر وہاں سے ہدفی زبان میں اس معنی  کی طرف نشاندہی کرنے والےرائج الفاظ کی مدد سے ترجمہ کرتا ہے۔اور مصنف و متکلم بھی بعینہِ یہی عمل  انجام دیتا ہے یعنی  مترجم کی طرح ہی اصل کے مفہوم کی منتقلی۔ لیکن ہم اس نتیجے پر تبھی پہنچ سکتے ہیں جب ہم اِس  معروف  مگر محتاجِ ثبوت نقطۂ نظر کو  کسی حد تک تسلیم کر لیں کہ زبان  سوائے اظہار کے وسیلے کے اور کچھ نہیں۔ لیکن چونکہ دریدا کے  تحقیقی موقف  کے  مطابق  معنی نمائی کا آلہ (Signifying Instrument)  اصل مفہوم کو کورا اور ان چھوا Virgin  یا ٗ Untouched نہیں رہنے دیتا  اور اس نقطۂ نظر کو اپنانے کے بعد  کہہ سکتے ہیں کہ اصل معنی اپنی تمام تر معصومیت کے ساتھ منتقل نہیں ہوسکتا بلکہ اس میں نئے معانی کی آمیزش عملاً  ہو جاتی ہے، خواہ یہ ہم کو محسوس ہو یا نہ ہو۔ اور میرے سامنے  مسئلہ یہ ہے کہ نئے معنی کی آمیزش کیا اصولاً غلط ہے؟ کیا اصل متن کے معنی میں نئے معانی کا داخل ہونا فی نفسہ غیر مطلوب  اور مضر ت رساں ہے، یا نفع بخش ہے؟  اگر ہم اس کو مضرت رساں کہیں تو پھر اس فطری مشاہدے کی تکذیب ہوتی ہے جس کا علم ہم کو ژاک دریدا کے موقف میں پنہاں بصیرت سے ہوتا ہے۔ اس  مسئلے کے  حل کے لیے ہم زبان کے سلسلے میں زبان  کے سلسلے میں کلیم الدین احمد کے نقطہ ٔ نظر سے رجوع کرتے ہیں تو مسئلہ  کسی قدر  حل ہوتا نظر آتا ہے۔ ان کے بقول ’’ زبان کوئی اچھوتی، حسین دیوی نہیں جس کی پوجا کی جائے۔ یہ تو صرف ایک ذریعہ ، ایک آلہ ہےجس سے جذبات و خیالات کی ترجمانی ممکن ہے۔ جذبات و خیالات سے الگ اس کی کوئی خاص وقعت اور اہمیت نہیں۔‘‘ [3] ڈاکٹر قمر رئیس نے بھی ترجمہ کا فن اور روایت میں  اس خیال کو ’’صحیح‘‘ کہہ کر پیش کیا ہے کہ ’’زبان اور الفاظ اساسی طور پر خیال کے ابلاغ کا ذریعہ ہیں ‘‘۔ [4]
کلیم الدین احمد اور قمر رئیس دونوں کے زبان سے  متعلق مذکورہ  خیالات   سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ  زبان  اساسی طور پر معنی کے  اظہاریا ابلاغ کا ذریعہ یا  آلہ  ہے۔ اس کے ساتھ ہی کلیم الدین احمد کے درجِ ذیل قول سے لسانی تجربات اور ماورائے لسان تجربات کے درمیان فرق کیا جا سکتا ہے:
‘‘الفاظ اور تجربات میں جو ناگزیر تعلق ہے اس سے لوگ عموماً واقف نہیں ہیں۔ ہمارے جو تجربے ہوتے رہتے ہیں، جن خیالات کی لہریں ہمارے دماغ میں اٹھتی رہتی ہیں، جو اثرات ہماری قوتِ حاسہ قبول کرتی رہتی ہے، ان سب چیزوں کو ہم اپنے حافظہ میں الفاظ کی مدد سے محفوظ رکھتے ہیں، اور فطری طور پرہم انہیں لفظوں کا غیر شعوری استعمال کرتے ہیں جنہیں ہم اپنی بول چال میں کام میں لاتے ہیں، جب ہم کسی خاص جذبہ سے مجبور ہو کر اپنے تجربوں کو شعری سانچہ میں ڈھالنے لگتے ہیں تو ہمارے تجربے ، ہمارے خیالات ، ہمارے احساسات انہیں الفاظ کا جامہ پہن کر سامنے آتے ہیں۔’’[5]
یعنی اپنے  تجربات و خیالات اور قوت حاسہ پر مرتسم ہونے والے اثرات  کو ہم ایک دوسری قسم کی چیز الفاظ یا زبان کے ذریعے اپنی یادداشت میں محفوظ رکھتے ہیں۔ اور لسانی اظہار ، خواہ وہ شاعرانہ ہو یا غیر شاعرانہ ، انہیں الفاظ کا جامہ پہن کر سامنے آتے ہیں۔ اس طرح انسان کے دو تجربات ہوئے، ایک وہ جو ماورائے لسان ہیں، اور دوسرے  وہ جو مبنی بر لسان ہیں۔ ہمارے ماورائے لسان تجربات خود ہمارے ہوتے ہیں، دوسروں سے مستعار نہیں۔ لسانی اظہار میں ہمارے الفاظ اور جملوں کی نشست و برخاست دوسروں سے بالکل مختلف ہوتی ہے۔ اورایسا اس لیے ہوتا ہے کہ ہمارے  جذبات و احساسات یا ماورائے لسان تجربات دوسروں سے  مختلف ہیں۔ اس حقیقت سے انکار نہیں ہو سکتا  کہ زبان  فرد کے دنیا میں آنے سے پہلے  معاشرہ میں موجود ہوتی ہے، اوراگر زبان  میں منفرد انسانی تجربوں کے اعتبار سے منقلب ہونے کی صلاحیت نہیں ہوتی تو انسان مجبور ہوتا کہ وہ  بالکل مشین  یا طوطے کی طرح  اپنے ذہن میں موجود معنی کو منتقل کرتا رہے۔ اس صورت میں زبان  خیالات کو منتقل کرنے والی ایک غیر متغیر اور صاف و شفاف شئے ہو جاتی  لیکن یہ ایک ناممکن بات ہے۔کلیم الدین احمد کہتے ہیں کہ اگر ہم اپنے  تحت الشعور سے ابھرنے والےمبینہ طور پر غیر فصیح  الفاظ کو فصیح و پاکیزہ الفاظ سے بدل دیں ‘‘تو شاید فصاحت تو ہاتھ آجائے لیکن اثر زائل ہوجائے گا۔‘‘ [6] اسی  سے متصل پیراگراف میں آگے لکھتے ہیں:
’’ہمیں یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ اگر کسی شاعر میں اصلیت ہے، اگر اس کی خاصی شخصیت ہے، اگر اس کے تجربے کسی خاص رنگ میں رنگے ہوئے ہیں تو وہ اپنی زبان آپ بنا سکتا ہے،شاعر زبان کا بندہ نہیں، زبان اس کی محکوم ہے۔ اگر اس میں ایجاد کا مادہ ہے تو وہ اپنے نایاب تجربوں کے لیے زبان کے نئے نئے سانچے بنا سکتا ہے ‘‘[7]
کلیم الدین احمد زبان کو حاکم نہیں بلکہ محکوم کی حیثیت میں دیکھتے ہیں اور تجربے کی لطافت کودھلی دھلائی زبان پر قربان نہیں کرنا چاہتے۔ اوپر نقل شدہ الفاظ کو اپنے الفاظ میں کہوں تو شاعر اپنے تجربات  کے لحاظ سے زبان کے نت  نئے سانچے بناتا  اور اس طرح زبان کی ‘‘ تقلیب ’’کرتا  رہتا ہے۔ اس عمل میں ظاہر ہے معنی کی ترسیل بھی ہوتی ہی ہے، لیکن اس کی نوعیت نقلِ  محض  یا انتقالِ محض کی نہیں ہوسکتی۔ زبان کوئی ڈھلی ڈھلائی عمارت نہیں بلکہ  یہ ایک سیال نوعیت کی شئے ہے جو تجربوں کے سانچے میں ڈھل جانے کے بعد ایک ڈھلی ڈھلائی عمارت جیسی ایک  تاریخی نوعیت کی چیز ہو جاتی ہے۔ پھر اس  میں کوئی حذف و اضافہ ممکن نہیں ہوتا۔یہ فن پارہ کا اتمام ہے کیونکہ اس  کے بعد بالذات اس میں کوئی ارتقا ممکن نہیں ہے۔ یہ ایک طرح سے فن پارے کی  موت بھی ہے ، جس کے بعد اس کی وراثت کی تقسیم عمل میں آتی ہے اور حسب استعداد اور بقدرِ ظرف  نئے فن پاروں کا  ظہور ہوتا ہے۔ بقول کلیم الدین احمد  ’’ اگر شاعر میں ایجاد کا مادہ ہے، تو وہ اپنے نایاب تجربوں کے لیے زبان کے نئے نئے سانچے بنا سکتا ہے ، اور یہ سانچے عام قواعدو معیارِ فصاحت کے نہیں خود زائیدہ فصاحت کے پابند ہو سکتے ہیں۔ ‘‘یادگار اور مونومنٹل قسم کے فن پاروں کے بعد ان سے اکتساب ِ معنی کے ذریعے  مصنف اپنے تجربوں کی آنچ سے نئی عمارت کھڑی کرتا ہے۔

