نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

خدا خدا کیجے: مودودی اسلام پسندوں کا تصورِ ادب


11 جنوری 2014 کو میں نے عبدالحمید عدم کی درج ذیل نظم فیس بک پر پوسٹ کی تھی:

شیخ صاحب خدا خدا کیجیے
یہ حسیں عورتیں یہ تصویریں
رحمت ایزدی کی تفسیریں
جن کے ہونٹوں میں آب حیواں ہے
جن کے چہروں کا نام قرآں ہے
جن کے گیسو نگار خانے ہیں
جن کے زیر نگیں زمانے ہیں
جن کی ضو سے چراغ روشن ہیں
زندگی کے ایاغ روشن ہیں
جن کی آنکھوں سے مئے ٹپکتی ہے
آب کوثر سی شئے ٹپکتی ہے
یہ جہنم میں جانے والی ہیں
آپ کی منطقیں نرالی ہیں

شیخ صاحب خدا خدا کیجے
یہ مغنی یہ دلربا ساحر
یہ مصور یہ خوشنوا شاعر
جن کی باتوں سے پھول جھڑتے ہیں
زندگی کے اصول جھڑتے ہیں
جو ستاروں کو نور دیتے ہیں
طور کو برق طور دیتے ہیں
نگہت گل ہے گفتگو جن کی
موج دریا ہے ہاؤ ہو جن کی
جن سے یزداں کلام کرتا ہے
جن کو سورج سلام کرتا ہے
یہ جہنم میں جانے والے ہیں
آپ کے فلسفے نرالے ہیں

شیخ صاحب خدا خدا کیجے
یہ عبائیں یہ داڑھیاں یہ صفیں
اجلی اجلی نظر فریب کفیں!
یہ نگاہوں کے سرمگیں ڈورے
وعظ میں انگبیں کے ہلکورے
عنبروعود کے لطیف غلاف!
نام یزداں پہ ہر گناہ معاف
مغبچوں کی حسیں مناجاتیں
ڈولتے جسم چاندنی راتیں
یہ مہک، یہ سمن بروں کے ہجوم
یہ تبسم، یہ چہچہے، یہ نجوم
خلد کے کیا یہی وسیلے ہیں!
آپ کے نین کیا نکیلے ہیں!
اسلام پسند: السلام علیکم طارق احمد صدیقی صاحب!عبدالحمید عدم کی یہ نظم بہت ھلکی پھلکی، سبک رفتار اور رواں  ہے کیونکہ یہ معنی، مفہوم اور معیار کے لحاظ سے بھی بالکل کھوکھلی  ہے.
طارق صدیقی: غالب کا یہ شعر بھی کھوکھلا ہے؟
ہم کو معلوم ہے جنت کی حقیقت لیکن
دل کو بہلانے کو غالب یہ خیال اچھا ہے
اسلام پسند: جی ہاں جناب! اس میں جو بے یقینی اور خود فریبی کی کیفیت  ہے وه اس کے کھوکھلے پن کا ثبوت  ہے۔کھوکھلے فلسفے اور نظریات جس وسیلے سے بھی پیش کئے جائیں کھوکھلے ھی رہیں گے.
طارق صدیقی: اچھا میر کا یہ شعر بھی کھوکھلا ہے؟
میر کے دین و مذہب کو اب پوچھتے کیا ہو ان نے تو
قشقا کھینچا دیر میں بیٹھا، کب کا ترک اسلام کیا؟
اسلام پسند: نہ صرف کھوکھلا بلکہ سفید جھوٹ بھی.
طارق صدیقی: سفید جھوٹ نہیں ہوا۔ کیونکہ میر نے خود قبول کیا ہے کہ اس نے اسلام ترک کر دیا۔ اور فتویٰ ظاہر پر لگتا ہے۔ مذاق مذاق میں بھی طلاق ہو جاتی ہے۔ اگر ایک شاعر اپنی بیوی کو شعر میں طلاق دے دے تو طلاق ہو گی کہ نہیں؟ میر کا تو مذہب ہی عشق تھا:
سخت کافر تھا جس نے پہلے میر
مذہبِ عشق اختیار کیا
اچھا میر کو چھوڑیے، حضرت نظام الدین اولیا کے پرستار حضرت امیر خسرو نے بھی یہی کہا تھا:
کافرِ عشقم مسلمانی مرا درکار نیست
ہر رگ من تار گشتہ حاجتِ زنار نیست
یعنی میں عشق میں کافر ہوا ہوں، اور مجھے مسلمانی درکار نہیں ہے۔
کیا امیر خسرو کا یہ شعر بھی کھوکھلا اور سفید جھوٹ ہے؟
اسلام پسند: جناب من! شعرا کی شوخ کلامی سے مذھبی مسائل میں استدلال ناقابل فھم ہے!
فارسی اور اردو کے شعرا سے بڑا پھینکو ڈاٹ کوم تو کوئی ہو نہیں سکتا۔ابھی امریکا میں جو برفانی طوفان آیا تھا وه ان بد بختوں کی سرد آہوں کا نتیجہ ہی تھا۔اور انہیں نا ہنجار مہجوروں کے آنسوؤں اور اشکوں نے چند برسوں قبل سونامی کا قہر برپا کیا تھا۔عائد کیجیے ان پہ فرد جرم اور لگوائیں انکو ہتھکڑیاں.
طارق صدیقی: بات کھوکھلے اور سفید جھوٹ ہونے پر چل رہی تھی۔ جھوٹ اور سچ کا فیصلہ کیسے ہوگا؟ ایک آدمی کہہ رہا ہے کہ وہ مسلمان نہیں ہے تو اسی کی بات اعتبار نہ کیا جائے گا؟ آپ میر کے شعر کو سفید جھوٹ کہہ رہے تھے۔ شاعری سفید جھوٹ ہوتی ہے؟
اسلام پسند: تو کیا شاعری مذہب اور عقیدے کا حلف نامہ ہوتی ہے؟
طارق صدیقی: شاعری سفید جھوٹ نہیں ہوتی ہے، اتنا سمجھ لیجیے۔ بات چل رہی تھی کھوکھلے ہونے پر، سفید جھوٹ کی بات آپ لے آئے۔
اسلام پسند: جی! ان شاء الله صبح یا رات کو ہونگی آگے کی باتیں۔فی امان الله.
طارق صدیقی: اب کل کیا بات ہوگی؟ آپ نے تو فرما دیا کہ اردو اور فارسی کے شعرا سے بڑا پھینکو ڈاٹ کوم کوئی اور نہیں ہوتا ہے۔ تو جو پھینکو ہو، اس کے کلام پر رد عمل پیش کرنے کی کیا ضرورت؟
اردو کے ایک بہت بڑے ‘‘پھینکو’’ شاعر مرز رفیع سودا کی ایک غزل:
رہے وہ معنیِ قرآں، کہے جو تُو واعظ
پھٹے دہن کے تئیں اپنے، کر رفو واعظ

مجھے یہ فکر ہے تُو اپنی ہرزہ گوئی کا
جواب دیوے گا کیا حق کے روبرو واعظ
خدا کے واسطے چپ رہ، اتر تُو منبر سے
حدیث و آیہ کو مت پڑھ توُ بے وضو واعظ
سنا کسی سے تُو نامِ بہشت، پر تجھ کو
گلِ بہشت کی پہنچی نہیں ہے بُو واعظ
بتوں کی حسن پرستی سے کیا خلل دیں میں
خدا نے دوست رکھا ہے رخِ نکو واعظ
ثبوتِ حق کی کریمی سبھوں پہ ہے لیکن
تری تو نفیِ کرم پر ہے گفتگو واعظ
ڈروں ہوں میں نہ کریں رند تیری ڈاڑھی کو
تبرّکات میں داخل ہر ایک مُو واعظ
ہزار شیشۂ مے اس میں تیں چھپایا ہے
تری جو پگڑی ہے یہ صورتِ سبو واعظ
قطعہ
سخن وہ ہے کہ موثر دلوں کا ہو ناداں
یہ پوچ گوئی ہے جس سے ہے تجھ کو خُو واعظ

کہا تُو مان لے سودا کا، توبہ کر اس سے
لب و دہن کے تئیں کر کے شست و شُو واعظ
کیا یہ بھی کھوکھلی اور سفید جھوٹ غزل ہے؟

