نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

مذہب و تصوف اور فلسفہ و سائنس کا منتہائے مقصود

یہ کائنات نہ کوئی ڈیزائن ہے اور نہ اس کا کوئی ڈیزائنر۔ اور نہ یہ کائنات عدم ڈیزائن ہے جس کا ڈیزائنر معدوم ہے۔ یہ دونوں بیانات ناقص ہیں۔ ہم بحیثیت انسان بذریعہ حواس خارج میں جو کچھ دیکھتے ہیں وہ دراصل ہماری وجدان کی مشین اور ذہن ہی سے پروسیس ہو کر نکلتا ہے۔ اور وجدان کے اس جھروکے سے نظر آنے والی یہ کائنات ایک ایسی احدیّت کے طور پر ابھرتی ہے جس میں یہ ڈیزائن صرف ایک منظر ہے جس کی شناخت عدم ڈیزائن کے دوسرے منظر سے ہوتی ہے۔ اسی طرح اس کائنات میں منصوبہ بھی ایک منظر ہے جس کی شناخت عدمِ منصوبہ کے دوسرے منظر سے ہوتی ہے۔ کائنات میں چیزیں ایک دوسرے کے بالمقابل ہی شناخت ہوتی ہیں۔ اس لیے یہ کہنا کہ کائنات میں کوئی منصوبہ ہے اس لیے کوئی منصوبہ ساز ہونا چاہیے، یا کائنات بجائے خود کوئی ڈیزائن ہے اس لیے اس کا ڈیزائنر لازماً ہونا چاہیے ناقص خیال ہے۔ اسی طرح یہ کہنا کہ اس کائنات میں عدم ڈیزائن ہے اور اس لیے اس کا کوئی ڈیزائنر نہیں ہے یہ بھی ایک ناقص خیال ہی ہے۔ یہ دونوں بیانات آدھے ادھورے مناظر کی تعمیم کی بنا پر گمراہ کن قیاس کی مثالیں ہیں۔ یاد رہے کہ منصوبہ صرف ایک منظر ہے، یا یوں کہہ لیں کہ ڈیزائن...

تفریقی رشتہ اور موجودات کا نظام

یہ نکتہ مرزا سلطان احمد کے ہاں بار بار پیدا ہوتا ہے کہ اگر دنیا میں فرق ، تضاد اور تبائن کا یہ سلسلہ نہ ہوتا تونہ چیزوں کی باہمی شناخت ممکن ہوتی اور نہ کاروبار ہستی ایک نظام کی صورت میں چل سکتا:

فرض کرو کہ دنیا میں اس وقت سب افراد ایک ہی شکل ، ایک ہی قوت اور ارادہ کے ہیں ، ان کے اغراض اجتہادیہ بھی ایک ہی قسم سے ہیں، وہ سب کے سب ایک ہی منزل کے سالک ہیں، کیا ان حالات میں دنیا ترقی کر سکے گی اور کام چل جائے گا اور لوگ آرام و آسائش سے رہ سکیں گے؟
اگر صحیح نتیجہ پر پہونچ کر جواب اس کا دیا جاوے تویہی کہنا پڑے گا کہ موجودہ نظم و نسق باقی نہیں رہ سکتا اور ایک ہی دم میں طلسم انسانی تمدن اور آئینہ معلومات صدمہ دل شکن سے چکناچور ہو جائے گا۔
مدارج اور مراتب کے اختلاف سے ہی دنیا کا کام چل رہا ہے۔ اگر ایک حکومت میں سب بادشاہ ہی ہوں یا سب رعایا تو کس طرح سیاسی ضابطہ چلے گا۔ اگر ایک گھر میں سب لوگ فرض کریں کہ ایک ہی شکل اور شباہت کے ہیں تو کون شخص ان میں تمیز کر سکتا ہے اور کس طرح اس گھر کا انتظام چلنے کی امید کی جا سکتی ہے۔ 1

یہی بات ان کے مضمون بعنوان "احساس " مطبوعہ شمس بنگالہ مارچ 1908 سے ایک اور اقتباس میں ملاحظہ فرمائیں:

