دورِ جدید کا نظام ایسا ہے کہ جو لوگ اپنی عقل سے اپنے فیصلے نہیں لیتے انہیں دوسروں کی عقل سے کیے جانے والے فیصلے قبول کرنے پڑتے ہیں۔ ہم نے عقل کی بنیاد پر تو کبھی سوچا نہیں، بلکہ محض ماضی بعید کی لکھی لکھائی عبارتوں کی بنا پر حال کی زندگی گزارتے رہے اور یہ نہ سوچ سکے کہ ماضی کی عبارتوں کا جواز ماضی تک ہی تھا، زمانہ حال میں وہ کام نہیں دے سکتیں۔ لیکن ہم ایسے نادان ہیں انہیں عبارتوں کو ابدی حقیقتوں کا درجہ دیتے رہے۔ ہم نے اس بنیادی حقیقت کو نہیں سمجھا کہ وقت کے ساتھ انسان کے علم میں اضافہ ہوتا ہی ہے اور جب علم بدلتا ہے تو پرانا اخلاق بھی بدل جاتا ہے۔ اور جب اخلاق بدلتا ہے تو تمام تر رسوم و رواج وہی نہیں رہتے جو ہزار سال پرانی دنیا میں تھے۔ ان کی یا تو نئی تعبیر کر لی جاتی ہے یا پھر انہیں اٹھا دیا جاتا ہے۔ لیکن قدیم رسوم کی نئی تعبیرات کی بھی ایک حد ہوتی ہے جس کے بعد انہیں مٹنا ہی ہے۔ پرانے رسوم و رواج اور اخلاق و عادات کا مٹ جانا چونکہ علم کی تبدیلی کے سبب ہوتا ہے اس لیے جب ایک بار کسی سلسلے میں ہمارا علم بدل جائے تو ہمارا کام یہ ہونا چاہیے کہ علوم و فنون کے پرانے دفاتر مع اپنے رسوم و رواج کے بصد احترام یا تو دفن کر دیے جائیں یا میوزیم میں سجا دیے جائیں، یا پھر بہ یک وقت دونوں کام کیے جائیں۔