(۳)
 موت کا تصور ایک شئے کے ضائع ہو جانے سے نہیں بلکہ تقلیب اور انتقال سے  وابستہ ہے۔درحقیقت دنیا میں کوئی شئے ضائع نہیں ہوتی بلکہ صرف اس کی شکل بدلتی رہتی ہے۔ایک  صورت  اپنی تکمیل و اتمام کے بعد دوسری  صورت  میں لازماً  بدلتی ہے جو اپنے سے پہلے والی صورت  پر دلالت کرتی ہے ۔ اپنے سے پہلے والی  صورت  پر بعد والی صورت کا دلالت کرنا گویا   ایک معنی کو منتقل کرنا ہے۔ اور پہلے والی صورت کا بعد والی صورت میں بدل جاناایک  تقلیب ہے۔ ہرموت  کے بعد ایک زندگی ہے۔ یعنی ہر انتقال کے ساتھ ایک تقلیب وابستہ ہے۔ مثنوی معنوی میں ہے:
از جمادی مُردم و نامی شدم                                میں جمادیت سے مرا اور نباتی بن گیا
وز نَما مُردم بحیواں سرزدم            اور نباتیت سے مرا ، حیوان بن گیا
مُردم از حیوانی و آدم شُدم             میں حیوانیت سے مرا اور آدمی بن گیا
پس چہ ترسم کے زمُردم کم شُدم      تو میں کیا ڈروں، میں مرنے سے کب گھٹا؟
حملہ ٔ دیگر بمیرم ازبَشر             دوسری مرتبہ میں بشریت سے فنا ہوجاؤں گا

