نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

ردتشکیل کی نوعیت مذہبی یا انسانی؟

ردتشکیل یا ڈیکنسٹرکشن کا تعلق اگر کسی سامی مذہب سے ہے، اور اگر ایک فلسفی اس کو تسلیم کرتا ہے، تو پھر اس معاملے میں اس کو فلسفی کے بجائے مذہبی کہنا موزوں ہوگا۔
مزید وضاحت:
ہم جانتے ہیں کہ فلسفہ میں کسی بھی قسم کے علم کا ماخذ مذہبی منقولات نہیں بلکہ انسانی ذہن اور انسانی عقل ہے۔ واضح رہے کہ فلسفہ میں منقولات کی حیثیت معلومات کی ہے، علم کی نہیں کیونکہ منقولات کو علم تسلیم کرنے کے بعد فلسفی اس کا شارح محض رہ جاتا ہے اور آزادانہ غور و فکر نہیں کر سکتا۔ پھر فلسفیانہ مسائل میں منطقی طریقے سے سوچنے پر ہی پابندی لگ جاتی ہے۔
سامی مذاہب میں تو حضرت جبریل علیہ السلام کا تصور ہے جو ایک فرشتہ ہیں اور جو خدا کی طرف سے اس کی مخلوق انسان--من جانب اللہ مقرر کردہ انسان-- کو پیغام پہنچاتے ہیں۔ یہ پیغام وحی کہلاتا ہے۔ اس کے مقابلے میں انسانی عقل عاجز اور گمراہ ہو جانے والی ہے، چنانچہ وحی کی بنیاد پر حاصل ہونے والا علم انسانی علم پر حاکمانہ اختیارات اور حجت قائم کرنے والے کی حیثیت رکھتا ہے۔ اگر ایک فلسفی یہ کہتا ہے کہ وہ جس سامی مذہب میں پیدا ہوا ہے اس کی فلاں روایت مثلاً ردتشکیل کو فلسفیانہ طریق یا رجحان کے طور پر تسلیم کیا جانا چاہیے تو اس کے لیے سب سے پہلے اس کو علم کے اس ماخذ کو تسلیم کرنا ہوگا جو سامی مذاہب بتاتے ہیں یعنی اس خدا کو جو جبریل یا وحی کے ذریعے انسان کو ہدایت فراہم کرتا ہے۔ اور جوں ہی کہ فلسفی نے یہ تسلیم کیا، وہ فلسفی کے بجائے مذہبی ہو گیا۔ اب اس کا کام سوائے وحی الٰہی کی شرح لکھنے کے کچھ نہ رہا۔ اور اگر کچھ رہا تو اس کی کوئی خاص اہمیت نہیں۔ یہ ظاہر ہے کہ خدا نے زندگی گزارنے کے موٹے موٹے اصول جو اپنے انبیا کو بتائے، وہ فلسفی کو صرف اور محض منقولات (بشمول روایات) کی راہ سے پہنچے اور وہ اصل ماخذ یعنی خدا تک رسائی حاصل نہ کر سکا۔ خدا تک رسائی کا کام چونکہ خدا کے چنے ہوئے بندوں کو حاصل ہے جو انبیا کہلاتے ہیں  اور ایک فلسفی اس میں انبیا کا شریک نہیں ہو سکتا، اس لیے اگر فلسفی انبیا پر ایمان رکھتا ہے تو اس کو لازماً انسانی دماغ و ذہن اور اپنی عقل کے ذریعے حاصل شدہ علم کو دوسرے درجے کی حیثیت دینی پڑے گی، اور زندگی کے ہر معاملے میں پہلے اپنی مذہبی کتاب سے رجوع کرنا ہوگا اور اسی کی روشنی میں عقل لڑانی ہوگی نہ کہ آزادانہ ان امور میں جن کے متعلق خدا کا علم نازل ہو چکا۔ اور بالفرض فلسفی ایسے امور میں اپنی عقل استعمال کرتا بھی ہے تو اس کو وہی نتیجہ برامد کرنا ہوگا جو مذہبی کتاب میں منقول ہے ۔
پس، یہاں سے ہم کو علم کی دو قسمیں نظر آتی ہیں: پہلی وہ جو خدا نے اپنے چنے ہوئے بندوں کو وہبی طور پر عطا فرمائی اور دوسری وہ جو انسان نے کسبی طور پر یعنی اپنی کوشش و کاوش سے بغیر خدا کی یقینی وحی کی مدد کے حاصل کی۔
حصولِ علم کی ان دونوں قسموں کو بالترتیب مذہبی/ آسمانی اور انسانی نوعیت کا علم کہا جائے گا اور دونوں کے درمیان ایک واضح خطِ تنسیخ ہوگی بلکہ دونوں کے درمیان سرے سے کوئی علاقہ ہی نہ ہوگا۔
پس، آسمانی اور انسانی علم چونکہ ایک دوسرے سے لاتعلق ہوں گے کیونکہ ان میں سے ہر ایک کا ماخذ جدا ہے، ایک کا خدا اور دوسرے کا انسان ہے، اس لیے اگر ایک شخص آسمانی نوعیت کے کسی علم یا طریقِ علم کی تصدیق کرتا ہے تو یہ گویا آسمانی علم کی حجیت کو تسلیم کرنا ہے، پس، اس کی حیثیت ماتحت اور شارح کی، اور ثانوی درجے کے دانشور کی ہوگی کیونکہ اس کی انسانی عقل الٰہی عقل کو حجت بنا چکی ہے، اور اگر ایک شخص آسمانی کے بجائے انسانی عقل کو اپنے علم کا ماخذ بتاتا ہے اور الٰہی علم کو تسلیم نہیں کرتا تو اس کی حیثیت فلسفی کی ہوگی، اور وہ اول درجے کا دانشور ہوگا کیونکہ اس کی عقل الٰہی ہدایت کی محتاج نہیں ہے نہ وہ الٰہی ہدایت کو سامی مذاہب کے پیغمبروں کے بتائے گئے طریقے کے مطابق تسلیم کرےگا۔ واضح رہے کہ ایسا شخص جو سامی مذاہب کے تصورِ علم پر ایمان نہ لائے، اس کے لیے منکرِ خدا ہونا ضروری نہیں۔ وہ خدا پر یقیناً ایمان لا سکتا ہے لیکن اس کا خدا پر ایمان اپنے غور و فکر کی بنیاد پر ہوگا، اس پر ماسوا انسان کے اجتماعی و انفرادی دماغوں اور ذہنوں کے، خارج سے کوئی علم نازل نہ ہوگا۔ خدا کا اس کا تصور انسانی ہوگا، یعنی انسانی معاشرہ اور دنیا کے مشاہدات ہی اس کے علم کا منبع و ماخذ ہوں گے۔
پس، جو کوئی اپنے فلسفیانہ طریقے/ رجحان کو کسی مذہبی روایت کا حصہ بنائے اور بتائے، وہ دراصل فلسفہ کا ماسک لگائے ہوئے ہے، اور متعلقہ معاملے میں اس کا فلسفی ہونا پایہ ثبوت کو نہیں پہنچ سکتا۔
ہمیں سامی مذاہب اور فلسفیانہ روایت میں علم کے ماخذوں کے مابین بالترتیب "آسمانی" اور "انسانی" کے اساسی فرق کو ملحوظ رکھنا ہوگا۔

