جمعہ، 12 مئی، 2017

مذہب کی فلسفیانہ تعبیر کیوں مضر ہے؟

مذہب کی فلسفیانہ تعبیرات ہی مذہب کو نئی زندگی بخشتی ہیں اور اس کو قوم کی شناخت کا آلہ محض بن کر رہ جانے سے بچاتی ہیں اور اس کے اندر عصریت و موزونیت کی ظاہری صفت پیدا کرتی ہیں۔ لیکن درحقیقت اس سے بڑے مسائل پیدا ہوئے ہیں، دہشت گردی ان میں سے ایک پے۔ اس کے اسباب کو درجِ ذیل طور پر سمجھا جا سکتا ہے:
1. ایک طرف عوام مذہب کی ظواہر پرستانہ اور روایتی تعبیرات کو مانتے رہتے ہیں اور دوسری طرف خواص اپنے مذہب کی فلسفیانہ تعبیرات کے زیرِ اثر صداقت کو مذہب کا ہم معنی سمجھ لیتے اور اپنے مذہب کو ہر دور میں قابلِ عمل سمجھتے رہتے ہیں۔
2. پس، عوام اور خواص دونوں کے درمیان مذہب ایک قدرِ مشترک کے طور پر ابھرتا ہے اور اس سبب سے سیاست پر اثرانداز ہوتا ہے۔
3. دنیا کو خواص چلاتے ہیں نہ کہ عوام۔ کیونکہ دنیا کو چلانے کے لیے علم اور تحقیق کی ضرورت پڑتی ہے۔ جب خواص علمی سطح پر مذہب کو ایک حل کے طور تسلیم کر لیتے ہیں تو مذہبی عقائد، رسوم و رواج اور احکام میں عصریت و موزونیت پیدا کرنے کی غرض سے ان میں قطع و برید کا عمل جائز ہو جاتا ہے لیکن یہ عمل اتنا ہمہ گیر نہیں ہوتا کہ مذہبی عقائد و رسوم کی بنیادیں متغیر ہو جائیں۔ اس کا سبب روایتی علما کا دباؤ ہے جو مذہب میں اصلاح کے ہر تصور کو سرے سے رد کرتے ہیں۔
4. اس طرح، روایتی علما اپنے ظاہر پرستانہ تصور دین اور عقائد و احکام کے ساتھ معاشرے کے عوام پر اثر انداز ہوتے ہیں اور جدید علما/ فلسفی مذہب میں ارتقائی اصلاحات و تعبیرات کا کام کرتے ہوئے خواص پر اثرانداز ہوتے ہیں۔ اس طرح مذہب پورے معاشرے میں بحث کا مرکزی موضوع بن جاتا ہے۔ پس، مذہبی روایت اور مذہبی جدیدیت میں ایک مکالمہ ہوتا ہے اور مکالمہ کا اصول ہی چونکہ "کچھ ہم مانیں کچھ تم مانو" پر ہوتا ہے جس کے نتیجے میں معاشرہ میں ایک متفقہ قدر ابھر آتی ہے جو مذہبی نوعیت رکھتی ہے۔ ان متفقہ قدروں کو نہ ماننا دوسروں پر اپنا خون حلال کر دینا ہے۔ اس نکتے کو ٹھیک سے سمجھیں۔
5. پس اصل مسئلہ یہ ہے کہ مذہبی روایت اور مذہبی جدیدیت کے درمیان مکالمہ چل رہا ہے، جبکہ ہونا یہ چاہیے تھا کہ مذہبی روایت اور فلسفیانہ جدیدیت کے درمیان مکالمہ چلتا اور نظری سطح پر ناکام ہوتا رہتا کیونکہ مذہب اور فلسفہ میں اساسی اختلاف ہی نہیں بلکہ ان میں اساسی ضد اور تصادم کی کیفیت پائی جاتی ہے۔ پس، نظری سطح پر مذہبی روایت اور فلسفیانہ جدیدیت کے مابین مکالمہ کی ناکامی کے بعد عملی سطح پر خواص اور عوام کے درمیان جو عملی مکالمہ ہوتا اس میں روایتی مذہب کے قابلِ عمل احکام باقی رہتے اور ناقابلِ عمل احکام متروک ہو جاتے۔ اس طرح مذہب معاشرے میں اتنا ہی رہ جاتا جتنا کہ وہ معاصر زندگی میں قابلِ عمل ہوتا۔ اور یہ ہر دور کے لیے ایک مکمل نظامِ حیات اور طریقہ زندگی کے جدید مذہبی فلسفیانہ دعوے پر استوار نہ ہو سکتا۔
یہ پانچ نکتے جو میں نے عرض کیے ان کو اگر پیش نظر رکھا جائے اور مذہب کی روایتی شکل کو ہی مذہب مان لیا جائے تو ہماری ساری مشکلیں آسان ہو جائیں۔ مذہب کی جو چیزیں ناقابلِ عمل ہوں ان پر تو خود اہلِ مذہب ہی نہیں چلتے۔ مثلاً، سود، ذی روح کی مصوری، فلم سازی و فلم بینی۔ لیکن جب سرسید، فراہی، غلام احمد پرویز، فضل الرحمان، جاوید غامدی ایسوں نے مذہب میں ان چیزوں کا جواز نکالا تو گویا معاشرے کے ذہین اور خواص کا یقین مذہب میں ایک بار پھر بحال ہو گیا۔
پھر خواص اور عوام کے مذہبی تصورات و عقائد و احکام، بالترتیب مذہبی روایت اور مذہبی جدیدیت میں جو مکالمہ ہوا، اس نے ایک متفقہ قدر کی صورت تو اختیار کر لی لیکن اس کے باوجود ان کے باہمی اختلافات کا خاتمہ نہ ہو سکا۔ مذہب چونکہ منزل من اللہ یا فوق فطری طریقے سے نازل ہوتا ہے، اس مناسبت سے مذہب کی ہر پرانی اور نئی تعبیر اپنی جگہ مطلق صداقت کا وہم پیدا کرتی ہے جس کے زیر اثر(مذہبی روایت و مذہبی جدیدیت میں ایک متفقہ و مشترکہ قدر پیدا ہونے کے باوجود) عقیدہ و شریعت کے اختلافات و تنازعات کا تصفیہ نہیں ہو پاتا۔ یہی تنازعات ترقی کر کے دروں مذہبی کشمکش اور دہشت گردی کا سبب بنتے ہیں۔