نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

مذہب و تصوف اور فلسفہ و سائنس کا منتہائے مقصود

یہ کائنات نہ کوئی ڈیزائن ہے اور نہ اس کا کوئی ڈیزائنر۔ اور نہ یہ کائنات عدم ڈیزائن ہے جس کا ڈیزائنر معدوم ہے۔ یہ دونوں بیانات ناقص ہیں۔ ہم بحیثیت انسان بذریعہ حواس خارج میں جو کچھ دیکھتے ہیں وہ دراصل ہماری وجدان کی مشین اور ذہن ہی سے پروسیس ہو کر نکلتا ہے۔ اور وجدان کے اس جھروکے سے نظر آنے والی یہ کائنات ایک ایسی احدیّت کے طور پر ابھرتی ہے جس میں یہ ڈیزائن صرف ایک منظر ہے جس کی شناخت عدم ڈیزائن کے دوسرے منظر سے ہوتی ہے۔ اسی طرح اس کائنات میں منصوبہ بھی ایک منظر ہے جس کی شناخت عدمِ منصوبہ کے دوسرے منظر سے ہوتی ہے۔ کائنات میں چیزیں ایک دوسرے کے بالمقابل ہی شناخت ہوتی ہیں۔ اس لیے یہ کہنا کہ کائنات میں کوئی منصوبہ ہے اس لیے کوئی منصوبہ ساز ہونا چاہیے، یا کائنات بجائے خود کوئی ڈیزائن ہے اس لیے اس کا ڈیزائنر لازماً ہونا چاہیے ناقص خیال ہے۔ اسی طرح یہ کہنا کہ اس کائنات میں عدم ڈیزائن ہے اور اس لیے اس کا کوئی ڈیزائنر نہیں ہے یہ بھی ایک ناقص خیال ہی ہے۔ یہ دونوں بیانات آدھے ادھورے مناظر کی تعمیم کی بنا پر گمراہ کن قیاس کی مثالیں ہیں۔ یاد رہے کہ منصوبہ صرف ایک منظر ہے، یا یوں کہہ لیں کہ ڈیزائن...

مرزا سلطان احمد کا علمِ انساب اور سوسیئر کی سیمیالوجی

[کتاب "مرزا سلطان احمد اور ساخت" سے ایک اقتباس]

مثبت اور منفی یا اتحادی و تفریقی نسبتوں کا ذکر پہلے کیا جا چکا ہے۔ مرزا صاحب کے نزدیک ان نسبتوں پر مبنی علم کو علم انساب کہتے ہیں جس پر انسان کی علمی ترقی موقوف ہے۔یہ انسانی افراد کے حسب و نسب یا ان کی شجرہ سازی پر مبنی علم الانساب نہیں ہے جو عربوں کے ساتھ مخصوص ہے یا یہ وہ علم الانساب بھی نہیں ہے جسے جینیالوجی کے ترجمے کے طور پر قبول کیا گیا ہے۔ مرزا سلطان احمد کے نزدیک علمِ انساب وہ خاص علم ہے جو تمام چیزوں میں مخفی اور مستتر نسبتوں سے بحث کرتا ہے۔ مرزا صاحب کے علم انساب کی اہمیت کو سوسیئر کے سیمیالوجی کے تناظر میں بھی سمجھا جا سکتا ہےکیونکہ دونوں تصورات میں بعض مشابہتیں پائی جا سکتی ہیں لیکن اس موضوع پر مکمل بحث اس مقالے کی دوسری جلد میں آئے گی۔ سردست، اس علم کے تصور کوبڑی حد تک انہیں کے الفاظ میں تلخیص و اختصار کے ساتھ پیش کرنے کی کوشش کرتا ہوں:

