ہفتہ، 23 دسمبر، 2017

تہذیبی و مذہبی ادعا کی کامیابی کے اسباب

مختلف قبائل، ذات برادریوں، طبقوں یا قوموں کے معاشی مفادات پر مبنی ایک مجرد سیاسی صف بندی کوئی دیر پا یا مستقل چیز نہیں ہے۔ چونکہ اس سے مستقل جوڑ توڑ پر مبنی سیاسی کشمکش جاری رہتی ہے اور زندگی کا کوئی اونچا آدرش سامنے نہیں آ پاتا، اس لیے ایسی سیاسی صف بندیوں کے اثر سے محض معاشی و سیاسی مفادات پر مبنی ایک کمزور تقریر وجود میں آتی ہے۔ اس کے مقابلے میں تہذیبی قوم پرستی یا مذہبی ادعا پر مبنی تحریکات اس لیے کامیاب ہو جاتی ہیں کیونکہ وہ زندگی کا ایک ہمہ گیر، جامع اور کلی نقطہ نظر اور آدرش پیش کرتی ہیں خواہ وہ آدرش بجائے خود کتنا ہی غیر آدرش ہو یا دکھائی دیتا ہو۔

جمعہ، 22 دسمبر، 2017

آزادی فکر و عمل کا مقصود

ہماری معاشرتی اور تہذیبی بیماریاں کیا ٹھیک وہی ہیں جو ہمیں محسوس ہوتی ہیں؟ یا بیماریوں کا سبب وہ ہے جو اکثر ہمارے حاشیہ خیال میں بھی نہیں آتا؟ معاشرے میں چور، غنڈے، بدمعاش، دہشت گرد، جارحیت پسند جس صورتحال میں وجود میں آتے ہیں اس میں دیکھنا یہ ہے کہ وہ کون سی چیز ہے جو انسانی شخصیت کو گوں ناگوں طریقوں سے مسخ کرتی ہے؟ انسانی معاشرہ گروہوں کی شکل میں ہوتا ہے اور ہر گروہ کا اپنا ایک علیحدہ طریقہ زندگی ہے۔ زندگی کے بہت سے طریقے بہ یک وقت درست ہو سکتے ہیں۔ شرط صرف یہ ہے کہ سب میں انسانی مساوات اور آزادی اظہار و عمل کو اس حد تک ملحوظ رکھا گیا ہو کسی کو کسی کے قول سے دشنام اور فعل سے جسمانی گزند نہ پہنچے۔ لیکن یہ محض ایک قانونی قسم کی بات ہوئی اور اس سے یہ معلوم نہیں ہوا کہ خود انسان کی زندگی کا مقصد کیا ہے اور اس کو کس سمت میں اپنی صلاحیتوں کا ارتقا کرنا چاہیے۔

ذاکر نائیک اور تقابل ادیان

ذاکر نائیک نے تقابلِ ادیان کے نام سے ہندوستان میں پاپولر ٹی وی کلچر کی سطح پر ایک بڑی غیرسنجیدہ روایت شروع کی۔ ٹی وی پر دیگر مذاہب کے رہنما نے ایسا کوئی کام نہیں کیا جس میں دوسرے مذاہب کی کمی کو اچھالا جاتا ہو اور کسی ایک مذہب کو صداقت کا آخری اڈیشن بتایا جاتا ہو۔ ذاکر نائیک نے ایک طرف مختلف مذاہب کی تعلیمات کا مقابلہ پیش کیا اور اسلام کو سب سے زیادہ اچھے اور سچے مذہب کے طور پر پیش کیا، دوسری طرف انہوں نے چند لوگوں کو برسرِ عام کلمہ پڑھوا کر اسلام قبول کرنے کے عمل کو بار بار ٹی وی کے ذریعے مشتہر کیا، تیسری طرف انہوں نے بنیاد پرستی یا فنڈامنٹلزم کے متعلق کہا کہ یہ بڑی اچھی چیز ہے، جو جتنا بنیاد پرست وہ اتنا اچھا مسلمان۔ ان تین اسباب سے ملک کی فرقہ وارانہ ہم آہنگی کو سخت نقصان پہنچا۔

جمعرات، 21 دسمبر، 2017

مذہب اور سائنس کا اصولی فرق

ہمارے مذہبی دانشور سائنس اور تکنالوجی میں پیش قدمی کی بات اکثر کیا کرتے ہیں، لیکن ان میں سے کوئی اس بات کو سمجھنے پر آمادہ نہیں کہ سائنس میں پیش قدمی کن شرطوں پر ممکن ہے۔ وہ چونکہ مغرب کی مادی اور تکنیکی ترقیوں کو دیکھتے ہیں اس لیے متاثر ہو کر سائنس اور ٹکنالوجی میں آگے بڑھنے کی سطحی بات کرتے ہیں۔ اگر مغرب ٹکنالوجی کے معاملے میں اتنی ترقی نہ کرتا تو ہمارے یہ مذہبی دانشور سائنس میں ترقی کرنے کی بات بھی منہ سے نہ نکالنے۔ سائنس سے ان کی ساری دلچسپی محض مغرب کی ٹکنولوجیکل ترقی کے سبب ہے۔ لیکن ٹکنالوجی کو مقصود بنا کر سائنس میں ترقی کرنے کا خیال صحیح نہیں ہے۔