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

تحقیق کے مسائل

تحقیق ایک اہم علمی فریضہ ہے۔ تحقیق کے ذریعے ہم نامعلوم کا علم حاصل کرتے ہیں۔ غیر محسوس کو محسوس بناتے ہیں۔ جو باتیں پردہ ٔ غیب میں ہوتی ہیں، انہیں منصہ ٔ شہود پر لاتے ہیں تا کہ کسی امر میں یقینی علم ہم کو حاصل ہو، اور اس کی بنیاد پر مزید تحقیق جاری رکھی جا سکے۔تحقیق ایک مسلسل عمل ہے۔ موجودہ دور میں یہ ایک نتیجے تک پہنچنے سے زیادہ ایک طریقے ( تک پہنچنے) کا نام ہے۔نتیجہ خواہ کچھ ہو، موجودہ دور میں اس کے طریقہ ٔ کار یا منہاجیات کو صاف و شفاف بنانا فلسفیانہ طور پر زیادہ ضروری سمجھا جاتا ہے تاکہ زیادہ تر نتائج صحت کے ساتھ محسوسات کے دائرے میں حتی الامکان منتقل ہو سکیں۔ دائرہ تحقیق میں ایک مقدمہ کو نتیجہ میں بدلنے کے طریقے کی جس قدر اصلاح ہوتی جائے گی اسی قدر تحقیق معتبر مانی جائے گی۔ البتہ بعض اوقات یوں بھی ہوتا ہے کہ کسی تحقیق کا طریقہ صحیح نہیں ہو اور نتیجہ بالکل صحیح ہو۔ لیکن اس ناقابل حل مسئلے کے باوجود بہرحال طریقے میں حذف و اضافہ اور اصلاح و تصحیح کی ضرورت ہمیشہ باقی رہتی ہے۔ تحقیق کے عربی لفظ کا مفہوم حق کو ثابت کرنا یا حق کی طرف پھیرنا ہے۔ حق کے معنی سچ کے ہیں۔ مادہ حق سے...

