پیر، 15 مئی، 2017

اختلافی مسئلہ

’’الف ایک اختلافی مسئلہ ہے
بے ایک اختلافی مسئلہ ہے
جیم ایک اختلافی مسئلہ ہے
الف بے جیم دال  چار بنیادی اصطلاحیں ہیں
اور یہ بھی ایک اختلافی مسئلہ ہے

اتوار، 14 مئی، 2017

عقائد و رسوم میں ارتقائی اصلاحات کی ضرورت

دورِ جدید کا نظام ایسا ہے کہ جو لوگ اپنی عقل سے اپنے فیصلے نہیں لیتے انہیں دوسروں کی عقل سے کیے جانے والے فیصلے قبول کرنے پڑتے ہیں۔ ہم نے عقل کی بنیاد پر تو کبھی سوچا نہیں، بلکہ محض ماضی بعید کی لکھی لکھائی عبارتوں کی بنا پر حال کی زندگی گزارتے رہے اور یہ نہ سوچ سکے کہ ماضی کی عبارتوں کا جواز ماضی تک ہی تھا، زمانہ حال میں وہ کام نہیں دے سکتیں۔ لیکن ہم ایسے نادان ہیں انہیں عبارتوں کو ابدی حقیقتوں کا درجہ دیتے رہے۔ ہم نے اس بنیادی حقیقت کو نہیں سمجھا کہ وقت کے ساتھ انسان کے علم میں اضافہ ہوتا ہی ہے اور جب علم بدلتا ہے تو پرانا اخلاق بھی بدل جاتا ہے۔ اور جب اخلاق بدلتا ہے تو تمام تر رسوم و رواج وہی نہیں رہتے جو ہزار سال پرانی دنیا میں تھے۔ ان کی یا تو نئی تعبیر کر لی جاتی ہے یا پھر انہیں اٹھا دیا جاتا ہے۔ لیکن قدیم رسوم کی نئی تعبیرات کی بھی ایک حد ہوتی ہے جس کے بعد انہیں مٹنا ہی ہے۔ پرانے رسوم و رواج اور اخلاق و عادات کا مٹ جانا چونکہ علم کی تبدیلی کے سبب ہوتا ہے اس لیے جب ایک بار کسی سلسلے میں ہمارا علم بدل جائے تو ہمارا کام یہ ہونا چاہیے کہ علوم و فنون کے پرانے دفاتر مع اپنے رسوم و رواج کے بصد احترام یا تو دفن کر دیے جائیں یا میوزیم میں سجا دیے جائیں، یا پھر بہ یک وقت دونوں کام کیے جائیں۔

جمعہ، 12 مئی، 2017

مذہب کی فلسفیانہ تعبیر کیوں مضر ہے؟

مذہب کی فلسفیانہ تعبیرات ہی مذہب کو نئی زندگی بخشتی ہیں اور اس کو قوم کی شناخت کا آلہ محض بن کر رہ جانے سے بچاتی ہیں اور اس کے اندر عصریت و موزونیت کی ظاہری صفت پیدا کرتی ہیں۔ لیکن درحقیقت اس سے بڑے مسائل پیدا ہوئے ہیں، دہشت گردی ان میں سے ایک پے۔ اس کے اسباب کو درجِ ذیل طور پر سمجھا جا سکتا ہے:
1. ایک طرف عوام مذہب کی ظواہر پرستانہ اور روایتی تعبیرات کو مانتے رہتے ہیں اور دوسری طرف خواص اپنے مذہب کی فلسفیانہ تعبیرات کے زیرِ اثر صداقت کو مذہب کا ہم معنی سمجھ لیتے اور اپنے مذہب کو ہر دور میں قابلِ عمل سمجھتے رہتے ہیں۔
2. پس، عوام اور خواص دونوں کے درمیان مذہب ایک قدرِ مشترک کے طور پر ابھرتا ہے اور اس سبب سے سیاست پر اثرانداز ہوتا ہے۔

اتوار، 12 فروری، 2017

مودودی فکر میں فاشزم اور نازی ازم کے حوالے

مولانا مودودی کے ہاں فاشزم،  نازی ازم اور کمیونزم کے لیے نرم گوشہ کا پایا جانا ایک حقیقت ہے۔ میں آج اپنے اس دعوے کے حق میں کچھ تازہ اور ناقابل انکار ثبوت پیش کروں گا۔ واضح رہے کہ کچھ عرصہ پہلے فیس بک پر اپنی ایک بحث میں مولانا مودودی کی ایک کتاب سے من و عن ایک اقتباس نقل کر چکا ہوں جس کے مطابق ان کی نظر میں اسلامی ریاست ’’فاشستی اور اشتراکی حکومتوں سے ایک گونہ مماثلت‘‘ رکھتی ہے۔
بالفرض محال، اگر اسلام یا دیگر نظریات کے مابین بظاہر کچھ مماثلت ہے بھی (جیسا کہ مودودی فرماتے ہیں، نعوذباللہ ثم استغفراللہ! )  تو صرف ظاہری سطح کی بنا پر ایسا کوئی حکم لگانا ہرگز درست نہ تھا کیونکہ اول تو اسلام بنیادی طور پر جدید فاشزم سے تیرہ سو سال پہلے ایک بہت زیادہ مختلف سیاق میں وجود میں آیا، دوم یہ کہ اسلام خدا تعالی کے ذریعے عطا گیا دین ہے اور سوم یہ کہ فاشزم و کمیونزم جیسے نظریے انسانی ذہنوں کی پیداوار ہیں۔ پس، دینی و شرعی نقطہ نظر سے اسلام اور دیگر نظاموں میں کوئی قدر مشترک یا مماثلت ڈھونڈنا ایک سطحی اور غیرضروری بات ہے یہاں تک کہ بات سمجھانے کی غرض سے بھی ایسا کرنا ایک نازیبا فعل مانا جائے گا۔