نظام دنیایا نظام معاشرت کے لیے یہ کچھ ضروری بھی معلوم ہوتا ہے کہ انسانوں کے مذاق اور مراحل ادراکیہ جدا جدا ہوں۔ کیونکہ اگر یکساں قسم کے ہی ادراک ہوں تو پھر دنیا کا کارخانہ یا نظام معاشرت عمدگی سے نہیں چل سکتا ہے۔ اگر سب ہی مزدور ہوں تو مزدوری دینے والا کوئی نہ ہو، اور اگر سب کے سب امیر ہی ہوں تو مزدوری کون کرے؟ اگر سب دولتمند ہوں تو جہاں افلاس کی وجہ سے ضروریات میں کفایت ہوتی ہے وہاں ایک دقت پیش آئے۔ اگر سب افلاس زدہ ہی ہوں تو ان کی ضروریات کا کفیل کون ہو؟ اگر ہر انسان بادشاہ ہو اور کوئی بھی رعایا یا ماتحت نہ ہو اور کسی کو سرگروہ نہ مانا جائے تو ایک دم بھی اس سہانی دنیا میں گذارہ مشکل ہو جائے۔ 2

مرزا جب بھی دنیا یا موجودات کے نظام یا اس کے کسی ذیلی نظام سے بحث کرتے ہیں توایسی مثالوں کے ساتھ اس میں اشیاکے ”تفریقی رشتوں“ کی بنیادی اہمیت کو بھی واضح کرتے ہیں۔ حالانکہ تفریقی رشتہ کی یہ اصطلاح گوپی چند نارنگ نے سوسیئر اور اس کے ساختیاتی فلسفہ کی ترجمانی کے لیے استعمال کی ہے جسے اردو کے ایک مصنف کی ترجمانی کے لیے استعمال کرنا احتیاط کا تقاضا نہیں ہے لیکن جب ہم رسالہ شمس بنگالہ کے محولہ مضمون اور اس سے پیش کردہ اقتباس سے متصل پیراگرافوں کو پڑھیں تو خاصی بڑی حد تک اس اصطلاح کے ذریعے مرزا صاحب کے ساختی تصورات کی ترجمانی کے ساتھ ان کے ساختی افکار کے دائرے میں زبان کی شمولیت کی نشاندہی ممکن ہوجاتی ہے۔ فرماتےہیں:

تفریق ہی سب اشیا میں ایک مناسب نسبت قایم رکھتی ہے اور تفریق ہی سے نظام معاشرت چلا جاتا ہے۔ اگر سب مساوی حالت میں ہوں تو یہ گورکھ دھندا جو چل رہا ہے سچ مچ گورکھ دھندا ہی ہو جائے۔ اگر ایک زبان کی ابجد میں سب الف ہی الف ہوں، ب، ت، ج، د، وغیرہ کچھ نہ ہو تو جو ضرورت اس وقت ابجد سے رفع ہو رہی ہےوہ ایک دم اڑجائے ۔ اور یہ ترکیبِ ابجدی جو بنیادِ علوم اور بنیادِ حفظِ معلومات مانی جاتی ہے ایسی بے جوڑ معلوم ہو کہ اس کا علاج ہی نہ ہو سکے۔
الف بحیثیت الف کے کیوں کام کا حرف ہے؟ اس لیے اس کے مقابلے میں حرف (ب) موجود ہے۔ اور(ب)کیوں ایک درجہ رکھتی ہے؟اس واسطے کہ اس کے پہلے الف اور اس کے بعد میں (ت) وجود ہے۔ علی ہذالقیاس ہر حرف بجائے خود پہلی اور بعدی نسبت سے ایک حیثیت رکھتا ہے۔ اور یہی حیثیت اس کی ضرورت اور افادیت کا موجب ہے۔3

یہاں کئی باتیں واضح ہوتی ہیں:

