یہ نکتہ مرزا سلطان احمد کے ہاں بار بار پیدا ہوتا ہے کہ اگر دنیا میں فرق ، تضاد اور تبائن کا یہ سلسلہ نہ ہوتا تونہ چیزوں کی باہمی شناخت ممکن ہوتی اور نہ کاروبار ہستی ایک نظام کی صورت میں چل سکتا:
فرض کرو کہ دنیا میں اس وقت سب افراد ایک ہی شکل ، ایک ہی قوت اور ارادہ کے ہیں ، ان کے اغراض اجتہادیہ بھی ایک ہی قسم سے ہیں، وہ سب کے سب ایک ہی منزل کے سالک ہیں، کیا ان حالات میں دنیا ترقی کر سکے گی اور کام چل جائے گا اور لوگ آرام و آسائش سے رہ سکیں گے؟
اگر صحیح نتیجہ پر پہونچ کر جواب اس کا دیا جاوے تویہی کہنا پڑے گا کہ موجودہ نظم و نسق باقی نہیں رہ سکتا اور ایک ہی دم میں طلسم انسانی تمدن اور آئینہ معلومات صدمہ دل شکن سے چکناچور ہو جائے گا۔
مدارج اور مراتب کے اختلاف سے ہی دنیا کا کام چل رہا ہے۔ اگر ایک حکومت میں سب بادشاہ ہی ہوں یا سب رعایا تو کس طرح سیاسی ضابطہ چلے گا۔ اگر ایک گھر میں سب لوگ فرض کریں کہ ایک ہی شکل اور شباہت کے ہیں تو کون شخص ان میں تمیز کر سکتا ہے اور کس طرح اس گھر کا انتظام چلنے کی امید کی جا سکتی ہے۔ 1
نظام دنیایا نظام معاشرت کے لیے یہ کچھ ضروری بھی معلوم ہوتا ہے کہ انسانوں کے مذاق اور مراحل ادراکیہ جدا جدا ہوں۔ کیونکہ اگر یکساں قسم کے ہی ادراک ہوں تو پھر دنیا کا کارخانہ یا نظام معاشرت عمدگی سے نہیں چل سکتا ہے۔ اگر سب ہی مزدور ہوں تو مزدوری دینے والا کوئی نہ ہو، اور اگر سب کے سب امیر ہی ہوں تو مزدوری کون کرے؟ اگر سب دولتمند ہوں تو جہاں افلاس کی وجہ سے ضروریات میں کفایت ہوتی ہے وہاں ایک دقت پیش آئے۔ اگر سب افلاس زدہ ہی ہوں تو ان کی ضروریات کا کفیل کون ہو؟ اگر ہر انسان بادشاہ ہو اور کوئی بھی رعایا یا ماتحت نہ ہو اور کسی کو سرگروہ نہ مانا جائے تو ایک دم بھی اس سہانی دنیا میں گذارہ مشکل ہو جائے۔ 2
تفریق ہی سب اشیا میں ایک مناسب نسبت قایم رکھتی ہے اور تفریق ہی سے نظام معاشرت چلا جاتا ہے۔ اگر سب مساوی حالت میں ہوں تو یہ گورکھ دھندا جو چل رہا ہے سچ مچ گورکھ دھندا ہی ہو جائے۔ اگر ایک زبان کی ابجد میں سب الف ہی الف ہوں، ب، ت، ج، د، وغیرہ کچھ نہ ہو تو جو ضرورت اس وقت ابجد سے رفع ہو رہی ہےوہ ایک دم اڑجائے ۔ اور یہ ترکیبِ ابجدی جو بنیادِ علوم اور بنیادِ حفظِ معلومات مانی جاتی ہے ایسی بے جوڑ معلوم ہو کہ اس کا علاج ہی نہ ہو سکے۔
الف بحیثیت الف کے کیوں کام کا حرف ہے؟ اس لیے اس کے مقابلے میں حرف (ب) موجود ہے۔ اور(ب)کیوں ایک درجہ رکھتی ہے؟اس واسطے کہ اس کے پہلے الف اور اس کے بعد میں (ت) وجود ہے۔ علی ہذالقیاس ہر حرف بجائے خود پہلی اور بعدی نسبت سے ایک حیثیت رکھتا ہے۔ اور یہی حیثیت اس کی ضرورت اور افادیت کا موجب ہے۔3