اسلام پسند: السلام علیکم و رحمت الله.
صدیقی صاحب! آپ میر سودا اور غالب کا شوخی آمیز کلام پیش کر رھے ہیں جو ان کے کلام میں آٹے میں نمک جیسا  ہے اور جسے انہوں نے اپنا عقیده کبھی نہیں بتایا۔ان کا وه کلام جس میں انہوں نے اپنا عقیده بیان کیا  ہے آپ نے ضرور پڑھا  ہے لیکن آپ عمدأ اسے نظر انداز کر رھے ہیں۔یہ نامناسب طریقہء بحث  ہے.
شاعری کا کثیر حصہ سفید جھوٹ کے علاوه کچھ نہیں۔البتہ بیسویں صدی کے درمیانی تیس چالیس برسوں میں اردو ادب میں دھڑلے سے سرخ جھوٹ بولا گیا۔اور آج کل"بے ساختہ" جھوٹ چل رھا  ہے
طارق صدیقی: بات کھوکھلے پن اور سفید جھوٹ پر چل رہی ہے نہ؟ آپ ثابت کیجیے کہ عبدالحمید عدم کی نظم کھوکھلی ہے، غالب کے ایسے اشعار کھوکھلے ہیں، میر کا وہ شعر کھوکھلا بھی ہے اور سفید جھوٹ بھی، اور اردو اور فارسی شاعروں سے زیادہ بڑا پھینکو اور کوئی ہے ہی نہیں۔
کم زیادہ ہونے سے کیا ہوتا ہے؟ کلام میں کفر، فتنہ، فسق و فجور ہے یا نہیں؟ اگر شاعر اپنی بیوی کو شاعری میں طلاق دے تو طلاق واقع ہوگی یا نہیں؟ انا الحق کہنے والے منصور کو پھانسی ہوئی تھی یا نہیں؟ سرمد کو قتل کیا گیا تھا یا نہیں۔
آپ سے مذہبی بحث میں کر ہی نہیں رہا ہوں۔
ایسے اشعار کے کھوکھلے پن اور سفید جھوٹ ہونے پر بات کر رہا ہوں۔
ندا فاضلی کے کچھ اشعار ہیں:
گھر سے مسجد ہے بہت دور چلو یوں کر لیں
کسی روتے ہوئے بچے کو ہنسایا جائے
بچہ بولا دیکھ کر مسجد عالی شان
اللہ تیرے ایک کو اتنا بڑا مکان
اٹھ اٹھ کے مسجدوں سے نمازی چلے گئے
دہشت گروں کے ہاتھ میں اسلام رہ گیا
یہ سب شاعری کھوکھلی اور سفید جھوٹ ہے؟
اسلام پسند: السلام علیکم و رحمت الله!
عبدالحمید عدم آخرت اور جزا سزا کے منکر ہیں تو انہیں جرءت مندی سے جنت و جھنم کا انکار کرنا چاھئے۔وه یہ دعوی کیوں کر رھے ہیں کہ جنت اوباش اور گنہگاروں کے لئے  ہے اور ملا مولوی اس سے محروم رہیں گے؟ جنت میں Land Mafia کا گزر کہاں جو حقداروں کے مکانات پہ جبرأ قبضہ کر سکے؟
غالب کے چند اشعار
اس کی امت میں ہوں میں میرے رہیں کیوں کام بند
واسطے جس شہ کے غالب گنبد بے در کھلا
واءے گر تیرا مرا انصاف محشر میں نہ ہو
اب تلک تو یہ توقع  ہے وھاں ھو جاءے گا
حد چاھیے سزا میں عقوبت کے واسطے
آخر گناه گار ھوں کافر نہیں ھوں میں
بہت رات ہو گئی۔باقی آئنده۔خدا حافظ
طارق صدیقی: اب ذرا میرا اور اپنا پچھلا تبصرہ دیکھیے:
[طارق صدیقی: غالب کا یہ شعر بھی کھوکھلا ہے؟
ہم کو معلوم ہے جنت کی حقیقت لیکن
دل کو بہلانے کو غالب یہ خیال اچھا ہے
اسلام پسند: جی ہاں جناب! اس میں جو بے یقینی اور خود فریبی کی کیفیت  ہے وه اس کے کھوکھلے پن کا ثبوت  ہے۔کھوکھلے فلسفے اور نظریات جس وسیلے سے بھی پیش کئے جائیں کھوکھلے ہی رہیں گے[.
یہاں اس کا بات کا مقابلہ ہے ہی نہیں کہ میں کافرانہ اشعار پیش کروں اور آپ مومنانہ۔ آپ کے ساتھ بیت بازی سے میری دلچسپی نہیں ہے۔ اور نہ مذہبِ اسلام پر آپ سے کوئی صحت مند بات ہو سکتی ہے۔ آپ سے اسلام پر بہت بات ہو چکی ہے۔ اورآپ کا رویہ تکفیری ثابت ہوا:
ثبوتِ حق کی کریمی سبھوں پہ ہے لیکن
تری تو نفیِ کرم پر ہے گفتگو واعظ
آپ کا یہ تبصرہ بھی تکفیری نوعیت کا ہے:
’’عبدالحمید عدم آخرت اور جزا سزا کے منکر ہیں تو انہیں جرأت مندی سے جنت و جہنم کا انکار کرنا چاہیئے۔‘‘
اور آپ کی یہ بات بالکل غلط ہے:
’’وه یہ دعوی کیوں کر رہے ہیں کہ جنت اوباش اور گنہگاروں کے لئے  ہے اور ملا مولوی اس سے محروم رہیں گے؟‘‘
عبد الحمید عدم کی اس نظم میں تو کہیں یہ دعویٰ نہیں ہے کہ جنت اوباش اور گنہاروں کے لیے ہے، اور ملا مولوی اس سے محروم رہیں گے۔ میں نے تو آج تک کشی شاعر کو یہ کہتے نہیں سنا کہ ‘‘ملا مولوی جہنم میں جائیں گے’’۔ اور اگر کوئی شاعر ایسا کہتا ہے تو اس کو کہنے کا حق ہے کیونکہ ملامولوی بھی شاعروں کی تکفیر کرتے رہتے ہیں۔ یہ اور بات کہ کسی کے کہنے سے نہ کوئی جہنم میں جاتا ہے نہ جنت میں۔ جنت اور جہنم کوئی مکانی چیز ہے یا غیر مکانی، اس پر بھی فلسفیوں، صوفیوں اور علما کے درمیان اختلاف ہے۔ علامہ اقبال کہتے ہیں کہ جنت اور جہنم مکانی نہیں ہیں۔ اب نادان مولوی پھر الجھ پڑیں گے کہ جنت اور جہنم کی نوعیت مکانی ہے اور جو اس کی بات نہ مانے گا، کافر اور مردود قرار پائے گا: اسی لیے قرآن و سنت کے واقعی معنی کیا ہیں، اس پر سودا نے بہت پہلے واعظوں سے کہہ دیا تھا:
رہے وہ معنیِ قرآں، کہے جو تُو واعظ
پھٹے دہن کے تئیں اپنے، کر رفو واعظ
ممکن ہے نادان مولوی اور واعظ ایک بات کہے اور وہ صحیح ہو۔ لیکن اس سے اس کا تکفیری رویہ صحیح نہیں ہو جاتا۔ جنت مکانی ہے یا نہیں، میرا اس میں اپنا کوئی نقطہ ٔ نظر نہیں ہے۔ جنت مکانی بھی ہو سکتی ہے، غیر مکانی بھی ہو سکتی ہے۔ میں جس چیز کے بارے میں جانتا نہیں ہوں، اس کے متعلق میں کیوں کسی کے نقطۂ نظر کو غلط کہوں؟ نادان مولوی وہ ہوتا ہے جو دوسروں کے عقیدے کو بغیر سنے اور سمجھے ہوئے غلط بتاتا اور ان کی تکفیر کر دیتا ہے۔ اور حقیقی عالم وہ ہے جو دوسروں کی عقل کا احترام کرتا اور دین میں بہت سے عقائد کی گنجائش پیدا کرتا ہے۔ وسیع المشربی اور رواداری دین کی روح ہے، جب وہ نکل جائے تو سمجھنا چاہیے کہ وہ دین نہیں دنیا ہے۔
تکفیر کی مثال ایسی ہے جیسے دسترخوان بچھا ہوا ہو، اور ایک لالچی شخص آئے اور سب کو دھکا دے کر کہے کہ میں زیادہ کھاؤں گا۔ تکفیر کھاؤں کھاؤں اور غاؤں غاؤں کا نام ہے۔ ایک شخص جو زیادہ تکفیر کرتا ہو، وہ زیادہ بھوکا ہوتا ہے۔ وہ دراصل یہ چاہتا ہے کہ سب اسی کے مسلک اور مکتبِ فکر میں آ جائیں، تاکہ اس کو زیادہ آمدنی ہو۔ سوال یہ ہے کہ ایسا شخص جو ہمیشہ کھاؤں کھاؤں کرتا رہے، اس کے ساتھ اس کے سوا اور کیا رویہ اپنایا جا سکتا ہے کہ جب وہ دسترخوان پر آئے تو سارے کا سارا کھانا اس کے لیے چھوڑ کر اٹھ جایا جائے اور کسی دوسری جگہ اپنا رزق تلاش کیا جائے۔ اور جب وہ شخص اس دوسری جگہ بھی چلا آئے تو سمجھنا چاہیے کہ بھوک صرف اس کی آنکھ میں ہے۔ ورنہ دوسروں کا کیا عقیدہ ہے، اس سے اسے مطلب کیا ہے؟ غالب سچا مسلمان ہے یا نہیں، اس کا عقیدہ پختہ ہے یا نہیں، اس سے آخر ہم کو کیا لینا ہے؟ عبدالحمید عدم کی یہ نظم بری ہے یا اچھی، میں صرف اتنا مانتا ہوں کہ یہ ایک انسان نے لکھی ہے اور اس کو پڑھنے میں لطف آتا ہے، اس لیے یہ اچھی ہے میرے لیے، اس سے لطف اندوز ہونے کے بجائے آپ اس کو کھوکھلا بتانے لگے، اور بہت کچھ کہہ گئے، اس طرح، آپ خود اس نظم کے لطف سے محروم ہوئے۔ سوال یہ ہے کہ آپ آخر چاہتے کیا ہیں؟ ڈیلیٹ کر دوں اس پوسٹ کو؟ یا فیس بک پر ایسی نظمیں شیئر نہ کروں؟ ہر وقت خطبات اور تنقیحات لے کر بیٹھا رہوں؟ ہر وقت مودودی، اور حسن البنا اور سید قطب کرتا رہوں؟