(1) معاشرت ہو یا ترکیب ابجدی کی بنا پر قائم ہونے والی زبان ہو، دونوں کا کوئی نہ کوئی نظام ہے، اور اسی طرح ہر شعبہ زندگی اور شعبہ قدرت کا ایک نظام ہے (جو دیگر شعبوں کے نظامات سے مختلف ہے)۔4
(2) کوئی بھی نظام یا ساخت اپنے اندر تفریقی مظاہر کے بغیر قائم نہیں ہو سکتی۔ جیسا کہ سلطان احمد نے معاشرتی نظام کی مثال پیش کی ہے کہ اگر اس میں سب افراد سب حیثیتوں سے مساوی یا یکساں ہوں تو اس کا چلنا تو دور برقرار رہنا بلکہ وجود میں آنا تک مشکل ہو جائے بلکہ اس کا تو تصور کرنا بھی محال ہے۔ مرزا صاحب کے نقطہ نظر سے ان کے اس نکتے کی موزوں ترین اصطلاحی تعبیر یہ ہوگی:" موجودات کی جس قدر ساختیں اور نظامات ہیں ان کے اجزامیں باہمی فرق نہ ہو تو نہ وہ باہم متمیز ہو سکیں نہ وجود میں آ سکیں اور نہ عمل آ را ہو سکیں۔ "
(3)مندرجہ بالا دونوں نکات کے ساتھ ہی اس اقتباس میں دو الفاظ پر غور کرنے کی ضرورت ہے۔ پہلا ہے لفظ "تفریق" اور دوسرا ہے لفظ "نسبت"۔ ایک بار پھر اصل جملے میں ان الفاظ کا استعمال دیکھیں:

"تفریق ہی سب اشیا میں ایک مناسب نسبت قایم رکھتی ہے او ر تفریق ہی سے نظام معاشرت چلا جاتا ہے۔" 5

(4) نظامِ معاشرت میں تفریق کی اہمیت بتانے کے بعد اگلے ہی جملے میں "زبان کی ابجد" کو زیرِبحث لے آنا کیا ثابت کرتا ہے؟:

"اگر ایک زبان کی ابجد میں سب الف ہی الف ہوں، ب، ت، ج، د، وغیرہ کچھ نہ ہو تو جو ضرورت اس وقت ابجد سے رفع ہو رہی ہےوہ ایک دم اڑجائے ۔"

کیا اس سے ثابت نہیں ہوتا کہ سلطان احمد معاشرت (یعنی اس کے مختلف اجزااور ہر ایک اجزا کے ممکنہ ذیلی اجزا ) میں ہی تفریق کے قائل نہیں ہیں بلکہ زبان کی ابجد میں بھی تفریق کے قائل ہیں۔ اسی لیے تو وہ کہتے ہیں کہ الف کے مقابلے میں ب ہے اور ب کے مقابلے میں ت ہے وغیرہ۔ اور اسی لیے تو وہ ابجد یا حروف تہجی کی پرائمری قاعدہ والی "ترتیب" کی بجائے " ترکیب ابجدی" کا لفظ استعمال کرتے ہیں اور اس کے متعلق یہ کہتے ہیں کہ یہ بنیادِ علوم اور بنیادِ حفظ معلومات ہے ۔ صاف ظاہر ہے کہ ان کے نزدیک ترکیب ابجدی کی بنا پر لفظ کی شکل میں متشکل ہونے والے حروف (بشمول ان کی آوازیں) میں بھی تفریقیں پائی جاتی ہیں۔

(5) اور جب وہ یہ کہتے ہیں:

علی ہذالقیاس ہر حرف بجائے خود پہلی اور بعدی نسبت سے ایک حیثیت رکھتا ہے۔

تو کیا اس سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ وہ تفریق کے تناظر میں ہی پہلی اور بعدی نسبت کی بات کر رہے ہیں؟