تابرآرم از ملائک بال و پر            تاکہ فرشتوں میں ہو کر، بال و پر نکالوں[8]
حکمت ان اشعار میں یہ ہے کہ مرنے سے کچھ کم نہیں ہوتا، بڑھ البتہ ضرور جاتا ہے۔انسان کے جمادات سے نباتات اور نباتات سے حیوانات، اور حیوانات سے انسان کی شکل میں ارتقا کے ہر مرحلے پر  ایک صورت مر جاتی ہے اوراس کی جگہ دوسری صورت نمودار ہو تی ہے۔گویا پچھلی صورت کی ایک زیادہ بہتر شکل میں تقلیب  ہوتی ہے۔ مثنوی میں ایک اور مقام پر اسی بات کو یوں کہا گیا ہے:
آمدہ اول بہ اقلیم جماد                             پہلے وہ (روح) جماد کی اقلیم میں آئی
وزجمادی در نباتی اوفتاد         ۱ور جمادی (اقلیم) سے نباتی (اقلیم )میں آئی
سالہا اندر نباتی عمر کرد         سالوں نباتی (اقلیم) میں عمر بسر کی
وز جمادی یاد ناورد از نبَر د     ۱ور سرکشی کی وجہ سے اپنی جمادی (زندگی) کو بھلا دیا
وز نباتی چوں بحیوانی فتاد       اور نباتی (اقلیم ) جب حیوانی (اقلیم) میں آئی