آپ سے یا مودودی اسلام کے کسی دوسرے نمائندے سے مذہب پر جب بھی گفتگو ہوتی ہے، دل یہی چاہتا ہے کہ اسلام کو چھوڑ کر کفر اختیار کر لیا جائے۔ لیکن ذہنی طور پر مجھے اتنا کمزور نہیں ہونا چاہیے۔ بہرحال انسان ہی ہوں، کیا ٹھکانا، کب آپ ایسوں کی واعظانہ باتوں سے ماتھا پھر جائے، اور میر کی طرح میں بھی کچھ کہہ بیٹھوں:
میر کے دین و مذہب کو اب پوچھتے کیا ہو ان نے تو
قشقا کھینچا دیر میں بیٹھا، کب کا ترک اسلام کیا۔
اس شعر کی ایک تشرح یوں بھی ہو سکتی ہے کہ جاہل مولوی جب میر سے اس کے ایمان کی پرسش کرتا تھا تو میر اس کو طنزاً کہتا تھا کہ ہاں جاؤ میں نے اب اسلام ترک کر کے قشقا کھینچ لیا ہے اور مندر میں بیٹھ گیا ہوں۔ میر یہ نہیں کہہ رہا ہے کہ اس نے واقعتاً اسلام ترک کر دیا، بلکہ وہ دراصل یہ کہہ رہا ہے کہ ظاہرپرست مولوی کا جو اسلام ہے، مجھے اس سے کوئی غرض نہیں۔
ایک تشریح یہ بھی کی جاتی ہے کہ میر کو کسی ہندو لڑکی سے عشق ہو گیا تھا، اور اس کے عشق میں کچھ ایسے دیوانے ہو گئے تھے کہ انہوں نے مجازاً کہا کہ میں نے اسلام کو ترک کر دیا، اور ہندو مذہب کے شعائر کو اختیار کر لیا۔
ان میں کون سی تشریح صحیح، ہے، میں اس پر بات نہیں کر رہا ہوں۔ میں یہ کہہ رہا ہوں کہ آپ کے دینی نقطۂ نظر سے یہ شعر صحیح نہیں ہے۔ آپ فتویٰ دے سکتے ہیں کہ ایسے شعر لکھنا صحیح ہیں یا غلط لیکن آپ جو بھی فتویٰ دیجیے، ادب کی دنیا میں وہ بے اثر ہے۔
شاعری وعظ و نصیحت نہیں ہے، اور نہ کسی تحریک کا تربیتی لٹریچر ہے۔ یہ اسلامی اسٹیٹ نہیں کہ آپ رندانہ، عاشقانہ یا کافرانہ شاعری کرنے پر کوڑے لگوائیں گے۔ آپ حضرات کی ساری تیاری یہی ہے کہ کس طرح اردو شاعری کو فحاشی کا مجموعہ ثابت کیا جائے اور اس کے بعد جب آپ کی اسلامی حکومت آئے تو کوڑے برسائے جائیں۔
آپ نے لکھا ہے:
شاعری کا کثیر حصہ سفید جھوٹ کے علاوه کچھ نہیں۔البتہ بیسویں صدی کے درمیانی تیس چالیس برسوں میں اردو ادب میں دھڑلے سے سرخ جھوٹ بولا گیا۔اور آج کل"بے ساختہ" جھوٹ چل رہا ہے۔
یہ سرخ جھوٹ نہ ہوتا تو اردو شاعری میں نہ فیض ہوتا نہ مجاز، نہ سردار جعفری، نہ منٹو، نہ عصمت چغتائی۔ اردو ادب کوئی تحریکی چڑیا خانہ تھوڑے ہی ہے کہ ایک ہی قسم کے لوگ اس میں ہوں گے۔ اس میں ہر قسم کے لوگوں کی گنجائش ہے۔ اس میں سرخ بھی ہوں گے، سفید بھی ہوں گے، زعفرانی بھی ہوں گے، سبز بھی ہوں گے۔ اور سبز میں بھی کوئی طوطے کے رنگ والا سبز ہوگا، کوئی اور طرح کا اسمارٹ سبز ہوگا۔ اور کچھ لوگ غالب کی طرح ہر رنگ میں شاعری کریں گے:
غم ہستی کا ہو کس سے جز مرگ علاج
شمع ہر رنگ میں جلتی ہے سحر ہونے تک
شاعر تو کفر کے رنگ میں بھی جلے گا، اور ایمان کے رنگ میں بھی جلے گا، اور آپ کا سارا تحریکی نقطہ ٔ نظر دھرے کا دھرا رہ جائے گا۔ کیونکہ آپ سب کو اپنے مخصوص رنگ میں رنگنا چاہتے ہیں۔ دو چار لوگوں کو رنگ دیا، اتنا کافی ہے۔ ادب کی دنیا میں آپ اکثریت میں آجائیں، اس کے لیے کوشش اور محنت کرنی پڑتی ہے، خونِ جگر جلانا پڑتا ہے۔اللہ نے انسان کو بہت محدود عقل دی ہے، کچھ مسائل پر نہیں سوچنا چاہیے، ‘‘صحیح عقیدہ والا ہی جنت میں جا سکتا ہے، اور بقیہ سب جہنم میں جائیں گے، ہم جو کہہ رہے ہیں، وہی عین اسلام ہے، اور اس کے سوا سب ضلالت و گمراہی ہے، ساری دنیا میں اسلامی حکومت قائم کریں گے، اور اسلام ایک مکمل ‘‘نظام’’ ہے، اس قسم کی طوطارٹنٹ سے باہر آنا ہوگا۔ ابھی آپ لوگ ‘‘نظام اور بے نظمی’’ کو ہی ٹھیک سے نہ سمجھ سکے۔ ہر نظام میں بے نظمی موجود رہتی ہے۔ جیسے ہر مرد کے اندر عورت موجود رہتی ہے۔ جیسے رات اور دن ایک ہی گلوب کی دو حقیقتیں ایسے ہی سسٹم اور انارکی ایک ہی شئے کے دو پہلو ہیں۔ کبھی سسٹم غالب آتا ہے اور کبھی انارکی غالب آتی ہے۔ مذہب کا تعلق نہ سسٹم سے ہے اور نہ انارکی سے، اور اگر ہے تو دونوں سے ہے، اور نہیں ہے تو کسی سے بھی نہیں ہے۔
علمی اور فلمی دنیا میں، ادب و ثقافت میں ایک ہی تحریکی، مذہبی یا ثقافتی نقطہ ٔ نظر دیر تک نہیں چلتا۔ سرخ لوگوں کے اندر جتنی شاعری تھی، اتنی اردو میں باقی رہی۔ اور وہ بہت اعلیٰ پائے کی شاعری ہے۔ سرخ لوگوں نے تو ساری دنیا کے ادب میں اتنا لکھا ہے کہ حق کا معیار بن گئے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ ادب کے مودودی وہابی نظریے نے کیا پیش کیا ہے؟ اقبال مولانا مودودی سے سینئر ہیں۔ اس لیے اقبال کو مودودی نظریہ ٔ ادب کے کھاتے میں نہیں ڈالا جا سکتا۔ اس کے علاوہ علامہ اقبال کے عقائد تحریکی عقائد سے الگ ہیں۔ اقبال چنیا بیگم (تصوف) کے عاشق، بزرگوں کے مزاروں پر حاضری دینے والے۔ مولانا مودودی کسی سخت دل وہابی کی طرح تھے، غالباً زندگی میں ایک بار بھی نظام الدین اولیا یا معین الدین چشتی کے مزار پر حاضری نہ دی ہو، اور اگر دی ہو تو دعوتی لٹریچر میں اس بات کو صاف چھپا گئے۔ اقبال بزرگوں کے قبور کی زیارت اس لیے نہیں کرتے رہے ہوں گے کہ موت کو یاد کریں، اور انہیں ان سے کوئی عقیدت نہ رہی ہوگی! علامہ اقبال کا عقیدہ مسلکِ اہل حدیث کا عقیدہ نہیں تھا، اور نہ ان کا عقیدہ وہ تھا جس کو ‘‘تحریکی نقطہ ٔ نظر سے اسلامی کہا جا سکے کیونکہ ایک تو وہ جنت اور جہنم کو غیر مکانی کہتے تھے، دوسرے نظریہ ارتقا میں یقین رکھتے تھے، جس کی مولانا مودودی نے ایک مضمون لکھ کر سخت مخالفت کی تھی، بلکہ مذاق اڑایا تھا۔ بلکہ اس کو مضمون نہیں، انشائیہ کہنا چاہیے۔ اب جا کر سمجھ میں بات آئی تو کسی نہ کسی قسم کے نظریہ ارتقا سے بھی بعض تحریکی افراد متفق ہونے لگے ہیں۔ لیکن جو چیز کل تک کفر تھی، اس کو آج آپ اسلام کا معیار کیسے بنا سکتے ہیں الا یہ کہ دین و شریعت کے نقطہ ٔ نظر میں بنیادی تبدیلی لائیں۔ جس تصورِ دین کو آپ حضرات جی رہے ہیں، اس میں نظریہ ارتقا کی بات کرنا ایسا ہے جیسے موٹر گاڑی میں ہوائی جہاز کا پرزہ لگانا اور یہ توقع کرنا کہ موٹر دوڑے گی۔ نظریہ ارتقا کو اپنے یہاں انسٹال کرنے کے لیے پہلے دین کے مودودی نظریے کو اسلام کا صرف ایک نظریہ قرار دینا ہوگا اور کوشش کرنی ہوگی کہ اسلام کی زیادہ سے زیادہ فلسفیانہ اور صوفیانہ تشریحات و تعبیرات آپ کے ہاں جگہ پا جائیں۔ اس کے بعد ہی آپ مسلمانوں کی اکثریت کے نمائندہ خود کو کہہ سکیں گے (لیکن اس کے باوجود آپ کو مسلمانوں کی اقلیت کا ترجمان نہیں سمجھا جا سکتا)۔ اور جب دس فرقوں کے لوگ ایک ساتھ مل کر ایک فرقہ کا انسداد کریں تو ان دسوں فرقوں کو ایک فرقہ کہا جائے گا، کیونکہ وہ ایک پلیٹ فارم پر آ کر ایک میجریٹی بنائے ہوئے ہیں، اور جو بیچارہ تعداد میں کم ہے، اس کا انسداد کر رہے ہیں۔ اس لیے آپ نے بیش از بیش اسلامی صوفیوں اور فلسفیوں کو اپنے ہاں جگہ دے بھی دی (جو آپ کے مزاج کے خلاف بات ہے) اور زیادہ تر اسلامی فرقوں نے آپ کو امام مان بھی لیا تو بھی آپ کی اصل کیفیت ایک اسلامی فرقہ کی ہی رہے گی۔ اور فرقہ ہونا اپنے آپ میں کوئی بری چیز نہیں ہے بلکہ بری چیز کسی فرقہ کا پرامن یا بدامن ہونا ہے۔ اور جس طرح میں بریلوی اور دیوبندی اور اہل حدیث فرقہ کا احترام کرتا ہوں، اسی طرح تحریکی فرقہ کا احترام کرنا بھی مجھ پر واجب ہے۔ پھر اقبال پر سب کا حق ہے، بلکہ ترقی پسندوں کا بھی، کیونکہ وہ بھی اقبال کو ترقی پسند ثابت کرتے ہیں۔ اس لیے ترقی پسند فرقہ کا بھی اقبال پر حق ہے۔ لیکن یہ اور بات کہ اقبال کسی فرقے سے منسلک نہیں تھے کیونکہ وہ حضرت مولانا (رومی) کے تصوف سے متاثر ہوئے جو بہتر فرقوں سے متفق تھے۔ اس لیے اقبال کی شاعری اسلامی ادب کا ہی حصہ نہیں ہے بلکہ وہ ترقی پسند ادب کا بھی شاہکار ہے۔
اقبال بڑی متنازعہ فیہ چیز ہے، اس لیے فرقہ ٔ تحریکیہ اقبال کی شاعری کو اپنا ‘‘اسلامی ادب’’ قرار نہیں دے سکتا۔ کہاں حضرت مولانا (رومی) کا معتقد، منصور حلاج کا معترف، نظریہ ارتقا کا حامی،جنت یا جہنم کو مقام کے بجائے حالت کہنے والا شاعر اقبال اور کہاں سکہ بند، ٹکسالی، وحدانی اور جامد تحریکی نقطہ ٔ نظر رکھنے والے اسٹیٹس کوئسٹ حضرات! اتنے شدید اختلاف کے باوجود اقبال کو تحریکی شاعر بنا دیا گیا۔ کہاں کی اینٹ کہاں کا روڑا، بھان متی نے کنبہ جوڑا۔ اور جب کنبہ جوڑ ہی لیا تو عبدالحمید عدم سے کیا الرجی؟
اردو فارسی شاعروں کے ایسے اشعار انتقامی نوعیت کے بھی ہو سکتے ہیں کیونکہ وہ دین کی حرفیت پسندانہ اور منقولاتی تعبیروں کے ردعمل میں پیدا ہوئے ہیں۔ اور چونکہ دین کی یہ تعبیراب غیرموزوں ہے، اور شعرا اس معاملے میں مجھے برحق نظر آتے ہیں، اس لیے بھی ایسے اشعار بہت قیمتی ہیں۔ ان کو سنبھال کر رکھنا چاہیے۔ یہ ہمارے ثقافتی دلائل ہیں، یہ ثبوت ہیں اس بات کا کہ مغربی تہذیب کے غلبے سے پہلے بھی ہمارے ہاں اس قدر وسیع المشرب، اور انسان دوست عناصر رہے ہیں۔ آزادہ روی ہم نے کچھ مغرب سے نہیں سیکھی ہے۔ یہ ہماری اپنی میراث ہے جس میں میر و غالب و سودا سب شامل ہیں۔ اردو اور فارسی شاعری ایسے کافرانہ اشعار سے اٹی پڑی ہے۔ ایک قسم کا کافرانہ شعر وہ ہے جو علمائے ظواہر کے ردعمل میں پیدا ہوتا ہے۔ دوسری قسم کے کافرانہ اشعار وہ ہیں جو دیانت داری سے غور و فکرکرنے کے سبب پیدا ہوتے ہیں:
خود را نہ پرستیدئی، عرفاں چہ شناسی؟
کافر نہ شُدی، لذّتِ ایماں چہ شناسی؟
یعنی جب اپنی پوجا اور پرستش ہی نہ کی، تو عرفان کیا خاک میسر آئے گا؟ اور جب کافر ہی نہ ہوئے، تو ایمان کی لذت کیا پاؤگے؟ دوسروں کی تکفیر کرنے والے مذہبی شخص کو حقائق کا عرفان نہیں ہو سکتا۔ وہ اپنی بات ڈنڈے کے زور پر منوانا چاہتا ہے، اسی لیے وہ کفر کا فتویٰ لگاتا ہے۔
میں نے مستقل یہ فیصلہ کر لیا ہے کہ آپ حضرات سے اسلام پر کوئی گفتگو ہی نہ کروں۔ یہ بالکل بے فائدہ اور عبث ہے۔ آپ مجھ سے عمر میں بڑے ہیں، اس لیے استدعا کرتا ہوں کہ پلیز مذہبی یا تحریکی نقطہ ٔ نظر کے ساتھ مجھے سے بحث نہ کریں۔ میرے پاس اتنا دماغ نہیں ہے کہ میں آپ کی غلط فہمیاں دور کرنے کے لیے اتنے طویل تبصرے لکھوں۔
 آپ نے غالب کا ایک شعر پیش کیا ہے:
حد چاھیے سزا میں عقوبت کے واسطے
آخر گناه گار ھوں کافر نہیں ھوں میں
یہ کہہ دینے سے غالب کا یہ شعر کھوکھلا ثابت نہیں ہوتا: ۔
ہم کو معلوم ہے جنت کی حقیقت لیکن
دل کو بہلانے کو غالب یہ خیال اچھا ہے
اگر غالب مولانا مودودی کے معیارِ مطلوب پر اترتا تھا تو اس کو اپنے دیوان سے ‘‘جنت کی حقیقت کا علم ہونے’’ والا یہ شعر نکال دینا چاہیے تھا۔ تحریک اسلامی کا کوئی شاعر ہوتا اور اس سے کوئی ایسا شعر سرزد ہوگیا ہوتا تو وہ اس کو اپنے دیوان سے نکال دیتا۔ اور کیا آپ کو معلوم ہے کہ ‘‘حد چاہیے سزا میں عقوبت کے واسطے’’ والا شعر غالب نے پہلے لکھا یا ‘‘جنت کی حقیقت معلوم ہونے’’ والا شعر پہلے لکھا؟ آپ دراصل یہ کہہ رہے ہیں کہ غالب نے توبہ کر لی تھی اپنے کفریہ اشعار سے۔ آپ کو غالب کے ایک ہی طرح کے اشعار پسند ہیں اور دوسری طرح کے اشعار سے آپ کی طبیعت ابا کرتی ہے۔ اسی لیے کبھی آپ یہ کہتے ہیں کہ غالب کا یہ شعر کھوکھلا ہے اور کبھی کہتے ہیں کہ غالب کے ایسے اشعار آٹے میں نمک کے برابر ہیں:
۔‘‘آپ میر سودا اور غالب کا شوخی آمیز کلام پیش کر رھے ہیں جو ان کے کلام میں آٹے میں نمک جیسا  ہے اور جسے انہوں نے اپنا عقیده کبھی نہیں بتایا.’’۔
آپ غالب اور اقبال کے عقیدے کے نگراں ہیں؟ اقبال تو صاف کہتا ہے کہ جنت اور جہنم اسٹیٹ آف مائینڈ ہے۔ جنت اور جہنم کسی مکان میں نہیں ہے۔ صوفیائے کرام کا یہی عقیدہ ہے۔ پوری اسلامی تاریخ شاہد ہے کہ صوفیا نے ایسے عقائد اختیار کیے ہیں۔ مولانا جلال الدین رومی بلکہ علامہ غزالی کا عقیدہ بھی وہ نہیں تھا جو عام طور پر سمجھا جاتا ہے۔
آپ نے میر کے ایک شعر کو کھوکھلا اور سفید جھوٹ کہا ہے۔ اگر آپ غالب کو بہت پکا اور سچا مسلمان مانتے ہیں (ماننا اور منوانا آپ کا طریقہ ٔ زندگی ہے) تو اس کے اس شعر کو بھی ماننا ہوگا:
غالب اپنا یہ عقیدہ ہے کہ بقول ناسخ
آپ بے بہرہ ہے جو معتقد میر نہیں
غالب کے دوسرے بہت سے اشعار ہیں جو فسق و فجور کا پلندہ ہیں۔ آپ کہتے بھی ہیں کہ اردو شاعری کا زیادہ تر حصہ ‘‘سفید جھوٹ’’ ہے۔ اور غالب اردو کا ایک شاعر ہے۔ اس لیے اس کی شاعری کا زیادہ تر حصہ بھی آپ کے حساب سے سفید جھوٹ ہونا چاہیے۔ دیکھیے غالب نے کیا کیا سفید جھوٹ بولے ہیں:
طاعت میں تارہے نہ مے و انگبیں کی لاگ
دوزخ میں ڈال دو کوئی لے کر بہشت کو
۔(یہ شعر آپ کے تصورِ دین کے خلاف ہے (میرے تصورِ دین کے نہیں)۔ جنت کی حرص کوئی مطلوب شئے نہیں ہے۔ عوام کو نیکی سے رغبت ہو، اس لیے جنت کے وعدے اور جہنم کی وعیدیں ہیں، ورنہ نیکی ایسی چیز ہے کہ انعام سے بے پروا ہو کر کرنی چاہیے)۔
ستائش گر ہے زاہد اس قدر جس باغ رضواں کا
وہ اک گلدستہ ہے ہم بے خودوں کے طاق نسیاں کا

