اتوار، 14 مئی، 2017

عقائد و رسوم میں ارتقائی اصلاحات کی ضرورت

دورِ جدید کا نظام ایسا ہے کہ جو لوگ اپنی عقل سے اپنے فیصلے نہیں لیتے انہیں دوسروں کی عقل سے کیے جانے والے فیصلے قبول کرنے پڑتے ہیں۔ ہم نے عقل کی بنیاد پر تو کبھی سوچا نہیں، بلکہ محض ماضی بعید کی لکھی لکھائی عبارتوں کی بنا پر حال کی زندگی گزارتے رہے اور یہ نہ سوچ سکے کہ ماضی کی عبارتوں کا جواز ماضی تک ہی تھا، زمانہ حال میں وہ کام نہیں دے سکتیں۔ لیکن ہم ایسے نادان ہیں انہیں عبارتوں کو ابدی حقیقتوں کا درجہ دیتے رہے۔ ہم نے اس بنیادی حقیقت کو نہیں سمجھا کہ وقت کے ساتھ انسان کے علم میں اضافہ ہوتا ہی ہے اور جب علم بدلتا ہے تو پرانا اخلاق بھی بدل جاتا ہے۔ اور جب اخلاق بدلتا ہے تو تمام تر رسوم و رواج وہی نہیں رہتے جو ہزار سال پرانی دنیا میں تھے۔ ان کی یا تو نئی تعبیر کر لی جاتی ہے یا پھر انہیں اٹھا دیا جاتا ہے۔ لیکن قدیم رسوم کی نئی تعبیرات کی بھی ایک حد ہوتی ہے جس کے بعد انہیں مٹنا ہی ہے۔ پرانے رسوم و رواج اور اخلاق و عادات کا مٹ جانا چونکہ علم کی تبدیلی کے سبب ہوتا ہے اس لیے جب ایک بار کسی سلسلے میں ہمارا علم بدل جائے تو ہمارا کام یہ ہونا چاہیے کہ علوم و فنون کے پرانے دفاتر مع اپنے رسوم و رواج کے بصد احترام یا تو دفن کر دیے جائیں یا میوزیم میں سجا دیے جائیں، یا پھر بہ یک وقت دونوں کام کیے جائیں۔
دنیا میں کتنی ہی قومیں ازلیت و ابدیت کا راگ الاپتے ہوئے آئیں اور وقتی و ہنگامی حادثات کی نذر ہو گئیں اور ان کی روداد سے پوری انسانی تاریخ بھری ہوئی ہے۔ یہ سمجھنا انتہائی خطرناک پے کہ ہم ایک ایسی چہیتی قوم ہیں جس کو کبھی زوال نہ آئے گا یا اگر زوال ہے تو ضرور بالضرور ایک نہ ایک دن عروج بھی نصیب ہوگا۔ ہم جب تک عروج و زوال کی اپنی خانہ زاد تخئیل آرائی سے نجات نہ پا لیں تب تک ہم کو یہ سمجھ میں نہیں آ سکتا کہ ہم دراصل فنا یعنی صفحہ ہستی سے مٹ جانے کے ایک طویل دور سے گزر رہے ہیں۔ ہم کو عروج و زوال کا نہیں بلکہ زندگی اور موت کا مسئلہ درپیش ہے اور ہم جس طرف اپنے تمام تر فکری بھینگے پن اور منافقانہ تدبیروں کے ساتھ چل رہے ہیں ادھر سوائے موت کے تاریک گڑھے کے کچھ نہیں۔ یہاں ہمارے ساتھ صرف یہی نہیں ہوگا کہ ہمارے رسوم و رواج ختم ہوں گے بلکہ ان کے ساتھ ہمارا وجود بھی مٹ جائے گا۔ اور یہ کوئی نئی بات نہیں ہوگی۔ دنیا میں قوموں کے مٹنے کا ایک نظام بہرحال پایا جاتا ہے۔ علم کے بدلنے سے غیرمعقول اور غیرموزوں ہوتے چلے جانے والے رسوم و رواج اور عقائد و افکار کی خاطر اپنے وجود کو قربان کرنے والے لوگ دنیا میں ہمیشہ رہے ہیں اور ہمیشہ رہیں گے۔ اس میں اتنے فخر و مباہات پر مبنی قیل و قال بھی فطری ہے کہ ایک ہم ہی ایسے ہیں کہ اپنی ازلی و ابدی قدروں پر قربان ہو سکتے ہیں۔ اپنی قدامت و صداقت پر اتنا تفاخر نہ ہوتا تو کیا اتنی آسانی سے قومیں فنا ہو جاتیں؟ تفاخر تو ایک لُبریکینٹ ہے جو مٹنے کے عمل کو آسان کر دیتا ہے۔ کاش اس حقیقت کو ہمارے ہاں سمجھ لیا جاتا تو ممکن تھا کہ وجود کی نئی طرزیں اپنا کر ہم کم از کم اپنے مادی وجود کو برقرار رکھ پاتے۔ فی الحال تو یہ بھی بہت مشکل نظر آ رہا ہے ۔