زیر ِبحث اقتباس سے حاصل ہونے والے مندرجہ بالا پانچ نکات کی بنا پر ہم کہہ سکتے ہیں کہ:
جب ان کے نزدیک تفریق ہی سب اشیا میں مناسب نسبت قائم رکھتی ہے،تفریق ہی سے نظامِ معاشرت بھی قائم ہوتا ہے اور نظام زبان بھی ۔ تفریق سے نظامِ زبان کے قائم ہونے کی بات اس لیے بھی سمجھ میں آتی ہے کہ متعلقہ جملے میں "ترکیبِ ابجدی" کا قرینہ موجود ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ تفریق کے بغیر ترکیبِ ابجدی ممکن نہیں۔ پھر اقتباس کے آخری دو جملوں میں حروف کے درمیان تفریق کے تناظر میں ہی حروف کے درمیان پہلی اور بعدی نسبت کا نکتہ مذکور ہوا ہے۔ اس لحاظ سے اگر لفظ نسبت کو اس کے مترادف لفظ رشتہ سے بدل لیں تو یہ کہنا غیرموزوں یا بے دلیل نہیں ہو سکتا کہ ان کے ذہن میں بھی اشیا کے مابین "تفریقی رشتہ "کا خیال موجود تھا۔
اور اگر ہم اور زیادہ احتیاط برتیں تو "تفریقی رشتہ" کے بجائے "تفریقی نسبت " کی نئی اصطلاح استعمال کریں تو اس سے بھی بات قریب قریب وہی رہتی ہے اور نفس معنی پر کوئی خاص فرق نہیں پڑتا۔ حالانکہ خود سلطان احمد نے "تفریقی نسبت" کی اصطلاح استعمال نہیں کی لیکن میں نے ایسا کرنے کے ذریعے یہ دکھایا ہے کہ ان کے بعض تصورات کس طرح سوسیئری ساختیات کے ایک تصور سے لفظی و معنوی سطح پر یہاں تک مشابہ ہیں کہ اول الذکر کے ذریعے مستعمل دو الفاظ "تفریق" اور "نسبت "میں ایک معمولی ٹانکا لگا کر اس مشابہت پر دلیل لائی جا سکتی ہے بشرطیکہ سلطان احمد کی تحریروں سے سوسیئری ساخت کو برامد کرنے کا خطرہ نہ ہو۔
اور شاید ایسا کوئی خطرہ نہیں ہے کیونکہ اس میں تو کوئی شبہ ہی نہیں کہ مرزا وسیع تر معنوں میں سوسیئر سے ملتے جلتے خطوط پر سوچ رہے تھے ۔ اوپر اس کی بہتیری دلیلیں گزر چکی ہیں جن میں سے ایک دلیل کو ایک بار پھر نقل کرنا چاہوں گا۔ اوپر اشیا میں اصولِ تبائن اور نسبتِ متوحدہ کے عنوان سے ایک سیکشن گزر چکا ہے جس میں اس نکتے سے بحث کی جا چکی ہے کہ موجودات میں سے دو وجودوں میں، یا سوسیئری ساختیات کی ترجمہ شدہ اصطلاح میں کہیں تو دو جوڑے دار تضادات (بائنری اپوزیشنس )میں، جو اختلاف، ضد یا تبائن پایا جاتا ہے وہ ہر حیثیت سے کامل نہیں ہے۔بعض حیثیتوں سے ان میں اتحادی نسبتیں بھی پائی جاتی ہیں۔اس سلسلے میں آگ اور پانی کی مثال بھی گزر چکی ہے ۔ واضح رہے کہ اتحادی نسبت کی اصطلاح سلطان احمد خود استعمال کر چکے ہیں:

اصول مقررہ یا اصول مسلمہ میں سے یہ بھی اصول ہے کہ "موجودات یا اشیاء کا اختلاف ایک تیسری نسبت پیدا کرتا ہے۔
دو مختلف وجودوں یا شیئوں میں باوجود تباین کے ایک اتحادی نسبت بھی ہوتی ہے۔6

پہلے جملے میں تیسری نسبت کا لفظ آیا ہے جس کے معنی یہ نکلتے ہیں کہ موجودات میں اختلاف پر مبنی دو نسبتیں پہلے ہی پائی جاتی ہیں، مثلا دو وجودوں آگ اور پانی میں سے ہر ایک دوسرے سے نسبت رکھتا ہے ۔ یعنی (1) آگ پانی سے کیفیت میں مختلف ہے اور (2) پانی آگ سے کیفیت میں مختلف ہے۔ اور یہ کل دو نسبتیں ہوئیں۔