"ہر ایک ہستی اور اس کی ذات ایک دوسرے سے نسبت مثبت اور نسبتِ منفی کی وجہ سے ترکیب پاتی ہے۔ ایک ذات یا وجود دوسرے ذات یا وجود سے کوئی نہ کوئی نسبت رکھتا ہے۔یعنی دونوں میں کوئی رشتہ یا تعلق ہوتا ہے، اور اس طرح ، ایک کا مدار دوسرے پر اور دوسرے کا تیسرے پر ہوتا ہے و علی ہذالقیاس۔
ہم مختلف ہستیوں اور ذاتوں کے سلسلوں اور روابط سے کچھ نہ کچھ واقفیت رکھتے ہیں۔ مثلاً ، ہم جانتے ہیں کہ فلاں شئے فلاں سے یہ نسبت رکھتی ہے۔فلاں آگے یا پیچھے ہے، مقدم یا موخرہے ، مفید یا غیرمفید ہے۔ اسی طرح، ہم جانتے ہیں کہ فلاں عمل یا ترکیب کا نتیجہ فلاں ہوتا ہے۔ ایسی باتیں روزمرہ کی مشاہدے میں آتی ہیں لیکن اگر ہم گہرائی میں جا کر یا دور تک کے سلسلوں کی نسبت سےواقفیت حاصل کرنا چاہیں تو اس کے لیے ایک سائنس کی ضرورت پڑے گی۔
جب تک چیزوں کے باہمی رشتوں یا تعلقات اور سلسلوں کا علم اور اس کی بنا پر نسبتِ مثبت و منفی کا علم نہ پیدا ہو تب تک ہستی یا موجودات کے نظامِ نسبت سے کوئی فائدہ نہیں اٹھایا جا سکتا۔ باپ اور بیٹے کے درمیان خون کا رشتہ ہوتا ہے لیکن جب تک دونوں کو اس کا علم نہ ہو تب ان کے مابین محبت پیدا نہیں ہوتی۔ پس :
ہماری ترقیات اور عروج کا اصلی پایہ علمِ انساب ہے۔ ہم اس وقت تک کسی پہلو میں ترقی نہیں کر سکتے جب تک انساب کا علم کافی طریق سے نہ ہو۔
عوام الناس اور سائینس دان۔ فلاسفروں یا حکیموں میں صرف یہی فرق ہے کہ :
نسبتوں سے اور اُن کی کنہ سے حسبِ طاقت بشری آگاہی ... رکھتے ہیں۔
اور ہم قریباً ان کوچوں سے ناآشنا ہیں۔ ہمارا علم کب کامل ہوتا ہے۔ جب ہم اس کی بدولت انساب سے کامل واقف ہو جاویں۔"

آگے فرماتے ہیں کہ عالم، سائنسدان، فلاسفر اور حکیم، طبیب یا ڈاکٹر ہونا، پولیٹکس سے واقف ہونا، تدابیرِ منزل اور سیاستِ مدن سے آگاہ ہونا، تجارت اور اصول اقتصادیہ سے متمتع ہونا اُسی صورت میں ہو سکتا ہے جب ہم کائنات اور سلسلۂ کائنات کی باہمی نسبتوں سے واقف ہوں ۔ یا واقف ہونے کی کوشش کریں، ان رشتوں سے شناسا ہوں جو ہمارے ارد گرد ہیں اور ہمیں ترقی میں مدد دے سکتے ہیں۔ ان تعلقات اور ان کیفیات کا علم رکھتے ہوں جو ایک دوسرے کی ترکیب یا تفصیل کا موجب ہیں یا جن سے ایک کی دوسرے سے تصنیف یا تالیف ہوتی ہے۔
مرزا صاحب کی تحریروں میں ساختی فکر اس قدر نمایاں ہے کہ انہوں نے تقریباً اپنی ہر اہم کتاب میں اس سے کام لیا ہے۔ حتی کہ ہر قسم کے علوم و فنون پر بھی اس کااطلاق کیا ہے۔ رسالہ فن شاعری میں اسی طریقہ کار کے تحت علوم و افکار کے تمام تر سلسلوں کی آخری غرض و غایت کو جس طرح بیان کرتے ہیں اس سے بھی یہی معلوم ہوتا ہے:

 "تمام علمی طریقوں اور تمام علمی سلسلوں کی یہ آخری غرض یا اعلی غایت ہے کہ موجودات کے باہمی تعلقات اور روابط کا ایسے طور پر اظہار کیا جاوے جس سے ایک کی نسبت دوسرے سے کھل جاوے اور اس انکشاف سے انسانی تمدن، انسانی تہذیب، انسانی خیالات میں علمی ڈھنگ سے ترقی کی روح پیدا ہو۔اگر یہ سوال کیا جاوے کہ ہمارے تمام علوم اور فنون کی غرض اور ماحصل کیا ہے تو مختصر الفاظ میں ان کا یہی جواب ہوگا کہ موجودات کی باہمی نسبتوں کا جاننا اور ان سے مستتر نتیجے نکالنا اور ان تک پہنچنا۔"


