[کتاب "مرزا سلطان احمد اور ساخت" سے ایک اقتباس]
مثبت اور منفی یا اتحادی و تفریقی نسبتوں کا ذکر پہلے کیا جا چکا ہے۔ مرزا صاحب کے نزدیک ان نسبتوں پر مبنی علم کو علم انساب کہتے ہیں جس پر انسان کی علمی ترقی موقوف ہے۔یہ انسانی افراد کے حسب و نسب یا ان کی شجرہ سازی پر مبنی علم الانساب نہیں ہے جو عربوں کے ساتھ مخصوص ہے یا یہ وہ علم الانساب بھی نہیں ہے جسے جینیالوجی کے ترجمے کے طور پر قبول کیا گیا ہے۔ مرزا سلطان احمد کے نزدیک علمِ انساب وہ خاص علم ہے جو تمام چیزوں میں مخفی اور مستتر نسبتوں سے بحث کرتا ہے۔ مرزا صاحب کے علم انساب کی اہمیت کو سوسیئر کے سیمیالوجی کے تناظر میں بھی سمجھا جا سکتا ہےکیونکہ دونوں تصورات میں بعض مشابہتیں پائی جا سکتی ہیں لیکن اس موضوع پر مکمل بحث اس مقالے کی دوسری جلد میں آئے گی۔ سردست، اس علم کے تصور کوبڑی حد تک انہیں کے الفاظ میں تلخیص و اختصار کے ساتھ پیش کرنے کی کوشش کرتا ہوں:"ہر ایک ہستی اور اس کی ذات ایک دوسرے سے نسبت مثبت اور نسبتِ منفی کی وجہ سے ترکیب پاتی ہے۔ ایک ذات یا وجود دوسرے ذات یا وجود سے کوئی نہ کوئی نسبت رکھتا ہے۔یعنی دونوں میں کوئی رشتہ یا تعلق ہوتا ہے، اور اس طرح ، ایک کا مدار دوسرے پر اور دوسرے کا تیسرے پر ہوتا ہے و علی ہذالقیاس۔
ہم مختلف ہستیوں اور ذاتوں کے سلسلوں اور روابط سے کچھ نہ کچھ واقفیت رکھتے ہیں۔ مثلاً ، ہم جانتے ہیں کہ فلاں شئے فلاں سے یہ نسبت رکھتی ہے۔فلاں آگے یا پیچھے ہے، مقدم یا موخرہے ، مفید یا غیرمفید ہے۔ اسی طرح، ہم جانتے ہیں کہ فلاں عمل یا ترکیب کا نتیجہ فلاں ہوتا ہے۔ ایسی باتیں روزمرہ کی مشاہدے میں آتی ہیں لیکن اگر ہم گہرائی میں جا کر یا دور تک کے سلسلوں کی نسبت سےواقفیت حاصل کرنا چاہیں تو اس کے لیے ایک سائنس کی ضرورت پڑے گی۔
جب تک چیزوں کے باہمی رشتوں یا تعلقات اور سلسلوں کا علم اور اس کی بنا پر نسبتِ مثبت و منفی کا علم نہ پیدا ہو تب تک ہستی یا موجودات کے نظامِ نسبت سے کوئی فائدہ نہیں اٹھایا جا سکتا۔ باپ اور بیٹے کے درمیان خون کا رشتہ ہوتا ہے لیکن جب تک دونوں کو اس کا علم نہ ہو تب ان کے مابین محبت پیدا نہیں ہوتی۔ پس :
ہماری ترقیات اور عروج کا اصلی پایہ علمِ انساب ہے۔ ہم اس وقت تک کسی پہلو میں ترقی نہیں کر سکتے جب تک انساب کا علم کافی طریق سے نہ ہو۔
عوام الناس اور سائینس دان۔ فلاسفروں یا حکیموں میں صرف یہی فرق ہے کہ :
نسبتوں سے اور اُن کی کنہ سے حسبِ طاقت بشری آگاہی ... رکھتے ہیں۔
اور ہم قریباً ان کوچوں سے ناآشنا ہیں۔ ہمارا علم کب کامل ہوتا ہے۔ جب ہم اس کی بدولت انساب سے کامل واقف ہو جاویں۔"
مرزا صاحب کی تحریروں میں ساختی فکر اس قدر نمایاں ہے کہ انہوں نے تقریباً اپنی ہر اہم کتاب میں اس سے کام لیا ہے۔ حتی کہ ہر قسم کے علوم و فنون پر بھی اس کااطلاق کیا ہے۔ رسالہ فن شاعری میں اسی طریقہ کار کے تحت علوم و افکار کے تمام تر سلسلوں کی آخری غرض و غایت کو جس طرح بیان کرتے ہیں اس سے بھی یہی معلوم ہوتا ہے:
"تمام علمی طریقوں اور تمام علمی سلسلوں کی یہ آخری غرض یا اعلی غایت ہے کہ موجودات کے باہمی تعلقات اور روابط کا ایسے طور پر اظہار کیا جاوے جس سے ایک کی نسبت دوسرے سے کھل جاوے اور اس انکشاف سے انسانی تمدن، انسانی تہذیب، انسانی خیالات میں علمی ڈھنگ سے ترقی کی روح پیدا ہو۔اگر یہ سوال کیا جاوے کہ ہمارے تمام علوم اور فنون کی غرض اور ماحصل کیا ہے تو مختصر الفاظ میں ان کا یہی جواب ہوگا کہ موجودات کی باہمی نسبتوں کا جاننا اور ان سے مستتر نتیجے نکالنا اور ان تک پہنچنا۔"
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں
تبصرہ کریں