اقتباس کے اگلے جملے میں صاف ہو گیا کہ تیسری نسبت سے مصنف کی مراد اتحادی نسبت ہے۔ پس، نسبت کی ایک قسم تو وہ ہوئی جن کی تعداد دو متخالف اشیا میں کُل دو ہیں جسے ہم تفریقی کہیں گے اور نسبت کی دوسری قسم وہ ہوئی جس کو سلطان احمد "تیسری نسبت" یا "اتحادی نسبت" کے طور پر متعارف کراتے ہیں۔ اور اس طرح، اتحادی نسبت کے ساتھ ’’تفریقی نسبت‘‘ کی اصطلاح مرزا سلطان احمد کے افکار میں معنوی طور پر موجود ہے۔
یہ خیال اس بنابھی پر غلط نہیں ہو سکتا کہ موجودات کی باہم متخالف یا متبائن اشیا میں باوجود تبائن کے اگر اتحادی نسبت "بھی" ہوتی ہے تو پھر ان میں "تفریقی نسبت " بھی لازماً ہونی چاہیے۔کیونکہ جڑنے کی بنا پر کوئی رشتہ بنتا ہے تو علیحدگی کی بنا پر بھی کیوں نہ بنے گا؟7 لیکن ایسا کہنا اگر غلط نہیں تو کیا صحیح ہو سکتا ہے؟ اس کا جواب مرزا سلطان احمد کے ایک اور مضمون "علم اور نسبت" کی ابتدا میں ہی مل جاتا ہے کہ نسبتیں دو قسم کی ہیں، مثبت اور منفی جو مختلف تصورات کے سلسلے میں بالترتیب تصدیق و تائید کے ہونے یا نہ ہونے پر منحصر ہیں۔اصل الفاظ ملاحظہ ہوں:

نسبتیں دو ہیں۔
نسبتِ مثبت۔
نسبتِ منفی۔
پہلی نسبت کے ذیل میں وہ تمام حقائق … … … تمام مقاصد۔ تمام کیفیات شامل ہیں جن کی تصدیق و تائید کی جاتی ہے۔ دوسری کے ذیل میں وہ تمام کوائف واقعات امور اور خیالات داخل ہیں۔ جن کی تصدیق و تائید نہیں کی جاتی۔8

اس مضمون کے آئندہ جملوں سے بھی واضح ہوتا ہے کہ نسبتِ مثبت وہی تصور ہے جس کو مرزا تبائن اشکال میں "اتحادی نسبت "کہہ چکے ہیں:

جس طرح وجود ذرّات سے مرکب یا مؤلف ہیں۔ اسی طرح ہر ایک ہستی اور ہر ہستی کی ذات ایک دوسرے سے ان دونوں نسبتوں کی وجہ سے ٹکر کھاتی اور کسی نہ کسی قسم سے ترکیب پاتی ہے۔9

اور جب نسبتِ مثبت نسبتِ اتحادی ہے تواسی طرز پر نسبتِ منفی نسبتِ تفریقی ہی ہو سکتی ہے جس کو میں نے اس سیکشن میں پہلے "تفریقی رشتہ" اور بعد میں " تفریقی نسبت " سے تعبیر کیا ہے۔یہ دونوں لفظی تعبیریں اس لیے بھی غلط نہیں ہیں کیونکہ مرزا صاحب نے ایک اور مضمون نسبتی قانون میں صریحاً ’’نسبتی رشتہ‘‘ کی اصطلاح استعمال کی ہے:

مذہب ، فلسفہ، اخلاق، تمدن، اور سائنس جداگانہ قوانین اور اغراض کے تابع ہیں لیکن ان میں بھی ایک دوسرے کے مقابلے میں نسبتی رشتہ قایم ہے۔ 10