نامدش حال نباتی ہیچ یاد          اس کو حیوانی (اقلیم) کا حال کبھی یاد نہ آیا[9]
خلیفہ عبدالحکیم مولانا جلال  الدین رومی کی   ایسے ارتقائی اشعار کی توضیح میں  لکھتے ہیں:
مولانا ارتقائی ہیں اور فرماتے ہیں کہ پکا ہوا انگور پلٹ کر پھر کچا انگور نہیں بن سکتا، یہ سنتِ فطرت کے خلاف ہے:

ہیچ انگورے دگر غورہ نہ شد

ارتقائے حیات نورِ شعور کی ترقی کا نام ہے۔ یہ شعور جن اجسام سے کام لے کر ان کو غیر ضروری آلات یا کہنہ لباس کی طرح اتار پھینکتا اور اتارتا چلا گیا ہے پھر انہیں اجسام کا اعادہ نہیں ہو سکتا  … … یہ درست ہے کہ جسم ہو یا روح اس کے لیے ہر وقت تجدید جاری ہے۔ روح کے لیے فنائے مطلق کی کوئی حقیقت نہیں، اس کے لیے فنا کا ہر قدم ترقی کا زینہ ہے:

مُردم از حیوانی و آدم شدم            پس چہ ترسم کے زمردن کم شدم[10]
موت کا تصور ہمیشہ کے لیے  عدم میں چلے جانا نہیں بلکہ وہ  معنی کے انتقال اور صورت کی تقلیب  سے وابستہ ہے۔ اور اس کی غرض و غات یہی ہے کہ  عملِ ارتقا کی صورت میں کاروبارِ ہستی آگے بڑھے۔ ہر صورت کا ایک نئی صورت میں منقلب ہونا دراصل معنی کے انتقال کے لیے ہی ہے۔خلیفہ عبدالحکیم لکھتے ہیں:
جس طرح ہر صورت کسی معنی کی طرف رہنمائی کرتی ہے، اسی طرح ہر شئے کا وجود اور اس کی طلب کسی مقصد کے ماتحت ہے۔ جس چیز کے متعلق بھی انسان سے پوچھو کہ اس کو کیوں مطلوب ہے تو وہ اس کی کوئی غرض یا مقصد بتائے گا۔ اس سے معلوم ہوا کہ کوئی چیز فی نفسہ مقصود نہیں ہوتی ۔ تمام مطلوبات اقدار و مقاصد کے ساتھ وابستہ ہیں۔ مثلاً کسی سے پوچھو کہ بازار میں کیوں جانا چاہتا ہے؟ وہ کہے گا کہ کھانے پینے کے لیے سودا سلف خریدنا ہے۔ پھر پوچھو کہ آٹا روٹی اور گوشت سبزی کی کیا ضرورت ہے؟ وہ جواب دے گا کہ جسمانی زندگی کو قائم رکھنا ہے۔ پھر پوچھو کہ جسمانی زندگی کے بقا کی کیا ضرورت ہے اور اس سے کیا مقصود ہے؟ تو وہ کوئی مقصدِ حیات بتائے گا جو مختلف انسانوں میں مختلف ہوگا۔ اسی طرح ہر فعل کے متعلق چون و چرا ہو سکتاہے، اس لیے کہ انسان کسی فعل کو مقصود بالذات نہیں سمجھتا بلکہ اس کو اس سے خارج اور بالا تر کسی مقصد اور معنی کا ذریعہ یا وسیلہ خیال کرتا ہے: ’’ہمہ چیز ہائے عالم ازمال، زن و جامہ و املاک و اسباب مطلوب لغیرہ است؛ مطلوب لذاتہ نیست۔‘‘ [11]
  صورت میں جو بھی تقلیب دیکھنے میں آتی ہے وہ کسی نہ کسی مقصد کے لیے ہوتی ہے ۔ کوئی بھی صورت مقصود بالذات نہیں ہوتی بلکہ اس سے کسی معنی کی ترسیل وابستہ ہوتی ہے۔اور جیسے ہی معنی کی ترسیل ہوتی ہے، ایک نیا قالب وجود میں  آجا تا ہے۔ ایک قالب فنا ہوکر اپنے مقصد کی تکمیل کے لیے کوئی دوسرا قالب پیدا کرتا ہے ۔ اور تقلیب و انتقال کے اس سلسلے کی  نوعیت ارتقائی ہوتی ہے۔

