فلسفہ و سائنس کے فروغ میں مادری و تہذیبی زبان کے لزوم پر میں نے ۳ مارچ ۲۰۱۲ عیسوی کو فیس بک پر ایک نوٹ لکھا تھا۔ میرا موقف یہ تھا کہ عظیم فلسفے مادری یا تہذیبی زبان میں ہی وجود میں آ سکتے ہیں۔ چونکہ ہم نے آزادی کے بعد بھی برصغیر میں انگریزی زبان کے تسلط کو برقرار رکھا، اس لیے ہمارے ہاں مغربی ممالک جیسے عظیم خلاق فلاسفہ کے ظہور کا امکان ہی سرے سے ختم ہو کر رہ گیا۔ اس پر کئی احباب نے مثبت و منفی تبصرے کیے۔ انہیں میں سے ایک صاحب نے درجِ ذیل تبصرہ کیا تھا: جناب طارق صاحب، آپ نے فرمایا: ’’میں سمجھتا ہوں کہ دور جدید میں برصغیر ہندوپاک، بلکہ عالم اسلام کے اکثر ملکوں میں بھی، عظیم فلسفی یا سائنسداں اس لیے پیدا نہ ہو سکے کہ برطانوی استعمارکے خاتمے کے بعد بھی پوری اکادمک دنیا پرانگریزی جیسی غیر موزوں زبان (مذکورہ بالا معنوں میں) کا تسلط قائم رہا‘‘ مجھے صرف یہ جاننا ہے کہ برطانوی استعمار اور اس کے ساتھ انگریزی زبان کے تسلط سے قبل کم از کم پانچ سو سالوں میں برصغیر میں کون سا عظیم فلسفی پیدا ہوا۔ بلکہ ہماری پوری تاریخ میں عظیم فلسفیوں کی م...