جب نسبتی رشتہ کی اصطلاح خود مرزا صاحب کی ہے ، اور ان کے نزدیک نسبتیں منفی بھی ہیں اور مثبت بھی تو دو قسم کے نسبتی رشتے ہوئے، ’’مثبت نسبتی رشتہ‘‘ اور ’’منفی نسبتی رشتہ‘‘۔ پس، چونکہ تبائن و تفریق کے مقابلے میں اتحادی نسبت کا لفظ پایا جانا پہلے ثابت ہو چکا ہے اس لیے یہ اس کا منطقی اقتضا ہے کہ مرزا کے افکار میں ’’ تفریقی رشتہ‘‘ کے تصور کو معنوی طور پر کاملاً اور لفظی طور پر قریباً موجود تسلیم کیا جائے۔

یہ ہیں وہ دلائل جن کی بنا پر یہ کہنا ہرگز غلط نہ ہوگا بلکہ صحیح اور درست ہوگا کہ مرزا سلطان احمد کم از کم معنوی سطح پر اشیا میں تفریقی رشتوں (اور اس پر مبنی نظام یا ساخت )کے قائل تھے لیکن دستیاب متن کے اپنے مطالعے کی حد تک میں کہہ سکتا ہوں کہ انہوں نے لفظ بہ لفظ نہ "تفریقی رشتہ" کی اور نہ "تفریقی نسبت" کی اصطلاح استعمال کی۔ 

[ کتاب "مرزا سلطان احمد اور ساخت" سے اقتباس ]

حوالے اور حواشی:

1 مرزا سلطان احمد، ’’فطنت،‘‘ 10.
 

2 احساس، شمس بنگالہ مارچ 1908، صفحہ 1تا2
 

3 حوالہ سابق، 2.
 

4 اس سے پہلے یہ نکتہ گزر چکا ہے کہ موجودات کی کوئی بھی ساخت دوسری ساختوں سے ٹکر نہیں کھاتی۔ نظام کے سلسلے میں بھی یہی بات درست ہے۔
 

5 مرزا سلطان احمد، ’’احساس،‘‘ 2.
 

6 تباین اشکال،شمس بنگالہ، جلد1،نمبر 3، جنوری 1908 ء، صفحہ 24
 

 7 اگر اشیا میں جہتِ اتحاد کی بنا پر کسی نسبت کو تسلیم کیا جائے تواسی طرح ان میں جہتِ تبائن کی بنا پر بھی نسبت تسلیم کی جا سکتی ہے۔حالانکہ عام خیال یہی ہے کہ دو متضاد اشیا میں کوئی نسبت نہیں ہو سکتی۔ مثلا "تجھے آبا سے اپنے کوئی نسبت ہو نہیں سکتی، چہ نسبت خاک را با عالم پاک۔

8 مرزا سلطان احمد ، ’’علم اور نسبت‘‘ مشمولہ رسالہ آزاد، لاہور، جلد 1، نمبر 3، مارچ 1907 ءصفحہ66
 

 9حوالہ سابق

10 مرزا سلطان احمد، ’’نسبتی قانون‘‘ مشمولہ خیالات، 50.

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

تحقیق کے مسائل

تحقیق ایک اہم علمی فریضہ ہے۔ تحقیق کے ذریعے ہم نامعلوم کا علم حاصل کرتے ہیں۔ غیر محسوس کو محسوس بناتے ہیں۔ جو باتیں پردہ ٔ غیب میں ہوتی ہیں، انہیں منصہ ٔ شہود پر لاتے ہیں تا کہ کسی امر میں یقینی علم ہم کو حاصل ہو، اور اس کی بنیاد پر مزید تحقیق جاری رکھی جا سکے۔تحقیق ایک مسلسل عمل ہے۔ موجودہ دور میں یہ ایک نتیجے تک پہنچنے سے زیادہ ایک طریقے ( تک پہنچنے) کا نام ہے۔نتیجہ خواہ کچھ ہو، موجودہ دور میں اس کے طریقہ ٔ کار یا منہاجیات کو صاف و شفاف بنانا فلسفیانہ طور پر زیادہ ضروری سمجھا جاتا ہے تاکہ زیادہ تر نتائج صحت کے ساتھ محسوسات کے دائرے میں حتی الامکان منتقل ہو سکیں۔ دائرہ تحقیق میں ایک مقدمہ کو نتیجہ میں بدلنے کے طریقے کی جس قدر اصلاح ہوتی جائے گی اسی قدر تحقیق معتبر مانی جائے گی۔ البتہ بعض اوقات یوں بھی ہوتا ہے کہ کسی تحقیق کا طریقہ صحیح نہیں ہو اور نتیجہ بالکل صحیح ہو۔ لیکن اس ناقابل حل مسئلے کے باوجود بہرحال طریقے میں حذف و اضافہ اور اصلاح و تصحیح کی ضرورت ہمیشہ باقی رہتی ہے۔ تحقیق کے عربی لفظ کا مفہوم حق کو ثابت کرنا یا حق کی طرف پھیرنا ہے۔ حق کے معنی سچ کے ہیں۔ مادہ حق سے...