ارتقا کا جو قانون حیات و کائنات میں جاری دکھائی دیتا ہے وہی انسان کی  زبان میں بھی جاری ہے۔  لفظ کی ایک صورت مرتی ہے تو اسی سے دوسری پیدا ہو ہے، تقلیب کے اس عمل میں معنی کا انتقال بھی  لازم ہے ۔اورہر انتقال کے ساتھ ارتقا کا  ایک خفیف سا  جز شامل رہتا ہے۔ چنانچہ  یہ ایک مصدقہ حقیقت ہے کہ دنیا کی ہر زبان کا ارتقا اپنے سے پہلے والی ایک یا چند  زبانوں کے مر جانے کے بعد ہی ممکن ہو سکا۔ یہ نہیں ہوا کہ ایک زبان یکایک خلا سے وجود میں آ گئی ۔ بلکہ جیسے جیسے ایک زبان کے افراد کے تجربات و مشاہدات بڑھتے چلے گئے اور اس طرح ان کے علم میں اضافہ ہوتا چلا گیا ویسے ویسے ان زبانوں کی ترقی ہوئی۔ زبان کے پرانے الفاظ،  اسالیب  اور  اصناف وغیرہ  ختم ہوئے  اور ان کی جگہ نئے  وجود میں آئے، جو اپنے اصل کی تغلیط نہیں بلکہ اس پر اضافہ تھے ۔ اسی طرح زبان کی موجودہ مادی  شکل و صورت  کو بھی انسان کے روز افزوں تجربات و مشاہدات کے اعتبار سے ڈھلتے  چلے جانا ہے۔ لسانی اظہار  کا موجودہ معیارِ فصاحت بھی انسان کے تجربوں کی آنچ سے پگھل کر نت نئے اسالیب کو پیدا کرے گا۔ لیکن ایسا آہستہ آہستہ اور مرحلہ وار  اور غیر شعوری طور پر ہی ممکن ہوگا۔ یک بہ یک ایک مرحلہ سے کسی دوسرے مرحلے میں پہنچ جانا ارتقا ئی مصالح کے خلاف ہے۔
جو قاعدہ زبان کے سلسلے میں ہے صحیح ہے وہی ترجمہ کے سلسلے میں بھی صحیح ہے۔ کوئی بھی اصل متن دراصل  مرتا نہیں بلکہ دنیا میں حسبِ استعدادا ور بقدرِ ظرف اس کی  تکمیل ہوتی ہے  جس کے بعد اس کی تفسیر اور ترجمانی اور اس کی بنیادوں پر تعمیر نو   کا کام ہی رہ جاتا ہے تاکہ اصل صورت یا پہلے والی صورت میں  جو معانی پوشیدہ تھے  وہ تفسیر اور ترجمانی کی  بعد والی  منقلب صورت میں منتقل ہو سکیں۔
اس لیے لسانی یا ترجماتی اظہارکے عمل میں اگر معنی کی منتقلی میں   معانی  کورے کنوارے، اور ان چھوئے نہیں رہتے، اور اس میں کسی قدر نئے معانی داخل ہو جاتے ہیں تو اس سے متوحش ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔ کیونکہ یہ تقاضائے فطرت اور حکمتِ ارتقا  کے  عین مطابق ہے۔ دوشیزگی ہمیشہ برقرار رہے یہ  خود فطرت کو مطلوب نہیں ہے۔ البتہ معنی پر جبر اور معنی کی رضا حاصل کرنے میں زمین و آسمان کا فرق ہے۔ ایک  معنی کس قدر تصرف کی  اجازت دیتا ہے یہ معنی کے سیاق و سباق ہی سے طے ہو سکتا ہے۔
مصادر
Ben, Van Vyke. "Translation and Ethics." Edited by Francesca Bartrina Carmen Millán. Routledge Handbook of Translation Studies, 2013.
Derrida, Jaques. Positions. Chicago: University of Chicago Press, 1982.
Habermas. "A review of Gadamer’s Truth and Method." In Hermeneutics and modern philosophy, edited by Brice R Wachterhauser, 246-247. State University of New York Press, 1986.
Levy, Lital. "Exchanging words: Thematization of Translation in Arabic writing from Israel." Comparative Studies of South Asia, Africa and the Middle East 23(1-2), 2003.
Octavio, Paz. "Translation: Literature and Letters." In Theories of Translation: An Anthology of Essays from Dryden to Derrida, edited by Rainer Schulte and Biguenet John. Chicago: University of Chicago Press, 1992.
Schulte, Rainer, and John Biguenet, . Theories of Translation: An Anthology of Essays from Dryden to Derrida. Chicago: University of Chicago Press, 1992.
Yuen, Wong Kin. "Hermeneutics and Translation ." In An Encyclopaedia of Translation, edited by Chan Sin-wai and David E Pollard. The Chinese Unhersity or Hong Kong, 1995, 2001 .
احمد, کلیم الدین. اردو شاعری پر ایک نظر. پٹنہ: بک امپوریم, 2011.
رئیس, قمر. ترجمہ کا فن اور روایت. علی گڑھ: ایجوکشنل بک ہاوس, 2004.
سہیل, احمد. ساختیات: تاریخ، نظریہ اور تنقید. دہلی: تخلیق کار پبلیکیشنز, 1999.
ظہورالدین. فن ترجمہ نگاری. نئی دہلی: سیمانت پرکاشن.
عبدالحکیم, خلیفہ. حکمتِ رومی. دہلی: اریب پبلیکیشنز, ۲۰۱۰.
نارنگ, گوپی چند. ساختیات، پس ساختیات اور مشرقی شعریات. دہلی: قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان, 2004.