کیا فرض ہے کہ سب کو ملے ایک سا جواب
آ نہ ہم بھی سیر کریں کوہِ طور کی
یہ مسائل تصوف یہ ترا بیان غالبؔ
تجھے ہم ولی سمجھتے جو نہ بادہ خوار ہوتا
لے تو لوں سوتے میں اُس کے پاؤں کا بوسہ مگر
ایسی باتوں سے وہ کافر بدگماں ہو جائے گا
۔(دیکھیے غالب کافر کے پیر کا بوسہ لے رہے ہیں۔ فتویٰ تو ظاہر پر ہی لگتا ہے نہ؟ اور مولوی یہ کہہ کر فتویٰ لگائے کہ غالب کو کافر کے بجائے لفظ ‘‘بیوی’’ کہنا چاہیے تھا)۔
رندانِ درِ میکدۂ گستاخ ہیں زاہد
زنہار نہ ہونا طرف ان بے ادبوں سے
(تشریح: اے زاہد یہ رند جو میخانہ کے دروازہ پر بھیڑ لگائے ہوئے ہیں ، بہت گستاخ ہیں، زنہاران کے منہ نہ لگنا یعنی کہیں شراب کی حرمت ان کے سامنے بیان نہ کرنا۔۔۔ سید محمد حسین محسن حیدرآبادی)
کیوں رد و قدح کرے ہے زاہد
مے ہے یہ مگس کی قے نہیں ہے
اے زاہد قدح شراب کو رد نہ کر یہ سارنگ مکھی کی قے نہیں ہے جسے تو بڑی نعمت سمجھتا ہے۔۔۔۔ سید محمد حسین محسن حیدرآبادی، سارنگ شہد کی بڑی مکھی کو کہتے ہیں۔
واعظ نہ تم پیو نہ کسی کو پلا سکو
کیا بات ہے تمہاری شرابِ طہور کی
صحبت وعظ تو تادیر رہے گی واعظ
یہ ہے میخانہ ابھی پی کے چلے آتے ہیں
غالب کی ایسی تمام شاعری کھوکھلی اور سفید جھوٹ ہے؟
اسلام پسند: السلام علیکم و رحمت الله
میں تو صرف کھوکھلی اور سفید جھوٹ ھی کہہ رھا ھوں۔مولانا الطاف حسین حالی رحمة الله عليہ نے تو ایسی اردو شاعری کو سنڈاس کی عفونت سے بدتر قرار دیا  ہے!ّ
طارق صدیقی: جنابِ من، تو کیوں آ رہے ہیں سنڈاس کی عفونت میں ہاتھ ڈالنے۔ حالی ہی آپ کو محبوب و مرغوب ہے تو پڑھیے نہ آپ صرف مسدس حالی۔ کون منع کرتا ہے آپ کو؟ فیس بک پر پوسٹ کر دیجیے مولانا الطاف حسین حالی کے مدوجزرِ اسلام کو، مجھے دوبارہ پڑھنا ہوگا تو میں پڑھ لوں گا، اور شیئر کرنا ہوگا تو شیئر بھی کروں گا، طبیعت مچلے گی تو واہ واہ بھی کروں گا۔ پتا نہیں آپ نے مسدس حالی کتنی بار پڑھی ہے۔ لیکن آپ کی اطلاع کے لیے بتا دوں میں نے ایک سے زیادہ بار پڑھی ہے۔ لیکن میں ابھی مسدس حالی پر بات نہیں کرنا چاہتا ہوں۔ آپ کو مسدس حالی ہی اچھی لگتی ہے تو ہر دن میں ایک مسدس پوسٹ کیا کیجیے اپنے نام سے۔
کیا پاک ہے اور کیا ناپاک ہے، اس پر میں آپ سے بحث نہیں کر رہا ہوں۔ میں آپ سے اتنا کہہ رہا ہوں کہ غالب کی ایسی شاعری کھوکھلی ہے اس کو ثابت کر دیں۔ سنڈاس اور عفونت کھوکھلے نہیں ہوتے ہیں۔ اور نہ سفید جھوٹ ہوتے ہیں۔ سنڈاس اور عفونت ایک حقیقت ہے۔ بات آپ سے ایمان و یقین کی نہیں ہو رہی ہے، بات آپ سے حق و باطل کی نہیں ہو رہی ہے۔ کیا اچھا ہے، کیا برا ہے، اس پر میں آپ سے بات کرنا ہی نہیں چاہتا۔ آپ سے بات ہو رہی ہے ایسے اشعار یا شاعری پر جس کو آپ کھوکھلا کہہ رہے ہیں، جس کو آپ سفید جھوٹ کہہ رہے ہیں۔ جس کے متعلق آپ کہہ رہے ہیں کہ اردو اور فارسی کے شعرا پھیکو ڈاٹ کوم ہیں۔
واضح رہے کہ میرے اس اسٹیٹس پر آپ کا پہلا تبصرہ یہ تھا:
"السلام علیکم طارق احمد صدیقی صاحب! عبدالحمید عدم کی یہ نظم بہت ھلکی پھلکی، سبک رفتار اور رواںہے  کیونکہ یہ معنی، مفہوم اور معیار کے لحاظ سے بھی بالکل کھوکھلی ہے ."
آپ اپنے اس تبصرے کو ثابت کیجیے۔اور اس کے ساتھ ہی غالب کے ایسے شعروں کو کھوکھلی اور سفید جھوٹ بھی ثابت کیجیے۔
(میں نے اپنے اس تبصرے کو کئی بار اڈٹ کر دیا ہے۔ کیونکہ غصہ آ گیا تھا۔ حالانکہ غصہ نہیں آنا چاہیے، خواہ ایک شخص گالی ہی کیوں نہ بول رہا ہو)۔
اسلام پسند: السلام علیکم و رحمت الله!
صدیقی صاحب!
آپ نے عبدالحمید عدم کی نظم عوام کے سامنے پیش کی تو یہ توقع کیوں رکھتے ہیں کہ وه سب کو اجھی لگے گی؟ کوئ اسے like کرے گا تو کوئ dislike
جناب! اردو تنقید کی  ہر  قسم مثلأ عملی تنقید، رومانی تنقید، ترقی پسند تنقید وغیره کو آپ برداشت کرتے ہیں لیکن اسلامی تنقید پر چراغ پا ہو جاتے ہیں۔کیوں؟
طارق صدیقی: میرا پچھلا تبصرہ غصے میں کیا گیا تھا۔ یہ مجھے قبول ہے۔ اس لیے میں اپنے پچھلے تبصرے کو واپس لیتا ہوں۔ اسلامی نقطہ ٔ نظر سے دی ہوئی طلاق بھی واپس ہو جاتی ہے۔ وہ تو خیر تبصرہ تھا۔
اب آئیے دیکھا جائے کہ آپ جس چیز کو اسلامی تنقید کہہ رہے ہیں، اس کا علمی مرتبہ کیا ہے؟
آپ نے اپنے مذکورہ بالا تبصرے سے پہلے والے اپنے تبصرے میں اسلامی تنقید کا جو نمونہ پیش کیا ہے وہ یہ ہے:
‘‘میں تو صرف کھوکھلی اور سفید جھوٹ ھی کہہ رھا ھوں۔مولانا الطاف حسین حالی رحمة الله عليہ نے تو ایسی اردو شاعری کو سنڈاس کی عفونت سے بدتر قرار دیاہے !ّ’’
حالی نے کس چیز کو عفونت میں سنڈاس سے بدتر قرار دیا تھا، اس پر میں فی الحال بات نہیں کروں گا۔ لیکن حالی کی جو بات آپ جس سیاق میں کوٹ کر رہے ہیں اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اس کی یہ بات آپ کے لیے دلیل یا مثال کا درجہ رکھتی ہے۔ یعنی جب حالی نے ایسی شاعری کو سنڈاس کی عفونت سے بدتر قرار دیا تھا، تو ایسی شاعری کو کھوکھلا اور سفید جھوٹ کہنا آپ کے لیے بدرجہا جائز ہوجاتا ہے۔
آپ کے بقول حالی کے مطابق ایسی شاعری سنڈاس کی عفونت سے بدتر ہے (واضح رہے کہ حالی کے اس مصرعے میں شعر و قصائد کی بات آئی ہے، اور شعر سے مراد صرف قصیدہ کی قسم کا شعر بھی ہو سکتا ہے) ، اب غالب بھی ایسی شاعری کرتا ہے، تو اس کا مطلب حالی کے نزدیک غالب کی ایسی شاعری بھی سنڈاس کی عفونت سے بدتر ہوئی۔ اب حالی نے ایک کتاب لکھی ہے، یادگارِ غالب۔ تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ حالی کی کتاب ‘‘یادگارِ غالب’’ بھی سنڈاس کی عفونت سے بدتر شاعری کرنے والے کی شخصیت پر بات کرتی ہے کیونکہ آپ نے اسی کو ثابت کرنے کے لیے لکھا تھا۔ اپنے الفاظ پر غور کیجیے:
’’میں تو صرف کھوکھلی اور سفید جھوٹ ہی کہہ رہاہوں۔مولانا الطاف حسین حالی رحمة الله عليہ نے تو ایسی اردو شاعری کو سنڈاس کی عفونت سے بدتر قرار دیاہے !‘‘
اس سے پہلے آپ کہہ چکے ہیں، کہ غالب کا یہ شعر بھی کھوکھلا ہے:
ہم کو معلوم ہے جنت کی حقیقت لیکن
دل کو بہلانے کو غالب یہ خیال اچھا ہے
یعنی غالب کا یہ شعر اگر کھوکھلا ہے، اور آپ کا ایسا کہنا درست ہے کیونکہ الطاب حسین حالی نے ایسی شاعری کو سنڈاس کی عفونت سے بدتر قرار دیا تھا۔ اس کے معنی یہی ہوئے نہ کہ آپ کے نزدیک حالی نے غالب کی ایسی شاعری کو بھی سنڈاس کی عفونت سے بدتر قرار دیا تھا۔ کیونکہ حالی کی ایک بات کو دلیل آپ خود بنا رہے ہیں نہ؟ پھر جب حالی نے یادگارِ غالب لکھی، تو اس کے معنی یہ ہوئے کہ عفونت میں سنڈاس سے بتر لکھنے والے کی یادگار لکھی۔
یہ اپنی ’’اسلامی‘‘ تنقید کا پھاوڑا لے کر آپ غالب پر ’’ ادبی تنقید‘‘ کرنے چلے ہیں یا مذہبی؟ میں تو پچاس بار کہہ چکا ہوں کہ آپ سے میں مذہبی معاملوں پر بات نہیں کر سکتا۔ آپ یہ ثابت کیجیے کہ غالب کی ایسی شاعری کھوکھلی ہے، اور حالی نے غالب کی ایسی شاعری کو بھی عفونت میں سنڈاس سے بدتر قرار دیا تھا:
ہم کو معلوم ہے جنت کی حقیقت ورنہ
دل کے بہلانے کو غالب یہ خیال اچھا ہے
اسلام پسند: السلام علیکم و رحمت الله
صدیقی صاحب!
کسی کے برے شعر کو برا کہیں تو آپ یہ مطلب کیوں نکالتے ہیں کہ اس کے اچھے کلام کو بھی برا کہا جا رھاہے ۔غالب کے ایک شعر کو میں نے ناپسند کیا تھا لیکن اس کے تین اچھے شعر بطور نمونہ پیش کیے تھے۔اسی طرح اگر حالی نے یادگار غالب لکھی تو اس سے غالب کے برے شعر اچھے نہیں ھو سکتے۔یادگار غالب میں ان کی اچھائیوں اور خوبیوں کا ذکرہے ۔ان کی کمزوریوں کا ذکرہے  یا نہیں میں وثوق سے نہیں کہہ سکتا.
عبدالحمید عدم نے شیخ و واعظ کے مذہبی عقائد پر طنز کیا اورغالب نے بھی دینی عقیدے کی تخفیف کی  ہے اسی لیے میں نے ان پر تنقید کی ہے یعنی اصلأ بحث کا موضوع مذہب ہی ہے پھر بھی آپ بار بار یہ کیوں کہہ رھے ہیں کہ مجھ سے مذہب  پر گفتگو نہیں کر رہے ہیں؟
طارق صدیقی: آپ نے کسی برے شعر کو برا نہیں کہا تھا بلکہ کھوکھلا اور سفید جھوٹ کہا تھا، جس کو آپ ثابت نہیں کر پا رہے ہیں۔ میرا یہ اندازہ ہے کہ آپ نے مذہبی جذبے کے تحت ہی اس نظم کو کھوکھلا کہا ہے۔ اگر مذہبی جذبے کے تحت آپ نے ایک بات کہی ہے تو لفظ کھوکھلا اس کے لیے موزوں نہیں ہے بلکہ اس کے لیے ‘کافرانہ’’‘‘فاسقانہ’’ یا‘‘ فاجرانہ’’ یا اسی طرح کا کوئی دوسرا لفظ موزوں ہے۔
میں آپ سے واقعی مذہبی بحث نہیں کرنا چاہتا ہوں۔ اب تک جو کچھ میں نے آپ سے مذہبی موضوعات پر کہا، اور اس اسٹیٹس پر کہا، وہ میری غلطی تھی، مجھے وہ باتیں آپ سے نہیں کہنی چاہیے تھیں۔ کیونکہ آپ سے بحث میں ایک بار تلخی آ چکی ہے۔ اور بحث میں تلخی لانے کی ذمہ داری میری ہوسکتی ہے۔ لیکن میں اب اس کے لیے نہ خود کو ذمہ دار قرار دینا چاہتا ہوں نہ آپ کو۔ سمجھیے تقدیر ہی ایسی ہے۔ ہو سکتا ہے کہ میں اور آپ جن مختلف نقطہ ٔ ہائے نظر سے بات کرتے ہیں وہ متصادم ہوں، اور اسی کے سبب تلخی پیدا ہو رہی ہو۔ یہ بھی ممکن ہے کہ کسی نقطہ ٔ ںظر میں بالذات وہ تصادم نہ پایا جاتا ہو، اور بحث کرنے والوں کے رویے سے تلخی پیدا ہو گئی ہو۔ ممکن ہے تلخی کے پیدا ہونے میں میری غلطی ہو لیکن مجھے اب نہ اپنی غلطی کی نشاندہی کرنی چاہیے اور نہ آپ کی، اس لیے اب میرا اس پر ایمان ہے کہ اس تلخی کے پیدا ہونے میں تقدیر کا ہاتھ زیادہ ہے۔ کب تک ایک دوسرے کی غلطیوں کی نشاندہی کرتے رہیں گے؟
