بدھ، 16 دسمبر، 2015

نیکی کا کریڈٹ اور بدی کا ٹھیکرا

دنیا میں جہاں کہیں بھی دہشت گردانہ جنگ و جہاد کی صورتحال پائی جاتی ہے, اس کے لیے بڑی طاقتوں کو الزام دینا ایک عام رویہ ہو گیا ہے جس میں بعض انارکسٹ خواتین و حضرات بھی مبتلا ہیں جو اپنے کو حقوق انسانی کے مدافعت کار بتاتے ہیں. وہ کہتے ہیں کہ چونکہ بڑی طاقتیں نہ صرف یہ کہ ان خطوں میں قدرتی وسائل کے حصول کے لیے مداخلت کرتی ہیں بلکہ وہاں کے لوگوں کے باہمی تنازعات کو بھی ہوا دیتی ہیں, انہیں گروہوں میں منقسم کر کے لڑاتی ہیں, یہاں تک کہ انتہائی مہلک ہتھیار سپلائی کرتی ہیں تا کہ وہ ایک دوسرے کو گاجر مولی کی طرح کاٹ سکیں, اور پھر ڈیموکریسی کے قیام کے بہانے ان پر چڑھ دوڑتی ہیں, اس لیے دنیا کے ان خطوں میں عدم استحکام کا اصل سبب یہ بڑی طاقتیں ہیں. اس قسم کی باتیں وہی کہہ سکتا ہے جو  پرلے درجے کا یکرخا اور نظریاتی بھینگے پن کا شکار ہو اور زمینی حقائق کا سامنا نہیں کرنا چاہتا ہو. واقعہ یہ ہے کہ دہشت گردی سے متاثر خطوں میں مذہبی نوعیت کی قتل و غارتگری ہمیشہ سے ہوتی آئی ہے جس سے تاریخ کے صفحات بھرے پڑے ہیں. اس بنیادی حقیقت کو تسلیم کرنے کے بجائے مذہبی دہشت گردی کی تخلیق کے لیے اصلاً بڑی طاقتوں کو مورد الزام ٹھہرانے اور غارتگری کے اس پورے سلسلے میں باہم برسرپیکار گروپوں کی اصل ذمہ داری اور ان کی پیدائش کے بنیادی سماجی و معاشرتی اور سیاسی اسباب کو بیان کرنے سے پہلو تہی کرنا ایک غیرمعقول رویہ ہے. یہ ایسی ہی بات ہے جیسے ایک شخص شراب پی کر ہنگامہ کرے اور ہم اس شخص کی اصلاح کے بجائے شراب بیچنے والوں کی مذمت شروع کر دیں. اور اس سے بھی زیادہ غیرمعقول صورتحال وہ ہوگی جس میں مذمت کرنے والوں میں وہ ہنگامہ خیز شرابی بھی شامل ہو جائے اور اپنی جگہ بکتا رہے کہ کیوں یہ لوگ شراب بیچتے ہیں جو میں خرید کر پینے پر مجبور ہوں! اگر شراب بنانا اور بیچنا ایک برائی ہے تو اس کو خرید کر پینا اس سے بدرجہا زیادہ بڑی برائی ہے اس صورت میں جب آپ شراب کے نقصانات کو جانتے بھی ہوں اور اس کے باوجود اس کے استعمال سے خود کو یا دوسروں کو نہ روک پا رہے ہوں اور بدستور شراب بیچنے والوں کی مذمت کیے جا رہے ہوں. اس سے آخر فائدہ کیا ہوگا؟ جنہیں مذہبی بنیادوں پر لڑنا ہے, انہیں اگر جدید ہتھیار نہ بھی فراہم کیے جائیں تو وہ پرانے ہتھیاروں سے لڑیں گے. پھر جس مذہبی فرقہ میں تلواروں کی کثرت ہو گی یا اس میں زیادہ طاقتور مذہبی جنونی پائے جائیں گے وہ فتحیاب ہوں گے, شکست خوردہ افراد کو قتل کریں گے, ان کی عورتوں کو باندی بنائیں گے, یہ زمانہ قدیم میں بھی ہوتا تھا, قرون وسطی میں بھی ہوتا رہا اور آج بھی ہو رہا ہے. اس برہنہ حقیقت کو تسلیم کرنے کے بجائے بے تکی باتیں کرنے سے مذہبی دہشت گردی کا خاتمہ نہیں ہو سکتا. ہمارے معاشرے میں بعض لوگ ایسے بھی ہیں جو اپنی اولاد کے بگڑنے کا الزام دوسروں کی اولادوں پر رکھتے ہیں کہ اسی نے میرے بیٹے کو خراب کیا. اسی