کتاب کا پریویو دیکھنے کے لیے درج ذیل لنک پر کلک کریں:
مرزا سلطان احمد اور ساخت

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

تحقیق کے مسائل

تحقیق ایک اہم علمی فریضہ ہے۔ تحقیق کے ذریعے ہم نامعلوم کا علم حاصل کرتے ہیں۔ غیر محسوس کو محسوس بناتے ہیں۔ جو باتیں پردہ ٔ غیب میں ہوتی ہیں، انہیں منصہ ٔ شہود پر لاتے ہیں تا کہ کسی امر میں یقینی علم ہم کو حاصل ہو، اور اس کی بنیاد پر مزید تحقیق جاری رکھی جا سکے۔تحقیق ایک مسلسل عمل ہے۔ موجودہ دور میں یہ ایک نتیجے تک پہنچنے سے زیادہ ایک طریقے ( تک پہنچنے) کا نام ہے۔نتیجہ خواہ کچھ ہو، موجودہ دور میں اس کے طریقہ ٔ کار یا منہاجیات کو صاف و شفاف بنانا فلسفیانہ طور پر زیادہ ضروری سمجھا جاتا ہے تاکہ زیادہ تر نتائج صحت کے ساتھ محسوسات کے دائرے میں حتی الامکان منتقل ہو سکیں۔ دائرہ تحقیق میں ایک مقدمہ کو نتیجہ میں بدلنے کے طریقے کی جس قدر اصلاح ہوتی جائے گی اسی قدر تحقیق معتبر مانی جائے گی۔ البتہ بعض اوقات یوں بھی ہوتا ہے کہ کسی تحقیق کا طریقہ صحیح نہیں ہو اور نتیجہ بالکل صحیح ہو۔ لیکن اس ناقابل حل مسئلے کے باوجود بہرحال طریقے میں حذف و اضافہ اور اصلاح و تصحیح کی ضرورت ہمیشہ باقی رہتی ہے۔ تحقیق کے عربی لفظ کا مفہوم حق کو ثابت کرنا یا حق کی طرف پھیرنا ہے۔ حق کے معنی سچ کے ہیں۔ مادہ حق سے...

قرآن اور بگ بینگ

ایک بہت طویل عرصے سے اہل اسلام کا مغرب زدہ طبقہ قرآن کی تصدیق جدید ترین سائنسی تحقیقات کی بنیاد پر کرنا چاہتا ہے. اس کی اصل دلیل یہ ہے کہ اگر قرآن خدا کی کتاب نہ ہوتی تو اس میں بیسویں صدی کے سائنسی انکشافات کا ذکر چودہ سو سال پہلے کیونکر ممکن تھا؟ اس سلسلے میں ایک بہت بڑی مثال بگ بینگ کی دی جاتی ہے اور قرآن کی اس آیت کو دلیل بنایا جاتا ہے: اَوَلَمْ يَرَ الَّذِيْنَ كَفَرُوْٓا اَنَّ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ كَانَتَا رَتْقًا فَفَتَقْنٰهُمَا ۭ وَجَعَلْنَا مِنَ الْمَاۗءِ كُلَّ شَيْءٍ حَيٍّ ۭ اَفَلَا يُؤْمِنُوْنَ کیا کافروں نے نہیں دیکھا کہ آسمان اور زمین دونوں ملے ہوئے تھے تو ہم نے جدا جدا کردیا۔ اور تمام جاندار چیزیں ہم نے پانی

مذہب و تصوف اور فلسفہ و سائنس کا منتہائے مقصود

یہ کائنات نہ کوئی ڈیزائن ہے اور نہ اس کا کوئی ڈیزائنر۔ اور نہ یہ کائنات عدم ڈیزائن ہے جس کا ڈیزائنر معدوم ہے۔ یہ دونوں بیانات ناقص ہیں۔ ہم بحیثیت انسان بذریعہ حواس خارج میں جو کچھ دیکھتے ہیں وہ دراصل ہماری وجدان کی مشین اور ذہن ہی سے پروسیس ہو کر نکلتا ہے۔ اور وجدان کے اس جھروکے سے نظر آنے والی یہ کائنات ایک ایسی احدیّت کے طور پر ابھرتی ہے جس میں یہ ڈیزائن صرف ایک منظر ہے جس کی شناخت عدم ڈیزائن کے دوسرے منظر سے ہوتی ہے۔ اسی طرح اس کائنات میں منصوبہ بھی ایک منظر ہے جس کی شناخت عدمِ منصوبہ کے دوسرے منظر سے ہوتی ہے۔ کائنات میں چیزیں ایک دوسرے کے بالمقابل ہی شناخت ہوتی ہیں۔ اس لیے یہ کہنا کہ کائنات میں کوئی منصوبہ ہے اس لیے کوئی منصوبہ ساز ہونا چاہیے، یا کائنات بجائے خود کوئی ڈیزائن ہے اس لیے اس کا ڈیزائنر لازماً ہونا چاہیے ناقص خیال ہے۔ اسی طرح یہ کہنا کہ اس کائنات میں عدم ڈیزائن ہے اور اس لیے اس کا کوئی ڈیزائنر نہیں ہے یہ بھی ایک ناقص خیال ہی ہے۔ یہ دونوں بیانات آدھے ادھورے مناظر کی تعمیم کی بنا پر گمراہ کن قیاس کی مثالیں ہیں۔ یاد رہے کہ منصوبہ صرف ایک منظر ہے، یا یوں کہہ لیں کہ ڈیزائن...