(1) معاشرت ہو یا ترکیب ابجدی کی بنا پر قائم ہونے والی زبان ہو، دونوں کا کوئی نہ کوئی نظام ہے، اور اسی طرح ہر شعبہ زندگی اور شعبہ قدرت کا ایک نظام ہے (جو دیگر شعبوں کے نظامات سے مختلف ہے)۔4
(2) کوئی بھی نظام یا ساخت اپنے اندر تفریقی مظاہر کے بغیر قائم نہیں ہو سکتی۔ جیسا کہ سلطان احمد نے معاشرتی نظام کی مثال پیش کی ہے کہ اگر اس میں سب افراد سب حیثیتوں سے مساوی یا یکساں ہوں تو اس کا چلنا تو دور برقرار رہنا بلکہ وجود میں آنا تک مشکل ہو جائے بلکہ اس کا تو تصور کرنا بھی محال ہے۔ مرزا صاحب کے نقطہ نظر سے ان کے اس نکتے کی موزوں ترین اصطلاحی تعبیر یہ ہوگی:" موجودات کی جس قدر ساختیں اور نظامات ہیں ان کے اجزامیں باہمی فرق نہ ہو تو نہ وہ باہم متمیز ہو سکیں نہ وجود میں آ سکیں اور نہ عمل آ را ہو سکیں۔ "
(3)مندرجہ بالا دونوں نکات کے ساتھ ہی اس اقتباس میں دو الفاظ پر غور کرنے کی ضرورت ہے۔ پہلا ہے لفظ "تفریق" اور دوسرا ہے لفظ "نسبت"۔ ایک بار پھر اصل جملے میں ان الفاظ کا استعمال دیکھیں:
"تفریق ہی سب اشیا میں ایک مناسب نسبت قایم رکھتی ہے او ر تفریق ہی سے نظام معاشرت چلا جاتا ہے۔" 5
"اگر ایک زبان کی ابجد میں سب الف ہی الف ہوں، ب، ت، ج، د، وغیرہ کچھ نہ ہو تو جو ضرورت اس وقت ابجد سے رفع ہو رہی ہےوہ ایک دم اڑجائے ۔"
(5) اور جب وہ یہ کہتے ہیں:
علی ہذالقیاس ہر حرف بجائے خود پہلی اور بعدی نسبت سے ایک حیثیت رکھتا ہے۔
زیر ِبحث اقتباس سے حاصل ہونے والے مندرجہ بالا پانچ نکات کی بنا پر ہم کہہ سکتے ہیں کہ:
جب ان کے نزدیک تفریق ہی سب اشیا میں مناسب نسبت قائم رکھتی ہے،تفریق ہی سے نظامِ معاشرت بھی قائم ہوتا ہے اور نظام زبان بھی ۔ تفریق سے نظامِ زبان کے قائم ہونے کی بات اس لیے بھی سمجھ میں آتی ہے کہ متعلقہ جملے میں "ترکیبِ ابجدی" کا قرینہ موجود ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ تفریق کے بغیر ترکیبِ ابجدی ممکن نہیں۔ پھر اقتباس کے آخری دو جملوں میں حروف کے درمیان تفریق کے تناظر میں ہی حروف کے درمیان پہلی اور بعدی نسبت کا نکتہ مذکور ہوا ہے۔ اس لحاظ سے اگر لفظ نسبت کو اس کے مترادف لفظ رشتہ سے بدل لیں تو یہ کہنا غیرموزوں یا بے دلیل نہیں ہو سکتا کہ ان کے ذہن میں بھی اشیا کے مابین "تفریقی رشتہ "کا خیال موجود تھا۔
