علامہ ارشد القادری کی کتاب جماعت اسلامی سے درج ذیل اقتباس پڑھیں, پھر یا تو ان کے زور قلم کی داد دیں یا قیل و قال شروع کر دیں. داد کی توقع ان سے ہے جو غیر جانبدار اور انصاف پسند ہوں اور قیل و قال کی توقع ان سے جو فکر مودودی کے اسیر ہیں:
"... مولانا مودودی انبیا و اولیا کے ان عقیدت مند مسلمانوں کو جو ظاہر سے باطن تک زندگی کے تمام مراحل میں مومن ہیں, موحد ہیں, کلمہ گو ہیں, بے دریغ مشرک سمجھتے ہیں.
...
ثبوت کے لیے مولانا کی مندرجہ ذیل عبارت ملاحظہ فرمائیں:
[انبیا علیہ السلام کی تعلیم کے اثر سے جہاں لوگ اللہ واحد و قہار کی خدائی کے قائل ہو گئے. وہاں سے خداؤں کی دوسری اقسام تو رخصت ہو گئیں مگر انبیا, اولیا, شہدا, صالحین, مجاذیب, اقطاب, ابدال, علما, مشائخ اور ظل اللہوں کی خدائی پھر بھی کسی نہ کسی طرح عقائد میں اپنی جگہ نکالتی رہی. جاہل دماغوں نے مشرکین کے خداؤں کو چھوڑ کر ان نیک بندوں کو خدا بنالیا (تجدید و احیائے دین از مولانا مودودی ص 11)]
آگے چل کر پوری وضاحت کے ساتھ اس مشرک طبقے کی نشاندہی ان الفاظ میں کی گئی ہے. ملاحظہ ہو:
[مشرکانہ پوجا پاٹ کی جگہ فاتحہ, زیارت, نیاز, نذر, عرس, صندل, چڑھاوے, نشان, علم, تعزیے اور اسی قسم کے دوسرے مذہبی اعمال کی ایک نئی شریعت تصنیف کر لی گئی. (حوالہ سابق ص 11)]
دوسرے مقام پر اس سے بھی زیادہ وضاحت کے ساتھ گل افشانی فرماتے ہیں:
[جاہلیت مشرکانہ نے عوام پر حملہ کیا اور توحید کے راستہ سے ہٹا کر ان کو ضلالت کی بے شمار راہوں میں بھٹکا دیا. ایک صریح بت پرستی تو نہ ہو سکی, باقی کوئی قسم شرک کی ایسی نہ رہی جس نے مسلمانوں میں رواج نہ پایا.
پرانی جاہلی قوم کے جو لوگ اسلام میں داخل ہوئے تھے وہ اپنے ساتھ بہت سے مشرکانہ تصورات لئے چلے آئے اور یہاں ان کو صرف اتنی تکلیف کرنی پڑی کہ پرانے معبودوں کی جگہ بزرگان اسلام میں سے کچھ معبود تلاش کریں, پرانے معبدوں (بت خانوں) کی جگہ مقابر اولیا سے کام لیں. (حوالہ سابق ص 25) ]
...
دنیا کا کون مسلمان ہے جو انبیا و اولیا کو اپنا معبود سمجھتا ہے اور اصنام کی جگہ قبروں کی پرستش کرتا ہے؟ اس طرح کا کوئی فرضی مسلمان مولانا مودودی کی دنیائے خیال میں ہو تو ہو, واقعات کی دنیا میں ہرگز نہیں ہے.
خدا کا محبوب اور مقرب بندہ سمجھ کر بزرگوں کے مقابر کی زیارت و روحانی استفاضہ اور مقدس ہستیوں کے آثار کا تحفظ اگر مولانا کے تئیں بت پرستی ہے تو میں عرض کروں گا کہ ذرا پیچھے پلٹ کر دیکھیے! یہ جاہلیت مشرکانہ کی نہیں خود عہد اسلام کی یادگار ہے. خود قرآن نے مقام ابراہیم کو سجدہ گاہ اور صفا و مروہ کو مسعٰی بنانے کا حکم دے کر تعظیم آثار کے عقیدہ پر اپنی مہر تصدیق ثبت کردی ہے.
پھر جن مزارات و مقابر کو مولانا مودودی صنم خانے سے تعبیر کرتے ہیں, ان کے متعلق پوچھنا چاہتا ہوں کہ وہ آئے کہاں سے؟ ظاہر ہے کہ روضہ رسول پاک ہو یا مزارات اہل بیت و صحابہ, اولیائے عرب کے مقابر شریفہ ہوں یا یا عجم کے, یہ کچھ آج نہیں بنا لیے گئے ہیں. بلکہ عہد صحابہ سے لے کر ائمہ مجتہدین, مشائخ و محدثین, اور فقہائے اسلام کے دور تک جس دن کسی مقرب خداوندی کو سپرد خاک کیا گیا, اسی دن سے اس کے مدفن کی حفاظت شروع ہو گئ, اس کی تربت کے نشانات کو باقی رکھنے کے لیے ارد گرد صالحین کا پہرہ بیٹھ گیا, یہاں تک کہ اس مزار کی رونق و آبادی کا اہتمام قرن اول سے شروع ہو کر بعد میں آنے والے صلحائے امت تک ہر قابل اعتماد دور میں ہوتا رہا.
...
پھر "جاہلیت مشرکانہ" کہہ کر ان روایات پر جو حملہ آور ہوتا ہے اس کا حملہ عوام پر نہیں خواص پر ہے. دینی تاریخ کے لاکھوں بکھرے ہوئے اوراق پر آج بھی ائمہ حق اور اسلام کے مقتدر پیشواؤں کی ... طویل فہرست ہمارے سامنے موجود ہے جنہوں نے مزارات انبیا و اولیا کی زیارتیں کیں اور ان سے روحانی استفاضہ کیا.
اگر اسی کا نام شرک ہے تو مجھے کہنے دیا جائے کہ اسلامی تاریخ کے تمام طبقات کو مشرک تسلیم کرنے کی نسبت یہ تسلیم کرنا زیادہ آسان اور قرین عقل ہے کہ مولانا مودودی کا ذہن ہی مشرک ساز اور کافر گر ہے."
(حوالہ: کتاب "جماعت اسلامی", مصنف: علامہ ارشد القادری, ناشر: مکتبہ جام نور, دہلی, صفحہ 82 تا 85)
تو یہ طویل اقتباس آپ نے پڑھا. یہاں علامہ ارشد القادری نے بھی اپنی دلیل قرآن ہی سے فراہم کی ہے کہ اللہ تعالی نے "مقام ابراہیم کو سجدہ گاہ اور صفا و مروہ کو مسعٰی بنانے کا حکم دے کر تعظیم آثار کے عقیدہ پر اپنی مہر تصدیق ثبت کردی ہے." علامہ ارشد القادری کی یہ دلیل بھی توجہ طلب ہے کہ اگر رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے روضے کی زیارت کا مفہوم رسول کو معبود بنانا نہیں ہے تو خدا کے مقدس اور برگزیدہ بندوں کے مزارات کی زیارت ان برگزیدہ بندوں کو معبود بنا لینے کا ثبوت کیونکر ہو سکتا ہے؟
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں
تبصرہ کریں