قرآن اور بگ بینگ

ایک بہت طویل عرصے سے اہل اسلام کا مغرب زدہ طبقہ قرآن کی تصدیق جدید ترین سائنسی تحقیقات کی بنیاد پر کرنا چاہتا ہے. اس کی اصل دلیل یہ ہے کہ اگر قرآن خدا کی کتاب نہ ہوتی تو اس میں بیسویں صدی کے سائنسی انکشافات کا ذکر چودہ سو سال پہلے کیونکر ممکن تھا؟ اس سلسلے میں ایک بہت بڑی مثال بگ بینگ کی دی جاتی ہے اور قرآن کی اس آیت کو دلیل بنایا جاتا ہے: اَوَلَمْ يَرَ الَّذِيْنَ كَفَرُوْٓا اَنَّ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ كَانَتَا رَتْقًا فَفَتَقْنٰهُمَا ۭ وَجَعَلْنَا مِنَ الْمَاۗءِ كُلَّ شَيْءٍ حَيٍّ ۭ اَفَلَا يُؤْمِنُوْنَ کیا کافروں نے نہیں دیکھا کہ آسمان اور زمین دونوں ملے ہوئے تھے تو ہم نے جدا جدا کردیا۔ اور تمام جاندار چیزیں ہم نے پانی

مذہب و تصوف اور فلسفہ و سائنس کا منتہائے مقصود

     یہ کائنات نہ کوئی ڈیزائن ہے اور نہ اس کا کوئی ڈیزائنر۔ اور نہ یہ کائنات عدم ڈیزائن ہے جس کا ڈیزائنر معدوم ہے۔ یہ دونوں بیانات ناقص ہیں۔ ہم بحیثیت انسان بذریعہ حواس خارج میں جو کچھ دیکھتے ہیں وہ دراصل ہماری وجدان کی مشین اور ذہن ہی سے پروسیس ہو کر نکلتا ہے۔ اور وجدان کے اس جھروکے سے نظر آنے والی یہ کائنات ایک ایسی احدیّت کے طور پر ابھرتی ہے جس میں یہ ڈیزائن صرف ایک منظر ہے جس کی شناخت عدم ڈیزائن کے دوسرے منظر سے ہوتی ہے۔ اسی طرح اس کائنات میں منصوبہ بھی ایک منظر ہے جس کی شناخت عدمِ منصوبہ کے دوسرے منظر سے ہوتی ہے۔ کائنات میں چیزیں ایک دوسرے کے بالمقابل ہی شناخت ہوتی ہیں۔ اس لیے یہ کہنا کہ کائنات میں کوئی منصوبہ ہے اس لیے کوئی منصوبہ ساز ہونا چاہیے، یا کائنات بجائے خود کوئی ڈیزائن ہے اس لیے اس کا ڈیزائنر لازماً ہونا چاہیے ناقص خیال ہے۔ اسی طرح یہ کہنا کہ اس کائنات میں عدم ڈیزائن ہے اور اس لیے اس کا کوئی ڈیزائنر نہیں ہے یہ بھی ایک ناقص خیال ہی ہے۔ یہ دونوں بیانات آدھے ادھورے مناظر کی تعمیم کی بنا پر گمراہ کن قیاس کی مثالیں ہیں۔ یاد رہے کہ منصوبہ صرف ایک منظر ہے، یا یوں...