بدھ، 4 جنوری، 2017

کچرے کا مستقبل

کچرے کے پاس مستقبل ہو نہ ہو، اس کا ایک ماضی ضرور ہوتا ہے۔ کبھی وہ شو کیس میں لذیذ بسکٹ کا پیکٹ ہوا کرتا تھا۔ جب بسکٹ ختم ہو گئی، تو اس کو ٹھکانے لگا دیا گیا۔ ایسے ہی تم بھی استعمال شدہ ہو۔ تمہیں بھی ڈسٹ بن میں پھینک دیا گیا۔ اور تم وہاں پڑے ہوئے بھج بھجا رہے ہو۔ تم وہاں سے اپنے سنہرے ماضی کی طرف دیکھتے ہو، اور اسی میں لوٹنا چاہتے ہو۔ اور تمہیں مستقبل کی فکر نہیں ہے۔ ہو بھی کیسے سکتی ہے؟ کچرے کا کوئی مستقبل نہیں ہوتا الا یہ کہ وہ سڑ گل جائے۔ لیکن مشکل تو یہ ہے کہ تم ایکوفرینڈلی کچرا نہیں ہو۔ تم پلاسٹک ہو۔ اور تمہیں صرف رسائکل کیا جا سکتا ہے۔
کچرا کبھی کہتا ہے کہ میں رسائیکل ہونا چاہتا ہوں؟ ہاں کچرے کی یہ تمنا ضرور ہوتی ہے کہ وہ واپس شو کیس میں پہنچ جائے۔ واپس چاکلیٹ کا ریپر، صابن کی ٹکیا کا چمکیلا کاغذ بن جائے۔ اس لیے وہ بار بار ذہن کو متوجہ کرتا کہ دیکھو، ہم بھی کبھی شو کیس میں سجے تھے، بلا سے تم مانو، نہ مانو، لیکن ہماری بھی کچھ شان و شوکت تھی۔ لوگ ہم کو خریدنے آتے تھے۔

ناقل اور عاقل کا فرق

ناقل اور عاقل میں قطبین کا فرق ہے۔ ناقل اور کائنات کے درمیان آیات و روایات کا حجاب حائل رہتا ہے اور وہ زندگی کے تقریباً ہر چھوٹے بڑے مسئلے میں اپنی مذہبی کتاب سے رجوع کرنے پر مجبور ہوتا ہے جبکہ عاقل کائنات کا براہ راست مطالعہ کرتا ہے اور درپیش صورتحال میں اپنی انسانی عقل سے ایک راہ عمل متعین کرتا ہے۔ دور جدید میں مذہبی معذرتخواہوں ںے ایک منقول معقولی طریق کار اپنایا ہے جس کے مطابق وہ نقل کی روشنی میں عقل سے کام لیتے ہیں۔ یعنی پہلے وہ کسی زیر بحث مسئلے میں تمام آیات و روایات کو اکٹھا کرتے ہیں، ان کے سیاق کا تعین کرتے ہیں اور پھر جدید حالات کا تجزیہ کرتے ہوئے ایک ملتا جلتا حکم اپنے اس منقول معقولی طریقہ کار سے برامد کرتے ہیں۔ یہ کوئی نیا طریقہ نہیں ہے بلکہ اگلے زمانوں میں بھی ائمہ مجتہدین اسی طریقہ کار سے کام لے کر مذہبی منقولات سے جدید احکام و ہدایات برامد کرتے تھے۔ نقل پہلے بھی عقل پر مقدم تھی، اور آج بھی ہے۔ یہ سمجھنا کہ تجدد پسندوں ںے ائمہ مجتہدین کی روش سے ہٹ کر کوئی نیا طریق کار اپنا لیا ہے، ایک خام خیالی ہے۔ جب تک مذہبی منقولات کی بالادستی انسانی ذہن پر قائم رہے گی، اس وقت تک انسانی عقل جدید تر حالات کو انہیں کی روشنی میں دیکھتی رہے گی اور عوام الناس کی اکثریت زندگی کے ہر معاملے میں پسماندگی کی شکار ہوگی اور علمی و فنی ترقی کے اعلی درجوں پر نہ پہنچ سکے گی۔

مذہب اور تعمیرِ نو؟

بی بی سی ہندی پر زبیر احمد کی ایک اسٹوری میں حوالوں کے ساتھ خبر دی گئی ہے کہ سلفی مسلمانوں نے کیرلا میں ایک مثالی گاوں بسایا تھا جو اپنے مقصد میں ناکام ہو گیا۔ اس مثالی مذہبی گاوں میں ایک ہی عقیدہ کے ماننے والوں میں کسی سبب سے مذہبی اختلاف یہاں تک بڑھا کہ گاوں دو گروہوں میں بٹ گیا۔ یہی حال اس حکومت کا ہوگا جو مذہبِ اسلام یا کسی بھی دوسرے مذہب کی بنیاد پر قائم ہو۔
کوئی بھی مذہب فرقہ بندی سے خالی نہیں ہے۔ اور فرقہ بندی ایسی چیز ہے کہ کبھی اس کا خاتمہ نہیں ہو سکتا۔ فرقہ بندی کا بنیادی سبب مذہبی منقولات یعنی آیات و روایات کی نئی تعبیر بنتی ہے۔ آیات و روایات ایک خاص سیاق یا صورتحال میں وجود آتی ہیں لیکن صورتحال ہمیشہ بدلتی رہتی ہے۔ دنیا کی کوئی ایسی مذہبی کتاب نہیں جو تمام حالات میں ہدایات فراہم کرتی ہو۔