یہ کائنات نہ کوئی ڈیزائن ہے اور نہ اس کا کوئی ڈیزائنر۔ اور نہ یہ کائنات عدم ڈیزائن ہے جس کا ڈیزائنر معدوم ہے۔ یہ دونوں بیانات ناقص ہیں۔ ہم بحیثیت انسان بذریعہ حواس خارج میں جو کچھ دیکھتے ہیں وہ دراصل ہماری وجدان کی مشین اور ذہن ہی سے پروسیس ہو کر نکلتا ہے۔ اور وجدان کے اس جھروکے سے نظر آنے والی یہ کائنات ایک ایسی احدیّت کے طور پر ابھرتی ہے جس میں یہ ڈیزائن صرف ایک منظر ہے جس کی شناخت عدم ڈیزائن کے دوسرے منظر سے ہوتی ہے۔ اسی طرح اس کائنات میں منصوبہ بھی ایک منظر ہے جس کی شناخت عدمِ منصوبہ کے دوسرے منظر سے ہوتی ہے۔ کائنات میں چیزیں ایک دوسرے کے بالمقابل ہی شناخت ہوتی ہیں۔ اس لیے یہ کہنا کہ کائنات میں کوئی منصوبہ ہے اس لیے کوئی منصوبہ ساز ہونا چاہیے، یا کائنات بجائے خود کوئی ڈیزائن ہے اس لیے اس کا ڈیزائنر لازماً ہونا چاہیے ناقص خیال ہے۔ اسی طرح یہ کہنا کہ اس کائنات میں عدم ڈیزائن ہے اور اس لیے اس کا کوئی ڈیزائنر نہیں ہے یہ بھی ایک ناقص خیال ہی ہے۔ یہ دونوں بیانات آدھے ادھورے مناظر کی تعمیم کی بنا پر گمراہ کن قیاس کی مثالیں ہیں۔ یاد رہے کہ منصوبہ صرف ایک منظر ہے، یا یوں کہہ لیں کہ ڈیزائن...
کچرے کے پاس مستقبل ہو نہ ہو، اس کا ایک ماضی ضرور ہوتا ہے۔ کبھی وہ شو کیس
میں لذیذ بسکٹ کا پیکٹ ہوا کرتا تھا۔ جب بسکٹ ختم ہو گئی، تو اس کو ٹھکانے
لگا دیا گیا۔ ایسے ہی تم بھی استعمال شدہ ہو۔ تمہیں بھی ڈسٹ بن میں پھینک
دیا گیا۔ اور تم وہاں پڑے ہوئے بھج بھجا رہے ہو۔ تم وہاں سے اپنے سنہرے
ماضی کی طرف دیکھتے ہو، اور اسی میں لوٹنا چاہتے ہو۔ اور تمہیں مستقبل کی
فکر نہیں ہے۔ ہو بھی کیسے سکتی ہے؟ کچرے کا کوئی مستقبل نہیں ہوتا الا یہ
کہ وہ سڑ گل جائے۔ لیکن مشکل تو یہ ہے کہ تم ایکوفرینڈلی کچرا نہیں ہو۔ تم پلاسٹک ہو۔ اور تمہیں صرف رسائکل کیا جا سکتا ہے۔
کچرا کبھی کہتا ہے کہ میں رسائیکل ہونا چاہتا ہوں؟ ہاں کچرے کی یہ تمنا ضرور ہوتی ہے کہ وہ واپس شو کیس میں پہنچ جائے۔ واپس چاکلیٹ کا ریپر، صابن کی ٹکیا کا چمکیلا کاغذ بن جائے۔ اس لیے وہ بار بار ذہن کو متوجہ کرتا کہ دیکھو، ہم بھی کبھی شو کیس میں سجے تھے، بلا سے تم مانو، نہ مانو، لیکن ہماری بھی کچھ شان و شوکت تھی۔ لوگ ہم کو خریدنے آتے تھے۔
کچرے کو
رسائیکل ہونے کی تمنا نہیں ہوتی۔ وہ جہاں پڑا ہے وہیں پڑا ڈینگ مارتا رہتا
کہ دیکھو ہم لکس، ہم سنتور، ہم ڈب شیمپو، اور یہ دیکھو، ہم شیمپین، ہم بیگ
پائیپر، ہم فلاں ہم چلاں۔۔۔ کچرا اپنی جگہ آواز لگاتا رہتا، دعوتِ فکر
دیتا رہتا، مگر کس کو فرصت، کون سنتا ہے؟ کون رکتا ہے ان پر لکھی ہوئی
تحریر پڑھنے کو کہ ڈسٹ بن میں پڑے ریپر کا برانڈ نیم کیا ہے؟ سب جانتے ہیں
کہ وہ کچرا ہے۔ البتہ غریب غربا کے کچھ ندیدے بچے ایسے ہوتے ہیں جو پہلے تو
کھیل کھیل میں کچرا جمع کرتے، پھر آہستہ آہستہ یہی ان کا کام ہو جاتا،
وہ اپنے سنہرے ماضی پر نازاں ان کچروں کو بورے میں بند کر کے کباڑ خانے یا
رسائیکل فیکٹری میں لے جاتے اور سو پچاس روپے میں فروخت کر دیتے ہیں۔ میں
بھی ایسا ہی ایک کچرا فروش ہوں۔ پہلے کبھی بڑے غور سے پڑھتا تھا کہ کچرے
پر کیا دعوے تحریر ہیں۔۔۔میں ہوں اصلی لائف بوائے صابن، لائف بوائے ہے جہاں
تندرستی ہے وہاں۔ اب نہیں پڑھتا کہ کچرے پر کیا لکھا ہوا ہے۔ کچرا اپنی
اصل حیثیت کے متعلق جتنا ہی چیخے میں اس کو بورے میں بند کر کے پیٹھ پر
لادتا ، اور کباڑخانے میں پٹک آتا ہوں۔جہاں اس کے اوپر لکھے ہوئے دعوے کا
وزن نہیں کیا جائے گا، بلکہ یہ دیکھا جائے کہ وہ خود کس قسم کی پلاسٹک سے
بنا ہے۔ پھر وہ لاکھ شور مچائے، اس کو رسائیکل ہونا ہی ہے۔وما علینا الا
البلاغ۔ و آخر دعونا ان الحمد للہ!۔کچرا کبھی کہتا ہے کہ میں رسائیکل ہونا چاہتا ہوں؟ ہاں کچرے کی یہ تمنا ضرور ہوتی ہے کہ وہ واپس شو کیس میں پہنچ جائے۔ واپس چاکلیٹ کا ریپر، صابن کی ٹکیا کا چمکیلا کاغذ بن جائے۔ اس لیے وہ بار بار ذہن کو متوجہ کرتا کہ دیکھو، ہم بھی کبھی شو کیس میں سجے تھے، بلا سے تم مانو، نہ مانو، لیکن ہماری بھی کچھ شان و شوکت تھی۔ لوگ ہم کو خریدنے آتے تھے۔