تلخی جو بدقسمتی سے پیدا ہو گئی ہے، وہ اللہ کے فضل و کرم سے دور ہو جائے۔ اسی لیے میں آپ سے مذہبی یا اخلاقی بحث نہیں کرنا چاہتا ہوں۔ دراصل جو لوگ ہم مزاج ہوں، انہیں سے بحث ہو سکتی ہے۔ ایک سخت مشرک اور سخت موحد کے درمیان بھی بہت جم کر بحث ہو سکتی ہے، اور کوئی ضروری نہیں کہ ان کے درمیان تلخی پیدا ہو۔ لیکن آپ کے ساتھ تلخی پیدا ہو رہی ہے، اس لیے مجھے لگتا ہے کہ مسئلہ ہمارے نقطہ ہائے نظر کا نہیں ہے، یہ طبعی مناسبت کا مسئلہ ہے۔ شاید آپ میں اور مجھ میں طبعی مناسبت ہی نہیں ہے۔ اور انسان کی طبیعت اس کے اپنے قابو میں نہیں رہتی کہ اس کو موردِ الزام ٹھہرایا جائے۔ آگ اور پانی کا میل نہیں ہو سکتا۔ اور میل ہو گا تو ایک کو بجھ جانا پڑے گا۔ یادوسرے کو بھاپ بن کر اڑ جانا ہوگا۔ تو طبائع کا ایسا ٹکراو نہ ہی ہو تو اچھا۔ کسی خاص نقطہ ٔ نظر کو کیوں دوش دیں؟ اس لیے دو مختلف طبائع کے درمیان مکالمے کا طریقہ یہ ہو سکتا ہے کہ آپ کو اگر میری کوئی بات اچھی لگے تو کہہ دیجیے واہ، اور مجھے آپ کی کوئی بات اچھی لگے تو میں کہہ دوں واہ۔ (بشرطیکہ کہ اچھی لگے یا دل آمادہ ہو)، اور استثنیٰ صرف یہ ہو کہ مذہب پر بات نہ ہو، کیونکہ میں مذہبی معاملے میں تلخ بحث نہیں کرنا چاہتا۔ اور معاملوں میں آپ سے تلخ بحث کر سکتا ہوں کیونکہ وہاں مذہب کے فنا ہونے کا خطرہ نہیں ہوتا۔
لیکن میں دوسروں سے مذہب پر بظاہر تلخ بحث کر سکتا ہوں کیونکہ ممکن ہے مجھے ان سے بحث کرتے وقت تلخی کا احساس نہ ہو، جو آپ کے ساتھ طبعی مناسبت نہ ہونے کے سبب ہو رہی ہے۔ مذہبی بحث میں تلخی کا احساس اگر ہو جائے، تو بحث فوراً روک دینی چاہیے۔
آپ سے سیکولر موضوعات پر بحث ہو سکتی ہے۔ اور میں سیکولر ادبی نقطہ نظر سے پوچھ رہا ہوں کہ یہ نظم کھوکھلی کیونکر ثابت کی جا سکتی ہے۔ شعر کا کھوکھلا پن، اس کی سطحیت، اس کا مہمل ہونا، اس کا مبہم ہونا سب الگ الگ چیزیں ہیں۔ شعر کا اچھا یا برا ہونا کئی معنوں میں ہوتا ہے۔ کن معنوں میں آپ کسی شعر کو برا کہہ رہے ہیں، اور کن معنوں میں کھوکھلا کہہ رہے ہیں، اس کو واضح کیجیے۔ پھر یہ دیکھا جائے گا کہ جن معنوں میں آپ کھوکھلا کہہ رہے ہیں، ان معنوں میں کیا اس نظم کو اور غالب کے ‘‘جنت کی حقیقت’’ والے شعر کو کھوکھلا کہا جا سکتا ہے؟
اسلام پسند: السلام علیکم و رحمت الله
صدیقی صاحب!
وه تلخی مذہبی بحث کی وجہ سے تو نہیں ہوئی تھی۔میں نے آپ کو میاں لکھ دیا تھا آپ ناراض ہوئے تو میں نے معافی مانگ لی تھی اور بات آئی گئی ہو گئی تھی۔آپ اس کو اب تک لیے بیٹھے ہیں؟
میں نے عدم ، غالب اور میر کے اشعار کو مذھب مخالف ھونے کی بنا پر معنی مفہوم اور معیار سے کھوکھلا کہا تھا۔ممکن ہے سیکولر ( لا مذہب) لوگوں کو وه پسند ہوں اور ان کو وه معياری لگیں.
لفظ کھوکھلا کئی معنوں میں استعمال ہوتاہے۔کھوکھلا وعده یعنی جھو ٹا وعده، کھوکھلی ہنسی یعنی جھو ٹی ہنسی.
کھوکھلا فلسفہ یعنی بے مقصد، غیر مفید فلسفہ۔جب فلسفے اور نظریے کو کھوکھلا کہا جا سکتاہے تو کسی شعر کو بھی کھوکھلا کہنے میں کوئ حرج نہیں ہے.
طارق صدیقی: آپ نے مجھے طارق میاں کہا، میں نے اس پر اعتراض کیا، آپ نے وہ لفظ واپس لے لیا، اور بات وہیں ختم ہو گئی۔ اس کے بعد وہ بات مجھے یاد بھی نہیں رہی تھی۔ ابھی آپ کے یاد دلانے سے یاد آئی۔ اصل بات آپ نے اب بھی قبول نہیں کی کہ میں آپ سے مذہبی بحث سے کیوں بچنا چاہتا ہوں؟ پچھلی بحث میں آپ نے میرے سلسلے میں ایک لفظ ‘‘کافرانہ’’ کا استعمال کیا تھا، اور آپ بحث میں ایسے لفظ کا استعمال صحیح بتا رہے تھے۔ اس بحث میں مرکزی نکتہ یہ تھا کہ ‘‘جس طرح آج یوٹیوب اور انٹرنیٹ کے دور میں بعض جدیدیائے ہوئے اسلام پسندوں نے جاندار کی تصویر کو انتہائی بے اصولے پن سے حلال کر لیا ہے، وہ غلط ہے۔ اس بے اصولے طریقے سے جاندار کی مصوری کو حلال نہیں کرنا چاہیے۔ مذہب کی بنیاد عقل پر ہے اور عقل یہ کہہ رہی ہے کہ مذہب کا عملیت پسند تصور صحیح ہے۔ جس طرح اقتضائے زمانہ سے ہم تصویر کو حلال سمجھنے پر مجبور ہیں حالانکہ احادیث میں اس کی حرمت بالکل صاف طور پر معلوم ہو رہی ہے، اسی طرح آج اقتضائے زمانہ کی رو سے سیاست بھی دین میں شامل نہیں رہی۔‘‘ میری اس قسم کی باتوں کے سلسلے میں آپ نے ‘‘کافرانہ’’ کا لفظ استعمال کیا تھا۔ ظاہر ہے کہ جب میری کوئی بات کافرانہ ہو، تو پھر بحث کی کیا ضرورت ہے؟ چھوڑیے ہٹائیے، بات ہی نہ کیجیے۔ کافرانہ، فاسقانہ، فاجرانہ، ایسے الفاظ آخری ہیں، اور اس کے بعد کچھ باقی رہتا نہیں ہے۔ یہاں علمی رواداری ختم ہوتی ہے اور تنگ نظری شروع ہو جاتی ہے۔ اور تنگ نظروں سے میں بحث نہیں کرنا چاہتا۔ اس کے معنی یہ ہوئے کہ آپ میری بات کو کافرانہ کہہ کر اسلامی برادری میں چلنے نہیں دینا چاہتے۔ میں کہوں کہ مولانا مودودی کی تفہیم القرآن میں جو فلسفہ پیش کیا گیا ہے، وہ کافرانہ ہے، میری ایسی بات کے معنی اس کے سوا اور کیا ہوں گے کہ میں مولانا مودودی کی تفہیم القرآن کو اسلامی برادری میں چلنے نہیں دینا چاہتا۔ کیونکہ جو چیز کافرانہ ہوگی اس کو اختیار کر کے لوگ کافر ہو جائیں گے۔ تصویر کو تمام صحابہ اور ائمہ ٔ مجتہدین اور فقہا نے چودہ سو سال تک حرام سمجھا، آج آپ اس کو حلال کر رہے ہیں تو اپنی ہی فقہ کی رو سے اللہ کے رسول کی ایک بات کا انکار کر رہے ہیں نہ؟ تو آپ کا تصویر کو حلال کر لینا کافرانہ ہوا کہ نہیں؟ آپ کا جو مذہبی اصول ہے، وہ یہی ہے۔ میرا مذہبی اصول یہ نہیں ہے۔ کیونکہ میرے نزدیک مذہب کی بنیاد عقل پر ہے جو حالات کو دیکھ کر حکم لگاتی ہے چاہے مذہبی کتابوں میں اس کے برعکس ہی کیوں نہ لکھا ہوا ہو۔ چنانچہ مذہبی کتاب میں لکھا ہے کہ تصویر حرام ہے، لیکن عقل یہ کہہ رہی ہے کہ حرام نہیں ہے۔ اس لیے کیا جائز ہے، اور کیا ناجائز، اس کی آخری بنیاد اب انسانوں کی عقل پر ہے۔ عقل ہی کے ذریعے حلال اور حرام کے قانون میں ترمیم کی جا سکتی ہے۔ اس سلسلے میں عقل یہ بھی دیکھے گی کہ قرآن و سنت یا مذہبی متن میں کیا لکھا ہوا ہے۔ اور قرآن و سنت جو کچھ کہتے ہیں وہ اپنے سیاق کے اعتبار سے کہتے ہیں۔ قرآن و سنت کے دور کے بعض سیاق آج بھی موجود ہیں، اس لیے قرآن و سنت کے وہ قوانین آج بھی برقرار اور رائج ہوں گے، اس سبب سے نہیں کہ یہ ‘‘مذہبی کتاب میں لکھا ہوا ہے’’ بلکہ اس سبب سے کہ عقل اور حالات ایسا کہہ رہے ہیں۔ یعنی اگر مسلمان کیمرہ ایجاد کرتا ہے تو اس کو ایک اسلامی معاشرے میں اس لیے توڑ کر نہیں پھینک دیا جائے گا کہ حدیث میں جاندار کی تصویر کشی کی ممانعت ہے اور کیمرے سے جاندار کی تصویر کشی کا فتنہ پیدا ہوتا ہے، بلکہ اگر کوئی مسلمان ایسی کوئی چیز ایجاد کر لے تو خود مذہب کے قوانین پر نظرِ ثانی ہوگی۔ گویا اسلامی معاشرے میں ہمیشہ اس بات کا جائزہ لیتے رہنے کی ضرورت ہوگی کہ کس قانون میں کیا تبدیلی ہونی چاہیے، یا کس قانون سے کیا تکلیف مسلمانوں کو پہنچ رہی ہے۔ اور کس قانون کو ختم کر کے اس کی جگہ کون سے نئے قوانین بنائے جائیں گے اور اس کے کیا مفید نتائج مرتب ہو سکتے ہیں۔ اسی کو میں اسلام کا ارتقائی تصور کہتا ہوں۔ آپ میری ایسی باتوں کو کافرانہ کہتے ہیں، اور جب آپ کافرانہ کہتے ہیں تو اس سے ذہنی تکلیف ہوتی ہے۔ اور میں چونکہ پلٹ کر آپ کی کافرانہ والی بات کو ‘‘کافرانہ’’ نہیں کہہ سکتا اس لیے مزید اذیت ہوتی ہے کہ میں آپ سے بدلہ بھی نہ لے سکا۔ اس اذیت سے بچنے کے لیے بھی میں آپ سے مذہبی بحث نہیں کرنا چاہتا۔ اور اگر ہم ایک دوسرے کی باتوں کو کافرانہ کہتے رہیں تو اس سے موضوعِ بحث میں آخر کون سی نئی بات نکل آئے گی؟ کون سا نیا پہلو پیدا ہو جائے گا؟ تو کافرانہ، فاسقانہ فاجرانہ ملحدانہ کی تکرار تبلیغ کے ناکام ہونے کے بعد کی جاتی ہے۔ یعنی آپ کی بات مان لیں تو ملسمان، نہ مانیں تو کافر! اس بات سے آخر موضوعِ بحث کا کیا تعلق ہے؟ اور آپ حضرات کا رویہ یہی رہتا ہے۔ اور اس رویے کے ساتھ علمی بحث بھی ممکن نہیں ہے۔
آپ نے لکھا ہے:
میں نے عدم ، غالب اور میر کے اشعار کو مذھب مخالف ھونے کی بنا پر معنی مفہوم اور معیار سے کھوکھلا کہا تھا۔ممکن ہے سیکولر )لا مذہب( لوگوں کو وه پسند ہوں اور ان کو وه معياری لگیں۔
لفظ کھوکھلا کئی معنوں میں استعمال ہوتاہے۔کھوکھلا وعده یعنی جھو ٹا وعده، کھوکھلی ہنسی یعنی جھو ٹی ہنسی.
کھوکھلا فلسفہ یعنی بے مقصد، غیر مفید فلسفہ۔جب فلسفے اور نظریے کو کھوکھلا کہا جا سکتاہے تو کسی شعر کو بھی کھوکھلا کہنے میں کوئ حرج نہیں ہے۔
آپ بالذات مذہب کی بنیاد پر کھوکھلا نہیں کہہ رہے ہیںِ اپنے مذہبی تصور کی بنا پر کھوکھلا کہہ رہے ہیں۔ یہ آپ کا مذہبی تصور ہے جو آپ کو میر و غالب کے ایسے اشعار اور عبدالحمید عدم کی ایسی شاعری سے محروم رکھتا ہے۔ آپ ادبی نقطہ ٔ نظر سے اس کو دیکھنے کے بجائے اپنے مذہبی تصور کی عینک سے دیکھتے ہیں۔ اسی لیے تو میں آپ سے شروع ہی سے کہتا آ رہا تھا کہ میں آپ سے مذہبی بحث نہیں کرنا چاہتا۔ آپ سے مذہبی بحث تب ہوگی جب آپ ‘‘کافرانہ‘‘، ‘‘فاسقانہ’’، ‘‘ملحدانہ’’، ‘‘باغیانہ’’، ایسے الفاظ ترک کریں گے۔
آپ سے سیکولر یا ادبی نقطہ ٔ نظر سے شعر میں جو نظر آتا ہے، یعنی اس میں جو لطف و لذت ہے، اس کی بنیاد پر۔ اور میر و غالب کے ایسے شعر لطف و لذت سے خالی نہیں ہیں۔ عبدالحمید عدم کی یہ نظم لطف و لذت سے خالی نہیں ہے:
شیخ صاحب خدا خدا کیجے
یہ حسیں عورتیں یہ تصویریں
رحمت ایزدی کی تفسیریں
جن کے ہونٹوں میں آب حیواں ہے
جن کے چہروں کا نام قرآں ہے
جن کے گیسو نگار خانے ہیں
جن کے زیر نگیں زمانے ہیں
جن کی ضو سے چراغ روشن ہیں
زندگی کے ایاغ روشن ہیں
جن کی آنکھوں سے مئے ٹپکتی ہے
آب کوثر سی شئے ٹپکتی ہے
یہ جہنم میں جانے والی ہیں
آپ کی منطقیں نرالی ہیں