[1]  Jaques Derrida: Positions, The University of Chicago Press, London, 1982, Page No 20
[2] Ben Van Vyke, Translation and Ethics, The Routledge Handbook of Translation Studies (edited by Carmen Millán, Francesca Bartrina), Routledge London , Page No  551
[3] احمد کلیم الدین۔  اردو شاعری پر ایک نظر ، جلد اول، بک امپوریم، سبزی باغ، پٹنہ ، 2011 ، صفحہ 348
[4] قمر رئیس۔ ترجمہ کا فن اور روایت، ایجوکیشنل بک ہاؤس، علی گڑھ، دوسرا اڈیشن 2004، صفحہ نمبر19
[5] احمد، کلیم الدین۔ اردو شاعری پر ایک نظر، جلد اول، بک امپوریم، سبزی باغ پٹنہ، پٹنہ، 2011 صفحہ 348
[6] حوالہ سابق، صفحہ 349
[7] حوالہ سابق، صفحہ 349
[8]  مثنوی مولانا روم،(دفتر سوم) اصل متن   اور مع ترجمہ و مختصر حواشی از مولانا قاضی سجاد حسین صاحب، ناشر حامد اینڈ کمپنی، لاہور، صفحہ 372
[9] رومی، جلال الدین۔ مثنویِ مولوی معنوی ،(دفتر چہارم) اصل متن   اور مع ترجمہ و مختصر حواشی از مولانا قاضی سجاد حسین صاحب، ناشر حامد اینڈ کمپنی، لاہور، صفحہ 344
[10] عبد الحکیم ، خلیفہ۔ حکمت رومی، اریب پبلی کیشنز، نئی دہلی، 2010 ، صفحہ 177-178 
[11] حوالہ سابق، صفحہ 202

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

تحقیق کے مسائل

تحقیق ایک اہم علمی فریضہ ہے۔ تحقیق کے ذریعے ہم نامعلوم کا علم حاصل کرتے ہیں۔ غیر محسوس کو محسوس بناتے ہیں۔ جو باتیں پردہ ٔ غیب میں ہوتی ہیں، انہیں منصہ ٔ شہود پر لاتے ہیں تا کہ کسی امر میں یقینی علم ہم کو حاصل ہو، اور اس کی بنیاد پر مزید تحقیق جاری رکھی جا سکے۔تحقیق ایک مسلسل عمل ہے۔ موجودہ دور میں یہ ایک نتیجے تک پہنچنے سے زیادہ ایک طریقے ( تک پہنچنے) کا نام ہے۔نتیجہ خواہ کچھ ہو، موجودہ دور میں اس کے طریقہ ٔ کار یا منہاجیات کو صاف و شفاف بنانا فلسفیانہ طور پر زیادہ ضروری سمجھا جاتا ہے تاکہ زیادہ تر نتائج صحت کے ساتھ محسوسات کے دائرے میں حتی الامکان منتقل ہو سکیں۔ دائرہ تحقیق میں ایک مقدمہ کو نتیجہ میں بدلنے کے طریقے کی جس قدر اصلاح ہوتی جائے گی اسی قدر تحقیق معتبر مانی جائے گی۔ البتہ بعض اوقات یوں بھی ہوتا ہے کہ کسی تحقیق کا طریقہ صحیح نہیں ہو اور نتیجہ بالکل صحیح ہو۔ لیکن اس ناقابل حل مسئلے کے باوجود بہرحال طریقے میں حذف و اضافہ اور اصلاح و تصحیح کی ضرورت ہمیشہ باقی رہتی ہے۔ تحقیق کے عربی لفظ کا مفہوم حق کو ثابت کرنا یا حق کی طرف پھیرنا ہے۔ حق کے معنی سچ کے ہیں۔ مادہ حق سے...

