نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

مغرب سے فلسفیانہ تراجم

اردو میں مغربی طرز کی آزاد فلسفیانہ تفکیر کی کوئی قابل ذکر روایت نہیں پائی جاتی. فکر کے نام پر جو کچھ اس میں پایا جاتا ہے اس کی نوعیت زیادہ تر مذہبی ہے. البتہ مارکسی نظریہ اور اس کے بنیادی ماخذوں کا ترجمہ, تفہیم و تشریح ضرور ہوئی ہے لیکن اردو میں اس پر کوئی بنیادی اضافہ نہیں ہو سکا. ترجمہ و تشریح کی دستیابی کے لحاظ سے مارکسیت سے بھی زیادہ برا حال جدیدیت وجودیت، ما بعد جدیدیت، ساختیات، پس ساختیات جیسی چیزوں کا ہے. مذہبی افکار پر مبنی تحریروں سے صرف نظر کر لیں تو جتنا کچھ فکری سرمایہ ہمارے پاس ہے, اس پر ایک طائرانہ نظر سے ہی دنیائے فکر و نظر میں ہماری غربت و افلاس کا منظر سامنے آ جاتا ہے.
اردو میں مغرب سے خالص فلسفیانہ اور جدید ترین افکارونظریات پر ماخذ کا درجہ رکھنے والی کتابوں کا ترجمہ بہت کم ہوا ہے. انگریزی یا دیگر مغربی زبانوں میں ان موضوعات پر مطالعہ اور غور و فکرکے بعد جو کچھ لکھا جاتا ہے وہ اردو کے وسیع المطالعہ قارئین کی سمجھ میں آنا تو دور ، اردو کے بعض جید نقادوں اور محققوں کے لیے بھی چیستان بن جاتا ہے۔ یہ چند لوگ لوگ یا تو کوئی مفصل کتاب لکھ کر اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہیں یا پھر متفرق مضامین لکھ کر۔ اردو میں اس قسم کی جتنی کتابیں لکھی گئی ہیں انہیں کسی باقاعدہ منصوبہ بندی کے ساتھ شروع نہیں کیا گیا, الا ماشا اللہ. بلکہ مصنفوں نے وقتاََ فوقتاََ جو مضامین مختلف رسائل و جرائد میں لکھے، انہیں ایک ترتیب کے ساتھ یکجا کر دیا گیا ہے۔ گوپی چند نارنگ کی ساختیات، پس ساختیات اور مشرقی شعریات ایسی ہی ایک کتاب ہے جس کے بعض مضامین ابتداً ماہنامہ شبخون اور دیگر رسائل میں شائع ہوئے تھے. حالانکہ اس میں نظم و ضبط پایا جاتا ہے لیکن اولاً, وقتاً فوقتاً مضامین کی شکل میں لکھا جانا ہی اس کتاب کی وہ بنیادی خصوصیت ہے جس کے سبب اس کا مقابلہ ایسی کتاب کے ساتھ نہیں کیا جا سکتا جوابتدا ہی سے اس ارادے کے ساتھ شروع اور ختم کی گئی ہو کہ اسے ایک مکمل کتاب کی شکل میں منظر عام پر آنا ہے اور اس سے قبل اس کے مضامین کو شائع نہیں کرنا ہے, ثانیاََ، بعض حلقوں نے نارنگ پر الزام لگایا ہے کہ اس کتاب کے مشتملات خاصی تعداد میں ترجمہ شدہ مواد پر مبنی ہیں جس کا صفحہ وار حوالہ نہیں دیا گیا ہے، اگر یہ الزام صحیح تو اس سے مصنف کا منشا معلوم ہوتا ہے کہ کتاب پر یہ اعتراض نہ کیا جا سکے کہ اس کا ایک خاصا حصہ ترجمہ پر مبنی ہے, ثالثاً, مصنف کا یہ منشا بھی واضح ہے کہ ایک طرف تو وہ ساختیات و مابعد کا ابتدائی تعارف پیش کرنا چاہتا ہے, لیکن ادق اور عسیرالفہم نکتوں کی عام فہم تسہیل کے بجائے اس نے اس پوری فکری صورت حال کا علمی رشتہ زمانہ قدیم و متوسط کے ثقافتی ورثوں سے جوڑ دیا, جو نظریہ سازی پر مبنی کارنامہ ہے اور جدید ترین فکر کے ابتدائی تعارف و تسہیل کے ساتھ نہیں چل سکتا. اگر انہیں ابتدائی تعارف پیش کرنا تھا, تو انہیں مفصل صرف یہی کرنا چاہیے تھا, جو انہوں نے کماحقہ پورا نہ کیا. کورس ان جنرل لنگوسٹکس ایک ضخیم کتاب ہے اور اس کی تفہیم پر جس قدر کتابیں لکھی گئیں, ان سب کے مطالعے کے بعد مصنف کو چاہیے تھا کہ بہ تمام و کمال اس بات کو بتاتے کہ ساختیات اپنی تمام تر تفصیلات میں کیا ہے, یہی موضوع اڑھائی تین سو صفحات بلکہ اس سے زیادہ کا متقاضی تھا, کجا کہ آپ اس کو پندرہ بیس صفحات میں سمیٹ دیں.
اور یہ بات بھی ہے کہ جب تک ہم کسی فکر یا فلسفہ کی بنیادوں سے واقف نہ ہوں، تب تک اس سے متعلق بحثیں ہمیں اپیل نہیں کر سکتیں ماخذ اور بنیاد کا درجہ رکھنے والے فکری کارناموں کا اردو میں ترجمہ نہ ہونے کے سبب ہم دیکھتے ہیں کہ بعض عالمی اردو شخصیتیں شدومد سے پس ساختیات، رد تشکیل اور مابعدجدیدیت پر بحث و مباحثہ میں مصروف ہیں اور کچھ لوگ ہیں جو اس سب سے بالکل بے نیاز نظر آتے ہیں، اور کچھ ہیں جن کے نزدیک یہ جدید افکار و نظریات ہی” سمجھ سے باہر “ہیں۔ اور جو لوگ انتہائی شد و مد سے جدید ترین افکار و نظریات پر بات کرتے ہیں، وہ بھی ایک قسم کا ترجمہ ہی کرتے ہیں، یعنی پہلے وہ انگریزی میں ایک فکری متن پڑھتے ہیں اور اسی میں کہیں کہیں کچھ تصرف یا حذف و اضافہ کرکے جزیرہ نما کے حالات پر اس کو چسپاں کرتے ہوئے کوئی فکری مضمون لکھ دیتے ہیں۔ ایسے مضامین اپنے موضوع کی بنیادی معلومات فراہم نہیں کرتے, اور نہ ان میں موضوع سے متعلق تمام ضروری لفظیات و اصطلاحات کا اردو ترجمہ ہی پیش کیا جا سکتا ہے، اس سے ایک نقصان تو یہ ہوتا ہے قاری کی معلومات میں جگہ جگہ خلا پید ہو جاتا ہے جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ اس کے ذہن میں جدید افکار و نظریات کا ایک ناکافی اور ناقص فہم پیدا ہوتا ہے، دوسرا نقصان اسی پہلے نقصان کا نتیجہ ہے جس میں معاصرانہ چشمک کا بھی اہم رول ہے۔ اس صورتحال کو ہم یوں سمجھیں: فرض کیجیے ایک مصنف اردو میں جدیدیت کی بنا ڈالتا ہے اور دوسرا مابعدجدیدیت کی تو پہلا دوسرے کو قبول نہیں کرتا،اور دوسرے کا یہ کہنا ہے کہ جدیدیت کا دور تو گزر چکا، اب مابعدجدیدیت کا دور ہے! اس قسم کی بحثوں کا ظاہری سبب یہ ضرور ہے کہ دونوں مصنفوں میں ایک معاصرانہ چشمک ہے لیکن اس کا حقیقی سبب یہ ہے کہ جس نے جدیدیت یا مابعدجدیدیت کی بنا ڈالی ہے ، خود اس نے اردو میں وجودیت اور جدیدیت سے متعلق بنیادی کتابوں کو نہیں پڑھا ہے اور صرف مغربی زبانوں میں اپنے مطالعہ کو اردو میں جدیدیت کی تحریک برپا کرنے کے لیے کافی سمجھ لیا۔ غیر زبان سے کسی فکر کو درآمد کرنے کا پہلا اصول یہ ہے کہ اس سے متعلق بنیادی کتابوں کا باقاعدہ ترجمہ کیا جائے، نہ کہ غیر زبان میں سو پچاس کتابیں پڑھ کر اپنے طور پر اردو میں وہ فکر درآمد کی جائے۔ اس سے یہ پتا نہیں چل سکتا کہ فکری درآمدات کرنے والے ایک مصنف نے غیرزبان میں رائج کسی فکر کے کن اجزا کو درآمد کیا اور کن کو ترک کر دیا، اس کے ساتھ ہی، اس نے اردو میں پرورش پانے والی درآمد شدہ نوزائیدہ فکر کا اوریجنل ماخذ ایک غیرزبان کو بنا دیا۔ اس کے سبب یہ ہوا کہ اردو قاری غیرزبان کا محتاج ہو کر رہ گیا ۔ یہ بات اپنی جگہ بالکل صحیح ہے کہ کسی فکر اور اس سے متعلق تمام کتابوں کا ترجمہ دنیا کی کسی زبان میں ممکن نہیں لیکن جس قدر کتابیں ہم ترجمہ کر سکتے ہیں،کیوں نہ کریں جبکہ اسی پر فکری دیانت داری موقوف ہے۔ بصورت دیگر ماخذ کے ترجمہ سے پہلے اگر ایک مصنف کسی فکر کو درآمد کرتا ہے, اس کی بنیاد پر پوری ایک تحریک کھڑی کرنا چاہتا ہے تو اس کی حیثیت دانستہ یا نادانستہ ایک دلال کی سی ہوجاتی ہے۔اور ایک دلال ہرگز یہ نہیں چاہتا کہ فریقین میں کوئی براہ راست مکالمہ ہو۔ اسی طرح ترجمہ کی سطح پر جب ہم ایک زبان بولنے اور سمجھنے والوں کو اصل مصنف سے بذریعہ ترجمہ براہ راست مکالمہ کراتے ہیں تو گویا قاری کو یہ موقع فراہم کرتے ہیں کہ وہ متن کو اپنی طرح سمجھے. ایک شخص جو اردو میں وجودیت، جدیدیت، مابعدجدیدیت، ساختیات، پس ساختیات، ردتشکیل یا کوئی دوسری بڑی فکری تحریک برپا کرنا چاہتا ہو، اورترجمہ پر اس کی توجہ نہ ہو، اور وہ اپنی مطلوبہ درآمد شدہ فکر کے بنیادی ماخذوں کا ترجمہ کرانے کی تحریک نہ چلائے یا خود چند ایک بنیادی ماخذوں کا ترجمہ نہ کرے، تو اس سے درج ذیل باتوں کا علم ہوسکتا ہے:
1۔ یا تو اس مصنف کی دلچسپی باوائے فکر بننے میں زیادہ ہے
2۔ یا تو اس کے اندر یہ جرات نہیں کہ وہ کھل کر ترجمہ کی تحریک برپا کرنے کی بات کرے
3۔ یا وہ یہ سمجھتا کہ اردو میں ترجمہ کی مانگ نہیں اور اردو میں ترجمہ کرنا بے فائدہ ہے.
4۔ وہ مصنف کے مرتبے سے نیچے اترنا اور مترجم نہیں کہلانا چاہتا (اس صورت میں یہ بھی علم ہوتا ہے کہ اس کی نظر میں ترجمہ ایک دوئم درجے کی شئے ہے)۔
7۔ اس کے اندر باضابطہ ترجمہ کی صلاحیت نہیں پائی جاتی یا ترجمہ کی محنت وہ سرے سے کرنا ہی نہیں چاہتا۔
8۔ اس کی فکری درآمدات پروپگنڈہ ہیں کیونکہ وہ اپنی مطلوبہ فکر کو اس کی اصل شکل میں بذریعہ ترجمہ پیش نہیں کرنا چاہتا۔ وہ سیلیکٹیو ہے۔ اور ریزرویشنس کا شکار ہے۔
اور اس کے ساتھ ہی جب مغربی افکار کو درآمد کرنے والا مصنف اپنی زبان کے قارئین کو یہ بتاتا ہے کہ ان جدید ترین مغربی افکار کا اصل ماخذ تو دراصل ہمارے ''مشرقی افکار'' ہی ہیں تو وہ گویا جڑوں کی طرف واپسی کے نقطۂ نظر کو بھی فروغ دیتا ہے جس کا نتیجہ صرف یہی ہونا ہے کہ اپنی زبان کے لوگ علمی و فکری استغنا میں اور ''ہمارے یہاں سب کچھ پہلے ہی موجود ہے'' کے زعم میں مبتلا ہو جائیں جس کے بعد فکری ترقی کی کوئی گنجائش باقی نہیں رہ جاتی.