شعر کا ایک مقصد لطف و لذت فراہم کرنا ہے۔ یہ نظم اس کو پورا کر رہی ہے۔ اس لیے یہ کھوکھلی نہیں ہے۔ میرے تصورِ دین کی
رو سے بھی یہ کھوکھلی نہیں ہے کیونکہ اس میں کہیں پر کوئی غیرموزوں بات نہیں ہے۔ غالب کا یہ شعر بھی غیر موزوں نہیں ہے:
ہم کو معلوم ہے جنت کی حقیقت لیکن
دل کے بہلانے کو غالب یہ خیال اچھا ہے
اور میر کا یہ شعر بھی میرے نقطہ ٔ نظر سے کھوکھلا اور سفید جھوٹ نہیں ہے:
میر کے دین و مذہب کو کیا پوچھو ہو تم ان نے تو
قشقا کھینچا دیر میں بیٹھا، کب کا ترک اسلام کیا
اور امیر خسرو کا یہ شعر بھی میرے مذہب کے مطابق کھوکھلا نہیں ہے:
کافرِ عشقم مسلمانی مرا درکار نیست
ہر رگِ من تار گشتہ، حاجتِ زنار نیست
یعنی میں عشق میں کافر ہوا ہوں، اور مجھے مسلمانی درکار نہیں ہے۔
یہ ثابت ہوا کہ آپ اپنے مذہبی نقطہ ٔ نظر سے تبصرہ کرتے ہیں، اور دوسروں کے نقطہ ٔ نظر کو جگہ نہیں دیتے ہیں۔ میر و غالب اور سودا جس واعظ کی مذمت کرتے ہیں، اور جس شیخ کی مذمت اس نظم میں عبدالحمید عدم نے کی ہے، آپ خود کو اس واعظ اور شیخ کے مقام پر دیکھ رہے ہیں۔ اس لیے آپ کو کوفت ہو رہی ہے۔ اور اس کا میرے پاس کوئی علاج نہیں ہے۔
آپ سے اتنی بحث ہوئی، دیکھ لیجیے کہ کتنا وقت لگا، اور کتنی انرجی ضائع ہوئی، اور نتیجہ کچھ نہ نکلا، نہ آپ اپنے مذہبی نقطہ ٔ نظر سے باز آئے اور نہ میں اپنے مذہبی نقطہ ٔ نظر سے دست بردار ہونے تیار ہوں۔ تو یہ بحث بے فائدہ ہوئی یا نہیں؟
ویسے غالب نے یہ کہا ہے:
غالب برا نہ مان جو واعظ برا کہے
ایسا بھی کو ئی ہے کہ سب اچھا کہیں جسے؟
تو آپ شاعروں کو اپنے مذہبی نقطہ ٔ نظر سے برا کہتے رہیے، کھوکھلا کہتے رہیے، سفید جھوٹ کہتے رہیے، پھینکو ڈاٹ کوم کہتے رہیے، اس کی پوری گنجائش ہے۔ اوربحث کے درمیان جو تکلیف مجھے ہوئی تھی، وہ مجھے نہیں ہونی چاہیے تھی۔ غالب نے بھی کہہ دیا کہ واعظوں کی باتوں کا برا نہ مانا جائے کیونکہ ایسا کوئی نہیں ہے جس کو سب اچھا کہیں۔ چند مٹھی بھر واعظوں کے برا کہنے سے کوئی چیز بری نہیں ہو جاتی۔ آپ دل کھول کر شاعری کو برا بھلا کہیے۔ لیکن مذہبی نقطہ ٔ نظر سے آپ جو کچھ کہتے ہیں، اس کو بالذات ‘‘ادبی تنقید’’ نہ سمجھ لیجیے۔ ایسی ادبی تنقید تحریکی چڑیاخانہ میں ہی پروان چڑھ سکتی ہے۔