قرآن اور بگ بینگ

ایک بہت طویل عرصے سے اہل اسلام کا مغرب زدہ طبقہ قرآن کی تصدیق جدید ترین سائنسی تحقیقات کی بنیاد پر کرنا چاہتا ہے. اس کی اصل دلیل یہ ہے کہ اگر قرآن خدا کی کتاب نہ ہوتی تو اس میں بیسویں صدی کے سائنسی انکشافات کا ذکر چودہ سو سال پہلے کیونکر ممکن تھا؟ اس سلسلے میں ایک بہت بڑی مثال بگ بینگ کی دی جاتی ہے اور قرآن کی اس آیت کو دلیل بنایا جاتا ہے: اَوَلَمْ يَرَ الَّذِيْنَ كَفَرُوْٓا اَنَّ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ كَانَتَا رَتْقًا فَفَتَقْنٰهُمَا ۭ وَجَعَلْنَا مِنَ الْمَاۗءِ كُلَّ شَيْءٍ حَيٍّ ۭ اَفَلَا يُؤْمِنُوْنَ کیا کافروں نے نہیں دیکھا کہ آسمان اور زمین دونوں ملے ہوئے تھے تو ہم نے جدا جدا کردیا۔ اور تمام جاندار چیزیں ہم نے پانی

مذہب و تصوف اور فلسفہ و سائنس کا منتہائے مقصود

     یہ کائنات نہ کوئی ڈیزائن ہے اور نہ اس کا کوئی ڈیزائنر۔ اور نہ یہ کائنات عدم ڈیزائن ہے جس کا ڈیزائنر معدوم ہے۔ یہ دونوں بیانات ناقص ہیں۔ ہم بحیثیت انسان بذریعہ حواس خارج میں جو کچھ دیکھتے ہیں وہ دراصل ہماری وجدان کی مشین اور ذہن ہی سے پروسیس ہو کر نکلتا ہے۔ اور وجدان کے اس جھروکے سے نظر آنے والی یہ کائنات ایک ایسی احدیّت کے طور پر ابھرتی ہے جس میں یہ ڈیزائن صرف ایک منظر ہے جس کی شناخت عدم ڈیزائن کے دوسرے منظر سے ہوتی ہے۔ اسی طرح اس کائنات میں منصوبہ بھی ایک منظر ہے جس کی شناخت عدمِ منصوبہ کے دوسرے منظر سے ہوتی ہے۔ کائنات میں چیزیں ایک دوسرے کے بالمقابل ہی شناخت ہوتی ہیں۔ اس لیے یہ کہنا کہ کائنات میں کوئی منصوبہ ہے اس لیے کوئی منصوبہ ساز ہونا چاہیے، یا کائنات بجائے خود کوئی ڈیزائن ہے اس لیے اس کا ڈیزائنر لازماً ہونا چاہیے ناقص خیال ہے۔ اسی طرح یہ کہنا کہ اس کائنات میں عدم ڈیزائن ہے اور اس لیے اس کا کوئی ڈیزائنر نہیں ہے یہ بھی ایک ناقص خیال ہی ہے۔ یہ دونوں بیانات آدھے ادھورے مناظر کی تعمیم کی بنا پر گمراہ کن قیاس کی مثالیں ہیں۔ یاد رہے کہ منصوبہ صرف ایک منظر ہے، یا یوں...