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

تحقیق کے مسائل

تحقیق ایک اہم علمی فریضہ ہے۔ تحقیق کے ذریعے ہم نامعلوم کا علم حاصل کرتے ہیں۔ غیر محسوس کو محسوس بناتے ہیں۔ جو باتیں پردہ ٔ غیب میں ہوتی ہیں، انہیں منصہ ٔ شہود پر لاتے ہیں تا کہ کسی امر میں یقینی علم ہم کو حاصل ہو، اور اس کی بنیاد پر مزید تحقیق جاری رکھی جا سکے۔تحقیق ایک مسلسل عمل ہے۔ موجودہ دور میں یہ ایک نتیجے تک پہنچنے سے زیادہ ایک طریقے ( تک پہنچنے) کا نام ہے۔نتیجہ خواہ کچھ ہو، موجودہ دور میں اس کے طریقہ ٔ کار یا منہاجیات کو صاف و شفاف بنانا فلسفیانہ طور پر زیادہ ضروری سمجھا جاتا ہے تاکہ زیادہ تر نتائج صحت کے ساتھ محسوسات کے دائرے میں حتی الامکان منتقل ہو سکیں۔ دائرہ تحقیق میں ایک مقدمہ کو نتیجہ میں بدلنے کے طریقے کی جس قدر اصلاح ہوتی جائے گی اسی قدر تحقیق معتبر مانی جائے گی۔ البتہ بعض اوقات یوں بھی ہوتا ہے کہ کسی تحقیق کا طریقہ صحیح نہیں ہو اور نتیجہ بالکل صحیح ہو۔ لیکن اس ناقابل حل مسئلے کے باوجود بہرحال طریقے میں حذف و اضافہ اور اصلاح و تصحیح کی ضرورت ہمیشہ باقی رہتی ہے۔ تحقیق کے عربی لفظ کا مفہوم حق کو ثابت کرنا یا حق کی طرف پھیرنا ہے۔ حق کے معنی سچ کے ہیں۔ مادہ حق سے...

قرآن اور بگ بینگ

ایک بہت طویل عرصے سے اہل اسلام کا مغرب زدہ طبقہ قرآن کی تصدیق جدید ترین سائنسی تحقیقات کی بنیاد پر کرنا چاہتا ہے. اس کی اصل دلیل یہ ہے کہ اگر قرآن خدا کی کتاب نہ ہوتی تو اس میں بیسویں صدی کے سائنسی انکشافات کا ذکر چودہ سو سال پہلے کیونکر ممکن تھا؟ اس سلسلے میں ایک بہت بڑی مثال بگ بینگ کی دی جاتی ہے اور قرآن کی اس آیت کو دلیل بنایا جاتا ہے: اَوَلَمْ يَرَ الَّذِيْنَ كَفَرُوْٓا اَنَّ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ كَانَتَا رَتْقًا فَفَتَقْنٰهُمَا ۭ وَجَعَلْنَا مِنَ الْمَاۗءِ كُلَّ شَيْءٍ حَيٍّ ۭ اَفَلَا يُؤْمِنُوْنَ کیا کافروں نے نہیں دیکھا کہ آسمان اور زمین دونوں ملے ہوئے تھے تو ہم نے جدا جدا کردیا۔ اور تمام جاندار چیزیں ہم نے پانی

مذہب و تصوف اور فلسفہ و سائنس کا منتہائے مقصود

     یہ کائنات نہ کوئی ڈیزائن ہے اور نہ اس کا کوئی ڈیزائنر۔ اور نہ یہ کائنات عدم ڈیزائن ہے جس کا ڈیزائنر معدوم ہے۔ یہ دونوں بیانات ناقص ہیں۔ ہم بحیثیت انسان بذریعہ حواس خارج میں جو کچھ دیکھتے ہیں وہ دراصل ہماری وجدان کی مشین اور ذہن ہی سے پروسیس ہو کر نکلتا ہے۔ اور وجدان کے اس جھروکے سے نظر آنے والی یہ کائنات ایک ایسی احدیّت کے طور پر ابھرتی ہے جس میں یہ ڈیزائن صرف ایک منظر ہے جس کی شناخت عدم ڈیزائن کے دوسرے منظر سے ہوتی ہے۔ اسی طرح اس کائنات میں منصوبہ بھی ایک منظر ہے جس کی شناخت عدمِ منصوبہ کے دوسرے منظر سے ہوتی ہے۔ کائنات میں چیزیں ایک دوسرے کے بالمقابل ہی شناخت ہوتی ہیں۔ اس لیے یہ کہنا کہ کائنات میں کوئی منصوبہ ہے اس لیے کوئی منصوبہ ساز ہونا چاہیے، یا کائنات بجائے خود کوئی ڈیزائن ہے اس لیے اس کا ڈیزائنر لازماً ہونا چاہیے ناقص خیال ہے۔ اسی طرح یہ کہنا کہ اس کائنات میں عدم ڈیزائن ہے اور اس لیے اس کا کوئی ڈیزائنر نہیں ہے یہ بھی ایک ناقص خیال ہی ہے۔ یہ دونوں بیانات آدھے ادھورے مناظر کی تعمیم کی بنا پر گمراہ کن قیاس کی مثالیں ہیں۔ یاد رہے کہ منصوبہ صرف ایک منظر ہے، یا یوں...