قرآن اور بگ بینگ

ایک بہت طویل عرصے سے اہل اسلام کا مغرب زدہ طبقہ قرآن کی تصدیق جدید ترین سائنسی تحقیقات کی بنیاد پر کرنا چاہتا ہے. اس کی اصل دلیل یہ ہے کہ اگر قرآن خدا کی کتاب نہ ہوتی تو اس میں بیسویں صدی کے سائنسی انکشافات کا ذکر چودہ سو سال پہلے کیونکر ممکن تھا؟ اس سلسلے میں ایک بہت بڑی مثال بگ بینگ کی دی جاتی ہے اور قرآن کی اس آیت کو دلیل بنایا جاتا ہے: اَوَلَمْ يَرَ الَّذِيْنَ كَفَرُوْٓا اَنَّ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ كَانَتَا رَتْقًا فَفَتَقْنٰهُمَا ۭ وَجَعَلْنَا مِنَ الْمَاۗءِ كُلَّ شَيْءٍ حَيٍّ ۭ اَفَلَا يُؤْمِنُوْنَ کیا کافروں نے نہیں دیکھا کہ آسمان اور زمین دونوں ملے ہوئے تھے تو ہم نے جدا جدا کردیا۔ اور تمام جاندار چیزیں ہم نے پانی

مذہب و تصوف اور فلسفہ و سائنس کا منتہائے مقصود

یہ کائنات نہ کوئی ڈیزائن ہے اور نہ اس کا کوئی ڈیزائنر۔ اور نہ یہ کائنات عدم ڈیزائن ہے جس کا ڈیزائنر معدوم ہے۔ یہ دونوں بیانات ناقص ہیں۔ ہم بحیثیت انسان بذریعہ حواس خارج میں جو کچھ دیکھتے ہیں وہ دراصل ہماری وجدان کی مشین اور ذہن ہی سے پروسیس ہو کر نکلتا ہے۔ اور وجدان کے اس جھروکے سے نظر آنے والی یہ کائنات ایک ایسی احدیّت کے طور پر ابھرتی ہے جس میں یہ ڈیزائن صرف ایک منظر ہے جس کی شناخت عدم ڈیزائن کے دوسرے منظر سے ہوتی ہے۔ اسی طرح اس کائنات میں منصوبہ بھی ایک منظر ہے جس کی شناخت عدمِ منصوبہ کے دوسرے منظر سے ہوتی ہے۔ کائنات میں چیزیں ایک دوسرے کے بالمقابل ہی شناخت ہوتی ہیں۔ اس لیے یہ کہنا کہ کائنات میں کوئی منصوبہ ہے اس لیے کوئی منصوبہ ساز ہونا چاہیے، یا کائنات بجائے خود کوئی ڈیزائن ہے اس لیے اس کا ڈیزائنر لازماً ہونا چاہیے ناقص خیال ہے۔ اسی طرح یہ کہنا کہ اس کائنات میں عدم ڈیزائن ہے اور اس لیے اس کا کوئی ڈیزائنر نہیں ہے یہ بھی ایک ناقص خیال ہی ہے۔ یہ دونوں بیانات آدھے ادھورے مناظر کی تعمیم کی بنا پر گمراہ کن قیاس کی مثالیں ہیں۔ یاد رہے کہ منصوبہ صرف ایک منظر ہے، یا یوں کہہ لیں کہ ڈیزائن...