کی صحبت میں رہ کر میرے بیٹے نے فلاں برائی سیکھ لی. میں نے تو دیکھا ہے کہ کچھ گارجین اس بات پر آپس میں لڑ بھی جاتے ہیں. ہر ایک دوسرے کے بیٹے کو برا بھلا کہہ رہا ہوتا ہے لیکن کوئی یہ دیکھنے کی زحمت نہیں کرتا کہ اس نے اپنی اولاد کی کیسی تربیت کی, اس کو کیسا ماحول دیا, زندگی گزارنے کے کیا طریقے سکھائے. کیا اس کا لڑکا سنگ و خشت جیسا تھا کہ پڑوسی کے لڑکے نے تراش خراش کر اسے بدی کی مورت بنا ڈالا؟ ژاں پال سارتر کے مطابق جو لوگ اپنی کمزوریوں  سے پیدا ہونے والی خرابی کا الزام دوسروں پر رکھتے ہیں وہ خود کو انجانے ہی ایک بے جان شئے بنا لیتے ہیں جیسے وہ راستے کا پتھر ہوں جسے راہگیر اپنی ٹھوکروں سے ادھر سے ادھر منتقل کرتے رہتے ہیں. انسان جیسے ایک زندہ اور بااختیار وجود کے متعلق یہ خیال کرنا کہ دوسرے اس کو بہکا دینے کی طاقت رکھتے ہیں, بدعقیدگی کی علامت ہے. صحیح عقیدہ یہ ہے کہ بہت سے لوگ  اپنی اندرونی جبلت کے مقتضی سے خود ہی بے راہ ہو کر بہک جاتے ہیں اور اپنی برائی کی پردہ پوشی کے لیے دوسروں پر الزام رکھتے ہیں. ایسے لوگ انسان ہونے کے باوجود خود کو خس و خاشاک کی طرح بنا لیتے ہیں اور بدی کے سیلاب میں بہہ جاتے ہیں. یہ چونکہ اپنے نیک و بد اعمال کی ذمہ داری خود قبول کرنے سے پہلو تہی کرنا ہے اس لیے یہ  اپنے ایک خود مختار وجود ہونے کی نفی کرنا بھی ہے اور اس کا نتیجہ اس کے سوا کچھ نہیں ہو سکتاکہ ایسا بدعقیدہ شخص "عمل اور ردعمل" کے لامتناہی سلسلے میں پڑ جائے جیسے مادی اشیا پڑی ہوتی ہیں, مثلاً سورج کی گرمی سے ہوا طوعاً و کرہاً گرم ہو کر چلتی ہے, اور اپنے ساتھ کتنی ہی جاندار و بے جان چیزوں کو اڑائے پھرتی ہے, اس میں شک نہیں کہ انسانوں کے قدم بھی آندھیوں میں اکھڑ جا سکتے ہیں لیکن اس کی ذمہ داری اس کو خود لینی ہوگی کہ وہ ثابت قدم نہ رہ سکا بجائے اس کے کہ وہ موسم کی ناسازگاری کو اس کا سبب قرار دے. جوں ہی کہ اس نے اپنے وجود سے باہر دوسروں کو اپنی بربادی کا الزام دینا شروع کیا, وہ عمل اور ردعمل کے لامتناہی سلسلے میں پڑ گیا. ذمہ داری اگر میری نہیں تو پھر ذمہ داری کسی اور کی بھی نہیں کیونکہ سب کے سب یہاں  اسباب و علل کے بندھے ٹکے قانون میں جکڑے ہوئے ہیں. پھر جوکچھ ہو رہا ہے اس کا شکوہ عقلی کے بجائے ایک جذباتی گفتگو ہے. نوع انسانی کے سامنے دو ہی راستے ہیں ایک وہ جس میں خود کو ایک ذمہ دار و خود مختار وجود کے طور پر تسلیم کرنا اور اپنی اجتماعی و انفرادی نیکی و بدی کا سارا کریڈٹ خود لینا ہے, اور دوسرا راستہ یہ ہے کہ ساری دنیا اور اس میں رہنے والے تمام انسانوں کو اپنی ہی طرح اسباب و علل یعنی عمل اور ردعمل کے قانون میں گرفتار تسلیم کرنا ہے. ان دونوں کے بین بین ایک تیسرا راستہ بھی ہے لیکن وہ بدتوفیقانہ ہے, یعنی اپنی انفرادی و اجتماعی نیکی کا کریڈٹ تو خود لینا اور بدی کا ٹھیکرا دوسروں کے سر پھوڑنا.

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

تبصرہ کریں