اور اگر ہم اور زیادہ احتیاط برتیں تو "تفریقی رشتہ" کے بجائے "تفریقی نسبت " کی نئی اصطلاح استعمال کریں تو اس سے بھی بات قریب قریب وہی رہتی ہے اور نفس معنی پر کوئی خاص فرق نہیں پڑتا۔ حالانکہ خود سلطان احمد نے "تفریقی نسبت" کی اصطلاح استعمال نہیں کی لیکن میں نے ایسا کرنے کے ذریعے یہ دکھایا ہے کہ ان کے بعض تصورات کس طرح سوسیئری ساختیات کے ایک تصور سے لفظی و معنوی سطح پر یہاں تک مشابہ ہیں کہ اول الذکر کے ذریعے مستعمل دو الفاظ "تفریق" اور "نسبت "میں ایک معمولی ٹانکا لگا کر اس مشابہت پر دلیل لائی جا سکتی ہے بشرطیکہ سلطان احمد کی تحریروں سے سوسیئری ساخت کو برامد کرنے کا خطرہ نہ ہو۔
اور شاید ایسا کوئی خطرہ نہیں ہے کیونکہ اس میں تو کوئی شبہ ہی نہیں کہ مرزا وسیع تر معنوں میں سوسیئر سے ملتے جلتے خطوط پر سوچ رہے تھے ۔ اوپر اس کی بہتیری دلیلیں گزر چکی ہیں جن میں سے ایک دلیل کو ایک بار پھر نقل کرنا چاہوں گا۔ اوپر اشیا میں اصولِ تبائن اور نسبتِ متوحدہ کے عنوان سے ایک سیکشن گزر چکا ہے جس میں اس نکتے سے بحث کی جا چکی ہے کہ موجودات میں سے دو وجودوں میں، یا سوسیئری ساختیات کی ترجمہ شدہ اصطلاح میں کہیں تو دو جوڑے دار تضادات (بائنری اپوزیشنس )میں، جو اختلاف، ضد یا تبائن پایا جاتا ہے وہ ہر حیثیت سے کامل نہیں ہے۔بعض حیثیتوں سے ان میں اتحادی نسبتیں بھی پائی جاتی ہیں۔اس سلسلے میں آگ اور پانی کی مثال بھی گزر چکی ہے ۔ واضح رہے کہ اتحادی نسبت کی اصطلاح سلطان احمد خود استعمال کر چکے ہیں:
اصول مقررہ یا اصول مسلمہ میں سے یہ بھی اصول ہے کہ "موجودات یا اشیاء کا اختلاف ایک تیسری نسبت پیدا کرتا ہے۔
دو مختلف وجودوں یا شیئوں میں باوجود تباین کے ایک اتحادی نسبت بھی ہوتی ہے۔6
اقتباس کے اگلے جملے میں صاف ہو گیا کہ تیسری نسبت سے مصنف کی مراد اتحادی نسبت ہے۔ پس، نسبت کی ایک قسم تو وہ ہوئی جن کی تعداد دو متخالف اشیا میں کُل دو ہیں جسے ہم تفریقی کہیں گے اور نسبت کی دوسری قسم وہ ہوئی جس کو سلطان احمد "تیسری نسبت" یا "اتحادی نسبت" کے طور پر متعارف کراتے ہیں۔ اور اس طرح، اتحادی نسبت کے ساتھ ’’تفریقی نسبت‘‘ کی اصطلاح مرزا سلطان احمد کے افکار میں معنوی طور پر موجود ہے۔
یہ خیال اس بنابھی پر غلط نہیں ہو سکتا کہ موجودات کی باہم متخالف یا متبائن اشیا میں باوجود تبائن کے اگر اتحادی نسبت "بھی" ہوتی ہے تو پھر ان میں "تفریقی نسبت " بھی لازماً ہونی چاہیے۔کیونکہ جڑنے کی بنا پر کوئی رشتہ بنتا ہے تو علیحدگی کی بنا پر بھی کیوں نہ بنے گا؟7 لیکن ایسا کہنا اگر غلط نہیں تو کیا صحیح ہو سکتا ہے؟ اس کا جواب مرزا سلطان احمد کے ایک اور مضمون "علم اور نسبت" کی ابتدا میں ہی مل جاتا ہے کہ نسبتیں دو قسم کی ہیں، مثبت اور منفی جو مختلف تصورات کے سلسلے میں بالترتیب تصدیق و تائید کے ہونے یا نہ ہونے پر منحصر ہیں۔اصل الفاظ ملاحظہ ہوں:
نسبتیں دو ہیں۔
نسبتِ مثبت۔
نسبتِ منفی۔
پہلی نسبت کے ذیل میں وہ تمام حقائق … … … تمام مقاصد۔ تمام کیفیات شامل ہیں جن کی تصدیق و تائید کی جاتی ہے۔ دوسری کے ذیل میں وہ تمام کوائف واقعات امور اور خیالات داخل ہیں۔ جن کی تصدیق و تائید نہیں کی جاتی۔8
اس مضمون کے آئندہ جملوں سے بھی واضح ہوتا ہے کہ نسبتِ مثبت وہی تصور ہے جس کو مرزا تبائن اشکال میں "اتحادی نسبت "کہہ چکے ہیں:
جس طرح وجود ذرّات سے مرکب یا مؤلف ہیں۔ اسی طرح ہر ایک ہستی اور ہر ہستی کی ذات ایک دوسرے سے ان دونوں نسبتوں کی وجہ سے ٹکر کھاتی اور کسی نہ کسی قسم سے ترکیب پاتی ہے۔9
مذہب ، فلسفہ، اخلاق، تمدن، اور سائنس جداگانہ قوانین اور اغراض کے تابع ہیں لیکن ان میں بھی ایک دوسرے کے مقابلے میں نسبتی رشتہ قایم ہے۔ 10
یہ ہیں وہ دلائل جن کی بنا پر یہ کہنا ہرگز غلط نہ ہوگا بلکہ صحیح اور درست ہوگا کہ مرزا سلطان احمد کم از کم معنوی سطح پر اشیا میں تفریقی رشتوں (اور اس پر مبنی نظام یا ساخت )کے قائل تھے لیکن دستیاب متن کے اپنے مطالعے کی حد تک میں کہہ سکتا ہوں کہ انہوں نے لفظ بہ لفظ نہ "تفریقی رشتہ" کی اور نہ "تفریقی نسبت" کی اصطلاح استعمال کی۔
[ کتاب "مرزا سلطان احمد اور ساخت" سے اقتباس ]
حوالے اور حواشی:
2 احساس، شمس بنگالہ مارچ 1908، صفحہ 1تا2
3 حوالہ سابق، 2.
4 اس سے پہلے یہ نکتہ گزر چکا ہے کہ موجودات کی کوئی بھی ساخت دوسری ساختوں سے ٹکر نہیں کھاتی۔ نظام کے سلسلے میں بھی یہی بات درست ہے۔
5 مرزا سلطان احمد، ’’احساس،‘‘ 2.
6 تباین اشکال،شمس بنگالہ، جلد1،نمبر 3، جنوری 1908 ء، صفحہ 24
7 اگر اشیا میں جہتِ اتحاد کی بنا پر کسی نسبت کو تسلیم کیا جائے تواسی طرح ان میں جہتِ تبائن کی بنا پر بھی نسبت تسلیم کی جا سکتی ہے۔حالانکہ عام خیال یہی ہے کہ دو متضاد اشیا میں کوئی نسبت نہیں ہو سکتی۔ مثلا "تجھے آبا سے اپنے کوئی نسبت ہو نہیں سکتی، چہ نسبت خاک را با عالم پاک۔
8 مرزا سلطان احمد ، ’’علم اور نسبت‘‘ مشمولہ رسالہ آزاد، لاہور، جلد 1، نمبر 3، مارچ 1907 ءصفحہ66
9حوالہ سابق
10 مرزا سلطان احمد، ’’نسبتی قانون‘‘ مشمولہ خیالات، 50.
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں
تبصرہ کریں