بدھ، 20 دسمبر، 2017

ایک نئے قلعے کی ضرورت

اسلام جن عقائد و قوانین کا واقعی مجموعہ ہے, ان پر مغرب کے پیدا کردہ ماحول میں عمل ممکن نہیں رہ گیا ہے. اور اسلام کو محض بطور ایک سیاسی نظام کے نافذ تو کیا جا سکتا ہے لیکن اسلامی قوانین اور ہدایات کے نفاذ کے بعد اسے کہیں برقرار نہیں رکھا جا سکتا. اسلامی نظام میں ایک مخلوط معاشرہ کی تشکیل ممکن نہیں جہاں مرد و زن تنہائی میں گوں ناگوں اسباب سے ملاقاتیں اور وقت گزاری کر سکیں. اس میں لازماً خواتین کو چاردیواری کے اندر واپس جانا پڑے گا یا معاشرے میں ان کا رول انتہائی محدود ہو کر رہ جائے گا. اس کا سبب خواتین کے ستر عورت کی مروجہ شرعی حد ہے جس کے نفاذ کے بعد عورتوں کی نمائندگی فنون لطیفہ کی تمام تر شکلوں, میڈیا, اسپورٹس اور اولمپک اور فلموں میں ہرگز ممکن نہیں.

منگل، 21 نومبر، 2017

سر سید اور علامہ شبلی نعمانی کا علمی رشتہ

اردوزبان وادب  کی ایک ناموراور شہیر ہستی اور صحیح العقیدہ عالم مولٰنا مولوی عبدالحلیم شرر نے معتزلہ  اوران کے عروج و زوال پر ابطالی نوعیت کا ایک  طویل لیکچرمسلم اکیڈیمی کے اجلاس مورخہ ۱۹ نومبر ۱۹۲۶ءکو دیاتھا جس میں  انہوں نے  سر سید کے تصورِ دین و شریعت پر ایک زبردست تنقید بھی کی ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ سر سید جدید اعتزال کے پیش رو ہیں۔ انہوں نے قرآنِ کریم اورسائنس میں تطبیق دینے کی سر سید کی تعبیراتی  کوششوں کو وہم و گمان سے بھی زیادہ بعید اوراور قابلِ مضحکہ قرار دینے کے ساتھ ہی مولانا شبلی نعمانی ایسے جلیل القدر عالم کے کارناموں کو بھی سر سید کی صحبت کا ثمرہ  بتایا ہے ۔ شرر کے مطابق سر سید کی صحبت میں آنے سے پہلے شبلی  ‘‘مشدد حنفی’’ ہوا کرتے تھے  اور امام ابوحنیفہ کے جوشِ محبت میں اپنے کو ‘‘نعمانی’’ کہلاتے تھے، تاکہ ‘‘حقیقت میں ان کا رتبہ  معمولی حنفیوں کے درجے سے بڑھا ہوا ہو’’ اور  وہابیوں کے مقابلے میں ‘‘بدعتیوں کے وکیل’’بن رہے تھے۔

جمعرات، 16 نومبر، 2017

قصہ آدم اور نظریہ ارتقا: تطبیق کے امکانات

علم اللہ صاحب کے ایک فیس بک اسٹیٹس پر ابوفہد صاحب نے قصہ آدم اور نظریہ ارتقا میں تطبیق دینے کے امکانات پر ایک تبصرہ لکھا تھا اور میں نے اس کا جواب لکھا ہے۔ یہاں میں ابوفہد صاحب کا مذکورہ تبصرہ اور اپنا جواب نقل کر رہا ہوں:
ابوفہد: ویسے آدم وحوا کی کہانی اور نظریۂ ارتقاء کی تطبیق کے امکانات بھی پیداہوسکتے ہیں۔ اقبال نے تو یہ کہہ کر دامن چھڑا لیا تھا۔خردمندوں سے کیا پوچھوں کہ میری ابتدا کیا ہے۔ میں اس فکر میں رہتا ہوں کہ میری انتہا کیا ہے۔۔۔ تطبیق کی صورت فی الحال تو یہی ہوگی کہ جہاں جہاں سائنس اور قرآن میں تضاد نظرآتا ہے وہاں قرآن کو مقدم رکھا جائے گا۔ یا پھر  یہ سمجھا جائے گا کہ قرآن سے ہم نے جوسمجھا ہے وہ کوئی ضروری نہیں ہے کہ درست ہی ہو۔ اور یہ کہ قرآن میں آدم وحوا کی تخلیق کا جو بیان ہے ہوسکتا ہے کہ وہ تمٰثیلی انداز کا بیان ہو۔ قرآن سے یہ تو معلوم ہوا کہ آدم کو مٹی سے پیدا کیا البتہ اس کی عملی صورت کیا ہوئی اس کا کچھ پتہ نہیں، اب ایسا تو نہیں ہے کہ اللہ نے بھی آدم کو اسی طرح پیدا فرمایا ہو جس طرح کمھارچاک پر مٹی کے برتن بناتا ہے۔ کہ مٹھی بھر مٹی لی اور اسے چاک پر چڑھا کر گھمادیا۔ کیا پتہ صدیوں پر محیط انسانی تخلیق کے عمل کو لفظ ’کن ‘ کے ذریعہ واضح کیا گیا ہو۔ کیونکہ وقت کی نسبت ہمارے اور اللہ کے درمیان مختلف ہے۔ ہمارے حساب سے جو صدیاں ہیں اللہ کے حساب سے وہ ایک  لمحہ بھی ہے۔ میرے خیال میں اس نہج پر فکر کو آگے بڑھایا جاسکتاہے۔