یہ کائنات نہ کوئی ڈیزائن ہے اور نہ اس کا کوئی ڈیزائنر۔ اور نہ یہ کائنات عدم ڈیزائن ہے جس کا ڈیزائنر معدوم ہے۔ یہ دونوں بیانات ناقص ہیں۔ ہم بحیثیت انسان بذریعہ حواس خارج میں جو کچھ دیکھتے ہیں وہ دراصل ہماری وجدان کی مشین اور ذہن ہی سے پروسیس ہو کر نکلتا ہے۔ اور وجدان کے اس جھروکے سے نظر آنے والی یہ کائنات ایک ایسی احدیّت کے طور پر ابھرتی ہے جس میں یہ ڈیزائن صرف ایک منظر ہے جس کی شناخت عدم ڈیزائن کے دوسرے منظر سے ہوتی ہے۔ اسی طرح اس کائنات میں منصوبہ بھی ایک منظر ہے جس کی شناخت عدمِ منصوبہ کے دوسرے منظر سے ہوتی ہے۔ کائنات میں چیزیں ایک دوسرے کے بالمقابل ہی شناخت ہوتی ہیں۔ اس لیے یہ کہنا کہ کائنات میں کوئی منصوبہ ہے اس لیے کوئی منصوبہ ساز ہونا چاہیے، یا کائنات بجائے خود کوئی ڈیزائن ہے اس لیے اس کا ڈیزائنر لازماً ہونا چاہیے ناقص خیال ہے۔ اسی طرح یہ کہنا کہ اس کائنات میں عدم ڈیزائن ہے اور اس لیے اس کا کوئی ڈیزائنر نہیں ہے یہ بھی ایک ناقص خیال ہی ہے۔ یہ دونوں بیانات آدھے ادھورے مناظر کی تعمیم کی بنا پر گمراہ کن قیاس کی مثالیں ہیں۔ یاد رہے کہ منصوبہ صرف ایک منظر ہے، یا یوں کہہ لیں کہ ڈیزائن...
فلسفہ و سائنس کے فروغ میں مادری و تہذیبی زبان کے لزوم پر میں نے ۳ مارچ ۲۰۱۲ عیسوی کو فیس بک پر ایک نوٹ لکھا تھا۔ میرا موقف یہ تھا کہ عظیم فلسفے مادری یا تہذیبی زبان میں ہی وجود میں آ سکتے ہیں۔ چونکہ ہم نے آزادی کے بعد بھی برصغیر میں انگریزی زبان کے تسلط کو برقرار رکھا، اس لیے ہمارے ہاں مغربی ممالک جیسے عظیم خلاق فلاسفہ کے ظہور کا امکان ہی سرے سے ختم ہو کر رہ گیا۔ اس پر کئی احباب نے مثبت و منفی تبصرے کیے۔ انہیں میں سے ایک صاحب نے درجِ ذیل تبصرہ کیا تھا: جناب طارق صاحب، آپ نے فرمایا: ’’میں سمجھتا ہوں کہ دور جدید میں برصغیر ہندوپاک، بلکہ عالم اسلام کے اکثر ملکوں میں بھی، عظیم فلسفی یا سائنسداں اس لیے پیدا نہ ہو سکے کہ برطانوی استعمارکے خاتمے کے بعد بھی پوری اکادمک دنیا پرانگریزی جیسی غیر موزوں زبان (مذکورہ بالا معنوں میں) کا تسلط قائم رہا‘‘ مجھے صرف یہ جاننا ہے کہ برطانوی استعمار اور اس کے ساتھ انگریزی زبان کے تسلط سے قبل کم از کم پانچ سو سالوں میں برصغیر میں کون سا عظیم فلسفی پیدا ہوا۔ بلکہ ہماری پوری تاریخ میں عظیم فلسفیوں کی م...