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

تحقیق کے مسائل

تحقیق ایک اہم علمی فریضہ ہے۔ تحقیق کے ذریعے ہم نامعلوم کا علم حاصل کرتے ہیں۔ غیر محسوس کو محسوس بناتے ہیں۔ جو باتیں پردہ ٔ غیب میں ہوتی ہیں، انہیں منصہ ٔ شہود پر لاتے ہیں تا کہ کسی امر میں یقینی علم ہم کو حاصل ہو، اور اس کی بنیاد پر مزید تحقیق جاری رکھی جا سکے۔تحقیق ایک مسلسل عمل ہے۔ موجودہ دور میں یہ ایک نتیجے تک پہنچنے سے زیادہ ایک طریقے ( تک پہنچنے) کا نام ہے۔نتیجہ خواہ کچھ ہو، موجودہ دور میں اس کے طریقہ ٔ کار یا منہاجیات کو صاف و شفاف بنانا فلسفیانہ طور پر زیادہ ضروری سمجھا جاتا ہے تاکہ زیادہ تر نتائج صحت کے ساتھ محسوسات کے دائرے میں حتی الامکان منتقل ہو سکیں۔ دائرہ تحقیق میں ایک مقدمہ کو نتیجہ میں بدلنے کے طریقے کی جس قدر اصلاح ہوتی جائے گی اسی قدر تحقیق معتبر مانی جائے گی۔ البتہ بعض اوقات یوں بھی ہوتا ہے کہ کسی تحقیق کا طریقہ صحیح نہیں ہو اور نتیجہ بالکل صحیح ہو۔ لیکن اس ناقابل حل مسئلے کے باوجود بہرحال طریقے میں حذف و اضافہ اور اصلاح و تصحیح کی ضرورت ہمیشہ باقی رہتی ہے۔ تحقیق کے عربی لفظ کا مفہوم حق کو ثابت کرنا یا حق کی طرف پھیرنا ہے۔ حق کے معنی سچ کے ہیں۔ مادہ حق سے...

قرآن اور بگ بینگ

ایک بہت طویل عرصے سے اہل اسلام کا مغرب زدہ طبقہ قرآن کی تصدیق جدید ترین سائنسی تحقیقات کی بنیاد پر کرنا چاہتا ہے. اس کی اصل دلیل یہ ہے کہ اگر قرآن خدا کی کتاب نہ ہوتی تو اس میں بیسویں صدی کے سائنسی انکشافات کا ذکر چودہ سو سال پہلے کیونکر ممکن تھا؟ اس سلسلے میں ایک بہت بڑی مثال بگ بینگ کی دی جاتی ہے اور قرآن کی اس آیت کو دلیل بنایا جاتا ہے: اَوَلَمْ يَرَ الَّذِيْنَ كَفَرُوْٓا اَنَّ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ كَانَتَا رَتْقًا فَفَتَقْنٰهُمَا ۭ وَجَعَلْنَا مِنَ الْمَاۗءِ كُلَّ شَيْءٍ حَيٍّ ۭ اَفَلَا يُؤْمِنُوْنَ کیا کافروں نے نہیں دیکھا کہ آسمان اور زمین دونوں ملے ہوئے تھے تو ہم نے جدا جدا کردیا۔ اور تمام جاندار چیزیں ہم نے پانی

مذہب و تصوف اور فلسفہ و سائنس کا منتہائے مقصود

     یہ کائنات نہ کوئی ڈیزائن ہے اور نہ اس کا کوئی ڈیزائنر۔ اور نہ یہ کائنات عدم ڈیزائن ہے جس کا ڈیزائنر معدوم ہے۔ یہ دونوں بیانات ناقص ہیں۔ ہم بحیثیت انسان بذریعہ حواس خارج میں جو کچھ دیکھتے ہیں وہ دراصل ہماری وجدان کی مشین اور ذہن ہی سے پروسیس ہو کر نکلتا ہے۔ اور وجدان کے اس جھروکے سے نظر آنے والی یہ کائنات ایک ایسی احدیّت کے طور پر ابھرتی ہے جس میں یہ ڈیزائن صرف ایک منظر ہے جس کی شناخت عدم ڈیزائن کے دوسرے منظر سے ہوتی ہے۔ اسی طرح اس کائنات میں منصوبہ بھی ایک منظر ہے جس کی شناخت عدمِ منصوبہ کے دوسرے منظر سے ہوتی ہے۔ کائنات میں چیزیں ایک دوسرے کے بالمقابل ہی شناخت ہوتی ہیں۔ اس لیے یہ کہنا کہ کائنات میں کوئی منصوبہ ہے اس لیے کوئی منصوبہ ساز ہونا چاہیے، یا کائنات بجائے خود کوئی ڈیزائن ہے اس لیے اس کا ڈیزائنر لازماً ہونا چاہیے ناقص خیال ہے۔ اسی طرح یہ کہنا کہ اس کائنات میں عدم ڈیزائن ہے اور اس لیے اس کا کوئی ڈیزائنر نہیں ہے یہ بھی ایک ناقص خیال ہی ہے۔ یہ دونوں بیانات آدھے ادھورے مناظر کی تعمیم کی بنا پر گمراہ کن قیاس کی مثالیں ہیں۔ یاد رہے کہ منصوبہ صرف ایک منظر ہے، یا یوں...